ہرعہد کے لیے بہار نو

عقائد اور ضابطہ عمل کے مجموعے کا نام نظریہ حیات ہے


[email protected]

عقائد اور ضابطہ عمل کے مجموعے کا نام نظریہ حیات ہے۔یہ لفظ ایسے ضابطہ فکروعمل اوراجتماعی پروگرام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو اپنی فکری اورفلسفیانہ بنیادیں رکھتا ہو اور تمدنی زندگی کے لیے بھی ایک واضح عملی منصوبہ پیش کرتا ہو۔نظریہ حیات کی اصل روح یہ ہے کہ وہ اپنے خاص نظام فکرکی روشنی میں زندگی کے مختلف شعبوں کی تعمیروتشکیل کرتا ہے۔

اسلامی نظریہ حیات سے مراد وہ نظام فکروعمل ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔اسلام زندگی بسرکرنے کے لیے ہدایت کا ایک مکمل نظام دیتا ہے۔ ہدایت کے اسی نظام کا نام اسلامی نظریہ حیات ہے۔

اسلامی نظریہ حیات کی خصوصیات سمندرکی مانند ہیں ان کوکوزے میں بندکرنا آسان کام نہیں۔ چند نمایاں خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔

٭ اسلامی نظریہ حیات ایک ایسا نظام زندگی پیش کرتا ہے جوکسی انسانی فکروذہن کی پیداوار نہیں بلکہ اس خالق کی طرف سے بھیجا ہوا نظام حیات ہے جس نے زمین وآسمان اورخود انسان کو پیدا کیا ہے اور جوحکیم اورعلیم ہے اور جوماضی حال اورمستقبل سے بخوبی واقف ہے۔اسلامی نظریہ حیات کے دو بنیادی سرچشمہ ہدایت قرآن اورسنت ہیں جو زندگی کا مفصل قانون پیش کرتے ہیں۔ دونوں ناقابل شکست ہیں۔کوئی بشرقانون الٰہی کی کسی دفعہ میں کوئی تبدیلی،ترمیم یا کمی بیشی نہیں کرسکتا۔

٭ اسلامی نظریہ حیات ایک مکمل، مربوط اورمنظم نظام زندگی کا نقشہ پیش کرتا ہے۔ وہ حیات انسانی کے ہرشعبے کے لیے ہدایت دیتا ہے۔اس ہدایت کا نام شریعت ہے۔اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے بعد ''اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ'' (بقرہ) زندگی کے کسی شعبے کو خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، معاشرتی ہو یا قانونی، مادی ہو یا روحانی، معاشی ہو یا سیاسی، قومی ہو یا بین الاقوامی، اسلام کے دائرے سے باہر رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زندگی کا ہر شعبہ ہدایت الٰہی کے نورسے منور ہو۔ اسلام محض ایک عقیدہ ہی نہیں، ایک تہذیب ایک تحریک اور تمدن بھی ہے۔ ''اللہ کے رنگ سے کوئی رنگ اچھا نہیں۔'' محض عقیدتاً مسلمان رہنے اور تمدنی زندگی کو غیر اللہ کے رنگ میں رنگنے کی اسلام قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ وہ لوگ جو سیاسی اورمعاشی زندگی کے لیے خدا کی قدرت، بصیرت، علمیت اورحکمت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا قطعاً انکار کرتے ہیں قرآن ان کوکافر، ظالم، فاسق اورعقل سے پیدل حیوان قراردیتا ہے۔

٭ اسلام کے معنی ہی امن و سلامتی کے ہیں۔ خدا اور مخلوق خدا کے ساتھ امن وسلامتی کی روش اختیارکرنا اسلام کی روح ہے۔ یہ انسانوں کی طرح رہنے کا اندازسکھاتا ہے۔ دل ودماغ میں رواداری کا جذبہ پیدا کرتا ہے ۔کوئی فرد اسلامی نظریہ حیات کے قبول کرنے پر نوک شمشیر سے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔اسلام انسانی جان کو بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔انتہائی محترم قراردیتا ہے۔

اس کی نگاہ میں ایک انسان کا ناحق قتل ایسا ہے جیسے پوری انسانیت کو قتل کردیا۔ قرآن کے الفاظ میں ''جوکسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر خدا کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب تیارکر رکھا ہے۔'' (نساء) خون صرف مسلمان کا ہی محترم نہیں خدا کے ہر بندے کا محترم ہے ''جس نے ناحق کسی غیر مسلم کو قتل کیا اس پر جنت حرام ہے۔'' (حدیث) اس طرح اسلامی نظریہ حیات احترام انسانیت، امن و سلامتی اور رواداری کا علمبردار ہے۔

٭اسلامی نظریہ حیات دین ودنیا کی وحدت کا قائل ہے دین ودنیا کی جدائی کا نہیں۔ یہ تصور اسلامی نہیں چنگیزی ہے۔ اسلام دنیا کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ کیونکہ یہ رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ زاد عقبیٰ ہے۔اس کے قدموں کے تلے جنت ہے۔ یہ آخرت کی کھیتی ہے۔ اسلام کے نزدیک دنیاوی حقوق نہایت اہم درجہ رکھتے ہیں۔ فقہ کی مشہور کتاب الہدایہ میں یہاں تک لکھا ہے کہ ''بندوں کے حقوق مقدم ہیں' خود خدا کے حقوق سے'' قرآنی فیصلہ ہے کہ ''جو لوگ نماز نہیں پڑھتے دوزخ میں جائیں گے اسی طرح جو لوگ مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے وہ بھی غیر نمازیوں کے شانہ بشانہ دوزخ میں جائیں گے۔'' اسلام تصور رہبانیت سے الرجک ہے'' وہ ہم میں سے نہیں جو دین کی خاطردنیا کو چھوڑ دے یا دنیا کی خاطر دین کو چھوڑ دے'' (حدیث) مسلمان وہ ہیں جس کے سر پر تاج قرآن ہو اور دائیں ہاتھ میں دین اور بائیں ہاتھ میں دنیا ہو۔ اسلام زندگی سے فرارکا نہیں زندگی کی تعمیرکا حکم دیتا ہے۔ خرگوش کی طرح سونے کا نہیں کچھوے کی طرح حرکت میں رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔

دنیا کو منزل نہیں نشان منزل قرار دیتا ہے۔ آفاق میں گم ہونے سے خبردارکرتا ہے۔ مادی وسائل گناہوں کی گٹھڑی نہیں کہ ان سے تقویٰ اختیارکیا جائے بلکہ تقویٰ یہ ہے کہ مادی وسائل کو اخلاقی اورروحانی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا جائے اور غائب (آخرت) کو حاضر (دنیا) کے مقابلے میں ترجیح دی جائے۔ اسلام میں ترجیحی تصور تو ہے لیکن دنیا سے منہ موڑنے کا تصور نہیں کیونکہ مسلمان کا مطلوب اور مقصود یعنی اللہ دنیا میں ملتا ہے جنگل اور پہاڑوں میں نہیں۔

٭ اسلامی نظریہ حیات انتہا پسند نہیں اعتدال پسند ہے۔ وہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کے درمیان ایک حسین توازن، حقیقی ہم آہنگی اور فطری اعتدال پیدا کرتا ہے اور زندگی کے کسی تقاضے سے صرف نظر نہیں کرتا بلکہ متناسب نمایندگی دیتا ہے اور زندگی میں نظم و ربط قائم کرتا ہے۔ فرمان رسولؐ کے مطابق زندگی کا سنہری اصول یہ ہے ''ہرکام کا اوسط درجہ بہت اچھا ہے۔'' اسلامی نظریہ توازن کے کئی پہلو ہیں مثلاً (1)۔مادی اور روحانی تقاضوں میں توازن۔ (2)۔معاش اور اخلاق میں توازن۔ (3)۔دین اور سیاست میں توازن۔ (4)۔ حقوق اور فرائض میں توازن۔ (5)۔فرد اور معاشرے میں توازن۔ (6)۔آزادی اور پابندی میں توازن۔ (7)۔عدل اور احسان میں توازن۔ (8)۔امیری اورغریبی میں توازن۔ (9)۔کام اورطاقت میں توازن۔ (10)۔مردوں اور عورتوں کے حقوق میں توازن۔ (11)۔زندگی اور موت میں توازن۔

٭ اسلامی نظریہ حیات انسان کو نہ تو بے لگام آزادی دیتا ہے اور نہ ہی اسے بے انتہا جکڑکر رکھتا ہے۔ قرآن اورسنت کے ذریعے زندگی کی حدود اس کے بنیادی اصول اور مستقل اقدار متعین کردیے گئے ہیں۔ جو ابدی اورآفاقی نوعیت کے ہیں اور ان پروقت اور زمانہ اثر انداز نہیں ہوتا۔ وہ ہر حال میں اور ہر قیمت پر مقدم، ناقابل شکست، ناقابل تنسیخ اور ناقابل ترمیم ہیں۔ ان بنیادی اقدار حیات کی روشنی میں ہر زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ اس طرح اسلامی نظریہ حیات میں وقت کی رفتار کا ساتھ دینے کی گنجائش، لچک اور پوری صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے۔ اس لیے یہ کبھی ازکار رفتہ اور ناقابل عمل نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اتنا ہی تازہ دم رہتا ہے جتنی صبح نو۔ اسی لیے اسلامی نظریہ حیات وقت کی پکار ہے۔ حالات کا تقاضا ہے پریشان انسانیت کا مداوا ہے۔ گویا ہر عہد کے لیے بہار نو ہے۔

سفینہ چاہیے اس بحر بے کراں کے لیے۔کالم کے اختصار کا خیال رکھتے ہوئے اسلامی نظریہ حیات کی گوناگوں خصوصیات میں سے ان چند گوہر نایاب اور درآبدار خصوصیات پراکتفا کرتا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں