ڈونلڈ ٹرمپ صرف یہودیوں کا دوست

ٹرمپ کی کامیابی کی خبر سنتے ہی ایک اسرائیلی وزیر، نفتالی بینٹ، نے نعرہ لگایا تھا: ’اب فلسطین کا شور و غوغا ختم۔‘

tanveer.qaisar@express.com.pk

نَو منتخب امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، نے حکومت چلانے کے لیے ابتدائی طور پر اپنے جن قریبی اور معتمد ساتھیوں کا انتخاب کیا، اِسی سے اندازہ لگا لیا گیا تھا کہ ٹرمپ صاحب وہائیٹ ہاؤس پہنچ کر عرب ممالک، کشمیر اور فلسطین سے کس طرح کے تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں۔ یہ تعیناتیاں کر کے ٹرمپ خود ہی دنیا کے سامنے ایکسپوز ہو گئے۔ اُنہوں نے سینیٹر جیف سیشنز کو اٹارنی جنرل، مائیک پامپیو کو سی آئی اے کا سربراہ، جنرل (ر) میٹس کو وزیر دفاع اور جنرل (ر) مائیکل فیلن کو نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر بنایا (مائیکل فیلن کی تو اپنی ہی کرتوُتوں کے باعث چند دن پہلے چھُٹی ہو گئی ہے) یہ چاروں افراد ماضی قریب میں اسلام اور مسلمانوں سے اپنی ناراضی اور بیزاری کا اظہار کر چکے ہیں۔

اسلام کے بارے میں کہے گئے اُن کے دل آزار الفاظ یہاں نقل ہی نہیں کیے جا سکتے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ڈونلڈٹرمپ خود کو امریکی یہودیوں اور اسرائیل کے قریب رکھنے اور اُن کے کچھ زیادہ ہی خیر خواہ ثابت کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اِن امریکی اور اسرائیلی یہودیوں کے عالمِ اسلام کے بارے میں جو بھی خیالات ہیں، وہ ہم سب پر پوری طرح مترشح ہیں۔ ٹرمپ کی یہود دوستی کی طرف اشارہ کرتے ہُوئے''نیویارک ٹائمز'' کی مشہور تجزیہ نگار، ازابیل کریشنر، نے اپنے ایک حالیہ آرٹیکل میں یوںلکھاہے: ''ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے اسرائیل میں کٹر یہودیوں اور فلسطین مخالف سیاستدانوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔

ٹرمپ کی کامیابی کی خبر سنتے ہی ایک اسرائیلی وزیر، نفتالی بینٹ، نے نعرہ لگایا تھا: 'اب فلسطین کا شور و غوغا ختم۔' اور اسرائیلی وزیر داخلہ، ایری ڈیری، نے ٹرمپ کی جیت پر چہک کر کہا تھا: یہ تو ہمارے حق میں معجزہ ہوا ہے، یوں کہئے کہ خدا نے اسرائیل کی فتوحات کے دروازے کھول دیے ہیں۔'' اسرائیلی یہودیوں کی یہ طمانیت واضح طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل نوازی کو بے نقاب کر رہی ہے! وہ اسرائیلی یہودیوں کے مفادات کے تحفظ میں کہا ں تک جا سکتے ہیں، اس حوالے سے 22 دسمبر 2016ء کو ایک عجب واقعہ رونما ہوا: دسمبر کے آخری ہفتے مصر اقوامِ متحدہ میں فلسطینی زمینوں پر زبردستی اسرائیلی بستیاں بسائے جانے کے خلاف ایک قرار داد لانے جا رہا تھا۔


اسرائیل حقیقی معنوں میں اس ممکنہ مصری اقدام سے بہت خائف تھا؛ چنانچہ اسرائیلی وزیر اعظم، نیتن یاہو، نے ڈونلڈ ٹرمپ سے رابطہ کیا کہ وہ مصری صدر، جنرل سیسی، کو فون کریں اور اُنہیں دھمکائیں کہ وہ اقوامِ متحدہ میں یہ قرار دادلانے سے باز رہیں۔ اصولی طور پر نیتن یاہو کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ مطالبہ کرنا سراسر غیر قانونی تھا کہ ابھی تو ٹرمپ نے امریکی صدر کا باقاعدہ حلف بھی نہیں اٹھایا تھا لیکن اس کے باوجود ٹرمپ نے مصری صدر کو فون کر کے اُنہیں اسرائیل کے خلاف مذکورہ قرارداد لانے سے منع کر دیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل میں جس شخص کو بطور امریکی سفیر منتخب کیا ہے، وہ بھی اپنی اسرائیل و یہود نوازی میں امریکا بھر میں شہرت رکھتا ہے۔ اِن صاحب کا نام ہے: ڈیوڈ فریڈ مین۔ پیشے کے اعتبار سے وہ اگرچہ وکیل ہیں لیکن ایک مدت سے ٹرمپ کے سیاسی مشیر چلے آ رہے ہیں۔ صدارتی انتخابی مہم کے دوران بھی وہ ٹرمپ کے ساتھ سائے کی طرح نظر آتے رہے۔ فلسطینی قیادت فریڈ مین کی تعیناتی سے خوش نہیں ہے۔ اِسی لیے تو پی ایل او کے سیکریٹری جنرل، صائب اریکات، نے کہا ہے کہ ڈیوڈ فریڈ مین اور نئی امریکی قیادت بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے اور امریکی سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کی باتیں کرنے سے باز رہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم، بنجمن نیتن یاہو، نے فریڈ مین کی تعیناتی پر گہرے اطمینان کا اظہار کیا ہے۔

''ٹائم'' میگزین کے معروف تجزیہ نگار، کارل وِک، نے اسرائیل میں متعین کیے جانے والے اِس امریکی سفیر کی تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے یوں لکھا ہے: ''ٹرمپ نے فریڈمین، جو کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جُوا خانوں کے قانونی معاملات کی ذمے داریاں نبھاتے رہے ہیں، کو اسرائیل میں امریکا کا سفیر لگا کر یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ فلسطین کے خلاف اسرائیل کی توسیع پسندی کے حق میں ہیں۔ اِس تعیناتی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ٹرمپ تسلیم کرتے ہیں کہ مغربی کنارے پر بھی اسرائیل کو اپنی بستیاں بسانے کا پوراپورا حق ہے۔ یہ اشارہ اور فیصلہ اب تک فلسطین کے حوالے سے جاری امریکی پالیسیوں کے بالکل برعکس ہے۔ اس کے نتائج مہلک ہونگے۔'' ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیل نواز اور دنیا بھر میں پھیلے یہودیوں کے مفادات کا حامی اور محافظ ہونے کی گواہی خود اسرائیلی میڈیا دے رہاہے۔ ٹرمپ صاحب بذاتِ خود اُن معروف، موثر اور ثروتمند امریکیوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ اِس امر کی وکالت اور حمایت کی ہے کہ اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب نہیں، یروشلم ہونا چاہیے۔

یہ بات وہ اس لیے بھی کھل کر کر تے ہیں کیونکہ اسرائیل اور دنیا بھر کے یہودی بھی ہمیشہ ہی سے اسرائیلی دارالحکومت کو یروشلم منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ یروشلم بیک وقت مسلمانوں، مسیحیوں اور یہودیوں کے لیے یکساں طور پر محترم اور مکرم ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اوّل اِسی تاریخی اورقدیمی شہر میں ہے۔ بیت المقدس کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے۔ کعبہ شریف اور مدینہ منورہ کے بعد ساری دنیا کے مسلمان بیت المقدس کی حُرمت و تقدیس پر جان چھڑکتے ہیں۔ اہلِ یہود کی مذہبی نشانیاں (دیوارِ گریہ اور ہیکلِ سلیمانی)بھی اِسی داستانوی شہر میں ہیں۔ عیسائیوں کا ''بیت اللحم'' (وہ تاریخی مقام جہاں روایات کے مطابق سیدنا مسیحؑ کی ولادت ہوئی) بھی اِسی شہر کا دل آویز جُزو ہے؛ چنانچہ عالمی اہلِ دانش کا اصرار ہے کہ شہرِ یروشلم کو سیاست اور اقتدار کے بکھیڑوں سے علیحدہ رکھتے ہوئے اِسے اسرائیلی دارالحکومت نہ بنایا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ اس کے باوجود صہیونی اسرائیلیوں کی تمنا یہی ہے کہ یروشلم ہی اُن کا مرکزی دارالحکومت ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ اِنہی آرتھوڈوکس (انتہا پسند) یہودیوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے اُن کی ہاں میں ہاں ملاتے جا رہے ہیں ۔
Load Next Story