ایک مقدس پیشے کی گھناؤنی تصویر
معاشرے میں اتنی بے حسی اور نفانفسی کی ہوا کیوں چل پڑی ہے؟
ہمارے پیارے نبی خاتم النبیین حضور اکرمﷺ سے 6 سو سال پہلے تشریف لانیوالے حضرت عیسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوۃ و السلام ایک جلیل القدر پیغمبر تھے۔ آپ کے ہاتھ پر اللہ جل شانہ نے کئی معجزات ظاہر فرمائے۔ان میں سے ایک معجزہ یہ تھا کہ آپ علیہ السلام کے ہاتھوں اللہ تعالیٰ مادر زاد نابینا کو بینا اورمرتے ہوئے کو شفا عنایت فرمایا کرتے تھے اور یہ ظاہری بات ہے کہ آپ علیہ السلام یہ خدمت اس لیے نہیں کیا کرتے تھے کہ آپ کو اس کے بدلے میں معاوضہ یا کسی قسم کا ریٹرن دیا جائے ، بلکہ یہ بطور خدمت خلق کے ہوتا تھا۔ آپ کا یہ معجزہ اتنا مشہور و معروف ہوا کہ اب تک وہ ڈاکٹر، طبیب یا معالج'جوخدمت خلق کے جذبے سے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھے، ان کا علاج کرے، اسے مجازاً 'مسیحا 'کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لقب 'مسیح' سے ماخوذ ہے۔
اس تمہید سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ہر ایم بی بی ایس کی ڈگری رکھنے والا اورہر حکمت کی سند لینے والا'مسیحا' نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ساتھ 'خدمتِ خلق' مشروط ہے۔خدمت خلق کا جذبہ ہو، تو ایک معمولی کمپوڈر اور نرس بھی مسیحا ہے لیکن اگرکسی کا جذبہ کھوٹا اور نیت میں فتور ہو تووہ چاہے طب کی کتنی ہی بڑی سندیں رکھتا ہو، مسیحا نہیں بلکہ ڈاکو اور صحت کا سوداگر ہے ...
اگر ہم انسانی زندگی کے تمام شعبوں کا اس نظر سے جائزہ لیں کہ وہ کون سے شعبے ہیں جو سود و زیاں کی تنگنائیوں سے ہٹ کرصرف خدمت کے لیے وقف ہیں تو دو شعبے فوراً ذہن میں آجاتے ہیں، ایک تعلیم و تربیت کا اور دوسرا طب کا۔ پہلے شعبے میں متعلم بغیر کسی غرض کے طالب علموں کو علم اورادب کے زیور سے آراستہ کر کے ان کو روحانی طور پر قوی اورمہذب بناتا ہے تو دوسرے شعبے میں طبیب ہر سود و زیاں سے بالاتر ہو کر بیمار جسموں پر دست شفا رکھتا ہے اور ان کے دکھ درد کو دور کرنے کی جان توڑ کوشش کرتا ہے...یہی وجہ ہے کہ تاریخ میںان دونوں شعبوں کو جو احترام اور عزت حاصل رہی ہے، وہ کسی اور پیشے کو حاصل نہیں رہی۔ اور ظاہری بات ہے کہ اس کی وجہ صرف ان کا کام نہیں بلکہ وہ بے غرض جذبہ ہے جو ان شعبوں کی بنیاد میں ہمیشہ کارفرما رہا ہے۔خصوصاً تاریخ اسلام سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی ابتدا سے آج سے دو سو سال پہلے تک کبھی تعلیم کے لیے تعلم نے یا علاج کے لیے طبیب نے معاوضے کا سوال نہیں کیا۔
لیکن آج مغربی سرمایہ دارانہ تہذیب اس حد تک ہم پر حاوی ہو گئی ہے کہ صدیوں کے آدرش اور اخلاق چند ٹکوں کی خاطر پاؤں تلے روند دیے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے تک بھی ایسی صورتحال تھی کہ عمومی طور پر معالج حضرات چاہے کتنی ہی بھاری فیس لیتے ہوں، لیکن خاص حالات میں اور خصوصی لوگوں کے ساتھ رعایت کیا کرتے تھے...وہ طبی اخلاقیات کا پیکر ہوا کرتے تھے ... جب کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ آج ملک ِ عزیز میںکچھ ڈاکٹرز جو اپنے آپ کو'' ینگ'' کے سابقہ کے ساتھ متعارف کراتے ہیں،وہ اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتا ل کر رہے ہیں، ایمرجنسی اور او پی ڈی کو تالے لگا رہے ہیں اوراسپتالوں کے شیشے توڑ رہے ہیں۔ان کا اسٹائل ایسا ہے جیسے وہ طب کے شعبے سے وابستہ نہیں بلکہ کسی فیکٹری کے مزدور ہوں جو اپنے مطالبات منوانے کے لیے فیکٹری میں تالا ڈال کر احتجاج ریکارڈ کر رہے ہیں۔ جب کہ وہ جانتے بھی ہیں کہ اس کا خمیازہ عوام کو کئی قیمتی جانوں کے زیاں کی صورت بھگتنا ہو گا۔
یہ کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ وہ ایسے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں جس کی بین الاقوامی طور پر یہ اہمیت ہے کہ خونریز جنگوں کے دوران بھی دشمن کی فوجیں اسپتالوں پر حملہ نہیں کرتیں اور اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ دشمنوں کا وہ فوجی جس کے سینے میں اپنے فوجی نے سوراخ کیا ہو، وہ بھی اگر زخمی حالت میں اسپتال میں آ جائے تو بین الاقوامی طبی اخلاقیات یہ کہتی ہیں کہ اس صورت حال میں طبیب اس کو دشمن کی نظر سے نہیں بلکہ صرف طبیب کی نظر سے دیکھے،اور اس انسانی جان کو بچانے کے لیے سر توڑ کوششیں کرے۔ اس کی ان کوششوں کو کوئی بھی غداری نہیں قرار دیتا بلکہ اس کو سراہا جاتا ہے۔
پچھلے سال مارچ میں بھی کراچی میں پیرامیڈیکل اسٹاف کی ہڑتال ہوئی تھی، جس کی وجہ سے کراچی اور اندرونِ سندھ کے ایک درجن سے زائد معصوم بچے جان سے گزر گئے تھے۔شاید یہ سفاکانہ ہڑتال پنجاب کے ینگ ڈاکٹرز کو بھا گئی کہ انھوں نے گزشتہ سال سے ہڑتالوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ہے۔سب سے پہلے انھوں نے 19جون کو پنجاب بھر میں ہڑتال کی کال دی اور اسپتالوں کو تالے لگ گئے، جس کی وجہ سے جاں بلب مریض جن میں معصوم بچے بھی ہیں، سڑکوں پر مرتے دکھائی دیے۔ میو اسپتال لاہور، الائیڈ اسپتال فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر بڑے شہروں کے اسپتالوں میں غریب لوگ بروقت علاج کی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے جان کی بازی ہارتے رہے۔بہرحال کچھ پکڑ دھکڑ ہوئی اور عارضی طور پر فوجی ڈاکٹرز بلوالیے گئے۔
اس کے بعد حکومت اور ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے اور یوں لگنے لگا کہ شاید اب مسئلہ حل ہو جائے گا۔ لیکن حالیہ ہڑتال اور گوجرانوالہ میں ینگ ڈاکٹرز کا اپنے سینئرز ڈاکٹرز پر تشدد کی گھناؤنی تصویر یہ بتا رہی ہے کہ یہ معاملہ روز بروز گمبھیر ہوتا جا رہا ہے۔ شاید ایسے عناصر ہیں جو لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے مفاہمت نہیں چاہتے۔
یہ منظر نامہ نہایت خطرناک اور افسوس ناک ہے ۔ ہم ان سطور کے ذریعے ینگ ڈاکٹرز سے درخواست کرتے ہیں کہ بے شک ان کے ساتھ زیادتی ہورہی ہوگی اور ان کے مطالبات بھی شاید صحیح ہوں لیکن اس کے ردعمل میں وہ جو کر رہے ہیں، اس نے انھیں مظلوم کے بجائے ظالم لوگوں کی فہرست میں کھڑا کر دیا ہے۔یہ کیسی سنگ دلانہ حرکت ہے کہ کسی طبیب کے سامنے ایک معصوم بچہ تڑپ تڑپ کر جان دے دے اور وہ تنخواہوں میں اضافہ اور سروس اسٹرکچر کے بینر لیے اس کے سامنے بے نیازی سے کھڑے رہیں۔ ایک عام آدمی بھی اس طرح نہیں کر سکتا تو پھر مسیحا کہلائے جانے والے ان سفیدکوٹوں والوںکے دل اتنے سیاہ کیوں ہو گئے ہیں؟
ہم یہ نہیں کہتے کہ سب ہی ایسے ہیں؟ اس ملک میں لاکھوں معالج ایسے ہیں جو مریضوں کا درد رکھتے ہیں اور اس ظالمانہ طریقۂ احتجاج کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔ سینئر ڈاکٹرز جنہوں نے اپنی زندگی اسی شعبے میں گزار دی، وہ اس صورت حال سے دل گرفتہ ہیں اوریہی نہیں بلکہ ہماری معلومات کے مطابق نوجوان ڈاکٹرز کی ایک بڑی تعداد بھی اس ہڑتال کی حامی نہیں ہے مگر ہر جگہ ایک پریشرگروپ ایسا موجود ہے جو دباؤ ڈال کر ایسی صورت حال پیدا کر رہا ہے جو عام مریضوں کی موت پر منتج ہو رہا ہے۔
اب ایک نظر ان مطالبات کی طر ف بھی ڈالتے ہیں، جو ینگ ڈاکٹرز کی ایسوسی ایشن (YDA) حکومت سے کر رہی ہے۔بقول پنجاب حکومت ینگ ڈاکٹروں نے براہ راست بی ایس پی 18پر بھرتی کا مطالبہ کیا ہے اس کے علاوہ دیگر سہولیات جن میں گھر، ٹیلی فون، پانچ ایڈوانس انکریمنٹ، پروفیسروں کے لیے دو خصوصی گرانٹ بھی شامل ہیں۔ مطالبات یہیں ختم نہیں ہوئے بلکہ-18 BSPکے ڈاکٹروں کے لیے 1000cc گاڑیوں کے لیے آسان اقساط پر قرضے، BSP-20کے لیے پٹرول کے ساتھ گاڑی اور BSP-21کے ڈاکٹروں کے لیے ڈرائیور اور پٹرول کے ساتھ 1300cc گاڑیوں کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
یہ مطالبات کتنے جائز ہیں اور کتنے ناجائز ہیں، ہم کیا کہیں ہم تو اتنا کہتے ہیں کہ ایک نوجوان ڈاکٹرجو( YDA) کا سرگرم رکن ہے، جس کی عمرستائیس سال ہے اور جوبقول خود ماہانہ چالیس سے پچاس ہزار تنخواہ لے رہا ہے، وہ اگرسمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے،اور یہ چاہتا ہے کہ اس کی خدمات کا ریٹرن اسے زیادہ ملنا چاہیے تووہ مل مزدور کی طرح تواحتجاج نہ کرے کہ شفاخانوں کو تالے لگا دے بلکہ اپنے مطالبات کے لیے پرامن مظاہرے کرے، میڈیا کے ذریعے اپنی آواز بلند کرے ۔ مریض کشی کی بجائے مریضوں کو اپنا ہم نوا بنائے تو پوری امید ہے کہ نیک نامی کے ساتھ اسے اپنے مقصد میں کامیابی بھی حاصل ہو جائے گی۔
معاشرے میں اتنی بے حسی اور نفانفسی کی ہوا کیوں چل پڑی ہے؟ اگر غور کیا جائے تومعلوم ہو گا کہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کی نحوستیں ہیں جس نے کسی آکٹوپس کی طرح ہمارے ہر شعبے کو بری طرح جکڑ لیا ہے ۔ اب الا ماشاء اللہ ہر فرد کا مقصود ومطلوب صرف پیسہ ہے ، چاہے وہ کسی کے خون کی ہولی کھیل کر حاصل ہو یا عزتوں کا سودا کر کے !