دہشت گردی کا خاتمہ اور انصاف کے تقاضے
انصاف ہی کسی ملک کے سماجی ، معاشی اور سیاسی استحکام اور بقا کا ضامن ہے
قومی اسمبلی میں جمعہ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سالہ توسیع کے لیے آئین و قانون میں ترامیم کے دو الگ الگ بل پیش کردیے گئے۔ پیپلز پارٹی اور حکومتی اتحادی جمعیت علماء اسلام (ف)نے دونوں بلز کی مخالفت کی ، مولانا فضل الرحمان نے طویل بیان میں اپنا موقف پیش کیا ، بعض ارکان اسمبلی نے بل پر خدشات کا اظہار کیا ہے، اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ دونوں بل جمہوری پراسیس کے تحت کمیٹی میں جائیں گے، اسپیکر کے مطابق وزیر قانون زاہد حامد نے فوجی عدالتوں میں توسیع کے لیے آئینی ،آرمی ایکٹ میں ترمیمی بل پیش کیے جن پر پیر کو تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت ہوگی ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کو درپیش دہشتگردی کی غیر معمولی صورتحال میں جن غیر معمولی اقدامات کی ضرورت محسوس ہورہی ہے وہ ہر اس قوم اور ریاست کی سلامتی کے تحفظ کے لیے ناگزیر سمجھی جاتی ہے جس میں فوجی عدالتوں کی ضرورت اور اس کے ذریعے دہشتگردوں کو جلد سے جلد کیفرکردار تک پہنچانا وقت اور زمینی حقائق کا تلخ جمہوری تجربہ یا جبر ہی سہی بہر حال ناگزیر تقاضا بن جاتا ہے۔
پاکستان کو اپنے جمہوری عمل کے موجودہ دورانیے میں دہشتگردی کے خلاف ناقابل یقین سنگ میل عبور کرنے کا اعزاز حاصل ہوا جس میں آپریشن ضرب عضب، کراچی ٹارگٹڈ آپریشن اور نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد سمیت فوجی عدالتوں کا قیام بھی ان میں شامل ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جمہوری نظام میں معمول کی سویلین عدالتوں پر انحصار اور معروف عدالتی طریق کار کے ذریعے انصاف کی روایات کی پاسداری اعلیٰ عدالتی آدرش ہے اور تمام جمہوریت پسندوں کا اس پر ایمان ہے کہ انصاف ہی کسی ملک کے سماجی ، معاشی اور سیاسی استحکام اور بقا کا ضامن ہے، اس لیے جب فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ہوا اور ان عدالتوں کے ذریعہ دہشگردوں کو سزائے موت دینے کا سلسلہ شروع ہوا تو قوم نے اس اقدام کی منظوری میں تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے پر اطمینان کا اظہار کیا جب کہ سینٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی کا اس ضمن میں جو دل گرفتہ بیان میڈیا میں آیا وہ ہر جمہوریت پسند کے دل کی آواز تھا، مگر یہ کڑوا گھونٹ پی کر ہی فوری انصاف کی فراہمی کا نتیجہ سامنے آیا۔
دہشتگرد افغانستان فرار ہوئے، فورسز سے جھڑپوں میں مارے گئے یا گرفتار ہوکر جیلوں میں ڈالے گئے، ان پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلے اور 12 دہشتگردوں کو پھانسی دی گئی جب کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے حالیہ دہشتگردی کے دردناک واقعات کے رونما ہونے پر اسی عزم کا اظہار کیا کہ دہشتگردوں کو نہیں چھوڑا جائے گا، چنانچہ9 مارچ کو فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے 5 دہشگردوں کی سزاؤں پر دوبارہ عملدرآمد شروع ہوگیا اور بدھ کی صبح کو ان دہشتگردوں کو ڈسٹرکٹ جیل کوہاٹ میں پھانسی دے دی گئی ۔ بلاشبہ سیاسی جماعتوں نے دہشتگردی کے خاتمہ کے عزم کو سیاسی مصلحتوں سے بالاتر سمجھا اور یہ ملکی جمہوری نظام میں استقامت اور حقیقت پسندی کی طرف سفر کا مستحسن اشارہ ہے۔
قبل ازیں پارلیمانی رہنماؤں کا اجلاس جمعرات کو ہوا، اسپیکرقومی اسمبلی ایازصادق نے کہا کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیںسمجھتی ہیںکہ ملک اس وقت حالت جنگ میں ہے اور فوجی عدالتیں وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ میڈیاسے بات کرتے ہوئے اسپیکرنے کہاکہ پیپلزپارٹی نے اپنے 9نکاتی مسودے کی کاپی دی جو وزیراعظم کو بھیج دی گئی اور یہ مسودہ دیگرسیاسی جماعتوںکو بھی پیش کیا جائے گا۔ انھوں نے امید ظاہر کی تھی کہ حکومت اور اپوزیشن فوجی عدالتوں کے معاملے پر متفق ہوجائیں گی۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے انسانی حقوق بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سالہ توسیع پر متفق ہوگئی ہیں، لیکن اس کے بعد وزیر خزانہ اسحاق دار اور پی پی کے ترجمان فرحت اللہ بابر کے مابین اتفاق و تردید کے بیانات آئے ،کچھ مایوس کن صورتحال پیدا ہونے لگی تھی کہ بات پارلیمنٹ تک جا پہنچی، اگر بل کے متن پر نظر ڈالی جائے تو وہ دہشتگردی کے خلاف جدوجہد کے عدالتی نکتہ کا نچوڑ ہے۔
بات سویلین عدالتوںسے انحراف کی نہیں بلکہ حالت جنگ میں ہونے کی مجبوری ہے ، ملک کو ہر قیمت پر دہشتگردوںسے پاک کرنا ریاستی مشینری اور عدلیہ کا فریضہ ہے، اس استدلال پر دو رائے ممکن نہیں کہ دہشتگردی کو کسی طور اسلام یا مذہب سے نہ جوڑا جائے مگر اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ دہشت گرد نیٹ ورک نے انتہا پسندی اور بیگناہوں کے قتل عام میں اپنا مذہبی اور فرقہ وارانہ ایجنڈا قوم پر مسلط کرنے کی وارداتیں کیں ، ان کا کوئی سیاسی منشور یا جمہوری نظریہ نہیں وہ بندوق کی نوک پر اپنے مطالبات منوانے کے جنون میں مبتلا ہیں، اس لیے پارلیمنٹ کی طرف سے عوام کو سیاسی اتفاق رائے کا پیغام جانا چاہیے، اور اب جب کہ معاملہ قومی اسمبلی میں ہے اس لیے امید کی جانی چاہیے کہ کسی قسم کا ڈید لاک پیدا نہیں ہوگا اور عدالتی توسیع پر قومی اتفاق رائے سے ایک ایسا فیصلہ کیا جائے گا کہ قانون سازی کے ذریعے دہشت گردوں کے راستے روکے جاسکیں اور فوری انصاف کر کے انسانیت کے قاتلوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے۔