فرقہ واریت کو قانونی درجہ دیدیا گیا
کانگریس کا خیال تھا کہ انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے قتل عام کا ذکر کر کے وہ ہندو ووٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔
ISLAMABAD:
اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اب مسلمانوں کے حوالے سے اتنی تلخی کا اظہار نہیں کر رہی۔ اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی یہ کہ پارٹی کی نظریں اب 2014ء کے اوائل میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے منظر نامے پر لگی ہیں۔ اسے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا میں اکثریت حاصل کرنے کی خاطر سیکولر جماعتوں کی حمایت کی ضرورت ہو گی، لہٰذا مسلمانوں کے لیے کوئی نازیبا ریمارک پارٹی کو بہت مہنگا پڑسکتا ہے، اور اس کا ایک مخلوط حکومت تشکیل دینے کا عمل خطرے میں پڑ جائے گا۔
دوسرا یہ کہ بی جے پی محسوس کرتی ہے کہ وہ ایسے وقت میں آزاد خیال ہونے کا تاثر دے سکتی ہے جب بائیں بازو کی پارٹیوں پر بھی ایک نرم قسم کاہندوتوا غالب آتا جا رہا ہے۔ کانگریس بھی گزشتہ چند برسوں سے اپنے سیکولر ازم کے دعوئوں سے مسلسل پیچھے ہٹتی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں اگر کسی ثبوت کی ضرورت ہے تو گجرات اسمبلی کے انتخابات نے یہ ثبوت وافر مقدار میں فراہم کر دیا ہے کیونکہ اس پارٹی نے اپنی انتخابی مہم میں مسلمانوں کی اس نسل کُشی کا بھولے سے بھی ذکر نہیں کیا جو 2002ء میں ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی نے بی جے پی کے جتھوں اور پولیس کی مدد سے کرانے کی اپنی سی پوری کوشش کی تھی۔
کانگریس کا خیال تھا کہ انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے قتل عام کا ذکر کر کے وہ ہندو ووٹ سے ہاتھ دھو بیٹھے گی۔ لیکن کانگریس کی اس روش سے ملک بھر میں مسلمانوں کو سخت دھچکا لگا ہو گا کیونکہ وہ کم و بیش کانگریس کے حق میں ہی ووٹ ڈالتے ہیں۔ اور مسلمان کمیونٹی کے لیے یہ دیکھنا بھی بڑے صدمے کی بات ہو گی کہ کون سی پارٹی اصل میں آزاد خیال ہے۔ کسی کمیونٹی کا زیادہ فعال ہو جانا بھی اس صورتحال کا جواب نہیں جو کہ جاری ہے بلکہ اس کو مسلمانوں پر بہتان لگانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے یعنی اگر مسلمان شدت پسندی سے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کریں تب بھی ہندو دہشت گردی کے مقابلے میں ان کی تعداد کافی کم ہے۔
مجھے احساس ہے کہ بعض مسلمانوں نے بالکل مایوس ہو کر تشدد کی راہ اختیار کر لی لیکن انتہا پسند ہندو تنظیمیں بجرنگ دل' رام سینا اور وشوا ہندو پریشد تو چاہتی ہیں کہ مسلم کمیونٹی یہی راہ اختیار کرے۔ ان تنظیموں کا جرم مالیگائوں' اجمیر اور حیدر آباد میں بم دھماکوں سے ثابت ہو چکا ہے۔ ابتدائی طور پر مسلمانوں پر شبہ کیا گیا۔ جیسا کہ پولیس روایتی طور پر کرتی ہے اور مسلمان نوجوانوں کی گرفتاریاں شروع کر دی گئیں۔ حیدر آباد میں پولیس نے انھیں بہت زد و کوب کیا۔ لیکن تفصیلی تحقیقات سے ثابت ہو گیا کہ ان دھماکوں میں ہندوئوں کا ہاتھ تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمان نوجوانوں کی اندھا دھند پکڑ دھکڑ اس کمیونٹی کے لیے سب سے بڑی تشویش کا باعث ہے۔ اس حوالے سے ایک وفد نے، جس میں ہندو بھی شامل تھے، وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ ملاقات کی اور اس مسئلے کے تدارک کا مطالبہ کیا۔ انھوں نے ایکشن لینے کا وعدہ کر لیا۔ جس کے بعد مسلمان نوجوانوں کی گرفتاریوں میں قدرے کمی آ گئی۔ لیکن کمیونٹی کی اس سے قطعاً کوئی تسلی نہیں ہوئی۔ بہت سے مسلمان نوجوان اب بھی جیلوں میں بند ہیں جو اپنے مقدمات کی سماعت شروع ہونے کے انتظار کی اذیت سے دوچار ہیں اور ان کا جو قیمتی وقت برباد ہو رہا ہے۔
جس میں وہ اعلیٰ تعلیم کے مدارج طے کر سکتے تھے یا کوئی اور مفید کام کر سکتے تھے۔ اگر پولیس کے اس ظلم کا احتساب کیا جاتا تو وہ بیگناہوں پر ظلم سے باز رہ سکتی تھی۔ نوجوانوں کو اس وقت رہا کیا جاتا ہے جب عدالتیں یہ دیکھتی ہیں کہ ان کے خلاف کوئی ثبوت ہی نہیں ہے۔ یہ غلطی کس سے سرزد ہوئی؟ غیر قانونی حراستوں کا ذمے دار کون ہے؟ اگر اس کو سزا مل جائے تو یہ تاثر کہ مسلمانوں کو بلا جواز گرفتار کر لیا جاتا ہے ختم ہو سکتا ہے۔
مجھے زیادہ تشویش ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلے اور زیادہ پڑھنے پر ہے۔ درست کہ سماجی طور پر ان کا ایک دوسرے سے کوئی رابطہ نہیں۔ باہمی لین دین بھی دم توڑ رہا ہے، اس سارے منظر میں صرف ایک بات اطمینان کی ہے کہ سانحہ گجرات کے بعد اور کوئی بڑا فساد وقوع پذیر نہیں ہوا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ملک نے فرقہ واریت پر قابو پا لیا ہے۔ آسام اس کی حالیہ مثال ہے۔
میں حال ہی میں کیرالا گیا تھا۔ وہاں میں نے دیکھا کہ بائیں بازو والوں میں بھی فرقہ واریت کے جراثیم داخل ہو چکے ہیں۔ یہ واحد ریاست ہے جہاں کرسچن اپنے بازو پھیلا رہے ہیں جب کہ ہندو مسلمان دوستانہ روابط کی قیمت پر یہی کام کر رہے ہیں۔ حیرت کی بات ہے سب سے بہتر اقتصادی نظریہ بھی مذہبی تفاخر کے احساسات کے سامنے ناکام ہو گیا ہے۔ اتر پردیش میں چھوٹے چھوٹے فرقہ وارانہ فسادات سیکڑوں کی تعداد میں ہو چکے ہیں۔ میڈیا انھیں پبلسٹی نہیں دیتا بلکہ حقیقت میں میڈیا اس وقت تک فرقہ واریت کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا جب کہ فی الواقعی کوئی بڑا حادثہ نہ ہو جائے۔
ایک طرف دہلی کی مثال ہے جہاں 23 سالہ لڑکی کی اجتماعی مجرمانہ حملے میں ہلاکت کے خلاف تمام ذاتوں اور مذاہب کے طلبہ سڑکوں پر نکل آئے اور یہ ثابت کر دیا کہ ظلم کے خلاف احتجاج میں سب اکٹھے ہیں۔ دوسری طرف اگر ایک جلوس غلط روٹ پر آ نکلے تو نیاموں سے تلواریں باہر نکل آتی ہیں۔مجھے بھی کانگریس کے لیڈر ابوالکلام آزاد اور خان عبدالغفار خان کی اس بات پر دل سے یقین تھا کہ فرقہ واریت برطانوی راج کی تخلیق ہے اور جب انگریز یہاں سے نکل جائے گا تو یہ خود بخود ختم ہو جائے گی لیکن میرا یقین غلط ثابت ہو چکا ہے۔
عین اسی قسم کا پاگل پل جو میں نے تقسیم کے موقع پر دیکھا تھا، وہ اب بھی پنپ رہا ہے اور سیاسی پارٹیاں جب بھی ضرورت محسوس کرتی ہیں اس پاگل پن کو ہوا دے دیتی ہیں، بالخصوص انتخابات کے موقع پر ایسا بالعموم ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ آزادی کے 65 سال بعد بھی سیکولر ازم نے ملک میں جڑیں نہیں پکڑیں اور یہ فرقہ واریت ہی ہے جو اس کی راہ میں حائل ہے۔سیکولر ازم کو پنپنے کا موقع دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جو بھی اسے کسی طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے، اسے سزا دی جائے۔ بابری مسجد کو منہدم کرنے والوں کو اب تک سزا نہیں دی گئی بعینہ مودی کو بھی 3000 مسلمانوں کے قتل عام پر چُھوا تک نہیں گیا۔
حالات کے تقاضے اور اجتماعیت کے فلسفے کا سہارا لے کر مجرم کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی تو سوچیں کہ مسلمانوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ بی جے پی 1984ء میں ہونے والے سکھوں کے قتل عام پر کا نگریس کی مذمت کرتی ہے۔ کانگریس جوابی طور پر بی جے پی کو گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام پر کوستی ہے۔ جہاں تک بحث مباحثے کا سوال ہے تو دونوں کے موقف میں وزن ہے لیکن سیکولر ازم کا کیا بنے گا جس کو بھارت کے عقیدے کا درجہ دیا گیا تھا؟
مجھے ایک بہت تکلیف دہ احساس ہو رہا ہے۔ لگتا ہے کہ فرقہ واریت کو قانونی حیثیت دی جا رہی ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ مذہبی جنون میں مبتلا ہو رہے ہیں حتیٰ کہ پولیس یا دیگر فورسز بھی اس کے اثرات سے نہیں بچ سکیں گے۔ انھیں اس بات کا کوئی احساس ہی نہیں کہ اگر معاشرے میں اجتماعیت کے اصول کو پس پشت ڈال دیا جائے تو اس صورت میں جمہوریت بے معنی ہو جاتی ہے۔ اگر ہم جمہوریت کی بقا چاہتے ہیں تو نفرت اور تعصب کو سیاست کے جسد سے خارج کرنا ہو گا۔
مجھے حیرت ہے کہ اختر الدین اویسی نے حیدر آباد میں ایک ایسی زہر آلود تقریر کرنے کی جرات کی جس میں فرقہ واریت کو ہوا دی گئی تھی اور مجھے اس بات پر بھی اتنا ہی افسوس ہوا کہ مجمع نے اس تقریر پر بہت تالیاں بجائی تھیں۔ بھارت جیسے ملک میں اس کی کوئی جگہ نہیں ہے کیونکہ اس قسم کے لوگ سیکولر ازم کی جڑوں پر وار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خواہ اس ضمن میں کتنی ہی رکاوٹیں کیوں نہ ہوں بھارت سیکولر ازم کی راہوں پر چلنے کے لیے پر عزم ہے۔ اس بنیاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)