دیکھا تیرا امریکا سترہویں قسط

لائبریری کے باہر سیاحوں، طالب علموں اور دانشوروں کا بہت ہجوم تھا، کچھ لوگ اندر جا رہے تھے، کچھ باہر آرہے تھے۔


رضاالحق صدیقی March 13, 2017
ٹائمز اسکوائر کی روشنیوں اور وہاں کے اودھم سے نکل کر یہاں ایک سکون کا احساس ہورہا تھاَ فوٹو: فائل

 

پانی کے نیچے سفر


رات کا سماں ہو، سمندر کا کنارہ ہو، لکڑی کا فرش ہو، جس کے باہم جُڑے ہوئے تختوں کی باریک باریک جھریوں سے سمندر کا پانی اپنی جھلک دکھلا رہا ہو، سمندر کے پانی کے اِس پار آسمان سے باتیں کرتی عمارتوں کی کھڑکیوں سے باہر جھانکتی روشنیاں سمندر کے ہلکورے لیتے پانیوں میں اٹکھیلیاں کررہی ہوں اور اُس بورڈ واک پر بنے اسٹیج پر سیر کے لئے آنے والے فنکار ساز و آواز کی محفل سجائے ہوئے ہوں تو اُس سحر انگیز ماحول میں کھو جانے کو دل کرتا ہے۔

نیو جرسی اور نیویارک ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ریاستیں ہیں، بالکل اُسی طرح جیسے میری لینڈ، واشنگٹن اور ورجینیا ہیں، وہاں فاصلوں کو چونکہ وقت کے پیمانے پر مانپا جاتا ہے اِس لئے نیویارک سے نیو جرسی پون سے ایک گھنٹے کی دوری پر ہے۔

نیو جرسی میں رابعہ کے بھائی سلمان کے دوست کی رہائش ہے۔ عدیل اور رابعہ اُن سے فون پر رابطے میں رہتے ہیں۔ نیویارک میں آنے کے بعد عدیل نے عمر سے کئی بار بات کی اور مختلف قابلِ دید مقامات کے بارے میں معلومات حاصل کیں، وہ چونکہ یہاں کافی عرصے سے ہے اِس لئے اُن کی معلومات بڑی وسیع ہیں۔ ٹائمز اسکوائر کی بتیاں اور پرشور ہجوم سے دل گھبرایا تو عدیل کے پوچھنے پر عمر نے نیو جرسی میں سمندر کے کنارے اِس پُرسکون جگہ پر کچھ وقت گزارنے کا مشورہ دیا۔



دیکھا تیرا امریکا (تیسری قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چوتھی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پانچویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چھٹی قسط)

دیکھا تیرا امریکا (ساتویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (آٹھویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (نویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (دسویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (گیارہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (بارہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (تیرہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (چودہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا (پندرہویں قسط)

دیکھا تیرا امریکا( سولہویں قسط)

اب ہم نیویارک سے نیو جرسی جا رہے تھے۔ عنایہ کو دلچسپی یہ تھی کہ راستے میں ہم ٹنل سے گزریں گے۔ وہ ہر دو منٹ کے بعد پوچھ لیتی تھی، ویئر از ٹنل؟ عدیل ہر بار اسے کہتا تھا بس ابھی آتی ہے، اور عنایہ گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگتی تھی۔ ہم اِسی طرح باتیں کرتے ہنستے ہنساتے چلے جارہے تھے کہ سامنے لنکن ٹنل آگئی۔ عنایہ آنکھیں پھاڑ کر سامنے دیکھنے لگی کیونکہ ٹنل میں سے گزرنے کا اُس کا تو پہلا تجربہ تھا۔

عدیل نے بتانا شروع کیا کہ اِس ٹنل کے اوپر سے دریا گزرتا ہے، اب ہم پانی کے نیچے سے گزر رہے ہیں۔ ٹنل مکمل روشن تھی، یہ ٹنل تین راستوں پر مشتمل ہے۔ ہر سڑک کی چوڑائی 21.6 فُٹ ہے۔ بیرونی ڈایا میٹر 31 فُٹ اور سڑک سے دریا کی اونچائی 97 فُٹ ہے۔ یہ تقریباََ ڈیڑھ میل لمبی تین سرنگیں ہیں۔ اِن تینوں کی لمبائی کچھ مختلف ہے کیونکہ یہ اونچے نیچے پہاڑی علاقوں سے گزرتی ہیں۔ سینٹرل ٹیوب جس میں سے ہم اِس وقت گزر رہے ہیں، 8,216 فٹ لمبی ہے اور اِسے سن 1937ء میں تعمیر کیا گیا۔ اِس کے بعد نارتھ ٹنل ہے جس کی لمبائی 7,482 فٹ ہے اور اِسے سن 1945ء میں تعمیر کیا گیا، اور تیسری ہے ساؤتھ ٹیوب جسے سن 1957ء مین ٹریفک کے لئے کھول دیا گیا۔ اِس کی لمبائی 8,006 فُٹ ہے۔

دریائے ہڈسن کے نیچے سے اِس لنکن ٹنل کے علاوہ ایک اور ٹنل بھی نکالی گئی ہے جسے ہولینڈ ٹنل کہتے ہیں۔ عدیل ذرا چپ ہوا تو میں نے ہنستے ہوئے اُسے کہا کہ تم نیویارک پہلے تو کبھی آئے نہیں لیکن بتا ایسے رہے ہو جیسے نیویارک میں ہی رہتے ہو اور روز یہیں سے گزرتے ہو۔ عدیل شوخ سے لہجے میں بولا! گوگل بابا زندہ باد، جو پوچھو سب بتاتا ہے۔

اگر تیرا یہ گوگل بابا سب کچھ بتاتا ہے تو عمر سے کیوں پوچھ رہے تھے؟ میں نے بھی پوچھ لیا۔

وہ تو جگہ کا نام پتہ پوچھا تھا، اب میں نے جگہ کا نام پتہ گوگل بابا کو دے کر معلومات مانگیں تو گوگل بابا نے سب کچھ اُگل دیا، عدیل نے جواب دیا۔

اچھا ٹھیک ہے، اور کیا بتایا اس گوگل بابا نے؟ میں نے پوچھا۔

اُس کا کہنا ہے کہ نیویارک کی آبادی بڑھتی جارہی تھی، اِسی رفتار سے ٹریفک بھی بڑھ کر مسئلہ بن رہی تھی اِس لئے کروڑوں ڈالر خرچ کرکے یہ ٹنل بنائی گئی۔ اِس ٹنل کے ذریعے نیویارک اور نیو جرسی کی ٹریفک کو کنٹرول کیا گیا۔ یہ ٹنل مین ہاٹن اور نیو جرسی کے درمیان بڑا اہم رابطہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اِس ٹنل سے روزانہ ایک لاکھ گاڑیاں گزرتی ہیں، عدیل نے جواب دیا۔

میں سوچ میں پڑگیا کہ اِن سرنگوں کو بنے ستر، اسی سال ہوگئے ہیں اور یہ ویسی نئی نویلی محسوس ہوتی ہیں۔ ایک ہمارے ہاں بنائے جانے والے پُل اور سڑکیں ہیں جو اتنی جلدی ختم ہوتی ہیں کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔ ابھی یہی کوئی تیس سال پہلے کی بات ہے پتوکی کا پُل بن رہا تھا اور دس، بارہ سال بعد ہی اُس میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی تھی اور گزشتہ تین سالوں میں یہ پل آثارِ قدیمہ کا نقشہ پیش کرنے لگا اور اُس کی جگہ نیا پل بنایا گیا جو پہلے ہی سال ایک جانب بیٹھ گیا۔ خیر! باتوں ہی باتوں میں ہم لنکن ٹنل سے نکل کر نیو جرسی میں پہنچ گئے۔ وہاں جا کر عمر کے بتائے ہوئے پاکستانی ہوٹل میں کھانا کھانے جانے کے لئے ہوٹل کے سامنے پبلک پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکے سڑک کراس کی اور دوسری جانب واقع ہوٹل میں جا کر بیٹھ گئے۔ شاید کھانا ہی بہت لذیذ تھا یا ہمیں بہت بھوک لگی تھی اس لئے سیر ہوکر کھانا کھایا۔

ٹائمز اسکوائر کی روشنیوں اور وہاں کے اودھم سے نکل کر یہاں ایک سکون کا احساس ہورہا تھا، اب کھانا بھی کھالیا تھا اِس لئے اُس مقام کی جانب چلے، جہاں سے مین ہاٹن رات کی تاریکی میں کچھ زیادہ ہی خوبصورت نظر آتا ہے۔ اِس جگہ پہنچنے سے پہلے ہمیں رکنا پڑا کہ وہاں ٹرین ٹریک تھا اور دور سے ٹرین سیٹی بجاتی آرہی تھی۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی گزر کر پلیٹ فارم پرکھڑی ہوگئی، اور ہم نے بھی ریلوے لائن کراس کرکے سامنے نظر آنے والے بورڈ واک کی جانب قدم بڑھا دئیے۔ وہاں بالکل ویسا ہی سماں تھا جیسا عمر نے فون پر بتایا۔

رات کا سماں تھا، سمندر کا کنارہ تھا، لکڑی کے باہم جڑے ہوئے تختوں کا بورڈ واک تھا، چلتے چلتے عدیل نے اپنی ماں کو روزن سے جھلکتے پانی سے ڈرایا کہ ہم سمندر پر چل رہے ہیں۔ وہاں ایک جانب اسٹیج پر پہلے سے آئے ہوئے لوگوں کا قبضہ تھا جو موسیقی کے مختلف آلات کے ساتھ دھیمی دھیمی موسیقی بکھیرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اِن فنکاروں کے سامنے لکڑی کے وسیع میدان میں بچے کھیل رہے تھے۔عنایہ بھی دادی کا ہاتھ چھڑا کر اُن میں شامل ہوگئی، دادی بھی پیچھے بھاگنا چاہ رہی تھیں کہ عدیل نے روک دیا۔ ہم سامنے سمندر کے کنارے جا بیٹھے کہ زیادہ سے زیادہ عنایہ یہیں آئے گی تو ہم پکڑ لیں گے۔

سامنے مین ہاٹن کی عمارتوں کی کھڑکیوں سے باہر جھانکتی روشنیاں سمندر کے ہلکورے کھاتے پانیوں میں اٹکھیلیاں کر رہی تھیں، یہ بڑا دلکش نظارہ تھا۔ دائیں جانب دور بہت دور مجسمہِ آزادی کی دھندلی سی جھلک نظر آرہی تھی۔ کیا سحر انگیز منظر تھا، کوئی کوئی جگہ ایسی ہوتی ہے جس کی دلکشی انسان کو جکڑ لیتی ہے اور یہ بھی کچھ ایسی ہی جگہ تھی۔

 

علم کا معبد


ہم ایک بار پھر نیویارک میں تھے۔ ہر روز بلا سوچے سمجھے برکلین سے نکل آتے تھے، پھر کار کو کسی مناسب جگہ پارک کرکے جو بھی قابلِ دید مقام سامنے آتا اُسے ایک نظر ضرور دیکھ لیتے اور اگر ٹائم ہوتا تو کسی اور مقام کی جانب چل دیتے تھے۔ اُس روز بھی یہی ہوا، کار پارک کرکے ہم پیدل ہی چل پڑے، چلتے چلتے کرسٹل پارک کے عقب میں جا نکلے۔ وہیں ایک وسیع اور شاندار عمارت نظر آئی، جدید طرز کی اتنی بڑی عمارت دیکھ کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی۔ ہم نے سوچا دیکھیں تو سہی کہ یہ عمارت کیا ہے۔ اِس جگہ بھی لوگوں کا ہجوم تھا، معلوم ہوا کہ یہ نیویارک کی پبلک لائبریری ہے۔ اتنی بڑی لائبریری تو ہم نے کبھی خواب میں بھی نہ دیکھی تھی۔

لائبریری کو دیکھنا تو تھا، لیکن ہمارا آج یہاں آنے کا پروگرام نہیں تھا۔ عدیل کہنے لگا آپ نے یہاں آنا تو تھا ہی اور اب جب کہ ہم آہی گئے ہیں تو آپ اندر چکر لگالیں، عنایہ اندر نہ آپ کو کچھ دیکھنے دے گی اورنہ ہمیں۔ اِس لئے آپ ہو آئیں ہم باہر ہی گھومتے ہیں آپ واپس آئیں گے تو کہیں اور چلیں گے۔

یہ لائبریری جدید آرٹ اور فنِ تعمیر کا عجوبہ ہے۔ اونچے اونچے سفید ستون جنہیں ایک اونچے چبوترے پر کھڑا کرکے اور اونچا بنایا گیا ہے۔ لائبریری تک جانے کے لئے بہت ہی کشادہ اور چوڑی سفید پتھر کی سیڑھیاں بنائی گئی ہیں۔ اِس عمارت کے سامنے دو بڑے بڑے شیر بنائے گئے ہیں۔

لائبریری کے باہر سیاحوں، طالب علموں اور دانشوروں کا بہت ہجوم تھا، کچھ لوگ اندر جا رہے تھے تو کچھ باہر آرہے تھے۔ لڑکے، لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کشادہ سیڑھیوں پر بیٹھی تھی۔ کوئی دوستی کے تقاضے نباہ رہے تھے، چند ایک سر سے سر جوڑے محبتوں کے ابواب کھولے راز و نیاز کر رہے تھے۔ پیار محبت کا یہاں کُھلے عام اظہار معاشرتی تقاضوں کا ایک حصہ ہے اس لئے وہاں کوئی اُن لوگوں پر تجسس بھری نگاہ نہیں ڈالتا ہے، ہر طرح کی شخصی آزادی کے اِس ملک میں کسی کو کسی پر اعتراض کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔

لائبریری کے بیرونی حصے میں ایک جگہ لکھا ہوا تھا کہ آپ علم پھیلانا چاہیں تو دو ڈالر یہاں ڈال دیں۔ اِسی جگہ ڈالر ڈالنے کی جگہ بھی بنی ہوئی تھی، میں سوچ میں پڑگیا کہ یہ قوم نفسیات کو کتنا سمجھتی ہے، کون ایسا شخص ہوگا جو علم کے فروغ اور کتاب بینی کی عادت ڈالنے کے لئے دو ڈالر ڈال کر اپنا حصہ نہ ڈالنا چاہے گا۔ہزاروں کی تعداد میں روزانہ لوگ یہاں آتے ہیں یقیناََ دو ڈالر ہر کوئی ڈالتا ہوگا۔ یہ فنڈ لائبریری کے ہی کام آتا ہوگا، یہی سوچ کر میں نے بھی دو ڈالر نکالے اور ڈالر ڈالنے کی جگہ میں ڈال دیئے۔

نیویارک پبلک لائبریری دنیا کی بڑی لائبریریوں میں سے ایک ہے، لائبریری کی عمارت بہت بڑی اور کئی حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اِس میں کروڑوں کے حساب سے کتابیں ہیں۔ لائبریری کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگالیجئے کہ صرف نیویارک اور امریکی تاریخ کے بارے میں تقریباََ ساڑھے تین لاکھ (350,000) کتابیں اور پمفلٹ جبکہ دس ہزار نقشے اور اٹلس موجود ہیں۔ یہاں آکر مطالعہ کرنے والوں کے لئے بڑے بڑے ہال ہیں۔

عدیل وغیرہ عنایہ کا بہانہ کرکے باہر ہی رُک گئے تھے، اِس لئے کہ شاید اُنہیں کتاب بینی کی عادت نہیں رہی یا انٹرنیٹ پر وہ دنیا جہاں کی ہر چیز کے بارے میں معلومات چند منٹوں میں تلاش کرلیتے ہیں۔ ہماری یہ حالت ہے کہ ہمیں چھپی ہوئی کتاب پڑھنے ہی میں مزا آتا ہے۔ پی ڈی ایف میں آئی ہوئی کتاب ہم سے پڑھی نہیں جاتی۔

لائبریری میں ایک بہت بڑا شعبہ ریفرنس کا بھی تھا، جہاں علوم تحقیقات، جغرافیہ، معاشیات، سیاسیات اور سائنسغرضیکہ کوئی ایسا موضوع نہ تھا جس کے بارے میں ایک سے بڑھ کر ایک کتاب موجود نہ ہو۔ یہ لائبریری نہیں علم کا بیش قیمت خزانہ ہے جس سے ہر کوئی استفادہ کرسکتا ہے۔ یہ لائبریری پبلک ہے اور پبلک اِس سے مفت فائدہ اُٹھاتی ہے۔ مجھے ادب کے شعبے کی تلاش تھی خاص طور پر اردو کی کتب کی تاکہ ادب میں مختلف اصناف کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کرسکوں۔ پھر مجھے ادب کا شعبہ مل گیا لیکن یہاں صرف انگریزی کی کتابیں ہی تھیں، انگریزی کبھی میری مرغوب زبان نہیں رہی، شاید اِس کی وجہ یہ رہی ہو کہ میرے والد اردو، فارسی اور عربی کے ماہر تھے۔ اِس لئے اُن زبانوں میں کبھی مار نہیں کھائی۔ بس اسی لئے انگریزی لٹریچر کے اِس شعبے میں ہم نے بڑی بے دلی سے ریک دیکھنا شروع کئے، نثری نظم ہند و پاک میں قدم جمانے کی کوششوں میں مصروف صنفِ شاعری ہے، غزل سے بیزار، پابند نظم میں اٹکتے، الجھتے شاعراِسی صنف میں پناہ ڈھونڈتے نظر آتے ہیں، اِسی سلسلے کی ایک کتاب نظر آئی۔ نام تھا 'لیوز آف گراس۔' اِس کتاب کے شاعر تھے والٹ واٹ مین، جن کو امریکہ کا بابائے نثری نظم کہا جاتا ہے۔ نیویارک ہی اِس کی جائے پیدائش ہے۔ جس علاقے میں اِس کی پیدائش ہوئی وہ پورے کا پورا علاقہ اِس کے نام سے منسوب ہے۔ تعلیمی ادارے، لائبریریاں، سڑکیں، یہاں تک کہ اِس علاقے میں بننے والے پلازے کا نام بھی اِس کے نام پر رکھا گیا ہے۔

واٹ مین ایک تشکیکی تھا اور خدا پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ خدا کی کوئی ذات نہیں ہے جو اِس کائنات میں علیحٰدہ وجود رکھتی ہو۔ واٹ مین کو انسان دوست کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ وہ اِس بات کا بھی قائل تھا کہ ادیب کو اپنے معاشرے کے ساتھ جُڑ کر رہنا چاہیئے۔ واٹ مین نے چونکہ امریکہ سے غلامی کے خاتمے کی بھی حمایت کی تھی اِس لئے اِس حوالے سے اُسے شاعرِ جمہوریت بھی کہا جاتا ہے۔ والٹ واٹ مین کی کتاب کے بارے میں پڑھتے ہوئے اِس بات کا انکشاف بھی ہوا کہ یہ کتاب جب پہلی بار چھپی تو یہ شاعر کی اپنی کاوش تھی۔ یہ بات پڑھتے ہوئے ہمیں اپنے ایک افسانہ نگار دوست یاد آگئے جنہوں نے ہمارے بولتا کالم میں ایک کتاب کے بارے کالم میں پڑھتے ہوئے کہا تھا کہ بس واجبی سا افسانہ نگار تھا، آپ نے ایسے ہی اُسے چڑھا دیا ہے۔ یہاں تک تو اُن کی بات درست کہی جاسکتی ہے کہ ہر شخص کا اپنا نکتہ نظر ہوتا ہے لیکن مجھے اعتراض تب ہوا جب انہوں نے کہا کہ ایسے لوگ اپنے پاس سے پیسے خرچ کرکے کتابیں کیوں چھپواتے ہیں اور ایسے ادب کا کیا فائدہ ہے اور کیا ایسے ادب کی ضرورت ہے؟ اپنے اِس دوست کی بات یاد کرتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ والٹ واٹ مین نے پہلی بار اپنی شاعری خود نہ چھپوائی ہوتی تو کیا آج اُس کا کوئی نام لیوا ہوتا؟ اور کیا وہ آج امریکہ کا بابائے نثری نظم کہلاتا؟

خیر، میں جب لائبریری کے وسیع ہال میں داخل ہوا تو کتابوں پر جُھکے افراد علم کے دیوتا کے حضور سربسجود نظر آئے۔ میں بھی اِس کائنات نما لائبریری کے اُس وسیع وعریض ہال کے ایک کونے میں لیوز آف گراس کھول کر بیٹھ گیا۔ فال نکالنے کے سے انداز میں، میں نے کتاب کو کھولا تو جو نظم سامنے آئی وہ تھی،
''ایک بچے نے کہا، گھاس کیا ہے؟''

میں نے پہلی نظم تو پوری پڑھ لی، پھر مجھے یاد آیا کہ یہ کتاب تو شاید کتابوں کے انبار میں کہیں پڑی ہے شاید۔ اُس زمانے کی یادگار کے طور پر جب زمانہِ طالب علمی میں ہم بھی شاعری کیا کرتے تھے، اللہ بخشے ہمارے انگریزی کے استاد دلدار پرویز بھٹی صاحب کو کہ جن کا کہنا تھا کہ نظم کہنی ہے تو والٹ واٹ مین کی شاعری ضرور پڑھنا۔ شاعری کا نیا نیا شوق تھا، علم عروض والد صاحب نے گھٹی میں پلا دیا تھا، شاعری میں انگریزی ادب کی چاشنی ڈالنے کے لئے اور نظم کا صحیح اسلوب سیکھنے کے لئے ''لیوز آف گراس'' خریدی تھی۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا انگریزی زبان میں کوئی اتنا شغف نہیں رہا سو اُس وقت اُسے پڑھا لیکن شاعری میں کوئی نکھار نہ آسکا سو اِس بھاری پتھر کو چوم کر چھوڑ دیا۔ آج کوئی 40 سال بعد پھر وہی کتاب میرے سامنے تھی، اور جو نظم سب سے پہلے میرے سامنے آئی وہ آپ بھی پڑھیئے۔

?A Child Said, What Is The Grass
;A child said, What is the grass? fetching it to me with full hands
.How could I answer the child?. . . .I do not know what it is any more than he
.I guess it must be the flag of my disposition, out of hopeful green stuff woven
,Or I guess it is the handkerchief of the Lord
,A scented gift and remembrancer designedly dropped
?Bearing the owner's name someway in the corners, that we may see and remark, and say Whose
.Or I guess the grass is itself a child. . . .the produced babe of the vegetation
,Or I guess it is a uniform hieroglyphic
,And it means, Sprouting alike in broad zones and narrow zones
,Growing among black folks as among white
.Kanuck, Tuckahoe, Congressman, Cuff, I give them the same, I receive them the same
.And now it seems to me the beautiful uncut hair of graves
,Tenderly will I use you curling grass
,It may be you transpire from the breasts of young men
;It may be if I had known them I would have loved them
,It may be you are from old people and from women, and from offspring taken soon out of their mother's laps
.And here you are the mother's laps
,This grass is very dark to be from the white heads of old mothers
,Darker than the colorless beards of old men
.Dark to come from under the faint red roofs of mouths
!O I perceive after all so many uttering tongues
.And I perceive they do not come from the roofs of mouths for nothing
,I wish I could translate the hints about the dead young men and women
.And the hints about old men and mothers, and the offspring taken soon out of their laps
?What do you think has become of the young and old men
?What do you think has become of the women and children
;They are alive and well somewhere
,The smallest sprouts show there is really no death
,And if ever there was it led forward life, and does not wait at the end to arrest it
.And ceased the moment life appeared
,All goes onward and outward. . . .and nothing collapses
.And to die is different from what any one supposed, and luckier

مجھے اِس نظم کو ترجمہ کرکے پیش کرنا چاہیئے تھا لیکن میرے ترجمہ کرنے سے شاعرانہ حسن غارت ہوجاتا، جو میں بالکل نہیں چاہتا، ہاں بچے کے حوالے سے مجھے ایزد عزیز کی ایک نظم ''ڈری ہوئی بازگشت ''یاد آ گئی۔
پیارے بچو
بچپن کوئی دیوار سے لگ کر لوٹنے والی گیند نہیں ہے
مجھ کو تو اُن پکی، گلی ہوئی عمروں سے خوف آتا ہے
میں نے تو اُن سارے بڑوں کو نامنظور پارسل کی طرح ٹھکرایا ہے
میرا چہرا مت دیکھو
میری روح تو تم جیسی ہے
اجلے پھولو
میں نے اُن کانٹوں سے نکل کر خود کو تم میں گم پایا، اور
تم سب کی پیاری باتوں سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے آئے
لیکن جب ہم بہت سا کھیل کے لمبی گھاس پر گر جاتے ہیں
تم میں سے کوئی بچہ
دور افق پر نظریں پھینکے
اک پکی، سنجیدہ بات سنا جائے تو
مجھ کو تم سے ڈر لگتا ہے، پیارے بچو۔۔۔۔۔۔

علم کے اِس معبد سے نکل کر جب میں برآمدے میں آیا تو ایک دیوار گیر تصویری نقش نظر آیا جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور سے اترتے ہوئے دکھایا گیا ہے، وہ دس حکام کی لوح ہاتھوں میں تھامے ہوئے نیچے آرہے ہیں۔ یہ مصوری اگر پاکستان کے کسی ادارے کی دیوار پر ہوتی تو اب تک فساد کھڑا ہوچکا ہوتا بلکہ اب تک لائبریری ہی جلا دی گئی ہوتی، لیکن اِس تصویری نقاشی کو دیکھتے ہوئے مجھے میرے آقا کا تصور سامنے آگیا کہ جنگِ بدر میں پڑھے لکھے قیدیوں سے فرما رہے ہیں کہ دس افراد کو وہ کچھ پڑھا دو جو کچھ تم جانتے ہو تو تم آزاد ہو، میں نے اِسی تصور میں آقائے نامدار ﷺ سے فریاد کی کہ میرے ملک کے عوام کو علم و تحقیق کی روشنی میں وہ سیدھا راستہ دکھا جو یہ قوم بُھلا بیٹھی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔