آٹو موبائل تجارتی پابندیاں ڈبلیو ٹی او قوانین کی خلاف ورزی ہیں

ختم کی جائیں،مقامی آٹوانڈسٹری 5سال پرانی گاڑیوں کی کلیئرنس سے متعلق غلط بیانی کررہی ہے


Business Reporter January 11, 2013
جولائی تا دسمبر 31 ہزار671 گاڑیاں درآمد، 20 ارب روپے کے محصولات دیے، موٹر ڈیلرز فوٹو: فائل

آل پاکستان موٹرڈیلرز ایسوسی ایشن نے آٹو موبائل انڈسٹری پر تجارتی قدغن کو عالمی تجارتی قوانین (ڈبلیو ٹی او) کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے حکومت سے 31 دسمبر 2012 کے بعد آٹو موبائل کے شعبے کے لیے تمام امتیازی پابندیوں کا ڈبلیو ٹی او قوانین کی روشنی میں ازسرنو جائزہ لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد کے مطابق ڈبلیو ٹی او قوانین کے تحت 31 دسمبر 2012 کے بعد آٹو موبائل کے شعبے پر امتیازی پابندیاں عائد نہیں کی جاسکتیں اور ڈبلیو ٹی او کے رکن کی حیثیت سے پاکستان بھی ان قوانین کا پابند ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقامی آٹو انڈسٹری عوام سے ان کا بنیادی حق چھیننے اور انڈسٹری پر اجارہ داری قائم رکھنے کیلیے ڈس انفارمیشن پھیلارہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ای سی سی کی جانب سے 22 نومبر کو پانچ سال پرانی کاروں کی کلیئرنس کیلیے مقرر کردہ 15 دسمبر 2012 کی تاریخ کے بعد کلیئر کی جانے والی پانچ سال پرانی کاروں کے بل آف لیڈنگ 15 دسمبر 2012 سے قبل جاری کیے گئے تھے اور 15 دسمبر کے بعد بل آف لیڈنگ کی حامل کوئی گاڑی اس اسکیم کے تحت کلیئر نہیں کی گئی۔



جولائی تا دسمبر 2012 کے دوران گفٹ، بیگیج اور ٹرانسفر آف ریزڈینس اسکیم کے تحت مجموعی طور پر 31 ہزار 671 گاڑیاں درآمد کی گئیں جن پر حکومت کو ڈیوٹی اور ٹیکسز کی مد میں 20 ارب روپے کے محصولات ادا کیے گئے، صرف کسٹم ڈیوٹی کی مد میں ان گاڑیوں سے حکومت کو 11 ارب 30 کروڑ روپے کی آمدن ہوئی، گاڑیوں کی درآمد کیلیے عمر کی حد 3 سال کیے جانے کے ساتھ فرسودگی الائونس بھی کم ہوکر 2 سال تک محدود ہوگیا ہے جس سے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کیلیے اپنی محنت کی کمائی قانونی ذریعے سے کاروں کی شکل میں وطن روانہ کرنے کی سہولت بے سود ہوگئی ہے اور استعمال شدہ کاروں کی درآمد مکمل طور پر بند ہونے کا خدشہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹینڈنگ کمیٹی برائے تجارت و خزانہ، پبلک اکائونٹس کمیٹی کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات بالکل طور پر درست ہیں اور صارفین کیلیے گاڑیوں کی چوائس ان کا بنیادی جمہوری اور آئینی حق ہے جس سے حکومت کو بھی 40ارب روپے کے محصولات حاصل ہوسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں