کیا ایسے رہبر مل سکتے ہیں

وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے وہ اس پروٹوکول سے محروم تھے جو آج ایک عام وزیر کو حاصل ہے۔

shehla_ajaz@yahoo.com

''انگریز جب کسی عہدے کے لیے کسی کو اپائنٹ کرتا تھا تو وہ اس کی علمی قابلیت، انداز گفتگو، ظاہری شخصیت کے علاوہ اس کا خاندانی پس منظر بھی دیکھتا تھا کہ کیا یہ شخص اس پس منظر سے تعلق رکھتا ہے کہ وہ اس نوکری کے تقاضوں کو نبھا سکے۔ '' یہ بات مجھے ایک ریٹائرڈ تعلیمی شعبے سے متعلق افسر نے بتائی تھی۔ وہ خود بھی انتہائی سلجھی خاتون دکھائی دیتی تھیں، ان کے والد بزرگوار بھی ڈاکٹر تھے جو ایک نجی اسپتال میں علاج کی غرض سے داخل تھے، ان خاتون کی باتوں میں بڑا وزن تھا جس نے مجھے قائل کردیا۔

اس میں میری اپنی زندگی کا بھی کچھ تجربہ شامل تھا۔ ورنہ مجھے یاد ہے کہ بچپن میں اپنی نانی سے اس قسم کی باتوں سے متعلق محاورے اور ضرب المثل سنتی تھی تو مجھے کچھ کوفت سی محسوس ہوتی تھی میرا ذاتی خیال تھا کہ یہ باتیں غلط ہیں، مخمل میں ٹاٹ کا پیوند بھی لگ سکتا ہے، دودھ کا جلا ضروری نہیں کہ چھاچھ پھونک پھونک کر پیے، لیکن اب ہمارے اردگرد جو کچھ ہورہا ہے اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ہر معیار کے لیے ہر شخصیت موزوں نہیں رہتی، مثلاً عوامی نمایندوں کو ہی لے لیں ضروری نہیں کہ جو شخص نہایت خوش اخلاقی سے آپ کے دروازے پر صبح سویرے دودھ دینے آئے اور خدا اس کا ہاتھ پکڑ لے وہ ایک معمولی دودھ والے سے بڑا سیٹھ بن جائے۔

اس کی خوش اخلاقی اور پیسہ اسے ایک اچھا انسان تو ظاہر کرسکتے ہیں لیکن وہ عوامی نمایندہ بن کر عوام کی خدمت نہیں کرسکتا کیونکہ اس عوامی نمایندے کے لیے بھی کچھ معیار مقرر ہیں اور ان سے انحراف کرتے ہوئے وہ اپنی ذمے داری نبھانے کا اہل ہی نہیں ہوسکتا۔ حال ہی میں پنجاب میں ینگ ڈاکٹرز حضرات نے جو کچھ بھی اپنے سینئر ڈاکٹرز کے ساتھ کیا اسے نہ صرف ملک بھر میں سب نے دیکھا بلکہ ملک سے باہر بھی ینگ ڈاکٹرز کے اعلیٰ اخلاق سے بہت سے ناظرین و قارئین مستفید ہوئے لیکن جس جوانمردی سے انھوں نے کسی پنجابی فلم کے ہیرو کی للکار لگائی اور بزرگ ڈاکٹر کی دھنائی کی، اس سے یہ محسوس ہورہا تھا کہ عنقریب ان صاحب کا ڈاکٹری چھوڑ کر گنڈاسا پکڑنے کا ارادہ ہے۔ فلم انڈسٹری تو اب مرحوم ہوچکی ہے، شاید اسٹیج ڈرامے کی جانب سفر کا ارادہ ہے۔

اس کے بعد جس طرح ینگ ڈاکٹرز نے بیانات دیے اس سے ظاہر یہ ہورہا تھا کہ انھیں اپنے رویے پر ذرا بھی پشیمانی نہیں ہے بلکہ وہ اپنے گنڈاسے منصوبے کو مزید وسیع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ تو ہے ہمارے جواں پروفیشنل لوگوں کا حال کہ نہ زبان قابو نہ ہاتھ اپنے بس میں۔میں لیاقت علی خان شہید کے بارے میں کہیں پڑھ رہی تھی کہ وہ اعلیٰ درجے کے انسان تھے، ان میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو کسی قومی رہنما میں ہونی چاہئیں۔ وہ اعلیٰ درجے کے منتظم تھے، دیانت، شرافت اور سادگی میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ وہ ایک ایسے میرکارواں تھے جسے عوام کا بھرپور اعتماد حاصل تھا۔


شان و شوکت اور نام و نمود سے انھیں چڑ تھی۔ وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے وہ اس پروٹوکول سے محروم تھے جو آج ایک عام وزیر کو حاصل ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس جو کبھی کراچی میں کسی ریڈزون سے مزین نہ تھا کوئی غیر معمولی واقعہ ہوتا تو عوام ہجوم بناکر وزیر اعظم ہاؤس پہنچ جاتے اور آپ اپنی بالکونی پر بغیر حفاظتی انتظامات کے عوام کے احتجاج پر ان سے خطاب کرنے پہنچ جاتے، کیا لوگ تھے وہ۔ لوگ جن کے ماتھے پر اعلیٰ خاندان کا چاند چمکتا تھا لیکن دل میں لوگوں کے لیے درد رکھتے تھے، عوام کے لیے عوامی کرسی پر بیٹھے وہ لوگ عوام کے پیسے کو اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے۔

اسمبلی کے اجلاس کے دوران قائد اعظم تو چائے کے بھی روادار نہ تھے اور آج ہمارے قومی نمایندے بٹیریں، مچھلیاں، پائے، نان، بریانی، طرح طرح کے حلوے اور نجانے کیا کچھ اپنے دستر خوان پر سجائے رکھتے ہیں، اور تو اور غریب عوام کو زردہ، بریانی کا لالچ دے کر اپنے جلسے میں ہجوم جمع کیا جاتا ہے اور پھر جو ہلڑبازی مچتی ہے وہ ایک غریب قوم کی ترجمانی کرتی ہے۔ اپنے جلسے جلوسوں میں کیوں ہمارے سیاسی نمایندے بسیں بھر بھر کر لاتے ہیں، کیوں زردے بریانی کی دیگیں کھڑکتی ہیں، کیوں لالچ دیا جاتا ہے ، کیا کمی ہے جو ان نوازشات سے پوری کی جاتی ہے، یہ کبھی گیتوں کی تان تو کبھی کوئی اور ہتھیار، آئے دن یہ رجحان بدلتا جارہا ہے، عوام کو اب سڑکوں پر لانا اتنا مشکل نہیں یا ہم روز دیکھتے ہیں گیس کی لوڈشیڈنگ، پانی کی کمی، بجلی کا رونا، ہماری عوام کو سڑکیں بھرنے کے لیے کافی ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ ان کے آنسو پونچھ دیے جائیں، پھر ان کو کھانوں اور گانوں کی ضرورت نہیں رہے گی وہ خود ہی آپ کے قدم سے قدم ملاکر چلیں گے۔

کہتے ہیں کہ انداز گفتگو یعنی میٹھی زبان سے ہم دنیا کا دل جیت سکتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ میٹھے میٹھے بیانات دیتے دیتے ہمارے عوامی نمایندوں کے پاس سارا شیرہ ختم ہوچکا ہے کیونکہ اب بات میٹھی زبان سے بہت آگے جاچکی ہے۔ اب عمل کرنے کا دور ہے جو عمل کرکے دکھائے گا، عوام اس کا دم بھرے گی لیکن پھر بھی ہمارے عوامی نمایندوں کو اپنی زبان چلاتے یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کہیں ان کی تلوار سے تیز دھاری زبان کسی کا دل نہ چیر دے، اس طرح دو باتیں کھل کر عیاں ہوجائیں گی آپ کی زبان اور آپ کا خاندان۔ آج کل ہمارا میڈیا اور ہمارے صحافی جو کام کر رہے ہیں وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، انتہائی بہادری سے ایسے ایسے کام کر جاتے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر دل ڈرتا ہے اور لبوں سے خود بخود دعا نکلتی ہے۔

اب اسے ریٹنگ کی دوڑ کہہ لیں یا کچھ اور وہ ایک ایسی طاقت بن گیا ہے جسے ہم عوام کی طاقت بھی کہہ سکتے ہیں، پاکستان صحافت کے شعبے میں دنیا بھر میں ایک خطرناک اور غیرمحفوظ ملک بن گیا ہے پھر بھی ہمارے کچھ اداروں کو ان سے گلہ ہی رہتا ہے، حال ہی میں ایک بڑا نام صحافیوں کو اپنے جامے میں رہنے کا کہتے ہیں تو حیرت سے آنکھیں پھٹ جاتی ہیں۔ ایک اور ''صاحب'' نے بھی صحافیوں کو للکارا لیکن یہ ان کی بڑائی بھی ہے کہ انھوں نے فوراً ایک نہیں دو بار معافی بھی مانگ لی۔

شاید انھیں اپنے کہے پر پچھتاوا محسوس ہوا ہوگا لیکن میڈیا کے سامنے ہمارے بڑے بڑے وزیر ایسی ایسی باتیں کہہ جاتے ہیں کہ اب ایسے ٹاک شوز یا نیوز سے پہلے ''صرف بالغان کے لیے'' کا اعلان ضروری محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے ایک بڑے وزیر (اب نام کیا لوں) ڈھیر سارے چینلز کے مائیک اور کیمروں کے سامنے ایسے بیان دے رہے تھے کہ جیسے وہ سنجیدہ سیاسی بندے نہیں کیونکہ موصوفہ خاصی بے باک ہیں اور ویسے بھی ہمیں کاٹ دار زبان کے نہیں بلکہ کام کے نمایندے چاہئیں جو صرف عوام کے لیے کام کریں۔ کیا ہمیں ایسے اچھے شریف، خاندانی، دیانتدار اور نرم گو عوامی نمایندے میسر ہوسکیں گے؟ ''پیوستہ رہ شجر سے' امید بہار رکھ''۔
Load Next Story