582B اور جسٹس سجاد علی شاہ
سجاد علی شاہ بنیادی طور پر قانون کے طالب علم تھے
سجاد علی شاہ کیا گئے تو جیسے کوئی ہوا کا جھونکا تھا، ان کا لمس یوں گزرا پاس سے کہ یادوں کے سمندر امڈ پڑے ذہن کے دریچوں سے۔
خزائیں اپنے آب و تاب پر تھیں، اسلام آباد پت جھڑ کے موسم میں زرد رنگ کی چادر اوڑھے ہوئے تھا، جب سجاد علی شاہ چیف جسٹس آف پاکستان تھے۔ میں اس وقت اسلام آباد میں رہتا تھا۔ سپریم کورٹ پر حملہ ہوا، سجاد علی شاہ رسوا ہوئے اپنے قبیلے کے ہاتھوں۔ 58(2)(B) والا صدر ِپاکستان فاروق لغاری دوسری طرف، دو تہائی اکثریت رکھنے والا وزیرِاعظم۔ عجیب سے مناظر تھے اسلام آباد کے، کبھی عزیز ہم وطنوں کی باز گشت، کبھی 58(2)(B) کا سندیسہ، نگراں وزیراعظم کی شیروانیاں، ایوانوں میں سازشوں کی لڑیاں، جتنا خوبصورت ہے اسلام آباد، اتنی ہی بدصورت ہے اس کے ایوانوں کی تاریخ۔
سجاد علی شاہ بنیادی طور پر قانون کے طالب علم تھے، قانون کے ماہر بنے اور پھر قانون کے رکھوالے۔ وہ میرے شہر نواب شاہ میں ڈسٹرکٹ جج بھی رہے۔ اس زمانے میں، میں پٹارو میں پڑھتا تھا۔ راستے میں چھٹیاں ہونے پر بھٹ شاہ کے قریب شدید بارش میں حادثہ ہوا، ڈرائیور انتقال کرگیا اور میری ٹانگ ٹوٹ گئی۔ جس بس سے میرا حادثہ ہوا وہ ٹنڈوجام یونیورسٹی کی بس تھی۔ ابا وکیل تھے۔
سجاد علی شاہ نے کہا کہ کیس کیا جائے۔ ابا نہ مانے کہ کہیں یونیورسٹی کے پیسے اگر مجھے ملے تو ان کی تعلیم کا بجٹ متاثر ہوسکتا ہے۔ وہ چھ ماہ میں بیساکھیوں پر رہا۔ ابا جب بھی ان کی عدالت میں حاضر ہوتے تو شاہ صاحب روایتوں کے برعکس کیس سننے سے پہلے میری خیریت ان سے دریافت کرتے۔ بہت ہی سادگی پسند سجاد علی شاہ سے میری پہلی ملاقات 2001 میں ہوئی۔ پہلی بار ہم نے بہت بڑا ہیومن رائٹس ڈے پر ایونٹ کیا۔ آپ نے اس کی صدارت کرنے کی دعوت قبول کی اور پھر ہماری دوستی سی ہوگئی۔ جب کہوں وہ میرے ٹاک شوز پر آیا کرتے تھے۔
ایک دن 14 اگست کی نسبت سے ایک پروگرام کیا۔ اردشیر کاؤس جی، پروفیسر غفور احمد اور سجاد علی شاہ کو ساتھ بٹھایا۔ کاؤس جی، پروفیسر غفور کے برابر نہ بیٹھے، تو سجاد علی شاہ ان دونوںکے بیچ میں بیٹھ گئے۔ کاؤس جی دو تصویریں اپنے ساتھ لے آئے بڑے فریم میں۔ اب یہ سمجھ نہ آئے کہ آخر اتنی بڑی جناح کی تصویریں کاؤس جی اپنے ساتھ کیوں لائے ہیں۔ پروگرام شروع ہوا تو ایک تصویر پروفیسر غفور نے ''جناح'' کی کھینچی، تو دوسری کاؤس جی کھینچنے لگے، دونوں موصوف آپس میں الجھ نہ جائیں تو سجاد علی شاہ نے ان کی صلح و صفائی کروائی، اور آخرِکار کاؤس جی جناح کی وہ تصویر لے کر کھڑے ہوگئے جس میں انھوں نے شیروانی پہنی ہوئی تھی۔ کہنے لگے ''یہ تصویر عام ہے، یوں لگتا ہے کہ یہی تھے سب کچھ جناح، شیروانی والے جناح''۔ لیکن جناح یہ سب کچھ نہ تھے اور نکالی جناح کی وہ تصویر، جس میں انھوں نے اپنی آغوش میں دو پلے (پپیز) بٹھائے ہوئے تھے، ہاتھ میں ان کے سگار اور لندن کے بڑے ٹیلر کا سلا ہوا ڈیشنگ سوٹ پہنا ہوا ہے۔ سجاد علی شاہ نے جو اپنے خیال سے جناح کی تصویر کھینچی، وہ ان دونوں کے بیچ کی تھی اور وہی تصویر ان کے اچکزئی کیس میں نظر آتی ہے۔
بیچ والا پاکستان، موڈریٹ اسلامک ریاست، سیکولر ریاست نہیں۔ شاہ صاحب نے آئین کے بنیادی ڈھانچے کی پہلی شکل ترتیب دی۔ اور پھر وہ یوں بکھرگئی جب 12 اگست 1999 نے شب خوں کی خبر سنائی۔ سب کچھ بکھر گیا۔ پھر ظفر علی شاہ کیس نے بھی ایک شکل بنائی آئین کے بنیادی ڈھانچے کی، اور آمر کو کہا کہ آئین کے ساتھ جو کرنا ہے وہ کرو، مگر اس حد تک نہ جاؤ جہاں اس کا بنیادی ڈھانچہ متاثر ہو۔
شاہ صاحب نہ جانے کیوں 56(2)(B) کو جمہوریت کی بقا کے لیے ''سیفٹی وال'' کی حیثیت دیتے تھے، یا شاید وہ اپنے زماں و مکاں میں رہتے تھے، اور اب کتنے بھی نشیب و فراز آئے، ابر آئے، پناما آئے، پھٹیچر کے الفاظ جھومنے لگے، مقننہ دست و گریباں ہوجائے ''عزیز ہم وطنو'' تاریخ ہوا ہے۔ ارتقا کے سفینوں میں 58(2)(B) نہ جانے کہاں رہ گیا۔
کتنی بڑی عجیب تاریخ ہے، سپریم کورٹ کے دو چیف جسٹس نے جوڈیشل ایکٹیوازم کے نئے باب رقم کیے۔ جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس چوہدری افتخار دونوں نے، اپنے زمانوں میں وزیراعظم کو اپنی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ سجاد علی شاہ، نوازشریف کو گھر نہ بھیج سکے، مگر چوہدری افتخار نے وزیرِاعظم کو فارغ کروایا۔ سجاد علی شاہ کے وزیرِاعظم کو گھر بھیجتے بھیجتے پاؤں سے زمین یوں نکلی کہ خود چلے گئے۔ میں نے ان کی اپنی لکھی ہوئی سوانح حیات ان کے ہاتھوں سے لی، پڑھی اور پھر طویل بحث ان کے ساتھ کی۔ ایک دن کہنے لگے، سپریم کورٹ کے دو فیصلے کبھی بھی اتھارٹی نہیں بن سکیں گے، ایک ذوالفقار علی بھٹو کیس اور دوسرا میرا کیس۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ان کو یا بھٹو کو قانون کے تقاضے پوری طرح نہ مل سکے، یعنی وہ دونوں فیصلے Miscarriage of justice تھے۔ مجھے سعیدالزماں صدیقی کا انٹرویو کرنے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔
58(2)(B) میاں نواز شریف نے پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت سے جب ختم کی، تین ججوں کے فیصلے، جس بینچ کی قیادت جسٹس سجاد علی شاہ کر رہے تھے، نے پارلیمنٹ کی اس امینڈمنٹ کو غیر آئینی قرار دیا۔ تو ادھر ہی کھڑے کھڑے دوسرے دن دس ججوں نے سجاد علی شاہ کی بینچ کے فیصلے کو غلط قرار دے دیا۔ جب کہ کوئی بھی پٹیشن ان کے پاس داخل نہ ہوئی تھی اور نہ ہی ان کو ایسی پٹیشن سننے کا حق حاصل تھا۔ اور بالآخر سجاد علی شاہ Dejure چیف جسٹس آف پاکستان رہ گئے۔
ہم نے بادشاہوں کے ایوانوں میں بغاوتیں دیکھیں، شبِ خوں دیکھا، مگر چیف جسٹس کے خلاف باقی ججوں کی بغاوت شاید دنیا کی تاریخ میں پہلی بار دیکھی۔ فاروق لغاری، بے نظیر کے خلاف یا یوں کہیے کہ اپنے محسن کے خلاف 58(2)(B) کا استعمال بڑی آسانی سے کرگئے۔ اسلام آباد کی فضاؤں میں اس رات یہ راضی نامہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور جب باری آئی 58(2)(B) کی میاں صاحب پر استعمال کرنے کی، تو خود فاروق لغاری گھر چلے گئے۔ میں ان دنوں اسلام آباد میں ہی رہتا تھا اور جتوئی صاحب کے گھر میرا بہت آنا جانا تھا۔ جب صدر اسحاق خاں، نوازشریف پر 58(2)(B) استعمال کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔
اسحاق خان بھی 58(2)(B) استعمال کر تو بیٹھے مگر نسیم حسین شاہ کی بینچ نے ان کے اس قدم کو غیر آئینی قرار دے دیا۔ اور بلخ شاہ مزاری غیر آئینی نگراں وزیرِاعظم ٹھہرے۔ کچھ مہینے ہی گزرے میاں صاحب بھی گھر کو چلے تو اسحاق خاں بھی اور 58(2)(B) وہیں رہی، مگر اس کی وسعت بہت سکڑ گئی۔ سجاد علی شاہ مجھ سے کہنے لگے میں نہ کہتا تھا کہ 58(2)(B) ضروری ہے، اگر یہ ہوتی تو مشرف 12 اگست کو شب خوں نہیں مار سکتا تھا۔ میں نے کہا اگر کوئی پتلا نما صدر بنایا جائے تو یہ ممکن ہے۔ تو وہ ہنسنے لگے، ان کی ہنسی میں، میں نے جواب پالیا تھا۔ وہ شاید یہ تھا کہ اگر 58(2)(B) ہوتی تو پتلا نما صدر ہونے کا سوال ہی نہیں بنتا تھا۔
نسیم حسن شاہ کی بینچ میں اکثریتی رائے سے ایک جج نے اتفاق نہ کیا، وہ تھے سجاد علی شاہ کہ لاڑکانہ کے وزیراعظم اور لاہور کے وزیراعظم میں فرق کیا ہے۔ سجاد علی شاہ نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ بے نظیر اور میں جہاز میں ساتھ سفر کر رہے تھے، انھوں نے مجھے چھوٹے سے کاغذ میںایک تحریر عنایت کی اور میری اس جرات کو سراہا۔ یہی تو وجہ تھی کہ شاید وہ چیف جسٹس بنے اور دوسرے ججوں کے اوپر فوقیت پائی۔