تقویٰ قرب الٰہی کا بہترین ذریعہ

اگر تم تقویٰ اور صبر کرتے رہو گے تو یہ درحقیقت بہت ہی اولوالعزم لوگوں کا کام ہے۔‘‘ (آل عمران)


Khalid Danish January 10, 2013
تقویٰ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ذریعے علم، روحانی ترقی، کامرانیاں اور قرب الٰہی کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ فوٹو: رائٹرز

ارشاد رب کائنات ہے کہ '' یہ کتاب (قرآن حکیم) ہے جو ہر قسم کے شک و شبہے سے بالاتر ہے۔ متقین کی رہنما ہے۔'' (سورۃ البقرہ،2)

لغت میں تقویٰ کے معنیٰ ڈرنے، بچنے اور چھوڑ دینے کے ہیں۔
اصطلاح میں تقویٰ کا مفہوم یہ ہے کہ اﷲ عزوجل کی محبت میں نفسانی خواہشات پر عمل نہ کرنا، اﷲ جل شانہ کے سامنے جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے گناہوں سے اجتناب کرنا، پرہیزگاری اختیار کرنا، برے کاموں، بے حیائی اور بے ہودہ باتوں سے نفرت کرنا، ہر شیطانی خواہش کو سینے میں دفن کردینا، اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے ہر وہ کام کرنا جس سے رب تعالیٰ راضی ہو تا ہے، شامل ہے۔ ان تمام کاموں کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی زندگی اپنے کریم رب کے احکامات اور رسول عربیﷺ کے سنہرے اور خوب صورت اطوار کی عکاس بن جائے۔

تقویٰ انسانی زندگی کا شرف ہے۔ یہ قیمتی سرمایہ ہے جس کے ذریعے علم، روحانی ترقی، کامرانیاں اور قرب الٰہی کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم فرقان حمید کا بغور مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ تقویٰ کے ذریعے خیر و برکت، اجر و ثواب ، نیک بختی اور سعادت مندی کا حصول آسان ہوجاتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ ''متقی پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں مزے اڑائیں گے۔'' پھر ارشاد باری تعالیٰ ہوا کہ ''متقی جنت کی نعمتوں سے مسرور ہوں گے۔''

اس کے برعکس وہ لوگ جو تقویٰ کی زندگی چھوڑ کر اس فانی دنیا کی زیب و زینت میں گم ہو گئے اور اُنہیں آخرت کی فکر نہیں رہی، اُن کے متعلق اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں : ترجمہ ''جس نے سرکشی کی اور دنیا کی لذت کو پسند کیا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے اور جو اﷲ سے ڈرا اور نفس کو خواہشات کی تکمیل سے روکے گا اس کی جگہ جنت ہے۔''



حدیث مبارکہ ہے کہ ''تم جہاں بھی ہو اﷲ سے ڈرتے رہو اور جب برائی ہوجائے تو اس کے بعد نیکی کرلو، وہ اس کو مٹا دے گی اور لوگوں کے درمیان اچھے اخلاق کے ساتھ رہو۔''
قرآن مجید فرقان حمید میں متعدد مقامات پر تقویٰ کی اہمیت، فضیلت اور اس کے فوائد کا ذکر موجود ہے۔

٭ اگر تم تقویٰ اور صبر کرتے رہو گے تو یہ درحقیقت بہت ہی اولوالعزم لوگوں کا کام ہے۔'' (آل عمران)
٭ اور اگر تم کرو صبر اور اختیار کرو تقویٰ تو دشمنوں کے مکروفریب اور ان کی تدابیر کوئی نقصان نہ کرسکیں گی۔'' (آل عمران)

٭ ''اﷲ تعالیٰ متقی، پرہیزگار اور اعمال صالحہ کرنے والوں کے ساتھ ہے۔'' (سورہ النحل)
٭ جو شخص اﷲ سے ڈرے گا، اﷲ اس کے لیے سبیل پیدا کر دے گا ،(گناہوں سے بچنے کی) اور انھیں ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے انھیں گمان بھی نہ ہو۔'' (سورہ الطلاق )

٭ ''اﷲ تعالیٰ تو پرہیزگاروں ہی کے اعمال قبول فرماتے ہیں۔ ''(سورۃ المائدہ)
٭ ''بے شک ! اﷲ کے نزدیک عزت اس کی ہے جو تم میں زیادہ متقی ہے۔'' (سورۃ الحجرات)

٭ جو لوگ ایمان لائے اور وہ اصحاب تقویٰ بھی تھے ان کے لیے دنیا و آخرت کی زندگی میں خوش خبری اور بشارت ہے۔'' (سورۃ یونس)
٭ پھر ہم اہل تقویٰ کو جہنم سے نجات عطا کریں گے۔'' (سورہ مریم)

ان تمام قرآنی آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا و آخرت کی تمام بھلائیاں اور سعادتیں اﷲ عزوجل نے تقویٰ میں جمع کردی ہیں۔

حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ رسول عربی ﷺ نے فرمایا کہ میں ایسی آیت جانتا ہوں کہ اگر لوگ اس پر عمل کرلیں تو ان کی دین و دنیا کے لیے وہی کافی ہے۔ مفہوم آیت یہ ہے کہ '' اﷲ سے ڈرتے رہو جیسا اس سے ڈرنا چاہیے۔ ( قرآن مجید)
یعنی اﷲ جل شانہ کی اطاعت اس طرح کی جائے کہ ذرا برابر بھی نافرمانی نہ ہو، ہر سانس کے ساتھ اپنے خالق و مالک کو یاد کیا جائے، ہر حال میں اس کا شکر ادا کیا جائے اور نہ شکری نہ کی جائے۔ ایک مقام پر آپﷺ سے کسی نے عرض کیا کہ حضورؐ! آپ کی آل کون ہے؟ سرور کونین ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ''ہر متقی بندہ مومن میری آل ہے۔'' یہ سنہری الفاظ جو نبی اکرم ﷺ نے متقی لوگوں کے لیے اپنی زبان مبارکہ سے ادا کئے، متقین کے لیے انعام ہے ورنہ کسی بھی نیک عمل پر آپﷺ نے اپنی آل ہونے کی خوش خبری نہیں سنائی۔

ایک صحابی نے سرکار مدینہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کی، یا رسول ﷺ مجھے کچھ نصیحت فرما دیجیے۔ آپؐ نے فرمایا کہ تقویٰ کو لازم پکڑلو، یہ تمام نیکیوں کی جڑ ہے۔'' تقویٰ کی بدولت ہی اعمال خیر کی توفیق نصیب ہوگی، قرب الٰہی اور قرب رسول ﷺ نصیب ہوگا۔

حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ''رسول اﷲ ﷺ دنیا کی کسی چیز کو تعجب اور پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے مگر متقی اور صاحب ورع و تقویٰ کو۔'' حضرت ابو سعید خدری ؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے سرور کونین ﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے کچھ ہدایت فرما دیں۔ آپ نے فرمایا کہ '' تقویٰ اختیار کرو یہ تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔''

تقویٰ اﷲ رب العزت کی دوستی، قرب و محبت کا ذریعہ ہے۔ بندہ کسی بھی عمل صالحہ سے اتنی جلدی اﷲ کا جود و کرم، فضل و عنایت، مدد و نصرت حاصل نہیں کرسکتا، جتنی جلدی تقویٰ کی بدولت ان اکرام و انعامات سے مستفید ہوسکتا ہے۔ بس ! اس درجے اور مقام کو حاصل کرنے کے لیے نفس سے کھلی جنگ لڑنی ہوگی۔

امام راغب اصفہانی ؒ فرماتے ہیں کہ
''گناہ سے نفس کو بچائے رکھنا، اپنے رب کریم کے لیے ممنوعہ باتوں سے اجتناب کرنا، اپنی زندگی کو اﷲ جل جلالہ کی اطاعت و تابعداری میں گزارنا اور ہر قدم پر اﷲ سے ڈرنا،یہی متقی کی شان ہے۔''
حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ فرماتے ہیں کہ ''تقویٰ تو یہ ہے کہ جس چیز کو اﷲ پاک نے حرام کیا ہے اس سے ہر حال میں بچنا اور جو فرض کیا ہے اس پر عمل کرنا، اس کے بعد اﷲ تعالیٰ تجھے جو رزق عطا فرمائے وہ خیر ہی خیر ہے اور فرمایا کہ پرہیزگار کو لگام دی گئی ہے جس طرح حرم میں احرام باندھنے والے کو۔''

حضرت سری سقطی ؒ فرماتے ہیں کہ '' متقی وہ ہے جو اپنے نفس سے بغض رکھتا ہو۔''
ان تمام قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور صالحین کے اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ تقویٰ نعمت خداوندی ہے، تقویٰ کو اختیار کرنے میں ہی بندہ مومن کی خیر اور بھلائی مضمر ہے، تقویٰ ہی دینی اور اُخروی کام یابیوں اور بھلائیوں کا سرچشمہ ہے، تقویٰ ہی عبادات کی قبولیت کا ضامن ہے، تقویٰ اختیار کرنا تمام کار خیر میں اعلیٰ و ارفع ہے۔

یا رب اللعالمین'' ہمیں تقویٰ کی ماہیت و حقیقت اور اس کے ثمرات پر نظر رکھتے ہوئے تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما اور نیک اور صالح مسلمانوں کی صحبت میں وقت گزارنے اور نماز کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرما۔ (آمین)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں