ملکی اور غیر ملکی قرضوں میں اضافہ
قرضوں کا یہ حجم یقیناً تشویشناک بات ہے
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز اسلام آباد میں پریمیم پرائز بانڈ کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملکی قرضوں کے بارے میں بے بنیاد پروپیگنڈہ اور افواہیں پھیلائی جاتی ہیں' پاکستان اب بھی دنیا میں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم مقروض ہے' پاکستان کی اقتصادی ریٹنگ بہت بہتر ہو چکی ہے' وزیراعظم کے منشور کے مطابق پاکستان کو اقتصادی طور پر مستحکم کیا جا رہا ہے' پاکستان اسٹاک ایکسچینج دنیا کی پانچ بڑی اسٹاک مارکیٹوں میں شامل ہو چکی ہے' عالمی ماہرین پاکستان کو2030ء میں دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں شمار کر رہے ہیں۔
ایک جانب ملکی معیشت کے بارے میں ایسی خوش کن باتیں ہیں تو دوسری جانب گزشتہ روز قومی اسمبلی میں پارلیمانی سیکریٹری برائے داخلہ نے بتایا ہے کہ پاکستان کے ذمے واجب الادا ملکی و غیر ملکی قرضہ 58 ہزار 700 ارب روپے سے تجاوز کرگیا ہے، یکم جولائی 2016ء سے 31 دسمبر 2016ء تک یعنی صرف چار ماہ میں قرضوں میں 549 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
قرضوں کا یہ حجم یقیناً تشویشناک بات ہے' بہر حال ہمارے اکنامک منیجرز کے پاس اس معاشی بیماری کا بھی کوئی نہ کوئی علاج ہو گا تاہم پاکستان کی معیشت کو حقیقی معنوں میں مستحکم اسی وقت قرار دیا جا سکتا ہے جب اس پر قرضوں کا بوجھ کم ہو گا اور متوسط اور نچلا طبقہ آسودگی محسوس کرے گا' اس وقت سرکاری سطح پر غیر ترقیاتی اخراجات بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔
اخراجات کی اس رفتار کو دیکھ کر ''مال مفت دل بے رحم'' کا محاورہ ذہن میں آتا ہے کیونکہ یہ صاف ظاہر ہے کہ اتنے بھاری اخراجات کسی عوامی بھلائی کے منصوبے پر استعمال نہیں ہو رہے پارلیمنٹیرینزاور بیوروکریسی کی تنخواہوں اور الاؤنسز وغیرہ کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور نقطہ بھی قابل غور ہے کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ ترقیاتی قرضے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
عوامی بہبود کے بنیادی شعبے صحت اور تعلیم کے ہیں جن کی حالت زار بیان کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس بارے میں خاموشی ہی بہتر ہے جیسے شاعر نے کہا تھا کہ: خاموشی گفتگو ہے بے زبانی ہے زباں میری ۔ بہرحال موجودہ حکومت نے ماضی کی حکومت کی نسبت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ، جو قابل تحسین بات ہے، اب حکومت کو عوام دوست اقتصادی پالیساں بنانا چاہیں۔