ترقی کاپہلازینہ
ہال میں پندرہ سولوگ انتہائی مہذب اورقرینے سے بیٹھے ہوئے تھے
ہال میں پندرہ سولوگ انتہائی مہذب اورقرینے سے بیٹھے ہوئے تھے۔بہترین کپڑے پہنے ہوئے،زیادہ افراد سفیدبالوں والے تھے۔سنجیدہ بلکہ بہت زیادہ سنجیدہ۔ دنیا کے بہترین سائنسدان۔فزکس اورکیمسٹری کے پروفیسر، امریکی یونیورسٹیوں کے عمائدین اورمحققین۔1998ء میں ہونے والی تقریب میں دوسابقہ امریکی صدوربھی خاموشی سے مہمان خصوصی کاانتظارکررہے تھے۔جمی کارٹر اور جیرلڈ فورڈاپنے خاندان کے ساتھ ہال کے درمیان میں براجمان تھے۔تمام لوگ ایک عظیم مسلمان سائنسدان احمدزیوائل (Ahmed Zewail)کے منتظرتھے۔
مقررہ وقت پر احمد تمکنت سے چلتاہواہال میں داخل ہوا۔دنیاکے سائنسدان اورامریکی صدور احترام میں کھڑے ہوگئے۔جب تک احمد بیٹھا نہیں،تمام حاضرین خاموشی سے ساکت کھڑے رہے۔یہ تقریب امریکا میں ایک مصری سائنسدان کے لیے منعقد کی گئی تھی۔اس میں بینجمن فرینکلن ایوارڈدیاجاناتھا۔ اعزازاحمدزیوائل کووقت کی قائم شدہ تھیوری میں ایک نئی جہت دریافت کرنے پرملاتھا۔معمولی سی شکل وصورت کا حامل یہ انسان ہرگزہرگزمعمولی نہیں تھا۔کم گواحمد فزکس اور کیمسٹری کی جدیددنیاکابادشاہ تسلیم کیاجاتاہے۔
1999ء میں کیمسٹری کانوبل پرائزبھی دیاگیا۔سائنس کی دنیامیں یہ مصرکوملنے والا پہلا اعزاز تھا۔ نوبل پرائزکی تقریب میں سویڈن کے بادشاہ نے ایوارڈ دینا اپنے لیے باعث توقیر قرار دیا۔2009ء میں امریکی صدر بارک اوباما نے وائٹ ہاؤس مدعوکیا۔ اس عظیم شخص کو درخواست کی کہ اسلامی دنیا میں سائنس کے فروغ کے لیے کام کرے۔ایک پُل بن جائے جوتحقیق کومسلمان معاشروں کے ساتھ جوڑ دے۔ مرتے دم تک احمدزیوائل یہ کام کرتارہا۔اس نے تقریباًتمام مسلمان ممالک کے دورے کیے۔انھیں سائنس اورتحقیق کی دنیاکی طرف توجہ کرنے کی درخواست کی۔کئی جگہ مسلمان سیاسی قائدین نے اس کی بات سنی۔مگراکثرجگہ اس کی معقول بات کودل سے قبول نہیں کیاگیا۔صرف اسلیے کہ نناوے فیصدمسلم ممالک میں قائدین سونے کی ناجائزکان پربیٹھے ہیں۔ان کے لیے علم اورتحقیق بالکل بے معنی سے کام ہیں۔
پاکستان کی طرف آئیے۔سماجی سائنس میں اختر حمید خان کانام دنیاکاہرپڑھالکھاانسان جانتاہے۔ایک حیرت انگیزانسان جس نے انسانی ترقی کوبنیادی طورپرمکمل تبدیل کرڈالا۔اس نے نہ صرف نئی تھیوری پیش کی۔بلکہ عملی طور پر ایک نمونہ پیش کیا،جوآج تک سندکی حیثیت رکھتا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے مزدوروں کی طرح کام کیا۔سماجی تفریق سے بالکل بے نیازہوکرثابت کیاکہ دراصل ترقی توصرف اس وقت ممکن ہے جب اسے نچلی ترین سطح پرپذیرائی ملے۔ جب غریب آدمی کواحساس ہوکہ اسے فیصلہ کرنے کی قوت حاصل ہے۔ آوازکوبھی سناجارہاہے اوراسے اہمیت حاصل ہے۔
یہ ہمارے سیاسی قائدین اوررہنماؤں کے بالکل برعکس کام تھا۔بلکہ متضادتھا۔بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اختر حمیددراصلI.C.Sافسرتھے۔یہ طبقہ دراصل حکومت کر رہا تھا۔آج کل تصوربھی نہیں کیاجاسکتاکہI.C.Sافسرکس قدر بااختیارلوگ تھے۔مگراخترحمیدخان طبعاًدرویش تھے۔انھیں عام آدمی کی زندگی اوربے بسی کااحساس1943ء میں بنگال کے قحط میں ہوا۔یہ بھی شدت سے احساس ہواکہ سرکارکبھی بھی عام انسان کی بہتری نہیں کرسکتی۔یہ فکر ذہن میں راسخ ہوگئی۔سول سروس کواپنے لیے ایک پنجرہ سمجھتے تھے۔یہ وہ دور تھاجب بہت کم مسلمان اس طاقتورگروپ کاحصہ تھے۔آج کل کی سول سروس اورآئی سی ایس کامقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ خودڈی ایم جی کاحصہ ہوں۔مگراس پہلوپرکسی اوروقت لکھونگا۔بلکہ ضرورلکھوں گا۔
کیونکہ جس طرح گروہ بندی، سیاسی غلامی اورکرپشن نے اس گروپ کونقصان پہنچایا ہے، اسے غیرجانبدارطریقے سے بیان کرناضروری ہے۔ مشرقی پاکستان میں کومیلہ پائلٹ پروجیکٹ شروع کیاجو پوری دنیاکے لیے ایک مثال بن گیا۔یہ خیال اخترحمیدکاتھاکہ گاؤں میں ہرچیز رہنے والوں کی مرضی سے ہونی چاہیے۔ صاف پانی،نکاس کانظام،کلینک،اچھے بیج کی فراہمی یعنی سب کچھ مقامی لوگوں کے ساتھ ملکرکرناچاہیے۔انھوں نے ہی مائیکروفائنانس کاآغازکیا۔یہ پروجیکٹ دیکھنے کے لیے پوری دنیاسے لوگ آنے شروع ہوگئے۔ماڈل کوامریکا اوریورپ کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھاناشروع کردیاگیا۔بنگلہ دیش کے قیام کے بعد کراچی آگئے۔وہاں اس آدمی نے اورنگی پراجیکٹ شروع کردیا۔وہ بھی پوری دنیاکے لیے مثال بن گیا۔ اپنے عظیم کام کی بدولت اَن گنت اعزازی ڈگریاں دی گئیں۔غیرملکی حکمران ان سے ملنااعزازسمجھتے تھے۔
ان کے بنائے ہوئے ترقی کے ماڈل کوپوری دنیامیں مثال کے طور پر اپنالیاگیا۔مجھے ان سے ملنے کاصرف ایک دفعہ اتفاق ہوا۔ سول سروسزاکیڈمی میں تربیت کے دوران ہمارے بیچ کو کراچی لے جایاگیا۔وہاں اورنگی پائلٹ پراجیکٹ دیکھنے کا موقعہ ملا۔منصوبہ توخیربے مثال تھاہی مگراخترحمیدبذات خود بھی ایک حیرت انگیزشخصیت کے مالک تھے۔انتہائی سادہ بلکہ سادہ سے بھی نچلی سطح کے کپڑے زیب تن کیے ہوئے، ایک ایساقدآورشخص جس سے ملنابذات خودایک اعزاز تھا۔ آج تک یادہے۔
استری سے بے نیازویسٹ کوٹ پہن رکھاتھا۔دولت سے دوراورشہرت سے گھبرایاہواایک ایسا شخص،جودنیامیں بلاتفریق مذہب،غریب اورناتواں طبقہ کی خدمت کرنے کے لیے پیداہواتھا۔اخترحمیدکونوبل پرائزکی فہرست میں شامل کیاگیا۔مگرانھیں نوبل پرائزنہیں دیا گیا۔ مگراخترحمیدتووہ انسان تھاجوہماری جیسی قوم کے لیے بذات خود ایک نوبل پرائزتھا۔آج کل ان کی نقل کرتے ہوئے کئی لوگ سماجی کام کرنے میں مشغول ہیں۔وہ بہترین کپڑوں میں ملبوس ہوکرتقریبات میں اپنی واہ واہ کرواتے ہیں۔ لینڈ کروزرسے کم گاڑی پرسفرنہیں کرتے۔ان میں سے کوئی بھی اخترحمیدجیساسماجی کارکن بلکہ سماجی سائنسدان نہیں ہے۔ اپنے نفس کومارناہرخاص وعام کاکام نہیں۔ اختر حمیداپنے نفس پرحاوی ہوچکاتھا۔اس جیسا قدآور شخص شائدہمارے نصیب میں دوبارہ نہیں ہے۔
فضل الرحمان کاتعلق اس پاکستان سے ہے جواب دولخت ہوچکاہے۔مشرقی پاکستان میں پیداہونے والایہ بنگالی شخص ڈھاکا یونیورسٹی میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرتارہا۔سمجھ میں نہیں آرہاکہ اسے پاکستانی لکھوں،سابقہ پاکستانی لکھوں یابنگلہ دیشی لکھوں۔بہرحال جب فضل الرحمان نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی تووہ حصہ پاکستان ہی میں تھا۔اسکالرشپ پرامریکا جانے والایہ نوجوان انجینئرنگ کی دنیاکاایک عظیم سائنسدان بن کراُبھرا۔فضل الرحمان نے بلندقامت عمارتیں بنانے کاطریقہ کارمکمل طور پر تبدیل کرڈالا۔اس نے ٹیوب سسٹم کی بنیادرکھی جس سے پہلی بارشگاگومیں38منزلہ تجارتی عمارت بنائی گئی۔پوری دنیایہ ماڈل دیکھ کرششدررہ گئی۔امریکی انجینئرسوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ٹیوب سسٹم اس درجہ کامیاب ہوگا۔فضل الرحمان نے اس کے بعدپیچھے مڑکرنہیں دیکھا۔1974ء میں110منزلہ سیئرزٹاورکاخالق بھی فضل الرحمان تھا۔
1500فٹ بلندیہ عمارت بیس سال تک ایک نمونہ کے طور پرپیش کی جاتی رہی۔یہ فضل الرحمان ہی تھا،جس نے سعودی عرب میں105ایکٹرکے حج ٹرمینل کا ڈیزائن بنایا۔لوگ اسے"تعمیراتی شعبہ کاآئن سٹائن"کہتے تھے۔انتقال کے بعدشگاگومیں ایک سڑک کو فضل الرحمان سے منسوب کیا گیا۔پوری دنیامیں اسے ہروہ انعام اوراعزازملاجوکسی بھی انسان کاخواب ہوسکتاہے۔آج بھی بلندترین عمارتوں میں اس شخص کی سائنس تحقیق اورتھیوری استعمال ہوتی ہے۔ ڈاکٹرمحبوب الحق وہ اقتصادی ماہرتھے،جنہوں نے ترقی میں انسانی معیارزندگی کوسائنسی اعتبارسے شامل کیا۔ترقی میں ہیومن انڈکس اسی عظیم ماہراقتصادیات کاکارنامہ تھا۔ ڈاکٹر فاروق اَل بعض وہ مسلمان سائنسدان تھا،جس نے ناسامیں کام کیا۔اس نے انسان کوچاندپرپہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس طرح کے درجنوں ایسے مسلمان ہیں جنہوں نے موجودہ حالات میں سائنس،اقتصادیات اورسماجی شعبہ میں اعلیٰ درجہ کاکام کیاہے۔اس میں تمام مسلم ممالک کے لوگ شامل ہیں۔کس کس کاذکرکروں۔کس کاچھوڑں۔
ان عظیم مسلمان سائنسدانوں اورمحققین کاذکرصرف اسلیے کررہاہوں،کہ ثابت کرسکوں کہ ہمارے پاس ذہین لوگوں کی قطعاکمی نہیں ہے۔مسلمانوں نے اپنے سنہری دور میں دنیاکواَن گنت ایجادات سے نوازا۔ ہر پڑھا لکھا انسان خواہ وہ کسی بھی نسل یاملک سے تعلق رکھتاہو،اس حقیقت کو جانتاہے۔مسلمانوں کے بغیرآج کی سائنس کی بنیادبھی تصورکرنی خاصی مشکل ہے۔آج بھی ہمارے پاس ذہین لوگ موجودہیں۔یہ مغربی ممالک میں جاکر حیران کن کارنامے انجام دیتے ہیں۔ہمارے زرخیزذہن اس دور میں بھی پوری دنیاکوحیرت ذدہ کردیتے ہیں۔مگرالمیہ صرف ایک ہے۔مسلمان ممالک اپنے ذہین لوگوں کومواقع فراہم نہیں کرتے جس سے اپنی ذہنی توانائی کوعمل میں بدل سکیں۔ مجبوراًیہ لوگ مسلم ممالک سے تنگ آکرمغرب میں منتقل ہونے پرمجبورہوجاتے ہیں۔
مغرب ان لوگوں کے ذہن اور خیالات کوسونے میں تولتا ہے۔ قدر کرتا ہے۔ عزت،مرتبہ اورپیسے دیتاہے۔یہ تمام لوگ اسی مغربی دنیا کے باسی بن جاتے ہیں۔بہت ہی کم لوگ اپنے وطن واپس آنے کی ہمت کرتے ہیں۔وجہ صرف یہ کہ مسلمان ممالک کے حکمران جہالت کی اُس چوٹی پرمقیم ہیں جہاں صرف بیانات اورجذباتیت پھیلاکرپیسہ جمع کرنے کی علت میں مشغول ہیں۔وہ اوران کے اہل خانہ صرف اورصرف اپنی دولت بڑھانے کی فکرمیں پاگل ہوچکے ہیں یہاں کوئی بھی نہیں ہے جوسائنس اورتحقیق کی دنیاکوترجیح دے۔یہ لوگ ترقی کے دعوے توکرسکتے ہیں،مگرترقی کے زینہ پر پہلاقدم رکھنے کی جرات نہیں کرسکتے۔کیونکہ ترقی کا پہلازینہ ہی سائنس ہے!