نماز کمرکی تکلیف دور کرنے میں مددگارثابت ہوتی ہے امریکی تحقیق
رکوع کرنے، سجدہ کرنے اور پیشانی زمین پر رکھنے کا عمل ایک طرح سے فزیوتھراپی کی طرح کام کرتا ہے، ماہرین
ایک حالیہ مطالعے سے انکشاف ہوا ہے کہ نماز کمر کے درد کو نہ صرف روکتی ہے بلکہ اسے دور کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔
یہ طویل مطالعہ انٹرنیشنل جرنل آف انڈسٹریل سسٹمز انجینیئرنگ میں شائع ہوا ہے جس میں ماہرین نے کمپیوٹر سے بنائے گئے ڈجیٹل ماڈلوں پر غور کیا جو صحتمند ایشیائی و امریکی مرد اور خواتین کے ڈجیٹل ماڈلوں پر مبنی تھے اور ان کے کمر کے نچلے حصے میں درد دکھایا گیا تھا۔
اس کے بعد ماہرین نے ان ماڈلوں کی حرکات و سکنات کو نوٹ کیا تو معلوم ہوا کہ کمر کے نچلے حصے میں درد کے مریضوں کو جھکتے وقت تکلیف اور دباؤ کا سامنا ہوتا ہے جب کہ سجدے کی حالت اس سے مختلف ہوتی ہے جس میں گھٹنے اور ہتھیلیاں باقاعدہ انداز میں زمین پر رکھے جاتے ہیں اور جس زاویے پر سجدہ ہوتا ہے وہ اس کیفیت کے لیے بہت مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سجدے اور نماز کی تمام حرکات نیشنل انسٹی ٹیوٹ فور آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ( این آئی او ایس ایچ) کے مروجہ معیارات سے نیچے ہیں اور اسی وجہ سے کمر کے درد والوں کو ان سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
اسی سروے کی بنیاد پر امریکی بنگھمٹن یونیورسٹی کے پروفیسر محمد خاصاونے کا کہنا ہےکہ رکوع کرنے، سجدہ کرنے اور پیشانی زمین پر رکھنے کا عمل ایک طرح سے فزیوتھراپی کی طرح کام کرتا ہے اور اس طریقے سے کمر کے نچلے حصے کا درد بہت حد تک کم ہوجاتا ہے۔
محمد خاصاونے کے مطابق نماز کی ادائیگی یوگا جیسی ہے جس میں پٹھے اور ہڈیاں اس انداز میں حرکت کرتی ہیں کہ اس سے درد کی شدت کم ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ نماز ذہنی تناؤ اور بے چینی کو دور کرتی ہے جب کہ اس بات کے ثبوت مل چکے ہیں کہ نماز کی پوری ترتیب ''نیورو مسکولواسکیلیٹل ڈسفنکشن'' کے طبی علاج میں استعمال کی جاتی ہے اور یہ بہت مؤثر طریقہ ہے۔ اس مرض میں اعصاب، پٹھے اور جوڑوں میں تکلیف ہوتی ہے جسے دور کرنے کے لیے فزیوتھراپی کرائی جاتی ہے۔ ماہرین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ سجدے کی حالت کمر اور جوڑوں کی لچک بڑھاتی اور درد کو دور کرتی ہے۔
یہ طویل مطالعہ انٹرنیشنل جرنل آف انڈسٹریل سسٹمز انجینیئرنگ میں شائع ہوا ہے جس میں ماہرین نے کمپیوٹر سے بنائے گئے ڈجیٹل ماڈلوں پر غور کیا جو صحتمند ایشیائی و امریکی مرد اور خواتین کے ڈجیٹل ماڈلوں پر مبنی تھے اور ان کے کمر کے نچلے حصے میں درد دکھایا گیا تھا۔
اس کے بعد ماہرین نے ان ماڈلوں کی حرکات و سکنات کو نوٹ کیا تو معلوم ہوا کہ کمر کے نچلے حصے میں درد کے مریضوں کو جھکتے وقت تکلیف اور دباؤ کا سامنا ہوتا ہے جب کہ سجدے کی حالت اس سے مختلف ہوتی ہے جس میں گھٹنے اور ہتھیلیاں باقاعدہ انداز میں زمین پر رکھے جاتے ہیں اور جس زاویے پر سجدہ ہوتا ہے وہ اس کیفیت کے لیے بہت مؤثر ثابت ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سجدے اور نماز کی تمام حرکات نیشنل انسٹی ٹیوٹ فور آکیوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ ( این آئی او ایس ایچ) کے مروجہ معیارات سے نیچے ہیں اور اسی وجہ سے کمر کے درد والوں کو ان سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔
اسی سروے کی بنیاد پر امریکی بنگھمٹن یونیورسٹی کے پروفیسر محمد خاصاونے کا کہنا ہےکہ رکوع کرنے، سجدہ کرنے اور پیشانی زمین پر رکھنے کا عمل ایک طرح سے فزیوتھراپی کی طرح کام کرتا ہے اور اس طریقے سے کمر کے نچلے حصے کا درد بہت حد تک کم ہوجاتا ہے۔
محمد خاصاونے کے مطابق نماز کی ادائیگی یوگا جیسی ہے جس میں پٹھے اور ہڈیاں اس انداز میں حرکت کرتی ہیں کہ اس سے درد کی شدت کم ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہےکہ نماز ذہنی تناؤ اور بے چینی کو دور کرتی ہے جب کہ اس بات کے ثبوت مل چکے ہیں کہ نماز کی پوری ترتیب ''نیورو مسکولواسکیلیٹل ڈسفنکشن'' کے طبی علاج میں استعمال کی جاتی ہے اور یہ بہت مؤثر طریقہ ہے۔ اس مرض میں اعصاب، پٹھے اور جوڑوں میں تکلیف ہوتی ہے جسے دور کرنے کے لیے فزیوتھراپی کرائی جاتی ہے۔ ماہرین نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ سجدے کی حالت کمر اور جوڑوں کی لچک بڑھاتی اور درد کو دور کرتی ہے۔