دائروں کے درمیاں
’’دائروں کے درمیان‘‘ ظفر محمود کے دس عدد افسانوں کا مجموعہ ہے
ناول ''23 دن'' کے بعد یہ ظفر محمود کی دوسری کتاب ہے جو کم و بیش 23 برس کے وقفے سے ہی سامنے آئی ہے۔ اگرچہ بقول شخصے بیوروکریٹ کبھی سابق نہیںہوتا کہ وہ بھی ریٹائر جج اور ریٹائر فوجی کی طرح ہمیشہ اپنے اسی تعارف سے مخاطب کیا جانا پسند کرتا ہے مگر جتنا اور جیسا میں ظفر محمود کو جانتا ہوں وہ سروس کے دوران میں بھی اس تعارف سے کوئی بہت زیادہ خوش نہیں تھا کہ ایک تخلیقی آدمی کے لیے کسی مشین کا پرزہ بن کر زندگی گزارنا ویسے بھی بہت مشکل ہوتا ہے۔
''دائروں کے درمیان'' ظفر محمود کے دس عدد افسانوں کا مجموعہ ہے لیکن یہ سب کے سب افسانے ان حقیقی کرداروں اور واقعات پر کسی نہ کسی حد تک مبنی ہیں جو ظفر محمود کے مشاہدے اور تجربے سے گزرے ہیں اور ان میں سے بیشتر کے عنوانات بھی اس خیال کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں جو کچھ یوں ہیں۔
-1لاؤڈ اسپیکر -2 رشوت -3 او ایس ڈی -4 کھری عورت -5 طلسمی چادر -6 لالو کھیت کی لڑکی -7 خبیث -8 دوستی کا سفر -9 پھپھوندی -10 محب وطن
ظفر محمود نے ایک انوکھی اختراع یہ کی ہے کہ فہرست میں عنوانات درج کرنے کے ساتھ ساتھ ان کہانیوں کے کرداروں، واقعات، ان سے متعلق سماجی رویوں اور ان سے سیکھے جانے والے اسباق کی نشاندہی بھی چند سطروں میں بہت دلچسپ انداز میں کر دی ہے۔ مثال کے طور پر پہلی کہانی ''لاؤڈ اسپیکر'' کا وضاحتی نوٹ کچھ اس طرح سے ہے۔''
''ایک غریب بستی کے دریدہ دل لوگوں کا گریہ
بے رونق زندگی کے سکون کی پاسبانی۔ ایک سعیٔ لاحاصل
نچلے متوسط طبقے کی سماجی زندگی میں پیدا ہونے والے ناگہانی تلاطم کی داستان،
ان ناپسندیدہ حقائق کو آشکار کرتی ہے جن سے چشم پوشی ہماری عادت ہے
اہل دل کی نذر جو دھرتی کی دھڑکنیں سنتے ہیں''
اسی طرح آخری کہانی یعنی ''محب وطن'' کا تعارفی خاکہ کچھ یوں ہے
''معاشرے کی ستم کاریوں سے بے نیاز...
کھلی آنکھوں سے سنہرے سپنے دیکھنے والے، دھرتی سے جڑے خوش نظر، خوش فہم خاک نشینوں کے علامتی کردار کی اک حیات رائیگاں داستان عبرت نشاں حب الوطنی کے علم بردار ہم وطنوں کے لیے ایک استخارہ...''
اب یہ باتیں بظاہر کیسی ہی عجیب اور ایک حوالے سے غیر ضروری کیوں نہ لگیں (کہ اہل نظر اور صاحب فہم قارئین اسے اپنی ذہانت پر عدم اعتماد کا اظہار بھی سمجھ سکتے ہیں) مگر حقیقت یہ ہے کہ ان اشاروں کی روشنی میں ان کہانیوں کے وہ محرکات دوبارہ واضح ہو کر سامنے آتے ہیں جن کی وجہ سے مصنف یعنی ظفر محمود نے انھیں قلم بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان کے ذکر سے پہلے ظفر محمود کی تحریر کی ایک خاص خوبی کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس کے بیانیہ میں فطری طور پر ڈرامے کے کچھ عناصر مثلاً مکالمہ اور اسکرین پلے ایسے ہیں جو بطور کہانی کار اسے ایک علیحدہ شناخت اور پہچان دیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے یہ بات میں نے برسوں پہلے اس کے ناول ''23 دن'' پر مضمون لکھتے وقت بھی کہی تھی کہ چند جزئیات سے قطع یہ لکھا ہی ایک ایک ڈرامے کی طرح گیا تھا اور مجھے یقین ہے کہ اگر اس پر کوئی سیریل یا طویل دورانیے کا کھیل بنایا جاتا تو وہ ایک سنگ میل ثابت ہوتا۔ زیرنظر کہانیوں میں دورانیے کی محدودیت، موضوعات کی حد بندیوں اور کردار نگاری میں اختصار کی وجہ سے اگرچہ یہ ڈرامائی عناصر نسبتاً کم ہیں مگر روایتی انداز اور اسلوب کہانیوں کے مقابلے میں اب بھی یہ ڈرامے کا بہتر میٹریل ہیں۔
جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا کہ ظفر محمود کی زندگی کا بیشتر حصہ ایک اعلیٰ سول سرونٹ کے طور پر مختلف تعیناتیوں میں گزرا ہے جس کے دوران اسے فیلڈ' پالیسی سازی کی بو قلمونیوں، محلاتی سازشوں اور بلند کردار کے ساتھ ایک پست صورتحال میں اور اسے قریب سے دیکھنے کا عملی تجربہ بھی حاصل ہوا ہے۔ اس پر مستزاد اس کا زندگی کے بارے میں وہ انداز نظر ہے جو غربت، جہالت اور ہر نوع کے ساتھ ساتھ ایک بالغ نظر اور درد مند انسان کی طرح اس کا گہرا اور بھر پور تجزیہ بھی کرتا ہے۔
بیشتر کہانیوں کے انجام یعنی کلائمکس کوئی بہت زیادہ چونکانے والے نہیں ہیں کہ ظفر محمود کا عمومی جھکاؤ اس صورتحال کی تصویر کشی میں رہتا ہے جس کو وہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ اس کا بیانیہ بہت مضبوط، کردار نگاری خوب صورت اور مکالمے انتہائی برجستہ اور کرداروں کی نفسیات کے عین مطابق ہیں۔ وہ بظاہر بلیک اینڈ وائٹ میں منقسم کرداروں کی شخصیت کے گرے ایریاز کو بہت خوبصورتی سے اس طرح نمایاں کرتا ہے کہ وہ شیطان اور فرشتے کے بجائے ''انسان'' کی درمیانی شکل اختیار کر لیتے ہیں ایک ہی کردار ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے اور جھکنے یا بکنے سے انکار کردیتا ہے مگر آگے چل کر حالات اسی کو جھکنے تو کیا ٹوٹنے پر بھی مجبور کردیتے ہیں۔
اس اعتبارسے ان کہانیوں میں ہمارے دور کے اس معاشرتی دباؤ کی فن کارانہ عکاسی کی گئی ہے جس میں معیشت، معاشرت، سیاست، جہالت، خود حفاظتی اور مذہب کہیں علیحدہ علیحدہ اور کہیں مل کر اپنی انسان کش طاقت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک بہت عمدہ مثال وہ کہانی ہے جس کا عنوان ''او ایس ڈی'' رکھا گیا ہے۔
سرکاری ملازمت کرنے والوں کے لیے اس آشوب سے گزرنا کیسی کیسی کیفیات کو جنم دے سکتا ہے۔ اس کا صحیح اندازہ شاید صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس ''امتحان'' سے کسی جائز یا ناجائز وجہ سے عملی طور پر گزرے ہوں۔ کہنے کو تو ظفر محمود نے اس میں ایک مخصوص ذہنیت کے حامل کردار ابرار علی کو موضوع بنایا ہے لیکن بین السطور میں وہ اس معاملے کے کئی ایسے پہلو بھی سامنے لے آیا ہے جو اگر براہ راست تجربے کا نتیجہ نہ بھی ہوں تب بھی غیر معمولی قوت مشاہدہ کا احساس ضرور دلاتے ہیں۔
زیادہ حیرت اور خوشی ان کرداروں اور واقعات کے بیانیے میں ہوتی ہے جن کا تعلق بظاہر مصنف کے تجربے سے زیادہ مشاہدے سے ہے۔ ایسے جیتے جاگتے اور بھر پور کرداروں کی نفسیات کو سمجھنا اور پھر انھیں انتہائی موثر اندازمیں پیش کرنا بہت جان جوکھوں کا کام ہے اور اس کی وضاحت میں صرف ناصر کاظمی کا یہ مشہور شعر بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ
کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصر
یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو
''دائروں کے درمیان'' کے ساتھ جدید اردو افسانے کو ایسا کہانی کار ملا ہے جس کے یہاں امکانات قطار باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ بالخصوص عالمی سطح پر جدید فکشن میں الیکٹرانک میڈیا کے زیر اثر مختلف ڈرامائی عناصر جس طرح سے شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں اردو فکشن میں ظفر محمود کو اگر اس کے بہترین نمائندوں میں شامل کیا جائے تو میرے نزدیک یہ مبالغہ نہ ہو گا۔
''دائروں کے درمیان'' ظفر محمود کے دس عدد افسانوں کا مجموعہ ہے لیکن یہ سب کے سب افسانے ان حقیقی کرداروں اور واقعات پر کسی نہ کسی حد تک مبنی ہیں جو ظفر محمود کے مشاہدے اور تجربے سے گزرے ہیں اور ان میں سے بیشتر کے عنوانات بھی اس خیال کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں جو کچھ یوں ہیں۔
-1لاؤڈ اسپیکر -2 رشوت -3 او ایس ڈی -4 کھری عورت -5 طلسمی چادر -6 لالو کھیت کی لڑکی -7 خبیث -8 دوستی کا سفر -9 پھپھوندی -10 محب وطن
ظفر محمود نے ایک انوکھی اختراع یہ کی ہے کہ فہرست میں عنوانات درج کرنے کے ساتھ ساتھ ان کہانیوں کے کرداروں، واقعات، ان سے متعلق سماجی رویوں اور ان سے سیکھے جانے والے اسباق کی نشاندہی بھی چند سطروں میں بہت دلچسپ انداز میں کر دی ہے۔ مثال کے طور پر پہلی کہانی ''لاؤڈ اسپیکر'' کا وضاحتی نوٹ کچھ اس طرح سے ہے۔''
''ایک غریب بستی کے دریدہ دل لوگوں کا گریہ
بے رونق زندگی کے سکون کی پاسبانی۔ ایک سعیٔ لاحاصل
نچلے متوسط طبقے کی سماجی زندگی میں پیدا ہونے والے ناگہانی تلاطم کی داستان،
ان ناپسندیدہ حقائق کو آشکار کرتی ہے جن سے چشم پوشی ہماری عادت ہے
اہل دل کی نذر جو دھرتی کی دھڑکنیں سنتے ہیں''
اسی طرح آخری کہانی یعنی ''محب وطن'' کا تعارفی خاکہ کچھ یوں ہے
''معاشرے کی ستم کاریوں سے بے نیاز...
کھلی آنکھوں سے سنہرے سپنے دیکھنے والے، دھرتی سے جڑے خوش نظر، خوش فہم خاک نشینوں کے علامتی کردار کی اک حیات رائیگاں داستان عبرت نشاں حب الوطنی کے علم بردار ہم وطنوں کے لیے ایک استخارہ...''
اب یہ باتیں بظاہر کیسی ہی عجیب اور ایک حوالے سے غیر ضروری کیوں نہ لگیں (کہ اہل نظر اور صاحب فہم قارئین اسے اپنی ذہانت پر عدم اعتماد کا اظہار بھی سمجھ سکتے ہیں) مگر حقیقت یہ ہے کہ ان اشاروں کی روشنی میں ان کہانیوں کے وہ محرکات دوبارہ واضح ہو کر سامنے آتے ہیں جن کی وجہ سے مصنف یعنی ظفر محمود نے انھیں قلم بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ان کے ذکر سے پہلے ظفر محمود کی تحریر کی ایک خاص خوبی کا ذکر کرنا ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس کے بیانیہ میں فطری طور پر ڈرامے کے کچھ عناصر مثلاً مکالمہ اور اسکرین پلے ایسے ہیں جو بطور کہانی کار اسے ایک علیحدہ شناخت اور پہچان دیتے ہیں۔
مجھے یاد ہے یہ بات میں نے برسوں پہلے اس کے ناول ''23 دن'' پر مضمون لکھتے وقت بھی کہی تھی کہ چند جزئیات سے قطع یہ لکھا ہی ایک ایک ڈرامے کی طرح گیا تھا اور مجھے یقین ہے کہ اگر اس پر کوئی سیریل یا طویل دورانیے کا کھیل بنایا جاتا تو وہ ایک سنگ میل ثابت ہوتا۔ زیرنظر کہانیوں میں دورانیے کی محدودیت، موضوعات کی حد بندیوں اور کردار نگاری میں اختصار کی وجہ سے اگرچہ یہ ڈرامائی عناصر نسبتاً کم ہیں مگر روایتی انداز اور اسلوب کہانیوں کے مقابلے میں اب بھی یہ ڈرامے کا بہتر میٹریل ہیں۔
جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا کہ ظفر محمود کی زندگی کا بیشتر حصہ ایک اعلیٰ سول سرونٹ کے طور پر مختلف تعیناتیوں میں گزرا ہے جس کے دوران اسے فیلڈ' پالیسی سازی کی بو قلمونیوں، محلاتی سازشوں اور بلند کردار کے ساتھ ایک پست صورتحال میں اور اسے قریب سے دیکھنے کا عملی تجربہ بھی حاصل ہوا ہے۔ اس پر مستزاد اس کا زندگی کے بارے میں وہ انداز نظر ہے جو غربت، جہالت اور ہر نوع کے ساتھ ساتھ ایک بالغ نظر اور درد مند انسان کی طرح اس کا گہرا اور بھر پور تجزیہ بھی کرتا ہے۔
بیشتر کہانیوں کے انجام یعنی کلائمکس کوئی بہت زیادہ چونکانے والے نہیں ہیں کہ ظفر محمود کا عمومی جھکاؤ اس صورتحال کی تصویر کشی میں رہتا ہے جس کو وہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ اس کا بیانیہ بہت مضبوط، کردار نگاری خوب صورت اور مکالمے انتہائی برجستہ اور کرداروں کی نفسیات کے عین مطابق ہیں۔ وہ بظاہر بلیک اینڈ وائٹ میں منقسم کرداروں کی شخصیت کے گرے ایریاز کو بہت خوبصورتی سے اس طرح نمایاں کرتا ہے کہ وہ شیطان اور فرشتے کے بجائے ''انسان'' کی درمیانی شکل اختیار کر لیتے ہیں ایک ہی کردار ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتا ہے اور جھکنے یا بکنے سے انکار کردیتا ہے مگر آگے چل کر حالات اسی کو جھکنے تو کیا ٹوٹنے پر بھی مجبور کردیتے ہیں۔
اس اعتبارسے ان کہانیوں میں ہمارے دور کے اس معاشرتی دباؤ کی فن کارانہ عکاسی کی گئی ہے جس میں معیشت، معاشرت، سیاست، جہالت، خود حفاظتی اور مذہب کہیں علیحدہ علیحدہ اور کہیں مل کر اپنی انسان کش طاقت کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کی ایک بہت عمدہ مثال وہ کہانی ہے جس کا عنوان ''او ایس ڈی'' رکھا گیا ہے۔
سرکاری ملازمت کرنے والوں کے لیے اس آشوب سے گزرنا کیسی کیسی کیفیات کو جنم دے سکتا ہے۔ اس کا صحیح اندازہ شاید صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس ''امتحان'' سے کسی جائز یا ناجائز وجہ سے عملی طور پر گزرے ہوں۔ کہنے کو تو ظفر محمود نے اس میں ایک مخصوص ذہنیت کے حامل کردار ابرار علی کو موضوع بنایا ہے لیکن بین السطور میں وہ اس معاملے کے کئی ایسے پہلو بھی سامنے لے آیا ہے جو اگر براہ راست تجربے کا نتیجہ نہ بھی ہوں تب بھی غیر معمولی قوت مشاہدہ کا احساس ضرور دلاتے ہیں۔
زیادہ حیرت اور خوشی ان کرداروں اور واقعات کے بیانیے میں ہوتی ہے جن کا تعلق بظاہر مصنف کے تجربے سے زیادہ مشاہدے سے ہے۔ ایسے جیتے جاگتے اور بھر پور کرداروں کی نفسیات کو سمجھنا اور پھر انھیں انتہائی موثر اندازمیں پیش کرنا بہت جان جوکھوں کا کام ہے اور اس کی وضاحت میں صرف ناصر کاظمی کا یہ مشہور شعر بھی پیش کیا جاسکتا ہے کہ
کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصر
یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو
''دائروں کے درمیان'' کے ساتھ جدید اردو افسانے کو ایسا کہانی کار ملا ہے جس کے یہاں امکانات قطار باندھے کھڑے نظر آتے ہیں۔ بالخصوص عالمی سطح پر جدید فکشن میں الیکٹرانک میڈیا کے زیر اثر مختلف ڈرامائی عناصر جس طرح سے شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں اردو فکشن میں ظفر محمود کو اگر اس کے بہترین نمائندوں میں شامل کیا جائے تو میرے نزدیک یہ مبالغہ نہ ہو گا۔