ایڈونچر سے گریز کریں
چیف صاحب نے صاف لفظوں میں قوم سے اپیل کی کہ وہ انتشار پھیلانے والی پارٹی کی حمایت نہ کرے
وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ انتخابات میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوگی، جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں اور عدلیہ، فوج اور میڈیا جمہوریت کے محافظ ہیں اور اس کے تسلسل کے خواہاں ہیں۔ لاہور بار کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب نے بھی کم و بیش ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اب صرف الیکشن سے منتخب ہوکر آنے والے لوگ ہی ملک چلائیں گے، جمہوریت کے خلاف کوئی نظر اٹھاکر نہیں دیکھ سکتا۔
آئین کے مطابق اقتدار منتخب نمایندوں کا حق ہے، عوام باشعور ہیں۔ چیف صاحب نے صاف لفظوں میں قوم سے اپیل کی کہ وہ انتشار پھیلانے والی پارٹی کی حمایت نہ کرے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور عدلیہ مقررہ وقت پر ملک میں الیکشن کے انعقاد پر پوری طرح یکسو ہیں، اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور حکومت کی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم، اے این پی اور پاک فوج بھی اس حوالے سے پوری طرح کمیٹڈ ہیں کہ آئین کے مطابق مقررہ وقت پر ملک میں عام انتخابات ہوجانے چاہئیں تاکہ اقتدار نومنتخب نمایندوں کو منتقل کردیا جائے، اگرچہ مولانا طاہر القادری بھی انتخابات کے انعقاد کے حامی ہیں تاہم ان کا مطالبہ یہ ہے کہ پہلے انتخابی اصلاحات کی جائیں پھر انتخابات کرائے جائیں۔
مولانا طاہر القادری کے لانگ مارچ کے اٹل فیصلے کے بعد حکومت نے ان سے مذاکرات کا دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے اسی طرح نگراں حکومت کے قیام اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے مشاورت اور متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے سیاسی و مذہبی جماعتوں کی گول میز کانفرنس بلانے کا بھی عندیہ دیا ہے جو بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں مثبت اور حقیقت پسندی کی علامت ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ اگرچہ مولانا طاہر القادری بھی حکومتی نمایندوں سے مذاکرات کے لیے آمادہ ہیں جیسا کہ انھوں نے فرمایا ہے کہ مذاکرات کے لیے ان کے دروازے کھلے ہیں تاہم انھوں نے خبردار کیا ہے کہ لانگ مارچ کو روکا گیا تو لوگوں پر ان کا کنٹرول نہیں رہے گا۔ پنجاب حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا ہے کہ اگر لانگ مارچ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو آدھا لانگ مارچ لاہور کی سڑکوں پر ہوگا۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مولانا طاہر القادری صاحب لانگ مارچ کے حوالے سے خاصے سنجیدہ بھی ہیں، جوشیلے بھی اور جذباتی بھی اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہر صورت یہ معرکہ انجام دینا چاہتے اور نتائج سے بے پرواہ، لانگ مارچ سے کم کسی بات پر آمادہ نہیں۔ حالانکہ مولانا کے لانگ مارچ کو ماسوائے ایم کیو ایم کے ملک کی کسی بھی قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعت اور نمایندہ طبقات بشمول میڈیا کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ عمران خان نے جو ووٹ کے ذریعے آئینی طریقے سے انقلابی تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں، طاہر القادری صاحب کے لانگ مارچ کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عام انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ ڈالی گئی تو پھر وہ خود لانگ مارچ کریں گے۔
اب ذرا سوچیے کہ امن و امان کے حوالے سے ملک کے موجودہ مخدوش حالات میں جہاں ہر جانب دہشت گرد اور خودکش بمبار گھات لگائے بیٹھے ہوں کیا مولانا طاہر القادری کے ممکنہ لانگ مارچ میں دہشت گردی کے خطرے کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ یقیناً نہیں کیونکہ گزشتہ ہفتے مولانا صاحب کی کراچی آمد اور 90 پر خطاب کے بعد ہونے والے بم دھماکے کی صورت میں حضرت کو پیغام دیا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود بھی مولانا اگر لانگ مارچ کرنے پر مصر ہیں ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔ مناسب تو یہی ہے کہ تمام معاملات اور مطالبات کو مذاکرات کی میز پر افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی جائے بصورت دیگر حالات صرف مولانا طاہر القادری کے ہی نہیں بلکہ کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے اور پھر ''میرے عزیز ہموطنو! '' کی بھاری بھرکم آواز میں سب کی آواز دب جائے گی۔
مولانا تو اپنے نئے وطن کشاں کشاں روانہ ہوجائیں گے لیکن ملک کے 18 کروڑ عوام کے مقدر پر پھر ایک عشرے کے لیے آمریت کے سیاہ بادل چھا جائیں گے۔ کیا مولانا طاہر القادری ایسے ہی کسی انقلاب کا جواز تو نہیں بن رہے ہیں؟ کیا وہ پس پردہ قوتوں کے کسی ''گیم پلان'' میں کوئی کردار تو ادا نہیں کر رہے ہیں؟ کیا انھیں کسی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی ضمانت تو نہیں دی گئی ہے؟ اگر ایسا کچھ نہیں ہے اور یقیناً ایسا کچھ نہیں ہوگا، ہمیں حسن ظن سے کام لینا چاہیے، کیونکہ مینار پاکستان کے بھرے جلسے میں طاہر القادری صاحب نے حلفاً ایسی باتوں کی سختی سے تردید کی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ حالات کے تقاضوں کو سمجھا جائے اور جوش و جنون کے بجائے ہوش و خرد سے کام لیا جائے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ مولانا طاہر القادری کی اچانک پاکستان آمد، مینار پاکستان پر بھرپور جلسے کا انعقاد اور ان کے انتخابات سے پہلے اصلاحات کے نعرے کے پیچھے یہ حکمت کار فرما ہوسکتی ہے کہ چونکہ گزشتہ دو انتخابات 1990-2002 میں مولانا صاحب کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس مرتبہ بھی انھیں انتخابات میں اپنی ملک گیر کامیابی اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا یقین نہیں لہٰذا انھوں نے بعض نادیدہ قوتوں کی آشیرباد سے ''دوسرے دروازے'' سے اقتدار میں آنے کے لیے یہ ''مشقت'' اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، اسے عرف عام میں ''جوا'' کہہ سکتے ہیں (مولانا سے معذرت کے ساتھ) جسے وہ جیت بھی سکتے ہیں اور ہار بھی سکتے ہیں۔
یہاں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ کامیابی کی صورت میں تو حضرت مولانا طاہر القادری کو تو فائدہ ہی فائدہ ہوگا لیکن ان کی ناکامی کی صورت نقصان صرف عوام کا ہوگا اور کوئی بھی غیر معمولی واقعہ جمہوری نظام کے تسلسل کے آگے ''بریک'' لگا دے گا۔ ملک میں جمہوریت بڑی قربانیوں کے بعد آئی ہے اور اب اس کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، عسکری حلقے، میڈیا، عدلیہ اور 18 کروڑ عوام پوری طرح تیار ہیں اور آئین کے مطابق وقت مقررہ پر عام انتخابات کا منصفانہ و شفاف انعقاد چاہتے ہیں جس کے لیے آزاد کمیشن بھی موجود ہے تو اس مرحلے پر حضرت مولانا طاہر القادری صاحب کو کسی بھی ''ایڈونچر'' سے گریز کرنا چاہیے۔
آئین کے مطابق اقتدار منتخب نمایندوں کا حق ہے، عوام باشعور ہیں۔ چیف صاحب نے صاف لفظوں میں قوم سے اپیل کی کہ وہ انتشار پھیلانے والی پارٹی کی حمایت نہ کرے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت اور عدلیہ مقررہ وقت پر ملک میں الیکشن کے انعقاد پر پوری طرح یکسو ہیں، اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور حکومت کی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم، اے این پی اور پاک فوج بھی اس حوالے سے پوری طرح کمیٹڈ ہیں کہ آئین کے مطابق مقررہ وقت پر ملک میں عام انتخابات ہوجانے چاہئیں تاکہ اقتدار نومنتخب نمایندوں کو منتقل کردیا جائے، اگرچہ مولانا طاہر القادری بھی انتخابات کے انعقاد کے حامی ہیں تاہم ان کا مطالبہ یہ ہے کہ پہلے انتخابی اصلاحات کی جائیں پھر انتخابات کرائے جائیں۔
مولانا طاہر القادری کے لانگ مارچ کے اٹل فیصلے کے بعد حکومت نے ان سے مذاکرات کا دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے اسی طرح نگراں حکومت کے قیام اور انتخابی اصلاحات کے حوالے سے مشاورت اور متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کے لیے سیاسی و مذہبی جماعتوں کی گول میز کانفرنس بلانے کا بھی عندیہ دیا ہے جو بدلتے ہوئے حالات کے تناظر میں مثبت اور حقیقت پسندی کی علامت ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ اگرچہ مولانا طاہر القادری بھی حکومتی نمایندوں سے مذاکرات کے لیے آمادہ ہیں جیسا کہ انھوں نے فرمایا ہے کہ مذاکرات کے لیے ان کے دروازے کھلے ہیں تاہم انھوں نے خبردار کیا ہے کہ لانگ مارچ کو روکا گیا تو لوگوں پر ان کا کنٹرول نہیں رہے گا۔ پنجاب حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا ہے کہ اگر لانگ مارچ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو آدھا لانگ مارچ لاہور کی سڑکوں پر ہوگا۔
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مولانا طاہر القادری صاحب لانگ مارچ کے حوالے سے خاصے سنجیدہ بھی ہیں، جوشیلے بھی اور جذباتی بھی اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہر صورت یہ معرکہ انجام دینا چاہتے اور نتائج سے بے پرواہ، لانگ مارچ سے کم کسی بات پر آمادہ نہیں۔ حالانکہ مولانا کے لانگ مارچ کو ماسوائے ایم کیو ایم کے ملک کی کسی بھی قابل ذکر سیاسی و مذہبی جماعت اور نمایندہ طبقات بشمول میڈیا کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ عمران خان نے جو ووٹ کے ذریعے آئینی طریقے سے انقلابی تبدیلی لانے کے خواہاں ہیں، طاہر القادری صاحب کے لانگ مارچ کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر عام انتخابات کے انعقاد میں رکاوٹ ڈالی گئی تو پھر وہ خود لانگ مارچ کریں گے۔
اب ذرا سوچیے کہ امن و امان کے حوالے سے ملک کے موجودہ مخدوش حالات میں جہاں ہر جانب دہشت گرد اور خودکش بمبار گھات لگائے بیٹھے ہوں کیا مولانا طاہر القادری کے ممکنہ لانگ مارچ میں دہشت گردی کے خطرے کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ یقیناً نہیں کیونکہ گزشتہ ہفتے مولانا صاحب کی کراچی آمد اور 90 پر خطاب کے بعد ہونے والے بم دھماکے کی صورت میں حضرت کو پیغام دیا جاچکا ہے۔ اس کے باوجود بھی مولانا اگر لانگ مارچ کرنے پر مصر ہیں ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔ مناسب تو یہی ہے کہ تمام معاملات اور مطالبات کو مذاکرات کی میز پر افہام و تفہیم سے حل کرنے کی کوشش کی جائے بصورت دیگر حالات صرف مولانا طاہر القادری کے ہی نہیں بلکہ کسی کے کنٹرول میں نہیں رہیں گے اور پھر ''میرے عزیز ہموطنو! '' کی بھاری بھرکم آواز میں سب کی آواز دب جائے گی۔
مولانا تو اپنے نئے وطن کشاں کشاں روانہ ہوجائیں گے لیکن ملک کے 18 کروڑ عوام کے مقدر پر پھر ایک عشرے کے لیے آمریت کے سیاہ بادل چھا جائیں گے۔ کیا مولانا طاہر القادری ایسے ہی کسی انقلاب کا جواز تو نہیں بن رہے ہیں؟ کیا وہ پس پردہ قوتوں کے کسی ''گیم پلان'' میں کوئی کردار تو ادا نہیں کر رہے ہیں؟ کیا انھیں کسی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی ضمانت تو نہیں دی گئی ہے؟ اگر ایسا کچھ نہیں ہے اور یقیناً ایسا کچھ نہیں ہوگا، ہمیں حسن ظن سے کام لینا چاہیے، کیونکہ مینار پاکستان کے بھرے جلسے میں طاہر القادری صاحب نے حلفاً ایسی باتوں کی سختی سے تردید کی ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ حالات کے تقاضوں کو سمجھا جائے اور جوش و جنون کے بجائے ہوش و خرد سے کام لیا جائے۔
بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ مولانا طاہر القادری کی اچانک پاکستان آمد، مینار پاکستان پر بھرپور جلسے کا انعقاد اور ان کے انتخابات سے پہلے اصلاحات کے نعرے کے پیچھے یہ حکمت کار فرما ہوسکتی ہے کہ چونکہ گزشتہ دو انتخابات 1990-2002 میں مولانا صاحب کی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس مرتبہ بھی انھیں انتخابات میں اپنی ملک گیر کامیابی اور اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے کا یقین نہیں لہٰذا انھوں نے بعض نادیدہ قوتوں کی آشیرباد سے ''دوسرے دروازے'' سے اقتدار میں آنے کے لیے یہ ''مشقت'' اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، اسے عرف عام میں ''جوا'' کہہ سکتے ہیں (مولانا سے معذرت کے ساتھ) جسے وہ جیت بھی سکتے ہیں اور ہار بھی سکتے ہیں۔
یہاں مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ کامیابی کی صورت میں تو حضرت مولانا طاہر القادری کو تو فائدہ ہی فائدہ ہوگا لیکن ان کی ناکامی کی صورت نقصان صرف عوام کا ہوگا اور کوئی بھی غیر معمولی واقعہ جمہوری نظام کے تسلسل کے آگے ''بریک'' لگا دے گا۔ ملک میں جمہوریت بڑی قربانیوں کے بعد آئی ہے اور اب اس کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں، عسکری حلقے، میڈیا، عدلیہ اور 18 کروڑ عوام پوری طرح تیار ہیں اور آئین کے مطابق وقت مقررہ پر عام انتخابات کا منصفانہ و شفاف انعقاد چاہتے ہیں جس کے لیے آزاد کمیشن بھی موجود ہے تو اس مرحلے پر حضرت مولانا طاہر القادری صاحب کو کسی بھی ''ایڈونچر'' سے گریز کرنا چاہیے۔