سود کا خاتمہ کیوں اور کیسے…
جب سونے اور چاندی کے سکّے وجود میں آئے تو دو طبقے بھی قائم ہوگئے
سابق صدر مملکت جنرل ضیاء الحق مرحوم کے عہدِ حکمرانی سے آج تک مملکتِ خداداد پاکستان کی طرزِ معیشت کو ''سود'' سے پاک کرنے کی نیم دلانہ کوششیں جاری ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔ کونسل نے اگر کوئی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں تو میرے علم میں نہیں۔ میں ان دنوں سندھ مسلم کالج میں معاشیات اور تجارت کی نصابی تعلیم پر مامور تھا۔ اہلِ ایمان ہونے کے سبب میں نے بھی اپنی اہلیت اور لیاقت کے مطابق حکومتِ وقت کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بغیر کسی داد و دہش کی تمنّا کے ''معاشیات اسلام'' کے نام سے کتاب لکھی جو 78 میں شایع ہوئی۔
ایک مزید کتاب ''اسلامی اصول تجارت، شرکت و مضاربت'' تحریر کی جو 1985 میں شایع ہوئی۔ میں 1991 میں ملازمت سے ریٹائر ہوچکا ہوں۔ میری تحریر کا مقصد بجز حکومتِ وقت اور ماہرینِ معاشیات کی توجہ ''سود سے معیشت کو پاک کرنے کی طرف'' مبذول کرانے کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ ''کاروبار کی مختلف صورتیں'' کے عنوان سے کتاب ''معاشیات اسلام'' کا اقتباس ملاحظہ کریں:
''اسلامی معیشت میں کاروبار کی تین مختلف صورتیں بتائی گئی ہیں، جنھیں ہم کاروباری تنظیم بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ تین صورتیں مندرجہ ذیل ہیں:
(1) نجی کاروبار: ایک شخص جو کاروبار میں روپیہ لگاتا ہے وہ اپنے کاروبار کو خود ہی قائم رکھنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اپنی نگرانی میں کاروبار کو جاری رکھنے کی بھی کوشش کرتا ہے۔ کسی دوسرے فرد کو کاروبار میں شریک نہیں کرتا ہے۔ اس قسم کے کاروبار کو ''نجی کاروبار'' کہا جاتا ہے۔ ایسے کاروبار میں نفع اور نقصان کا ذمے دار بھی ایک فرد ہی ہوتا ہے۔ اس کے معاوضے میں منافع اور اس کی اجرت بھی شامل ہوتی ہے۔
(2) شراکت داری: دوسری صورت میں چند افراد متفقہ طور پر کسی کاروبار میں سرمایہ لگاتے ہیں۔ مشترکہ طور پر اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور مشترکہ طور پر اس کاروبار کے نفع اور نقصان میں شریک ہوتے ہیں۔ اس قسم کے کاروبار کو ''شراکت داری، کہا جاتا ہے۔ فقہہ کی اصطلاح میں اسے ''شراکت العقود'' کہا جاتا ہے۔
(3) مضاربت: تیسری صورت کاروباری تنظیم کی ''مضاربت'' ہے یعنی کسی کاروبار میں ایک شخص سرمایہ لگاتا ہے اور دوسرا شخص کاروبار کے نظم و نسق کی ذمے داری قبول کرتا ہے۔ کاروبار کے نفع اور نقصان میں دونوں شریک ہوتے ہیں۔ فقہہ کی اصطلاح میں ایسا کاروبار ''مضاربت'' کہلاتا ہے۔ ایسے کاروبار میں سرمایہ لگانے والے کو منافع اور نظم و نسق کی ذمے داری قبول کرنے والے کو اجرت دی جاتی ہے۔ نقصان ہونے کی صورت میں سرمایہ دار کا سرمایہ ضایع ہوتا ہے اور منتظم کی اجرت ضایع ہوتی ہے، جو شخص سرمایہ لگاتا ہے اسے ''رب المال'' اور جو شخص کاروبار کو منظم کرتا ہے اسے ''مضارب'' کہا جاتا ہے۔''
اسلام نے کسب معاش کے دو طریقے بتائے ہیں: (1) زراعت (2) تجارت، صنعت و حرفت۔ ان دونوں صورتوں میں افرادی یا مشین کی قوت کو شامل کرلیں تو کسب معاش کی تیسری صورت ملازمت ہے جس کے لیے علم وحکمت کی تبلیغ و ترویج ضروری ہے۔
اسلام عوام النّاس کو دو طبقوں میں تسلیم کرتا ہے۔ ایک طبقہ وہ ہے جو زکوٰۃ ادا کرنے کا پابند ہے یعنی ''صاحب نصاب'' ہے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو صاحب نصاب نہیں ہے یعنی زکوٰۃ دینے کا اہل نہیں ہے۔ ''کھانا، کپڑا اور مکان'' کسی کو میسر ہے تو صاحبِ نصاب نہیں ہے۔ ہاں اگر ایک مکان کے بجائے دو مکانات کا مالک ہے تو وہ ''صاحب نصاب'' ہے اور اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جس کے پاس 7-½ تولہ سونا یا 52-½ تولہ چاندی ہے یا ان کی قیمت کے برابر اشیائے زیبایش و نمایش یا تعیش مثلاً ٹیلی ویژن یا کمپیوٹر، کار ہے تو وہ صاحبِ نصاب متصور ہوگا۔
اسی طرح ''قرض'' کا لین دین فعل مکروہ ہے، بجز ''قرض حسنہ'' کے یعنی کسی کی اگر مالی معاونت کرنی ہو تو فی سبیل اﷲ ہونی چاہیے، مشروط نہیں ہونی چاہیے۔
ہم تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ جب سونے اور چاندی کے سکّے وجود میں آئے تو دو طبقے بھی قائم ہوگئے۔ قبل از اسلام کے معاشی نظام پر نظر ڈالیں تو ہمیں بے شمار معاشی محرکات نظر آتے ہیں لیکن سب سے زیادہ محرک زر (Money) نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے بازار میں خرید و فروخت کی جاسکتی ہے ''زر'' ہے (کرنسی نوٹ، تمسک، ہنڈی، کریڈٹ کارڈ وغیرہ زر میں شمار ہوتے ہیں) جب تک سونے اور چاندی کے سکّے بازار میں نہیں تھے، لوگ اشیا کے عوض اشیا تبدیل کرکے اپنی ضروریات پوری کیا کرتے تھے جسے عرفِ عام میں ''بارٹر سسٹم'' کہا جاتا ہے۔ آج بھی ملکوں کے درمیان باہمی رضامندی سے ''بارٹر سسٹم'' کے تحت تجارت کی جارہی ہے۔
جن دو طبقوںکا ذکر کیا گیا ہے اس میں ایک طبقہ وہ ہے جو سونے اور چاندی کے سکّوں کی تجارت کرتا ہے اور دوسرا طبقہ وہ ہے جو اجناس یا اشیاء کی تجارت کرتا ہے۔ قبل از اسلام یونان اور روم میں اس زمانے میں رائج طریقے پر سکّوں کی تجارت معبدوں کے راہب اور گرجا کے پادری کیا کرتے تھے۔ چونکہ ان پر عام تاجر اعتماد کیا کرتا تھا۔ اس طرح بینک کی ابتدا ہوئی۔
چھٹی صدی عیسوی میں اﷲ تبارک تعالیٰ نے اپنے پیغمبر آخری الزماں حضرت محمد صلّى الله عليه وسلّم کو مبعوث فرمایا تو دنیا کفر و الحاد میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اہل عرب جس کا ذریعۂ معاش تجارت تھا، یہ تین سو ساٹھ قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔ خانہ کعبہ ہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔ ہر قبیلے کا ایک بت کعبہ میں نصب تھا۔ زائرین اپنی حاجت روائی کے لیے اپنے پسندیدہ بت کو ''نذرانے'' دیا کرتے تھے۔ ان میں مختلف ممالک کے سکّے اور قیمتی اشیاء شامل ہوتی تھیں۔ اس طرح اہل عرب میں دو طبقے موجود تھے، ایک وہ جو سکّہ کا لین دین کرتا تھا اور ایک وہ جو اشیاء کی تجارت کرتا تھا۔
اشیاء کی تجارت کرنے والے سکّہ کی تجارت والوں سے مطلوبہ سکّے قرض لیا کرتے اور انھیں قرض لی ہوئی رقم سے زیادہ قرض دینے والوں کو ادا کرنا پڑتا تھا، جسے عرفِ عام میں سود کہا جاتا ہے۔ ان دنوں سرمایہ بڑے وسیع معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عہد رسالت میں سرمایہ سکّہ رائج الوقت سمجھا جاتا تھا۔ اشیائے صرف (زرعی اجناس، دست کاری اور آرام و آسایش) کی تجارت کرنے والوں کے مرہون منت ہوا کرتے تھے، جو ''سود'' پر تاجروں کو رقم (سکّہ) دیا کرتے تھے۔ ابتدا میں کاروبار کے لیے رقم مہیا کرنے والے چند افراد ہوا کرتے تھے جو بعد ازاں بینک کی صورت میں تبدیل ہوگئے۔
(جاری ہے)