امریکا کا سنگین سیاسی بحران اور اثرات

جب سے ہوش سنبھالا امریکا میں انتخابات کے بعد کوئی سیاسی ہنگامہ آرائی نہ دیکھی

anisbaqar@hotmail.com

ISLAMABAD:
جب سے ہوش سنبھالا امریکا میں انتخابات کے بعد کوئی سیاسی ہنگامہ آرائی نہ دیکھی۔ مگر 2017ء میں امریکا کا سیاسی نقشہ ہی کچھ اور تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخابات میں فتح کے بعد حلف اٹھانے کی تقریب کی رسومات تو ویسی ہی ہوئیں، تمام مذاہب رنگ و نسل کا احترام حلف برداری کی تقریب میں الفاظ کی شکل میں تو موجود تھا۔ مگر لوگوں نے عین اس دن بھی مظاہرے جاری رکھے جب ان کی یہ بڑی تقریب ہو رہی تھی۔ امید تو یہی تھی کہ یہ چند دنوں کی بات ہے سب کچھ نارمل ہوجائے گا مگر ڈیموکریٹ نے عملی طور پر شکست تسلیم نہ کی اور الزامات کی بوچھاڑ شروع کردی اور ہر روز نت نئے پروپیگنڈے اور الزامات کا طوفان بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ سب کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ صدر امریکا جو سیاہ سفید کا مالک ہوتا ہے اس کا پہلا قدم یعنی امریکا آنے کی رکاوٹ ہی عدلیہ نے غیر قانونی قرار دے دی اور ابھی تک کوئی نیا تادیبی قانون سامنے نہ آیا اور آئے گا بھی تو وہ سنگین قدغن آمد و رفت پر نہ لگا سکے گا، جو ٹرمپ نے لگائی تھی۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا میں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ آمنے سامنے ہیں، جیساکہ عام طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں ہوا کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں جو کچھ ہوتا ہے وہاں وہ کچھ تو نہ ہو گا مگر قانونی جنگ ایک عجیب و غریب شکل لے کر رہے گی۔

جس کو کسی سیاسی تجزیہ نگار کی زبان سے نہیں بلکہ ٹرمپ کی زبان سے بیان زیادہ بہتر لگ رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھ پر الزامات کی بارش ہو رہی ہے اور گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے ہفتہ 4 مارچ کو کہا کہ سابق صدر اوباما ان کے لیے ایک ایسا منصوبہ بنا رہے ہیں جیساکہ صدر نکسن کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے کیا گیا تھا، اور ان کے لائن فون ایف بی آئی امریکی خفیہ ایجنسی ٹیپ کر رہی تھی۔ یہ عجیب بات ہے، جب قسمت ساتھ نہ دے تو پھر ہر ہوشیاری اور راہ فرار خود ایک جال بن کر سامنے آجاتی ہے۔ یہی سب کچھ صدر امریکا کے ساتھ ہوا۔ ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے کھل کر میڈیا کے سامنے یہ بیان دیا کہ سابق صدر امریکا نے ان کو کوئی ایسی ہدایات نہ دی تھیں۔

ذرا سوچیے کہاں امریکی صدر کی پوزیشن اور ایک ایجنسی کا سربراہ ان کی گفتگو کو رد کردے۔ بھلا کس قدر سبکی کا مقام ہے صدر امریکا کے لیے، اور امریکا کیا بیرونی دنیا میں ان کا کیا مقام رہ گیا، بلکہ صورت روز بہ روز بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ صدر اوباما کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات زور پکڑتے جا رہے ہیں اور اس بات کا شور شرابا بڑھتا جا رہا ہے کہ واقعی روس نے امریکی انتخابات میں مداخلت کی ہے۔ خواہ یہ درست ہو یا نہ ہو مگر رائے عامہ کے لیے تو ایک پہلو ہاتھ آگیا اور اگر شور و غل میں اضافہ ہوا اور خصوصاً امریکی میڈیا، سی این این اور اس کے ہمنوا بی بی سی اور فوکس نیوز میں، تو دنیا بھر میں پوتن کی جگ ہنسائی تو اپنی جگہ خود ان کی صدارتی ساکھ کو کس قدر نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

اور بقول ٹرمپ وہ واٹرگیٹ اسکینڈل کے راستے پر ازخود سفر کرنے لگے ہیں۔ ذرا سوچیے ٹرمپ روسی سفیر کی اوباما سے سیکڑوں ملاقات کا ذکر کر رہے ہیں مگر جب ان سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کے مشیران انتخابی تحریک کے درمیان روس کے مایہ ناز سفیر مسٹر لاروف سے کئی بار کیوں ملے تھے؟ پہلے تو اس مسئلے کو ٹال دیا گیا مگر ٹرمپ کے مشیران نے اس بات پر ہاں کردی جس سے صورتحال اور کشیدہ ہوگئی اور الیکشن سے قبل ٹرمپ کے بیانات نے صورت حال کو اور مشکوک بنادیا۔


کیونکہ ان دنوں شام میں پراکسی وار چل رہی تھی اور حلب کا فیصلہ قریب تر تھا۔ جیساکہ آج کل موصل کی صورتحال ہے۔ ظاہر ہے یہ ایسے مقام ہیں کہ روس اور امریکا میں مفاہمت نہیں ہوسکتی، کیونکہ کریمیا پر روس کا حملہ اور تیز ہوگیا تھا اور ٹرمپ پوتن کی کسی بات پر تنقید کرنے پر تیار نہ تھے۔ اس لیے صورتحال میں شکوک اور شبہات پیدا ہونے لگے اور اب دنیا کے سامنے یہ صورتحال سامنے آگئی کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی حکمت عملی بدنظمی کا شکار ہوگئی۔ شام اجڑ گیا، عراق میں بربادی جاری ہے، لیبیا کشیدگی کے بھنور میں ڈوب گیا ہے، اسلامی جہاد فورس جو 3 برس قبل فتح کے جھنڈے گاڑ رہی تھی وہ سب خون میں تر ہوکر بھاگ رہی ہے۔ ظاہر ہے دونوں طرف کی خوں ریزی انسانی قیامت خیزی ہے۔

ادھر ستم ظریفی یہ ہے کہ ٹرمپ نے اکثر شورش زدہ علاقوں سے اپنے ملک کا ویزہ بند کردیا ہے۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ اس مرتبہ انھوں نے عراق کے لیے یہ پابندی نہیں لگائی۔ آئیے چند منٹ اس پر بھی گفتگو کرلیں کہ ایسا کیوں؟ ایسا ہے کہ امریکا کے مختلف شہروں میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے لوگ موجود ہیں اور ان کی مساجد بھی موجود ہیں، جن میں شیعہ اور سنی مسالک کے لوگ ہیں۔ شیعوں کے ساتھ ایک مسئلہ اور ہے کہ وہ مساجد میں نماز پڑھتے ہیں اور مذہبی خطبات دیتے ہیں مگر مسجد میں عام طور سے مجالس نہیں کرتے، بلکہ اس کے لیے امام بارگاہ ہوتی ہے۔ ظاہر ہے عراق میں جب صدام کے دور میں جب ان پر بمباری کی گئی تو وہاں اس قدر ہیجان برپا نہ ہوا تھا جتنا کہ داعش کے حملوں میں ہوا، اس لیے ملک سے پناہ گزینوں کی اتنی بڑی تعداد نہیں بھاگی تھی، مگر 2015-16ء میں عراق سے ترک وطن کرنے والوں کی تعداد بہت بڑھ گئی۔

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ان کی تعداد کئی لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے، پورے امریکا خصوصاً ان کے نمایاں اور معروف شہروں میں نئی عبادت گاہوں کی تعمیر ہو رہی ہے۔ یہ سب ٹرمپ نے اس لیے کیا ہے کہ عرب ممالک سے آئے ہوئے دونوں مسلک کے لوگوں میں ایک قسم کا تناسب قائم رہے۔ صدر ٹرمپ کے نزدیک یہ پہلو نمایاں ہیں، حالانکہ عراق میں فی الحال دہشتگردی کے واقعات اس وقت مسلم دنیا میں سب سے زیادہ ہو رہے ہیں اور موصل شہر میں تو صورتحال ایسی ہی ہے جیساکہ حلب شہر کی جنگ کے آخری ہفتے میں تھی۔ ایسی صورت میں عراق سے مہاجرین کی آمد کا خیر مقدم کیا معنی؟ جب کہ وہاں سے بھاگنے والوں کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے۔ یہ تو اللہ نے خیر کیا کہ پاکستان خانہ جنگی کے دروازے سے لوٹ آیا، طالبان سے گفتگو کے سفیر تک نامزد ہوچکے تھے، پشاور میں طلبا کا سانحہ جانکاہ ہوا اور ضرب عضب نے تمام مذاکرات کو ختم کردیا اور پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ کو عوام کی تائید کبھی حاصل نہ رہی، یہ بھی ان کی کمانڈ میں آگئی، ورنہ یہاں بھی بھگدڑ لگی ہوتی۔

اگر ہم ذرا غور سے دیکھیں تو یہ واضح ہوجائے گا کہ پاکستان کی سیاسی لیڈرشپ اور عسکری سوچ میں واضح فرق ہے۔ پاکستان کی فوج کے سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ فرماتے ہیں کہ پاک ایران دفاعی تعلقات علاقائی امن کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب ایران کے صدر روحانی کا دورہ پاکستان ہوا تھا تو سیاسی لیڈرشپ کس قدر خاموش تھی اور اس کا چرچا بھی نہ ہوا مگر اب صورتحال بالکل بدل چکی ہے اور 50 ملکی اتحاد پس پشت چلا گیا ہے اور 7 مارچ کو وزیر اعظم کا بیان کہ کویتی ویزا کھل گیا ہے، معاشی اور دفاعی تعاون بڑھایا جائے گا۔ کویت اور ایران سیاسی طور پر الگ الگ سوچ کے ممالک ہیں ایک امریکی اور دوسرا روسی راہداری پر ہے، کیونکہ موجودہ صورتحال میں لوگ یہ بھول گئے ہیں کہ چین کس راستے پر چل رہا ہے۔ چین اور روس عالمی طور پر ایک سوچ اور ایک راہ کے مسافر ہیں ان کے عالمی مفاد یکساں ہیں۔ یہ بات پاکستانی لیڈروں کو سمجھنی چاہیے۔ ابھی شمالی کوریا نے 4 بیلسٹک میزائل جاپانی سمندر میں فائر کیے۔

یہ ایک قسم کی جنگی مشق تھی تو امریکا نے فوری طور پر جنوبی کوریا میں میزائل شکن نظام رائج کرنا شروع کردیا، جس پر روسی ٹیلی ویژن کی نشریات میں فوری ردعمل کا اظہار کیا گیا اور یہ ردعمل حکومت چین اور روس کا تھا۔ اس خبر کو سمجھنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کے عسکری ذہن سمجھ چکے ہیں مگر چھوٹی چھوٹی عرب ریاستیں کیا کر رہی ہیں ان پر انحصار کا وقت گزر گیا، جب کہ دوسری جانب ایران کے صدر کا حالیہ بیان کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے لیے سی پیک ایک معاون قوت ہوگا۔ ظاہر ہے بدلتے حالات اور امریکا میں سیاسی کشمکش ہمارے لیے کیا کوئی پیغام نہیں دے رہا ہے اور ہم بلاوجہ امریکا کی خوشامد میں لگے ہوئے ہیں۔
Load Next Story