کرپشن کی دیمک اور پاکستان کا مستقبل
کہتے ہیں کہ اگر اوپر پرنالے میں پانی گندا ہو تو نیچے بہہ کر آنے والا پانی بھی گندہ ہوتا ہے
ان دنوں ہمارے ملک کو جن معاشی، سیاسی،معاشرتی اوربین الا قوامی چیلنجز کا سامنا ہے یہ اس امر کے نتائج ہیں جوگزشتہ چھ دہائیوں میں ہمارے اوپر جتنی بھی حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں ہر آنے والی حکومت نے پچھلی حکومت کے تجربات اور آیندہ کے مستقبل کو مدّنظر رکھتے ہوئے بیچ کی راہ نکالنے کی کوشش میں جو بھی مخفی اور ظاہری پلاننگ اختیار کی بس اس میں تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ وہی راستہ اختیار کرتی ہیں جو کہ گزشتہ حکمرانوں نے اپنے اپنے ادوار میں کیا ۔
کہتے ہیں کہ اگر اوپر پرنالے میں پانی گندا ہو تو نیچے بہہ کر آنے والا پانی بھی گندہ ہوتا ہے اس کی مثال پاکستان کی موجودہ حالتِ زار ہے جس سے ہم اور آپ قطع نظر نہیں کر سکتے جس قوم میں بڑے پیمانے پہ اعلیٰ سطح پر کرپشن ہو رہی ہو تو عوام اس دلدل سے کیونکر محفوظ رہ پائیں گے، یہ بات پوری پاکستانی قوم کے لیے لمحہ ِفکریہ ہے ۔گزشتہ دنوں نیب کے مستند ذرایع سے ملنے والی اطلاع پاکستان کے معاشی اور معاشرتی پلرز کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں، ہم اس بات سے منکر نہیں کہ ہر بڑی اطلاع کے درپردہ ایک کہانی پنہاں ہوتی ہے لیکن اسباب کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کہانیاں جب ہی وجود میں آتی ہیں جب کوئی سیاہ کارنامہ وقوع پزیر ہو چکا ہوتا ہے کوئی نہ کوئی تو بات ہوتی ضرور ہے جس کی بنا پہ اسطرح کی اطلاع منظرِعام پر آتی ہے ۔
چیئرمین نیب ایڈمرل سید فصیح بخاری کا یہ دعویٰ عوام کے لیے کسی میزائل سے کم نہیں کہ ملک میں کرپشن کا حجم بڑھ گیا ہے 12سے15ارب کی یومیہ کرپشن ہورہی ہے،اگر چوری اور سرکاری وسائل کے ضیاع اور بینکنگ کے شعبے سمیت دیگر اداروں میں ہونے والی بدعنوانیوں کو شامل کر لیا جائے تو یہ بھی یومیہ 15ارب روپے سے زیادہ کی کرپشن بنتی ہے ۔یوں لگتا ہے کہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ تباہی اور زوال کی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے ،ڈاکٹر ،وکیل ،صنعتکار،دکاندار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد ٹیکس چور ہے۔
2009ء میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستانی پہلے کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ ہوتے جا رہے ہیں، سابق وزیرِاعظم گیلانی نے بھی پاکستان کی گرتی ہوئی ساکھ پر تشویش ظاہِر کی تھی ۔شوکت ترین کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے گورننس کے ایشوز کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی، ان کی سربراہی میں کمیٹی نے ٹرانس پیرنسی کے نتائج سے اختلاف نہیں کیا لیکن کرپشن پر قابو پانے اور گورننس کو بہتر بنانے کے لیے جامع رپورٹ پیش کی تھی لیکن رپورٹ کو داخلِ دفتر تو کر دیا گیا مگر عمل نہیں کیا گیا ۔ اس طرح کے بیشمار کیسز پاکستان میں مختلف ادوار میں بھرے پڑے ہیں جن پر عمل درآمد ندارِد ہے ۔
پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کے مطابق تین سو سے ساڑھے تین سو ارب روپے بدعنوانیوں کی نذر ہو رہے ہیںاس طرح سالانہ قومی دولت کے 4سے 5 ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں اس طرح 10سے12 ارب روپے کی یومیہ کرپشن ہورہی ہے جب کہ زرعی ریونیو ،قبضہ مافیا ، بینک قرضے ہڑپ کرنے، ٹیکسوں کی چوری کسٹمز ڈیوٹی کے ہیر پھیر لوڈ شیڈنگ کے نقصانات ،اختیارات کے نا جائز استعمال سے سرکاری وسائل کے ضیاع اور پیکنگ سیکٹر میں بدعنوانیاں ہمارے کرپشن جائزے میں شامل نہیں، اگر یہ بھی شامل کر لیے جائیں تو یہ بات چھ سات ارب کی نہیں یہ بھی یومیہ 15 ارب روپے سے زیادہ تک جا پہنچتی ہے ۔
نیب کے دیے گئے اعدادوشمار سے اور ان کی دی ہوئی اس حتمی رپورٹ کو بہرحال کسی بھی طرح نظراندازکیا جانا سراسر بیوقوفی ہوگی جب کہ کابینہ کا اصرار ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت ہرگز ایسی نہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن کی جا سکے ۔جس ملک کا پورا بجٹ تین ٹریلین کا ہو وہاں 25سو ارب سالانہ کی کرپشن ممکن ہی نہیں ،مگر اس اعتراض پہ ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ایسا کہیں نہ کہیں ممکن ہوا تب ہی تو نیب جیسے مستند ذرایع نے یہ اطلاع میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچائی ہے۔ اس حقیقت سے کون منکر ہوسکتا ہے کہ قومی خزانے کی چوری اور ملک کے مالی وسائل کی لوٹ مار ایسا ناسور ہے جو ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سمیت پورے معاشرے میں ایک خطرناک حد تک ناسور بن کے سرائیت کر چکا ہے اور پوری قوم رشوت اور مالی بدعنوانیوں کے خلاف سراپا احتجاج نظر آرہی ہے ۔ لیکن ایسا آخر کب تک ہوتا رہے گا کب تک کرپشن کے اژدہے پاکستان کو آہستہ آہستہ نگلتے رہیں گے اور ہماری قوم کب تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تماشا دیکھتی رہے گی، آخر کب تک...؟ ہماری موجودہ اور آنے والی تمام حکومتیں مختلف مینڈیٹ کے ساتھ گزشتہ چھ دہائیوں سے ایک ہی کھیل کھیلتے چلی آ رہی ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ انکو کھیلنے کے لیے میدان ہم اور آپ یعنی عوام ہی مہیا کرتے ہیں مگر اب ہم جانتے بوجھتے اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتے اب اس کے خلاف ہمیں مل کر آواز اٹھانا ہوگی ۔
جب تک کوئی ٹھوس حقائق سامنے نہیں لائے جاتے حکومت اس معاملے میں کمزور وکٹ پر کھیلتی رہے گی کیونکہ نیب کے علاوہ عوام میں بھی حکومت کی ہر ڈیل میں کرپشن کی بو محسوس کی جا رہی ہے۔ پہلے کرپشن کا گراف صرف نچلی سطح پر تھا اب بلند ترین سطح تک لوگوں کے ملوث ہونے کی باتیں عام ہیں اور میڈیا تواتر سے ان کی نشاندہی کر رہا ہے جب کہ عدلیہ بھی اس کا نوٹس لے رہی ہے مگر نہ حکومت اسے روکنے میں کامیاب ہوئی ہے نہ پارلیمنٹ ہی نے احتساب کا نظام موثر بنانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر قانون سازی کی ہے۔ حکومت پر جب بھی اس حوالے سے دبائو بڑھتا ہے تو فی الوقتی کوئی کمیشن یا کمیٹی بنا دیتی ہے جس کی رپورٹ کبھی منظرِعام پر نہیں لائی جاتی۔
ایف ۔بی۔آرکے تحت جاری کردہ بل کی اسکیم سرکاری ذرایع کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بل پر دستخط کر دیے ہیں اور یہ جلد پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائیگا ۔بل کے مطابق جو شخص مذکورہ ٹیکس چھوٹ اسکیم سے استفادہ نہیں کریگا جرمانے کی شکل میں اس کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی معطلی، نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جانا اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے تحت اس کے خلاف ابتدائی جائزے کو حتمی شکل دیے جانے کی صورت میں جرمانے عائد کیے جائیں گے بلکہ مسودے میں کسٹمز ایکٹ ،سیلز ٹیکس ایکٹ ،انکم ٹیکس آرڈیننس اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں ۔پہلی ایمنسٹی اسکیم کو ٹیکس رجسٹریشن اسکیم 2012ء کا نام دیا گیا ہے، اسکیم کے تحت ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے قومی شناختی کارڈ کینسل کر دیے جائیں گے۔ ٹیکس کی ادائیگی گوشوارے میںتین درجوں میں تقسیم ہے جو ٹیکس دہندگان اس اسکیم سے استفادہ کرینگے انھیں مزید کوئی ٹیکس یا محصول ادا نہیں کرنا ہوگا ۔
ٹیکس محتسب نے تین جنوری 2013 سے قبل جواب داخل کرنے کے لیے رجسٹرار ٹیکس محتسب کی جانب سے مختلف اداروں کو نوٹس جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ یک رکنی کمیشن کی عبوری رپورٹ کی روشنی میں جو 4دسمبر 2012کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے جس میں ٹیکس بچانے کے ذکر کی روشنی میں وفاقی ٹیکس محتسب نے ازخود اختیارِسماعت کیا ہے۔ کمیشن کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بعض افراد نے کھربوں روپے کا ٹیکس بچایا ہے وفاقی محتسب نے ادارے کے آرڈیننس 2000 کے سیکشن 9 کی ازخود سماعت لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔
درج بالا انکشافات سے ظاہِر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں غاصبانہ طرزِعمل عرصہ دراز سے جاری ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید تیزی آچکی ہے اور موجودہ حکومت نے ان اقدامات کی پشت پناہی کی جس کی بنا پر ہمارے ملک کا اتناکثیر تعداد میں خزانہ لوٹا جا رہا ہے ۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو احتساب اوپر سے شروع ہو وہی کامیاب ہوتا ہے کیونکہ اس کے اثرات نیچے تک جاتے ہیں ۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کسی ملک کا صدر وزیرِاعظم یا کوئی دوسرا بڑا عہدے کا طلب گار نہیں ہوتا جب تک کہ عدالت سے اپنے دامن پر لگنے والا داغ صاف نہ کرا لے۔ اگر اسی تعداد میں کرپشن کا کاروبار یونہی چلتا رہا تو پاکستان کا مستقبل ڈگمگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور عوام اس پر بھی خاموش تماشائی بنے رہے تو اس صورتِ حال پہ ہم یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ ۔۔۔
دیمک تنے کو چاٹتی جاتی تھی اور ہم
کتنے مگن شَجر کی نگہبانیوں میں تھے
کہتے ہیں کہ اگر اوپر پرنالے میں پانی گندا ہو تو نیچے بہہ کر آنے والا پانی بھی گندہ ہوتا ہے اس کی مثال پاکستان کی موجودہ حالتِ زار ہے جس سے ہم اور آپ قطع نظر نہیں کر سکتے جس قوم میں بڑے پیمانے پہ اعلیٰ سطح پر کرپشن ہو رہی ہو تو عوام اس دلدل سے کیونکر محفوظ رہ پائیں گے، یہ بات پوری پاکستانی قوم کے لیے لمحہ ِفکریہ ہے ۔گزشتہ دنوں نیب کے مستند ذرایع سے ملنے والی اطلاع پاکستان کے معاشی اور معاشرتی پلرز کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں، ہم اس بات سے منکر نہیں کہ ہر بڑی اطلاع کے درپردہ ایک کہانی پنہاں ہوتی ہے لیکن اسباب کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ کہانیاں جب ہی وجود میں آتی ہیں جب کوئی سیاہ کارنامہ وقوع پزیر ہو چکا ہوتا ہے کوئی نہ کوئی تو بات ہوتی ضرور ہے جس کی بنا پہ اسطرح کی اطلاع منظرِعام پر آتی ہے ۔
چیئرمین نیب ایڈمرل سید فصیح بخاری کا یہ دعویٰ عوام کے لیے کسی میزائل سے کم نہیں کہ ملک میں کرپشن کا حجم بڑھ گیا ہے 12سے15ارب کی یومیہ کرپشن ہورہی ہے،اگر چوری اور سرکاری وسائل کے ضیاع اور بینکنگ کے شعبے سمیت دیگر اداروں میں ہونے والی بدعنوانیوں کو شامل کر لیا جائے تو یہ بھی یومیہ 15ارب روپے سے زیادہ کی کرپشن بنتی ہے ۔یوں لگتا ہے کہ ملک کا انتظامی ڈھانچہ تباہی اور زوال کی آخری حدوں کو چھونے لگا ہے ،ڈاکٹر ،وکیل ،صنعتکار،دکاندار اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد ٹیکس چور ہے۔
2009ء میں ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستانی پہلے کے مقابلے میں زیادہ کرپٹ ہوتے جا رہے ہیں، سابق وزیرِاعظم گیلانی نے بھی پاکستان کی گرتی ہوئی ساکھ پر تشویش ظاہِر کی تھی ۔شوکت ترین کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہوئے گورننس کے ایشوز کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تھی، ان کی سربراہی میں کمیٹی نے ٹرانس پیرنسی کے نتائج سے اختلاف نہیں کیا لیکن کرپشن پر قابو پانے اور گورننس کو بہتر بنانے کے لیے جامع رپورٹ پیش کی تھی لیکن رپورٹ کو داخلِ دفتر تو کر دیا گیا مگر عمل نہیں کیا گیا ۔ اس طرح کے بیشمار کیسز پاکستان میں مختلف ادوار میں بھرے پڑے ہیں جن پر عمل درآمد ندارِد ہے ۔
پبلک اکاوئنٹس کمیٹی کے مطابق تین سو سے ساڑھے تین سو ارب روپے بدعنوانیوں کی نذر ہو رہے ہیںاس طرح سالانہ قومی دولت کے 4سے 5 ہزار ارب روپے کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں اس طرح 10سے12 ارب روپے کی یومیہ کرپشن ہورہی ہے جب کہ زرعی ریونیو ،قبضہ مافیا ، بینک قرضے ہڑپ کرنے، ٹیکسوں کی چوری کسٹمز ڈیوٹی کے ہیر پھیر لوڈ شیڈنگ کے نقصانات ،اختیارات کے نا جائز استعمال سے سرکاری وسائل کے ضیاع اور پیکنگ سیکٹر میں بدعنوانیاں ہمارے کرپشن جائزے میں شامل نہیں، اگر یہ بھی شامل کر لیے جائیں تو یہ بات چھ سات ارب کی نہیں یہ بھی یومیہ 15 ارب روپے سے زیادہ تک جا پہنچتی ہے ۔
نیب کے دیے گئے اعدادوشمار سے اور ان کی دی ہوئی اس حتمی رپورٹ کو بہرحال کسی بھی طرح نظراندازکیا جانا سراسر بیوقوفی ہوگی جب کہ کابینہ کا اصرار ہے کہ ملک کی اقتصادی حالت ہرگز ایسی نہیں کہ اتنے بڑے پیمانے پر کرپشن کی جا سکے ۔جس ملک کا پورا بجٹ تین ٹریلین کا ہو وہاں 25سو ارب سالانہ کی کرپشن ممکن ہی نہیں ،مگر اس اعتراض پہ ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ ایسا کہیں نہ کہیں ممکن ہوا تب ہی تو نیب جیسے مستند ذرایع نے یہ اطلاع میڈیا کے ذریعے ہم تک پہنچائی ہے۔ اس حقیقت سے کون منکر ہوسکتا ہے کہ قومی خزانے کی چوری اور ملک کے مالی وسائل کی لوٹ مار ایسا ناسور ہے جو ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سمیت پورے معاشرے میں ایک خطرناک حد تک ناسور بن کے سرائیت کر چکا ہے اور پوری قوم رشوت اور مالی بدعنوانیوں کے خلاف سراپا احتجاج نظر آرہی ہے ۔ لیکن ایسا آخر کب تک ہوتا رہے گا کب تک کرپشن کے اژدہے پاکستان کو آہستہ آہستہ نگلتے رہیں گے اور ہماری قوم کب تک ہاتھ پہ ہاتھ دھرے تماشا دیکھتی رہے گی، آخر کب تک...؟ ہماری موجودہ اور آنے والی تمام حکومتیں مختلف مینڈیٹ کے ساتھ گزشتہ چھ دہائیوں سے ایک ہی کھیل کھیلتے چلی آ رہی ہیں اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ انکو کھیلنے کے لیے میدان ہم اور آپ یعنی عوام ہی مہیا کرتے ہیں مگر اب ہم جانتے بوجھتے اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کر سکتے اب اس کے خلاف ہمیں مل کر آواز اٹھانا ہوگی ۔
جب تک کوئی ٹھوس حقائق سامنے نہیں لائے جاتے حکومت اس معاملے میں کمزور وکٹ پر کھیلتی رہے گی کیونکہ نیب کے علاوہ عوام میں بھی حکومت کی ہر ڈیل میں کرپشن کی بو محسوس کی جا رہی ہے۔ پہلے کرپشن کا گراف صرف نچلی سطح پر تھا اب بلند ترین سطح تک لوگوں کے ملوث ہونے کی باتیں عام ہیں اور میڈیا تواتر سے ان کی نشاندہی کر رہا ہے جب کہ عدلیہ بھی اس کا نوٹس لے رہی ہے مگر نہ حکومت اسے روکنے میں کامیاب ہوئی ہے نہ پارلیمنٹ ہی نے احتساب کا نظام موثر بنانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر قانون سازی کی ہے۔ حکومت پر جب بھی اس حوالے سے دبائو بڑھتا ہے تو فی الوقتی کوئی کمیشن یا کمیٹی بنا دیتی ہے جس کی رپورٹ کبھی منظرِعام پر نہیں لائی جاتی۔
ایف ۔بی۔آرکے تحت جاری کردہ بل کی اسکیم سرکاری ذرایع کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بل پر دستخط کر دیے ہیں اور یہ جلد پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائیگا ۔بل کے مطابق جو شخص مذکورہ ٹیکس چھوٹ اسکیم سے استفادہ نہیں کریگا جرمانے کی شکل میں اس کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کی معطلی، نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا جانا اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001کے تحت اس کے خلاف ابتدائی جائزے کو حتمی شکل دیے جانے کی صورت میں جرمانے عائد کیے جائیں گے بلکہ مسودے میں کسٹمز ایکٹ ،سیلز ٹیکس ایکٹ ،انکم ٹیکس آرڈیننس اور فیڈرل ایکسائز ایکٹ میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں ۔پہلی ایمنسٹی اسکیم کو ٹیکس رجسٹریشن اسکیم 2012ء کا نام دیا گیا ہے، اسکیم کے تحت ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کے قومی شناختی کارڈ کینسل کر دیے جائیں گے۔ ٹیکس کی ادائیگی گوشوارے میںتین درجوں میں تقسیم ہے جو ٹیکس دہندگان اس اسکیم سے استفادہ کرینگے انھیں مزید کوئی ٹیکس یا محصول ادا نہیں کرنا ہوگا ۔
ٹیکس محتسب نے تین جنوری 2013 سے قبل جواب داخل کرنے کے لیے رجسٹرار ٹیکس محتسب کی جانب سے مختلف اداروں کو نوٹس جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ یک رکنی کمیشن کی عبوری رپورٹ کی روشنی میں جو 4دسمبر 2012کو سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے جس میں ٹیکس بچانے کے ذکر کی روشنی میں وفاقی ٹیکس محتسب نے ازخود اختیارِسماعت کیا ہے۔ کمیشن کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بعض افراد نے کھربوں روپے کا ٹیکس بچایا ہے وفاقی محتسب نے ادارے کے آرڈیننس 2000 کے سیکشن 9 کی ازخود سماعت لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔
درج بالا انکشافات سے ظاہِر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں غاصبانہ طرزِعمل عرصہ دراز سے جاری ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ مزید تیزی آچکی ہے اور موجودہ حکومت نے ان اقدامات کی پشت پناہی کی جس کی بنا پر ہمارے ملک کا اتناکثیر تعداد میں خزانہ لوٹا جا رہا ہے ۔یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو احتساب اوپر سے شروع ہو وہی کامیاب ہوتا ہے کیونکہ اس کے اثرات نیچے تک جاتے ہیں ۔ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ کسی ملک کا صدر وزیرِاعظم یا کوئی دوسرا بڑا عہدے کا طلب گار نہیں ہوتا جب تک کہ عدالت سے اپنے دامن پر لگنے والا داغ صاف نہ کرا لے۔ اگر اسی تعداد میں کرپشن کا کاروبار یونہی چلتا رہا تو پاکستان کا مستقبل ڈگمگاتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور عوام اس پر بھی خاموش تماشائی بنے رہے تو اس صورتِ حال پہ ہم یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ ۔۔۔
دیمک تنے کو چاٹتی جاتی تھی اور ہم
کتنے مگن شَجر کی نگہبانیوں میں تھے