دھند دھند اور پھر دھند
لیجیے ہم نے پی آئی اے سے کنارہ کیا یا پی آئی اے نے ہم سے کنارہ کیا۔
صاحبو' یہ دھند ہے یا اندھکار ہے۔ دھند سی دھند۔ اس نے تو مسافروں کے رستے کھوٹے کر دیے۔ اور پی آئی اے کے ساتھ یہ معاملہ ہوا کہ مرے کو ماریں شاہ مدار۔ سواریوں کے اس ادارے کا حال پہلے ہی ابتر تھا۔ دھند نے اسے بالکل ہی چوپٹ کر دیا۔ یار لوگ ہوائی سفر کے اب اتنے عادی ہو گئے تھے کہ کوئی دوسری سواری ان کی نظروں میں سماتی ہی نہیں تھی۔ پی آئی اے نے یہ اندھیر مچا رکھا تھا کہ گھنٹوں تاخیر کے حساب سے اس کے جہاز اڑتے تھے مگر یاروں کو پھر بھی ضد تھی کہ سفر کریں گے تو ہوائی جہاز ہی سے کریں گے۔ مگر موسم نے اپنا آخری پتا استعمال کیا جسے کہرہ کہتے ہیں ،کہرہ کیا ہوتا ہے اور دھند کیا ہوتی ہے، ان باریکیوں پر مت جائیے۔ سفر کھوٹا یوں بھی ہوتا ہے اور ووں بھی ہوتا ہے۔
لیجیے ہم نے پی آئی اے سے کنارہ کیا یا پی آئی اے نے ہم سے کنارہ کیا۔ ہم نے کہا کہ ارے اسلام آباد کا سفر کونسا لمبا ہے۔ ڈائیوو سے چلتے ہیں۔ اور شاید برسوں بعد ڈائیوو کا یہ ہمارا دوسرا سفر تھا۔ ہم تو اس کی پابندی وقت پر عش عش کہہ اٹھے۔ مقررہ وقت کی اتنی پابندی کہ ادھر گھڑی کی سوئی دس پر پہنچی اور بس کے پہیے حرکت میں آ گئے۔ مقررہ رفتار پر چل کر اس نے مقررہ وقت پر اپنے پنڈی کے اسٹاپ پر ہمیں جا انڈیلا۔ ہم کتنے خوش ہوئے مگر ہماری یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی۔
اگر ہماری یہ خوشی عارضی ثابت ہوئی تو اس میں ڈائیوو کی کوئی خطا نہیں ہے۔ سارا قصور ہماری تقدیر کا ہے۔ یہاں قدم قدم پر نیل کنٹھ ہمارا رستہ کاٹتا ہے اور ہمارا سفر کھوٹا ہو جاتا ہے۔ مسافر غریب ایک رستے میں تھا۔ مگر اس کے ساتھ کیا ہوا۔ واپسی میں بھی ڈائیوو صحیح وقت پر چلی اور صحیح وقت پر اس نے ہمیں لاہور میں اتار دیا۔ موسم کی دھند کو ہم نے انگوٹھا دکھایا ہے اور موٹر میں بیٹھ کر ہم اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئے۔ مگر فیروز پور روڈ پر ایک اور دھند تیار کھڑی تھی کہ ذرا اچھرہ موڑ پر آئو اور پھر اس دھند کو دیکھو۔
اس دوسری دھند کا نام ہے یاروں کی زبان میں ٹریفک جام۔ یعنی سواریاں ٹھسا ٹھس۔ نہ آگے بڑھ سکتے نہ پیچھے جا سکتے ہیں۔ ہم نے پچھلے دنوں ذکر کیا تھا نا کہ گزرے برسوں میں ایک صحافی نے جو اپنے بس کے سفر میں اچھرہ موڑ سے گزرتا تھا، اپنے کالم میں لکھا تھا کہ میری زندگی کا سب سے نازک موڑ اچھرہ موڑ ہے۔ ابھی پچھلے دنوں جب نئے پلوں کی تعمیر کے بعد ہم اس راہ سے گزرے تو حیران ہو کر پوچھا کہ اس راہ پر ایک اچھرہ موڑ ہوا کرتا تھا وہ کہاں گیا۔ ہمارے ہم سفر نے ہنس کر کہا کہ فیروز پور روڈ کے نئے نقشے میں اچھرہ موڑ غائب ہو گیا۔ ہم نے شکر کیا کہ اچھرہ موڑ سے تو جان چھوٹی۔ باقی جو یہ سڑک اپنا رنگ بدلنے کے عمل میں ہے دیکھیں گے کہ وہ اپنی تکمیل کے بعد کیا جلوہ دکھاتی ہے۔ مگر اے لو ہم اچھرے سے آگے نکلے تھے اور گھر چند قدم کے فاصلے پر رہ گیا تھا کہ ٹریفک جام کی دھند نے ہمیں آ لیا۔ ڈائیوو کے سفر کی ساری راحت یہاں اس دھند میں کھڑے کھڑے خاک میں مل گئی۔
ارے ابھی تو ایک تیسری دھند ہمیں اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ اسلام آباد کا ایک سفر ہمارے سر پر سوار ہے۔ یاروں نے بتایا کہ اگلے دنوں میں موسم والی دھند کا پتہ نہیں کیا نقشہ رہے گا۔ مگر اس دھند سے خبردار رہو جو پروفیسر طاہر القادری کے لانگ مارچ کی صورت میں نمودار ہونے والی ہے۔ اسلام آباد جا تو رہے ہو مگر سوچ سمجھ لو کہیں لانگ مارچ کے دھند کی لپیٹ میں نہ آ جائو۔
تب ہماری آنکھیں کھلیں۔ اے غافل تو کس خیال میں ہے۔ پاکستان میں تو اس وقت دھند ہی تو دھند ہے۔ ایک دھند سے نکلو گے تو دوسری دھند تمہیں آ لے گی۔ دوسری دھند سے خدا خدا کر کے باہر آئو گے تو تیسری دھند تمہیں اپنی لپیٹ میں لینے کے لیے تیار کھڑی ہو گی۔ مگر ہم ہیں کہ اندھا دھند چلے جا رہے ہیں۔ لیجیے اس دھند میں لپٹے لپٹے ہمارا دھیان کس طرف چلا گیا۔ حضرت علیؓ کے ایک خطبہ میں یہ بیان ''اے لوگو، تم ایسے اونٹوں پر سوار ہو جن کی باگیں تمہارے ہاتھوں میں نہیں ہیں، سوار اور اونٹ دونوں سو رہے ہیں اور سوتے ہوئے چلتے چلے جا رہے ہیں، بے سمت بے منزل''۔
اور لیجیے اب ہمیں غالب کا ایک شعر یاد آ گیا۔ ذکر دھند کا تھا۔ اب یہ کونسے ذکر اذکار نکل آئے۔ یہ سب دھند کی کرامات ہے۔ دھند میں رستہ تو نظر آتا نہیں۔ سوار ہو یا پیدل کسی کو پتہ نہیں چلتا کہ اپنے رستے سے بہک کر وہ کس رستے پر چل پڑا ہے۔ اسی حساب سے ذہن بھی دھند میں رستہ بھول کر کہاں سے کہاں نکل جاتا ہے۔ ہاں تو وہ غالب کا شعر اس طرح ہے؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہ رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
شعر سن کر ایک بار ہنسا اور بولا ''لوگوں کا عجب احوال ہے۔ غالب کے وقت سے اب تک کتنا وقت گزر چکا۔ صورت احوال وہی چلی آ رہی ہے کہ؎
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں
ارے آنکھوں کے اندھوں، آخر کب پہچانو گے
دوسرا بولا ''چلو ایک بات تو اچھی ہے کہ جو بھی آتا ہے اور نجات دہندہ بن کر نعرہ لگاتا ہے۔ لوگ اس کے گرد اکٹھا ہو جاتے ہیں۔ تھوڑی دور اس کے ساتھ چلتے ہیں۔ آگے اس پر موقوف ہے کہ وہ کتنی دور تک جاتا ہے اور کیا رنگ دکھاتا ہے۔ مگر ہمارا ہجوم کسی مدعی کو مایوس نہیں کرتا۔ چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہ رو کے ساتھ۔