یہ چار… عمران سے لاچار
دو پارٹیوں کا رواج اور باری باری حکومتوں کے رنگ میں اگر کوئی ’’بھنگ‘‘ ڈال سکتا ہے تو وہ عمران کا سونامی ہے
عمران خان سے چار گروہ عاجز، پریشان اورلاچار ہیں۔ اگر تحریکِ انصاف سیاست میں نہ ہوتی تو تین اہم سیاسی شخصیات اور ایک طبقہ نسبتاً پرسکون ہوتے۔ نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کو وہ سیاسی مشکلات نہ ہوتیں جو آج ہیں۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے وقت میں یہ تین سیاسی قوتیں عمران کو ٹارگٹ کریں گی۔ چوتھا گروہ لبرل لوگوں کا ہے۔ ہم آنے والے لمحوں میں ان چاروں کی اس لاچاری پر بحث کریں گے جو حال میں اور مستقبل میں ان چاروں گروہوں کو عمران کے باعث پیش آنے والی ہیں۔
نواز شریف نے عمران کے خطرے کو شروع میں ہی بھانپ لیا تھا۔ وہ فروری 97 کے انتخابات تھے جب میاں صاحب نے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔ عمران کی پارٹی چند ماہ کی تھی اور چند نشستیں حاصل کرنے کے قابل بھی نہ تھی۔ میاں صاحب کی دوررس نگاہوں نے عمران پر حملے کے لیے مشاہد حسین کا چنائوکیا۔ عمران کی کمزور پارٹی یہ میڈیائی جنگ ہار گئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے جمائما پر مقدمات قائم کرکے عمران پر دبائو کو برقرار رکھا۔ خان ''سخت جان'' ثابت ہوا۔
2002 کے انتخابات کی شکست اور چھ سال بعد انتخابات کا بائیکاٹ بھی اسے سیاست سے باہر نہ کرسکا۔ اب اکتوبر 2011 کا مینارِ پاکستان کا جلسہ نواز شریف کے اندازوں کو صحیح ثابت کررہا ہے۔ ایک گیند سے دو وکٹیں گرانے کی بات اور دونوں بڑی پارٹیوں کو ایک جیسا ثابت کرنا میاں صاحب کو دفاعی پوزیشن پر لے آتا ہے۔ پیپلز پارٹی سے زیادہ تحریکِ انصاف پر تنقید ثابت کرتی ہے کہ نواز لیگ، عمران کو کتنا سیریس لے رہی ہے۔ آصف زرداری کو ان دنوں عمران سے وہ خطرہ نہیں جو نواز شریف کو ہے۔
اتحادی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر انتخابات لڑنے تک صدر زرداری کو صرف دو محاذوں پر خطرہ ہوسکتا ہے۔ سرائیکی بیلٹ اور اندرون سندھ کے ووٹ اگر عمران اچک لے تو پیپلز پارٹی خطرے میں آسکتی ہے۔ اگر عمران کا ڈینٹ بہت سخت نہ ہوا تو زرداری یہ صدمہ جھیل جائیں گے۔ عمران سے اصل خطرہ انھیں انتخابات کے بعد ہوگا۔ اگر تینوں بڑی پارٹیاں پارلیمنٹ میں برابر کی قوت بن گئیں تو پھر توازن کہاں ہوگا؟ مقابلہ زرداری اور شریف میں ہوگا۔ عمران کی اپوزیشن میں بیٹھنے کی ضد، زرداری کی برتری ختم کردے گی۔ پھر اگر بازی نواز شریف نے پلٹ دی تو پیپلز پارٹی ان ووٹوں کے سبب حکومت بنانے سے محروم رہ جائے گی جو عمران نے حاصل کیے ہوں گے۔
دو پارٹیوں کا رواج اور باری باری حکومتوں کے رنگ میں اگر کوئی ''بھنگ'' ڈال سکتا ہے تو وہ عمران کا سونامی ہے۔ فضل الرحمن کی پارٹی کو عمران سے بڑی شکایات ہیں۔مولانا نے اپنے خلاف میڈیا کے مضحکہ کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ انھیں ایک برتری حاصل تھی جو عمران نے ختم کردی۔ مولانا پر ان کا کوئی سیاسی حریف تنقید نہ کرتا۔ آصف زرداری، مولانا کو ساتھ ملانے کی کوشش میں منانے کی جانب ہی مائل رہے۔ نواز شریف اور مولانا کے حلقے، صوبے و مقبولیت کے مقامات جدا جدا ہیں۔
میاں صاحب بھی فضل الرحمن پر تنقید سے گریز کرتے۔ جماعتِ اسلامی اور سمیع الحق بھی ہلکا ہاتھ رکھتے۔ کچھ کہتے تو دبے لفظوں میں اور مولانا کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے، ایم کیو ایم اور اے این پی بھی مولانا سے دوستی کو ترجیح دیتے۔ یوں پاکستان کے تمام سیاست دان فضل الرحمن سے چھیڑ چھاڑ سے گریز کرتے۔ اس بھرم کو عمران خان نے توڑا۔ انھوں نے مولانا پر براہِ راست اور سخت تنقید شروع کردی۔ فضل الرحمن جو الزامات کے حوالے سے کسی صحافی کے ہاتھ نہ لگتے، عمران کی تنقید سے دفاعی پوزیشن پر آگئے۔
عمران کی خیبر پختون خواہ میں مقبولیت آنے والے دنوں میں دونوں شخصیات کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ دیکھے گی، عمران نے ایک گیند سے تین وکٹیں لے کر اگر کہیں اشارہ کیا تو وہ مولانا کی جمعیت ہے۔لبرل طبقے کو عمران سے شدید مایوسی ہوئی۔ آزاد ماحول میں پرورش پانے اور ''پلے بوائے'' کا تاثر لیے ہوئے بظاہر لبرل و سیکولر عمران کو گود لینے کی تمنّا پوری نہ ہوئی۔ کرکٹ سے سیاست میں آنے والا ''کسی کے ہاتھ نہ آئوں'' کی سی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے اور وہاں کرکٹ کھیلنے والے سے روایتی لبرل طبقے کی کیا توقعات ہوں گی؟ وہ اسے اپنا سمجھنے لگ گئے تھے۔
جب عمران نے قرآن و حدیث کی بات کی، رسول صلّى الله عليه وسلّم کے حوالے سے تو سرخ سلام کرنے والا لبرل طبقہ اسے وقتی سیاست سمجھتا رہا۔ جب عمران نے کھل کر اسلامی نظام اور خلافتِ راشدہ کے حوالے دیے تو مذہب سے بے زار الٹرا ماڈرن خواتین کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ عمران کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والے بائیں بازو کے دانشور لاچاری اور مایوسی کے مقام تک آگئے۔ وہ بھٹو کی تاریخ کے دہرائے جانے سے خوف زدہ ہوگیا۔ انھیں وہ زمانہ یاد آیا کہ کس طرح بھٹو ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسری طرف نکل گئے تھے۔
جب عمران نے اسٹیج پر نماز ادا کرکے اور ''تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں'' کی دعا پڑھنا شروع کی، جو سورہ فاتحہ کے ترجمے کا حصّہ ہے، تو لبرل طبقہ مایوسی کی انتہا تک پہنچ گیا۔ جب عمران نے آزاد خیال این جی اوز پر تنقید کی کہ اصل لبرلز تو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جب کہ یہ طبقہ ڈرون حملوں اور عافیہ صدیقی کے مسئلے پر خاموش ہے۔ جب عمران نے جماعت اسلامی سے اتحاد کی بات کی تو اس طبقے کی آخری امید بھی دم توڑ گئی۔ اب اس طبقے کو عمران کے حوالے سے کوئی خوش فہمی نہیں۔نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور لبرل طبقہ، یہ چار لوگ یا گروہ ہیں جو عمران کی بدولت عاجز، بے زار، پریشاں اور لاچار ہیں۔ آنے والا وقت جلد ثابت کرے گا کہ واقعی یہ چار ہیں عمران سے لاچار؟
نواز شریف نے عمران کے خطرے کو شروع میں ہی بھانپ لیا تھا۔ وہ فروری 97 کے انتخابات تھے جب میاں صاحب نے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی انتخابی کامیابی حاصل کی تھی۔ عمران کی پارٹی چند ماہ کی تھی اور چند نشستیں حاصل کرنے کے قابل بھی نہ تھی۔ میاں صاحب کی دوررس نگاہوں نے عمران پر حملے کے لیے مشاہد حسین کا چنائوکیا۔ عمران کی کمزور پارٹی یہ میڈیائی جنگ ہار گئی۔ اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے جمائما پر مقدمات قائم کرکے عمران پر دبائو کو برقرار رکھا۔ خان ''سخت جان'' ثابت ہوا۔
2002 کے انتخابات کی شکست اور چھ سال بعد انتخابات کا بائیکاٹ بھی اسے سیاست سے باہر نہ کرسکا۔ اب اکتوبر 2011 کا مینارِ پاکستان کا جلسہ نواز شریف کے اندازوں کو صحیح ثابت کررہا ہے۔ ایک گیند سے دو وکٹیں گرانے کی بات اور دونوں بڑی پارٹیوں کو ایک جیسا ثابت کرنا میاں صاحب کو دفاعی پوزیشن پر لے آتا ہے۔ پیپلز پارٹی سے زیادہ تحریکِ انصاف پر تنقید ثابت کرتی ہے کہ نواز لیگ، عمران کو کتنا سیریس لے رہی ہے۔ آصف زرداری کو ان دنوں عمران سے وہ خطرہ نہیں جو نواز شریف کو ہے۔
اتحادی پارٹیوں کو ساتھ ملا کر انتخابات لڑنے تک صدر زرداری کو صرف دو محاذوں پر خطرہ ہوسکتا ہے۔ سرائیکی بیلٹ اور اندرون سندھ کے ووٹ اگر عمران اچک لے تو پیپلز پارٹی خطرے میں آسکتی ہے۔ اگر عمران کا ڈینٹ بہت سخت نہ ہوا تو زرداری یہ صدمہ جھیل جائیں گے۔ عمران سے اصل خطرہ انھیں انتخابات کے بعد ہوگا۔ اگر تینوں بڑی پارٹیاں پارلیمنٹ میں برابر کی قوت بن گئیں تو پھر توازن کہاں ہوگا؟ مقابلہ زرداری اور شریف میں ہوگا۔ عمران کی اپوزیشن میں بیٹھنے کی ضد، زرداری کی برتری ختم کردے گی۔ پھر اگر بازی نواز شریف نے پلٹ دی تو پیپلز پارٹی ان ووٹوں کے سبب حکومت بنانے سے محروم رہ جائے گی جو عمران نے حاصل کیے ہوں گے۔
دو پارٹیوں کا رواج اور باری باری حکومتوں کے رنگ میں اگر کوئی ''بھنگ'' ڈال سکتا ہے تو وہ عمران کا سونامی ہے۔ فضل الرحمن کی پارٹی کو عمران سے بڑی شکایات ہیں۔مولانا نے اپنے خلاف میڈیا کے مضحکہ کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ انھیں ایک برتری حاصل تھی جو عمران نے ختم کردی۔ مولانا پر ان کا کوئی سیاسی حریف تنقید نہ کرتا۔ آصف زرداری، مولانا کو ساتھ ملانے کی کوشش میں منانے کی جانب ہی مائل رہے۔ نواز شریف اور مولانا کے حلقے، صوبے و مقبولیت کے مقامات جدا جدا ہیں۔
میاں صاحب بھی فضل الرحمن پر تنقید سے گریز کرتے۔ جماعتِ اسلامی اور سمیع الحق بھی ہلکا ہاتھ رکھتے۔ کچھ کہتے تو دبے لفظوں میں اور مولانا کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے، ایم کیو ایم اور اے این پی بھی مولانا سے دوستی کو ترجیح دیتے۔ یوں پاکستان کے تمام سیاست دان فضل الرحمن سے چھیڑ چھاڑ سے گریز کرتے۔ اس بھرم کو عمران خان نے توڑا۔ انھوں نے مولانا پر براہِ راست اور سخت تنقید شروع کردی۔ فضل الرحمن جو الزامات کے حوالے سے کسی صحافی کے ہاتھ نہ لگتے، عمران کی تنقید سے دفاعی پوزیشن پر آگئے۔
عمران کی خیبر پختون خواہ میں مقبولیت آنے والے دنوں میں دونوں شخصیات کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ دیکھے گی، عمران نے ایک گیند سے تین وکٹیں لے کر اگر کہیں اشارہ کیا تو وہ مولانا کی جمعیت ہے۔لبرل طبقے کو عمران سے شدید مایوسی ہوئی۔ آزاد ماحول میں پرورش پانے اور ''پلے بوائے'' کا تاثر لیے ہوئے بظاہر لبرل و سیکولر عمران کو گود لینے کی تمنّا پوری نہ ہوئی۔ کرکٹ سے سیاست میں آنے والا ''کسی کے ہاتھ نہ آئوں'' کی سی کیفیت لیے ہوئے ہے۔ برطانیہ کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے اور وہاں کرکٹ کھیلنے والے سے روایتی لبرل طبقے کی کیا توقعات ہوں گی؟ وہ اسے اپنا سمجھنے لگ گئے تھے۔
جب عمران نے قرآن و حدیث کی بات کی، رسول صلّى الله عليه وسلّم کے حوالے سے تو سرخ سلام کرنے والا لبرل طبقہ اسے وقتی سیاست سمجھتا رہا۔ جب عمران نے کھل کر اسلامی نظام اور خلافتِ راشدہ کے حوالے دیے تو مذہب سے بے زار الٹرا ماڈرن خواتین کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ عمران کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والے بائیں بازو کے دانشور لاچاری اور مایوسی کے مقام تک آگئے۔ وہ بھٹو کی تاریخ کے دہرائے جانے سے خوف زدہ ہوگیا۔ انھیں وہ زمانہ یاد آیا کہ کس طرح بھٹو ان کے ہاتھ سے نکل کر دوسری طرف نکل گئے تھے۔
جب عمران نے اسٹیج پر نماز ادا کرکے اور ''تیری عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں'' کی دعا پڑھنا شروع کی، جو سورہ فاتحہ کے ترجمے کا حصّہ ہے، تو لبرل طبقہ مایوسی کی انتہا تک پہنچ گیا۔ جب عمران نے آزاد خیال این جی اوز پر تنقید کی کہ اصل لبرلز تو ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جب کہ یہ طبقہ ڈرون حملوں اور عافیہ صدیقی کے مسئلے پر خاموش ہے۔ جب عمران نے جماعت اسلامی سے اتحاد کی بات کی تو اس طبقے کی آخری امید بھی دم توڑ گئی۔ اب اس طبقے کو عمران کے حوالے سے کوئی خوش فہمی نہیں۔نواز شریف، آصف زرداری، مولانا فضل الرحمن اور لبرل طبقہ، یہ چار لوگ یا گروہ ہیں جو عمران کی بدولت عاجز، بے زار، پریشاں اور لاچار ہیں۔ آنے والا وقت جلد ثابت کرے گا کہ واقعی یہ چار ہیں عمران سے لاچار؟