این آر او‘ جمہوریت اور لانگ مارچ

اب یہ تاریخ اس طرح جھٹلائی جارہی ہے جیسے موجودہ حکمرانوں نے ایک آمر کو مار بھگایا۔

anisbaqar@hotmail.com

پاکستان میں جمہوریت کی تاریخ کوئی مخصوص تاریخ نہیں بلکہ پاکستان میں جمہوریت کی موجودہ صورت ایک اتفاقی عمل کے سوا کچھ نہیں،مسلم لیگ ن نے اپنے جمہوری دور میں عدلیہ کے ساتھ کیا سلوک کیا یہ تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں، پھر پرویز مشرف نے پاکستان میں اقتدار سنبھالا اور تقریباً دس برسوں پر مشتمل حکومت کی، محض ایک فاش سیاسی غلطی جو انھوں نے چیف جسٹس کو ہٹانے کے لیے کی وہ ان کے اقتدار کو لے ڈوبی۔ یہ جدوجہد نہ کسی سیاسی پارٹی نے کی اور نہ ہی اس کا سہرا سیاسی پارٹیوں کے سر ہے۔

یہ وکلاء کی جدوجہد تھی جس نے جمہوریت بحال کرائی موجودہ جمہوری نظام تو محض ایک اتفاق کا نتیجہ ہے۔ ورنہ پاکستانی سیاست داں ملک بدر تھے اور مغربی دنیا میں اپنی لابی کے ذریعے جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کر رہے تھے۔ امریکا اس نام نہاد ڈرون حملے والی جمہوریت کا معمار ہے۔ یہ جمہوری خدوخال امریکا اور برطانیہ کے حکمرانوں اور پاکستانی لیڈروں کے مابین ایک ڈیل کا نتیجہ ہیں۔ یہ ڈیل برس ہا برس کی گفت و شنید کا نتیجہ ہے جس سے ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز (Stake Holders) واقف ہیں اور پاکستان میں جنرل پرویز مشرف کو گارڈ آف آنر پیش کرکے رخصت کیا گیا۔

اب یہ تاریخ اس طرح جھٹلائی جارہی ہے جیسے موجودہ حکمرانوں نے ایک آمر کو مار بھگایا۔ ایسے موقعے پر جب آج سیاسی تبصرہ نگار گفتگو کرتے ہیں تو ماضی کا یہ لین دین جیسے پیش ہی نہیں آیا۔کون نہیں جانتا کہ موجودہ جمہوری نظام نیٹو ممالک کے رہنماؤں کی آشیرباد کا منطقی انجام ہے۔ کون اس سے ناواقف ہے کہ امریکا میں پاکستانی حکمران پی آر اور لابی کے نام پر ایک خطیر رقم خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ حکومت پر براجمان رہیں اور یہ جوڑ توڑ کرکے پاکستان کے حاکم بنتے ہیں اسی لیے یہ حاکم کوئی ایسا قدم اٹھانے کی ہمت نہیں رکھتے جو ملکی مفادات کے تحت کام کرسکیں بعض بنیادی نوعیت کے مسائل خصوصاً انرجی نے پاکستان کی معاشی شہ رگ کاٹ کر رکھ دی ہے مگر اس کو حل کرنے کی جرأت پاکستان کے جمہوری نمایندوں میں نہیں ہے۔

حالیہ پاک ایران معاہدہ جو گیس سے متعلق تھا اس پر ایران اور پاکستان کے درمیان معاملہ طے ہونا تھا ان بدترین حالات میں بھی عملی جامہ نہ پہن سکا جب کہ پاکستان کی گارمنٹ انڈسٹری خاتمے پر ہے، فیصل آباد میں 500 کے قریب فیکٹریاں گیس کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بند ہیں مگر مغربی ممالک کے دباؤ کے نتیجے میں یہ معاہدہ ممکن نہ ہوا اور کوئی تبصرہ نگار یہ جرأت نہیں رکھتا کہ وہ یہ حقیقت عیاں کرے کہ موجودہ حکمرانوں کو یہ جمہوری اقتدار ان تمام عالمی یقین دہانیوں اور وعدوں کو وفا کرنے کی بنیاد پر این آر او کی شکل میں ملا ہے۔

پھر بھی کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ غیرملکی ایجنڈا تھا یا ملکی ایجنڈا۔ ڈرون حملوں پر حکمران عوام کو بے وقوف بناتے ہیں کہ ہماری وحدت پر آزادی پر حملہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت کو غیر ملکی مفادات پر ملکی مفادات قربان کرنے پر حکومت ملی ہے تو پھر طاہر القادری کی آمد پر یہ شور کیوں برپا ہے، یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایسی جمہوریت جو عوام کو جمہوری فوائد دلانے کی قوت نہیں رکھتی وہ ہمارے ملک میں اس لیے ممکن نہیں کیونکہ موجودہ نام نہاد جمہوری ریاست ملکی مفادات پر کامل دسترس نہیں رکھتی بلکہ یہ تو ان کے مفادات کو اول اور اپنے مفادات کو دوم درجہ پر رکھتی ہے۔

مولانا طاہر القادری کے لانگ مارچ پر جس قسم کا شور و غل برپا ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کسی مغربی ملک نے کوئی حملہ کردیا ہو اور ایسا حملہ جو پاکستان کی حکومت کے خلاف کوئی راست اقدام کردیا ہو۔ حکمران اگر خود اپنے آپ کو ریاستی آئینے میں دیکھیں تو ہر چیز واضح ہوتی جائے گی اور ان کی شبیہہ واضح ہوجائے گی۔ کراچی میں اوسطاً سالانہ 2500افراد کی موت، 5000 افراد کا زخمی ہونا، کئی سو افراد کا اغواء اور ایسی ہی صورت حال پر کوئی شخص بولنے کو تیار نہیں ہے۔ اگر ایسی ہی اتحادی حکومت اگلے پانچ سالوں کے لیے پھر حکومت کرتی ہے تو لوگوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور معاشی بہتری کی کیا ضمانت ہے؟ ملک کے نظم و نسق، مالی بحران اور ملکی اداروں کی جانب سے یوٹیلیٹی اداروں کے اربوں روپے کی واجب الادا رقوم اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملک بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔


تعلیم کی مد میں پاکستان کے اخراجات افریقی ممالک سے بھی کم ہیں اور جو ادارے ملک میں علم کی شمع روشن کر رہے ہیں ان کی پرفارمنس بھی ناقابل بیان ہے۔ ہر شعبہ انحطاط پذیر ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں قدرت کی جانب سے خود ایک عمل معرض وجود میں آتا ہے جو خلا حکومت نے پیدا کیا ہے وہ کوئی نہ کوئی قوت تو پر کرے گی۔ ایسے موقعے پر جمہوریت کے راگ الاپنے والے ملک کو مزید سنگین بحرانوں میں ڈالنا چاہتے ہیں جس کے نتیجے میں ملک مزید اقتصادی بحرانوں سے دوچار ہونے والا ہے۔ اگر آپ کو یاد ہو تو این آر او جو پاکستانی جمہوریت کی اصل روح ہے یہ دنیا کی کسی جمہوریت سے مشابہہ نہیں۔

این آر او میں اول یہ بھی طے ہوگیا تھا کہ پہلے جمہوریت کا حقدار اور حکمرانی پی پی پی کو ملے گی اور دوسری بار جمہوریت کی چابی (ن) لیگ کے پاس ہوگی۔ گزشتہ 5 برس کا جمہوری چہرہ عوام نے دیکھ لیا ہے اور اب 5 برس (ن)لیگ کے ہیں ان جماعتوں سے منسلک بہت سے ادارے ہیں جو خودساختہ اسٹیک ہولڈرز ہیں ان کی جانب سے بھی این آر او برانڈ جمہوریت کی وکالت کی جا رہی ہے۔ جوں جوں 14 جنوری کا دن قریب آرہا ہے این آر او برانڈ جمہوریت کو زبردست خطرہ لاحق ہوگیا ہے اور اب تو حکومت کے ساتھی بھی اس جمہوریت کو فرسودہ جمہوری نظام سے تعبیر دے رہے ہیں۔

آئین کے پاسدار گزشتہ 5 برسوں میں آئین کی مزید تشریحات اور وضاحت جن کا اطلاق آئین کی دفعہ 62 اور 63 سے ہے ان پر کوئی کام نہیں کیا گیا۔ لہٰذا پاکستان میں اصولی جمہوری اقدار کی سیاست کو فروغ ملنے کے بجائے مزید کرپشن داخل ہوتا گیا۔ اعتراض کرنے والے گروہ کا یہ شوروغل ہے کہ ایک کینیڈین نیشنل ان کے ملک میں مداخلت کر رہا ہے۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ جب قائد اعظم نے کانگریس چھوڑ دی اور وہ لندن چلے گئے، دوبارہ مسلم لیگ میں شامل ہوئے تو بعض کانگریسی لیڈر ایسی ہی گفتگو کیا کرتے تھے، مگر بات اصولوں کی نہ تھی جو ایجنڈا پبلک میں مشہور اور قابل تائید ہوجائے اس پر سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرنا بے سود ہوجاتا ہے۔ اگر لوگوں کو اعتراض کرنا ہے تو این آر او برانڈ جمہوریت پر کیوں نہیں کرتے، کرپٹ حاکم جو نہ انکم ٹیکس دیتے ہیں اور نہ جمہوریت قدروں کو سمجھتے ہیں محض ایک فرسودہ تسلسل کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ امریکا اور برطانیہ میں بیٹھ کر جمہوری حکومت کو تشکیل دینا یہ کن جمہوری اصولوں کو پروان چڑھانے کے مترادف ہے۔ ان غیر ملکی آقاؤں کے زیر اثر پاکستان میں جمہوریت پروان چڑھ رہی ہے مگر این آر او کے تحت جو حکومت چل رہی ہے تبصرہ نگار مدح خوانی کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔

ملکی معیشت کے ساتھ مذاق ہورہا ہے ایسا لگتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر کوئی بحران آگیا ہے۔ رات دن اسلام آباد میں کس قدر لوگ جمع ہوں گے ان کا یقین کرنا، مذاق اڑانا بس یہی کچھ دکھایا جا رہا ہے۔ نہ طالب علمی کے زمانے میں یہ کوئی اسٹوڈنٹس لیڈر تھے اور نہ عوامی رجحانات سے واقف کہ خلق خدا کس قدر ان جمہوری طریقوں سے پریشان ہے۔ آنے والے دنوں میں گھروں کے چولہے بند ہونے والے ہیں، مگر گیس کی تلاش ان کا ایجنڈا نہیں بلکہ اپنی آل اولاد کو حاکم بنانے میں مصروف ہیں اور ہر ایک بدنما داغ دامن پر لگائے حکمران بننے کی کاوش میں مصروف ہیں۔

اب جو کچھ اسلام آباد میں ہونے کو ہے وہ اس نام نہاد جمہوریت پر ضرب کاری لگائے گا ہر محب وطن ملک بچانے کے لیے سرگرداں ہے کیونکہ یہ ان کی آخری امید ہے۔ جس کے خلاف یہ پروپیگنڈا ہے کہ یہ کینیڈین برانڈ جمہوریت ہے۔ اگر یہ کینیڈین برانڈ جمہوریت بھی ہے تو عوام سکھ کا سانس لیں گے، کیونکہ کینیڈا میں سوشل سیکیورٹی، بے روزگاروں کے لیے الاؤنس، ہیلتھ اور تعلیم کی جو سہولیات وہاں موجود ہیں دنیا بھر میں کہیں نہیں۔ اسی لیے لوگ کینیڈا کی شہریت کے حصول میں رات دن خصوصاً نوجوان طبقہ کینیڈا جانے میں مصروف ہے۔ جمہوریت کا این آر او برانڈ دنیا کا بدترین برانڈ ہے۔ اس کے سدھار کے لیے جس قدر بھی کوشش کی جائے کم ہے۔

تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتشؔ
گل مراد ہے منزل میں خا رراہ میں ہیں
Load Next Story