مگر ذمے دار کون
ریاست کا بنیادی مقصد اور ذمے داری امن و امان کا قیام اور شہری سہولتوں کی فراہمی ٹھہرا
INCHEON:
سیاسیات کے ماہرین ''ریاست'' کے قیام کی یہ توجیہہ پیش کرتے ہیں کہ انسانی تہذیب کے ارتقاء کے ایک مقام پر انسانوں نے فیصلہ کیا کہ انھیں ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جو ان کے باہمی معاشی، معاشرتی و سیاسی مسائل کو پُرامن طریقے سے حل کرے۔ ایسے حالات میں ریاست وجود میں آئی۔
ریاست کا بنیادی مقصد اور ذمے داری امن و امان کا قیام اور شہری سہولتوں کی فراہمی ٹھہرا۔ ایسے ہی کچھ خوابوں کو نظریاتی ولولے کی آنچ دیتے ہوئے آشفتہ سروں نے پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس ملک میں اہل حکم اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ عوام کی ریاست کے ساتھ گہری جذباتی وابستگی ہے۔ وہ اس ملک کی خاطر قربانیاں دینے کو ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ حکمرانوں کو انھیں بس بنیادی سہولیات فراہم کرنا تھیں، وائے قسمت کہ یہ نہ ہو سکا۔
وفاقی وزیر داخلہ کا بیان ٹی وی پر ''تزک و احتشام'' کے ساتھ پیش کیا جا رہاہے ، محو حیرت ہوں کہ یہ سب کیا ہے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ وفاقی دارلحکومت میں خواتین محفوظ نہیں ان کے ساتھ زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ بیان اُس ہستی کے ہیں جو ملک میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمے دار ہے، وہ انتہائی بھولپن سے قانون شکنی کی شکایت کر رہے ہیں، کوئی انھیں یاد دلائے کہ ان کا کام شکایت کرنا نہیں حاجت روائی کرنا ہے۔ غمزدہ عوام کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کریں۔
ایسے ہی مثالی بھولپن کا مظاہرہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے بھی کیا گیا ہے۔ انھوں نے عالمی یوم خواتین کی تقریب میں ملکی حالات کا رونا رویا ہے۔ آٹھ نو برس تک مسلسل اقتدار میں رہنے کے بعد میاں شہباز شریف نے یہ اعتراف کیا ہے جو ان کے الفاظ میں ہی قوم کے سامنے پیش ہے۔ بلا تبصرہ۔
''لوٹ مار کے باعث لاکھوں بچے بچیاں مستقبل نہیں سنوار سکے، میرے سمیت اشرافیہ مجرم ہے۔ سب کو احتساب کا شفاف نظام خود لاگو کرنا ہو گا، بااختیار طبقے نے ملک کی تقدیر نہیں بدلنے دی، ہم نے قائد اور اقبال کے افکار کو بھلا دیا، خواتین کو ترقی کے عمل میں شریک کیے بغیر خوشحالی نہیں آ سکتی۔ کھربوں کے قرضے ہڑپ کرنے والے کرپشن کے خلاف بھاشن دیتے ہیں، پولیس افسر با اثر افراد کے خلاف مقدمہ درج نہیں کر سکتے غریب پر فوراً بن جاتا ہے۔ پی ایس ایل فائنل امن دشمنوں کے منہ پر تھپڑ ہے۔
ہمارے ہر دلعزیز وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور خواتین کو ترقی کے عمل میں شامل کیے بغیر پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔ 2008ء میں پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت بنی تو جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے اور منفرد تعلیمی فنڈ کی بنیاد رکھی اور آج پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ فنڈ کا حجم 20 ارب روپے ہو چکا ہے۔ اس فنڈ سے مالی وسائل کی کمی کا شکار غریب گھرانوں کے ایک لاکھ 75 ہزار بچے و بچیاں وظائف حاصل کر کے اپنی تعلیمی پیاس بجھا رہے ہیں۔ ان پیف اسکالرز میں ایک لاکھ 30 ہزار قوم کی بیٹیاں شامل ہیں۔
پاکستان صرف پنجاب سے نہیں بنتا بلکہ پاکستان میں پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان، سندھ، فاٹا، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان شامل ہیں۔ تعلیم اور صحت کی معیاری سہولیات عوام کا حق ہے اور پنجاب حکومت انھیں یہ حق لوٹا رہی ہے۔ آج اگر قوم کے ہزاروں بچے اور بچیاں وسائل نہ ہونے کے باعث انجینئرز، ڈاکٹرز، پروفیسرز، ٹیچرز بننے سے محروم رہ گئے ہیں تو اس کی ذمے دار اشرافیہ ہے، قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ریاست کا فرض ہے لیکن بدقسمتی سے سیاستدان، اشرافیہ، افسر شاہی اور بااختیار طبقے نے ملک کی تقدیر کو بدلنے نہیں دیا۔
اگر قوم کے ان نگینوں کو زیور تعلیم سے آراستہ وسائل فراہم کیے جاتے تو پاکستان کا شمار بھی آج ترقی یافتہ ممالک کی صف میں ہوتا۔ آئیں وزیر اعظم، میں، عمران خان، تمام سیاستدان، تاجر، جج، جنرل اپنے آپ کو پابند کریں کہ جس طرح وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں اسی طرح قوم کے غریب بچے اور بچیوں کو تعلیم دلانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور یہی پاکستان کو آگے لے جانے کا واحدراستہ ہے۔ خادم اعلیٰ نے کہا کہ 70ء کی دہائی میں پاکستان ترقی کے لحاظ سے کئی ممالک سے آگے تھا اور پاکستانی کرنسی بھارت کے مقابلے میں مضبوط تھی۔ ہم نے قائد اور اقبال کی تعلیمات اور افکار کر بھلا دیا جس کے باعث آج وہ قومیں ہم سے آگے نکل چکی ہیں جو پیچھے تھیں۔
انھوں خودروزگار اسکیم کے تحت15 ہزار روپے کا بلا سودقرضہ لے کر اکیڈمی چلانے والی خاتون کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ ماں کسی بینک سے قرضہ لیتی اور کسی وجہ کے باعث یہ قرضہ واپس نہ کر سکتی تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہو جاتی۔ دوسری طرف کاروں، کوٹھیوں، فیکٹریوں کے مالکان امیر ترین لوگ موجود ہیں جنھوں نے اس غریب قوم کے اربوں کھربوں روپے کے قرضے ہڑپ کیے لیکن وہ ایمانداری، دیانت اور کرپشن کے خلاف لیکچر اور بھاشن دیتے ہیں۔
ان امیر ترین لوگوں نے قرضے ہڑپ کر کے پاکستان کے غریب لوگوں کا حق مارا ہے، غریبوں، یتیموں، مسکینوں کا حق مارنے والوں ان افراد کو کوئی پوچھنے ولا نہیں۔ گزشتہ 70 سالوں میں اس ملک کے وسائل کو بیدردی سے لوٹا گیا۔ شفاف احتساب کے بغیر کوئی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی۔ وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، وزراء، ججز، جنرلز، تاجروں، سیاستدانوں اور سب کو احتساب کے شفاف نظام کو اپنے آپ پر لاگو کرنا ہو گا۔ ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہمارے مذہب اسلام نے اور نبیﷺ کے اسوہ حسنہ نے
ہمیں آگے بڑھنے کے بارے میں بتا دیا ہے۔ عوام کو سہولتوں کی فراہمی کے لیے لوٹ کھسوٹ بند کرنا ہو گی، اگر میں یہ کہوں کہ سب اچھا ہے تو یہ غلط ہو گا ہم مسائل کے حل اور معاملات کو ٹھیک کرنے کی جانب تیزی سے بڑھ رہے ہیں جب تک دم میں دم ہے اور جسم میں خون کا آخری قطرہ موجود ہے پاکستان کی عظمت، ترقی و خوشحالی کے لیے کام کرتے رہیں گے اور وسائل عوام کے قدموں میں نچھاور کرتے رہیں گے''۔
جب ریاست کے انتظام و انصرام کی ذمے دار شخصیت حالات کی درماندگی کا واویلا کرے تو عوام سوائے سر ہلانے کے اور کیا کر سکتے ہیں۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ مشاعرے میں شاعر اپنی درماندگی کا منظوم قصہ پیش کرے اور سامعین واہ واہ کریں مگر افسوس کہ مشاعرے اور حکومت میں بہت فرق ہوتا ہے۔
دکھ اس بات کا بھی ہے کہ یہ حالات کا رونا اس شخص نے رویا ہے جس کی انتظامی اہلیت ا ور صلاحیت پر کسی کو شک نہیں۔ میاں شہباز شریف ایک اعلیٰ پایہ کے منتظم ہیں وہ حکومت کی باریکیاں خوب سمجھتے ہیں ان کے کریڈٹ پر کئی ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی ہے۔ دل دہلتا ہے یہ سوچ کر کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ ایک منتظم اعلیٰ کو عوام کے سامنے ان کو درپیش مسائل ان ہی کی زبان میں پیش کرنا پڑے۔ وہ جوشِ تقریر میں غالباً بھول گئے کہ وہ ڈائس کے اِس طرف ہیں یا اُس طرف۔
''اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا''
ہو سکتا ہے کہ یہ ان کی انتہائے خلوص ہو، ایک لمحے کو دل گداز ہوتا ہے یہ سوچ کر کہ ہمارے وزراء ہمارے ساتھ مل کر آنسو بہانا چاہتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کا کام آنسو بہانا نہیں اشک شوئی کرنا ہے۔ رات ہونے کو ہے میرے جیسے عام شہری اخبارات میںاپنے وزیر اعلیٰ کی داستانِ الم اور ٹی وی پر اپنے وزیر داخلہ کی دہائی سن کر سوچ رہے ہیں کہ دروازے بند کر لیے جائیں۔ رات کو چوکنا رہا جائے، دن کو ہمت باندھ کر غمِ روزگار کا اہتمام کیا جائے کیونکہ ریاست کے ذمے داروں نے تو سادہ الفاظ میں کہہ دیا ہے ۔
''جاگدے رہنا، ساڈے تے نہ رہنا''