ہماری قومی زبان سیاست اور اشرافیہ

گذشتہ ماہ کے آخری عشرے میں ملک کے کئی شہروں میں مادری زبان کا دن خاصے اہتمام سے منایا گیا ہے۔

قوموں کی ترقی، استحکام اور بقا میں سب سے بڑا کردار قومی طرزِاحساس کا ہوا کرتا ہے۔ فوٹو : فائل

جنت میں تو شاید اِس کی ضرورت نہ پڑتی ہو، لیکن اِس دنیا میں آدمی کا کام خوش فہمی یا بہلاوے کے بغیر نہیں چل سکتا۔ آدمی چاہے کتنا ہی عملیت اور عقلیت پسند ہو، زندگی کو ڈگر پہ رکھنے اور آگے بڑھانے کے لیے بعض مقامات پر اُسے بہلاوے کا سہارا لازمی چاہیے ہوتا ہے۔

اِس حقیقت کو ہر سماج اور ہر دور کے اہلِ حقیقت اپنے اپنے انداز سے مانتے آئے ہیں۔ اس لیے کہ بہلاوے کی طاقت وہاں بھی کام کرتی ہے، جہاں آدمی کی وجودی، اعصابی، عقلی اور معاشی ایک ایک کرکے سب طاقتیں جواب دے جاتی ہیں۔ یہ بات اپنی جگہ، لیکن اس دور کے آدمی کا مسئلہ ہی الگ ہے۔ وہ تو اب اُن چیزوں میں بھی بہلاوے ڈھونڈنے لگا ہے جن کے بغیر زندگی کا تصور تک بے معنی ہوجاتا ہے۔

مثال کے طور پر دیکھیے، فروری کے مہینے کی 21؍ تاریخ کو مادری زبان کا دن عالمی سطح پر منایا جاتا ہے۔ اس کارِخیر کا آغاز یونیسکو کے 17؍ نومبر 1999ء کے اعلان سے ہوا، جسے 2008ء میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے بعد رائج ہونے کا موقع ملا۔ پہلے ایسے سارے چونچلے ترقی یافتہ ممالک میں ہی کیے جاتے تھے، لیکن اب تو پاکستان، ہندوستان اور بنگلادیش جیسے ملکوں میں بھی یہ دن زور شور سے منایا جانے لگا۔ خیر، کیوں نہ منایا جائے، جب کہ اب تو ماں، باپ اور محبوب کے بھی دن منائے جاتے ہیں۔

یہ نئی دنیا کی طرزِ حیات ہے۔ یہ کس قسم کا بہلاوا ہے اور کس جذبے کی تسکین کا ذریعہ بنتا ہے، کم سے کم ہماری عمر کے لوگوں کے لیے تو یہ سمجھنا بہت ہی دشوار ہے۔ کیوںکہ جس دور میں ہم نے شعور کی آنکھ کھولی اور پروان چڑھے، اس زمانے میں ہمارے یہاں ماں، باپ، محبوب اور زبان سے محبت اور وابستگی کے اظہار کے لیے سال کا کوئی دن مخصوص نہیں تھا۔ اِس لیے نہیں کہ اُس زمانے میں ان سے محبت کے اظہار کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی۔

ضرورت تو یقیناً اس وقت بھی تھی اور اس کا اظہار بھی کیا جاتا تھا، لیکن یہ بات اتنی واضح تھی کہ سب اسے سمجھتے اور مانتے تھے کہ ماں باپ ہوں یا محبوب اور زبان، محبت کے اس معاملے کو ایک دن کے جوش و خروش سے سنبھالا نہیں جاسکتا۔ یہ ایک دن کا بہلاوا نہیں، بلکہ ازلی ابدی ماجرا ہے۔ ان رشتوں کے لیے سارا سال اور ساری عمر محبت جوش مارتی ہے اور اسی سے اِن رشتوں کی قوت کا اظہار ہوتا ہے۔

محبوب اور اس کے رشتے کا تصور تو ہماری تہذیب اور سماج میں کچھ اور ہی تھا، سو اُس کو تو ذرا الگ رکھیے۔ اُس پر بات کا موقع نہیں ہے، اِس موضوع کو پھر کبھی دیکھیں گے۔ ہمارے یہاں تو ماں، باپ سے محبت بھی اُن کی زندگی سے مشروط ہوتی ہے اور نہ ہی مادری زبان کے مسلسل بولے جانے سے۔ آج تک دیکھا جاسکتا ہے کہ ماں باپ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے چالیس پچاس برس بعد بھی جب آدمی خود بڑھاپے کی دہلیز پر ہوتا ہے اور خود کو اگلے سفر کے لیے پابہ رکاب محسوس کرتا ہے، اُس وقت بھی اس کے دل میں ماں باپ سے محبت کم نہیں ہوتی۔ جب بھی اُن کا ذکر ہو، جیسے آدمی کے دل میں، اُس کی روح میں چراغاں سے ہوجاتا ہے۔

اسی طرح بہت سے لوگ زندگی کے تقاضوں کے تحت ایسی جگہوں پر جاکر آباد ہوجاتے ہیں جہاں کسی ہم زبان کا سایہ تک نظر نہیں آتا اور مادری زبان بولنے کے مواقع برسوں نہیں ملتے۔ اس کے باوجود مادری زبان سے محبت دل میں اسی طرح قائم رہتی ہے۔ ظاہر ہے، محبت کے یہ رشتے اپنی فطرت میں ایسے ہی ہوتے ہیں، کہ ان کی خوش بو اور روشنی کبھی ماند نہیں پڑتی، بلکہ تاعمر لَو دیتی رہتی ہے۔

اِس موضوع پر گفتگو کی ضرورت یوں محسوس ہوئی کہ گذشتہ ماہ کے آخری عشرے میں ملک کے کئی شہروں میں مادری زبان کا دن خاصے اہتمام سے منایا گیا ہے۔ کہیں کوئی سیمینار ہوا، کہیں سمپوزیم اور کہیں مشاعرہ برپا کیا گیا۔ اس ضمن میں ملک کے مؤقر ادبی ادارے اکادمی ادبیات پاکستان نے بھی مرکزی دفتر کے زیرِاہتمام مادری زبانوں کے حوالے سے دو روزہ سمپوزیم کا اہتمام کیا، جس میں وطنِ عزیز میں بولی جانے والی مختلف زبانوں کے منتخب نمائندے، محققین اور اساتذہ کو مدعو کیا گیا تھا۔ جیسا کہ اس نوع کی تقریبات میں ہوا کرتا ہے، اس سمپوزیم کے شرکا نے بھی اپنی اپنی مادری زبان کی اہمیت ہی اجاگر نہیں کی، بلکہ ملکی سطح پر اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی یا حق تلفی پر بھی کھلے بندوں شکایت کا اظہار کیا۔

یہاں قابلِ غور اور اہم بات یہ ہے کہ حرفِ شکایت ان زبانوں کے نمائندوں کی طرف سے بھی آیا جو دور دراز علاقوں اور نسبتاً کم آبادی میں رائج ہیں اور ان کی طرف سے بھی جن کی زبان پورے پورے صوبے میں سیاسی و ثقافتی طاقت کے ساتھ رائج ہے۔ گویا شکایت سب کو ہے۔ سمپوزیم میں اُردو کے خلاف بھی شکایات سننے میں آئیں۔ جی ہاں وہی اردو جسے آئین کے مطابق ہماری قومی زبان ہونا چاہیے اور جو ملک کے طول و عرض میں سب سے زیادہ بولی، سمجھی اور مطلب براری کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔

کراچی سے برادرم رؤف پاریکھ نے سمپوزیم میں شرکت کی اور بعدازاں اپنے انگریزی کالم میں اس حوالے سے اظہارِخیال بھی کیا۔ کالم میں سمپوزیم میں ہونے والی گرما گرم بحثوں کا ذکر تو ہے، لیکن مسئلے کی شدت کا صحیح معنوں میں اندازہ اُن سے فون پر ہونے والی گفتگو سے ہوا۔

سمپوزیم کے آخری اجلاس میں قومی اسمبلی کی رُکن ماروی میمن بھی شریک ہوئیں اور انھیں کچھ اختلافی آرا سننے کا موقع بھی ملا۔ تاہم سننے میں آیا کہ زیادہ دھواں دھار بحثیں اُن کے سامنے نہیں، بلکہ دوسرے اجلاسوں میں ہوئیں۔ اس سمپوزیم کے ایک اجلاس میں ماروی میمن اور قومی اسمبلی کے دیگر نو (9) اراکین کی جانب سے پیش کیے گئے آئین میں ترمیم کے اُس بل پر بھی گفتگو ہوئی جس میں کہا گیا ہے کہ آئندہ پندرہ برس کے لیے اس وقت تک انگریزی کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل رہے گا جب تک اردو کو اُس کے متبادل کی حیثیت سے لانے کے انتظامات پورے نہیں ہوجاتے۔

سمپوزیم میں کسی اسکالر نے اس امر پر توجہ بھی دلائی کہ 1973ء کا آئین اردو کو قومی/ سرکاری زبان بنانے کے لیے کہتا ہے اور بتاتا ہے کہ آئندہ پندرہ برسوں میں یہ سب انتظامات مکمل کیے جائیں گے اور اردو سرکاری سطح پر نافذ ہوگی۔

اب ذرا دیکھیے، اس لحاظ سے تو 1988ء میں یہ مدت پوری ہوچکی ہے۔ آج 2017ء میں جب اس مسئلے پر گفتگو ہورہی ہے اور انگریزی کے لیے پندرہ برس کی ضرورت ایک بار پھر ہے اور یہ دورانیہ انتظامات کی تکمیل کے لیے نئے سرے سے طلب کیا جارہا ہے، تو سوچنا چاہیے کہ 1988ء کے بعد بھی اُنتیس برس گزر چکے ہیں۔ گویا اس کام کے لیے درکار دورانیہ ایک بار نہیں، اب تو تیسری بار پورا ہونے جارہا ہے۔ گویا قومی زبان کا نفاذ نہیں، بچوں کا کھیل ہے کہ اب نہیں ہورہا تو کوئی بات نہیں، پندرہ سال بعد پھر دیکھ لیں گے۔ ایسے کام تو سنجیدگی، مستقل مزاجی اور وقت کی اہمیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی چیز بھی اس معاملے میں پیشِ نظر محسوس نہیں ہوتی۔ افسوس صد افسوس۔

ہمارے معاشرے کے اہلِ نظر اور اہلِ دل دونوں ہی کو اس بات پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ ہم اس مسئلے کو آخر اب تک کیوں نہ حل کر پائے۔ اس راہ میں ایسی کون سی رُکاوٹیں ہیں جو دور نہیں ہوپارہیں۔ مولوی عبدالحق کے زمانے سے اب تک جن لوگوں نے اس مسئلے پر گفتگو کی ہے، ان میں سے بے باک لکھنے والوں نے تو صاف صاف لکھا ہے کہ ہماری سیاسی مقتدرہ کو اس کام سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ سچ پوچھیے تو سیاسی مقتدرہ کو تہذیبی اقدار، ثقافتی مظاہر اور زبان و ادب میں کسی شے سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔


اُن کی دل چسپی کا مرکز و محور صرف اور صرف اقتدار ہے۔ اقدار کے حصول کے لیے انھیں کسی بھی شے پر سمجھوتا کرنا ہو، اِس پر انھیں کوئی تأمل نہیں ہوتا۔ یہی نہیں، بلکہ کسی بھی شے کو خواہ وہ زبان ہو، عقیدہ ہو، قومی مفاد ہو یا ملکی وقار، اقتدار کے حصول کے لیے وہ سیاسی کارڈ بناکر استعمال کرسکتے ہیں یا داؤ پر لگاسکتے ہیں۔

مستثنیات کے اصول کا اطلاق سیاست پر بھی ہوتا ہے، یعنی اس گروہ میں بھی ضرور کچھ اصول پسند، حق شناس اور ملک و ملت سے اخلاص کا سچا رشتہ رکھنے والے لوگ ہوں گے، لیکن ہماری سیاسی مقتدرہ میں اُن کی حیثیت مؤثر طاقت کی نہیں ہے اور پھر یہ کہ اُن کے اپنے مسائل اور مصلحتیں بھی ہوں گی۔ نتیجہ یہ کہ قوم کے اور ملک کے حق میں ایسے لوگ کسی طور پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو پاتے۔

اس کی مثال یہ ہے کہ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحب اپنی اعلیٰ منصب داری کے آخری دن اردو کے سرکاری زبان کے نفاذ کا حکم نامہ جاری کرتے ہیں، لیکن اس کے باوجود حاصل وہی ڈھاک کے تین پات۔ سمجھنا چاہیے کہ یہ فیصلہ صرف اردو زبان سے محبت کی بنیاد پر جاری نہیں کیا گیا ہوگا، بلکہ یقین رکھنا چاہیے کہ اس میں ملک و قوم کا مفاد بھی ضرور پیشِ نظر رہا ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب کی عہدہ داری کے آخری دن فیصلہ تو جاری ہوگیا، لیکن اس پر عمل درآمد کی صورتِ حال کی جانچ پرکھ تو اب وہ خود نہیں کرسکیں گے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ یہ حکم نامہ وہ منصب پر آنے کے بعد پہلے دن جاری کرتے اور پھر متعلقہ اداروں سے عمل درآمد کی تفصیلات اپنی ریٹائرمنٹ تک طلب کرتے رہتے۔ اس سلسلے میں مزید احکامات کی ضرورت پیش آتی تو وہ بھی جاری کرتے اور زبان کے نفاذ کو منصبی ذمے داریوں سے سبک دوش ہونے سے پہلے بہرطور ممکن بناتے۔

عوامی سطح پر ایک تأثر اس سلسلے میں یہ بھی پایا جاتا ہے کہ نوکر شاہی (بیوروکریسی) اس کام پر راضی نہیں ہے۔ کیوں نہیں ہے؟ اس لیے کہ وہ مختلف لسانی اور ثقافتی پس منظر رکھنے والے لوگ ہیں اور اُن میں سے کسی مؤثر حیثیت تک پہنچنے والا ہر شخص کسی نہ کسی صورت سیاسی پس منظر رکھتا ہے یا سیاسی مقتدرہ سے وابستہ ہوتا ہے۔

ظاہر ہے، اُسے ان لوگوں کے سیاسی مفادات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے، جو اُسے طاقت کے مرکز تک پہنچانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو یہ بھی پوری حقیقت نہیں ہے۔ حقیقت کا یہ رخ بھی بہرحال پیشِ نظر رکھنا چاہیے کہ بیوروکریسی خود ایک طاقت ور طبقہ ہے، اتنا طاقت ور کہ چاہے تو وزیروں کو بے دست و پا کردے۔

اس کی مثالیں ہم سب نے سنی ہوئی ہیں اور پنجاب، سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخواہ سبھی صوبوں اور خود مرکز تک کے حوالے سے سنی ہوئی ہیں۔ اب بھی آئے دن سنتے رہتے ہیں۔ اس اشرافیہ سے جن لوگوں کو واسطہ پڑتا ہے، وہ جانتے ہیں کہ اس طبقے کی اپنی ایک سائیکی ہوتی ہے۔ اس سائیکی میں اپنی برتری اور عوام سے الگ شناخت کا احساس بھی ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس احساس کا اظہار اس طبقے میں انگریزی کے رواج سے بھی ہوتا ہے۔ آزادی حاصل کرنے، ملک بنانے اور قوم نظر آنے کے باوجود اگر انگریزی آج ہماری اشرافیہ کی زبان ہے تو اس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہے کہ یہ اشرافیہ اپنی شناخت کو الگ اور مستحکم رکھنا چاہتی ہے۔ عوام سے الگ پہچانا جانا اس کی ضرورت، مجبوری یا پسند ہے۔

کیا واقعی قومی/ سرکاری زبان کے نفاذ کا معاملہ اتنا ہی دشوار ہوتا ہے؟ ہمارے یہاں اس سوال کا جواب اثبات میں ہوگا۔ اس کے حق میں دلیل یہ ہوگی کہ مختلف ثقافتوں، گروہوں اور زبانوں کے ملاپ کی صورت میں جب ایک ملک بنتا ہے تو پھر یہ مسئلہ تو پیدا ہوتا ہے۔ چلیے مانے لیتے ہیں۔ اب اگر آپ سے کہا جائے کہ امریکا، روس، جرمنی یا چین کی مثال سامنے رکھیے اور بتائیے کہ وہاں یہ مسئلہ کیوں نہیں ہے، تو آپ کیا کہیں گے؟

یہی نا کہ:

ہم چپ رہے ، ہم ہنس دیے منظور تھا پردہ ترا

بات یہ ہے کہ مختلف ثقافتوں، گروہوں اور زبانوں کے افراد کے مابین یہ مسئلہ پیدا ہی دراصل اس وقت ہوتا ہے جب اجتماعی مفاد اور قومی تقدیر سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور گروہی خواہشیں اجتماعی ضرورتوں کو پس منظر میں دھکیلنے پر اصرار کرتی ہیں۔ ہمارے یہاں بس یہی کچھ ہورہا ہے، اور اب سے نہیں طویل مدت سے ہورہا ہے۔ آزادی کے بعد ابتدائی برسوں میں ہی جب ایک بار اختلاف کے اس عفریت نے سر اٹھایا تھا تو اُس کے بعد سے آج تک ہم اس پر قابو نہیں پاسکے۔ جن مسائل کی وجہ سے ہم نے آدھا ملک گنوا دیا، ان میں ایک بہت اہم مسئلہ یہی زبان کا بھی تھا۔

اختلاف کے اس بیج سے وہ فصل اٹھائی گئی کہ پھر ہر طرف اسی کے ڈھیر لگتے چلے گئے۔ اپنے اس قومی سانحے سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ آدھا ملک گنوا کر بھی ہم نے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اب تو یہ عفریت پہلے سے بہت زیادہ بڑا ہوچکا ہے، بلکہ داستانوی ہشت پایہ بن چکا ہے۔ کیوں نہ بنتا کہ جب سیاست ماں بن کر اسے چھاتی سے لگا کر دودھ پلاتی اور پالتی پوستی ہے۔

حقیقتِ حال پر نظر کی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ صرف اردو کا مسئلہ نہیں ہے، اگر سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو یا ملک میں بولی جانے والی کسی اور زبان کو قومی/ سرکاری سطح پر بالفرض رابطے کا ذریعہ بنالیا جائے تو بھی اختلاف و انتشار کی یہ فضا اسی طرح برقرار رہے گی، بلکہ شاید اس سے بھی سوا ہوگی۔ اس لیے کہ وسیع تر قومی مفاد پر اب ہم متفق ہی نہیں ہوتے۔ متفق تو اُس وقت ہوں نا جب ہم اُس کی اہمیت اور ضرورت پر غور کریں، اسے سمجھیں، ملک و قوم پر اس کے اثرات کو دیکھیں اور ان مسائل سے نکلنے کی خواہش کریں۔

کالا باغ ڈیم، صوبائی خودمختاری، مردم شماری، مدارس کی رجسٹریشن اور آپریشن کلین اَپ سے لے کر نصابِ تعلیم، نظامِ تعلیم، رمضان اور عید کے چاند تک ہر مرحلے پر ہمارے یہاں اختلاف و انتشار کا منظرنامہ ابھرتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ ہم ایسے ہر معاملے کو قومی ذہن، قومی احساس اور قومی شعور کے ساتھ نہیں، بلکہ گروہی قوت کو فروغ دینے والے ذہن سے سوچتے اور سیاست کی آنکھ سے دیکھتے ہیں۔

قوموں کی ترقی، استحکام اور بقا میں سب سے بڑا کردار قومی طرزِاحساس کا ہوا کرتا ہے۔ قومی طرزِ احساس کوئی ایسی شے نہیں ہے کہ جو نعرے بازی سے قائم ہوجائے۔ اس کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، افراد کو، اداروں کو، اشرافیہ کو، عدلیہ کو، مقننہ کو، سب کو مل کر اور مسلسل کرنا پڑتا ہے۔ ویسے یہ حقیقت ہے کہ قومی طرزِ احساس کی تشکیل میں ادیب اور ذرائعِ ابلاغ دونوں بہت مؤثر اور اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ تاہم یہ اُسی وقت ممکن ہوتا ہے، جب ادیب خود پروری یا دنیا بیزاری کی پینک میں نہ ہوں اور ذرائعِ ابلاغ مال بنانے اور دوسروں کے ایجنڈے پر کام میں مصروف نہ ہوں۔
Load Next Story