محبت کی ضرورت ہے 

موجودہ دہشتگردی کی لہر ہو یا گزشتہ چند سالوں کی، ہر جگہ مذہبی منافرت کے سانپ لہرا رہے ہیں


Raees Fatima March 12, 2017
[email protected]

مولانا ابوالکلام آزاد نے ایک بڑی سچی اور اہم بات کہی ہے ''دنیا میں مذہب کے نام پر جتنی قتل و غارت گری ہوئی اتنی بڑی بڑی جنگوں میں نہیں ہوئی'' آج کی صورت حال بعینہ ایسی ہی ہے۔ مذہبی رواداری کا پاس رکھنے والے بہت کم ہیں اور نفرت کے شعلوں کو ہوا دینے والے بہت زیادہ۔ سچی بات کہنے والوں کو جینے کا حق نہیں دیا جاتا۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سرزمین کی جغرافیائی حیثیت بڑی تشویشناک ہے۔

قبائلی کلچر، سرداری نظام اور وڈیرہ شاہی پروردہ قوتوں کا اپنا اپنا قانون ہے۔ ان کے ترازو اور باٹ بھی ان ہی کی مرضی کے ہیں اور ترازوکے کانٹے بھی ان ہی کی مرضی سے جھکائے اور بڑھائے جاتے ہیں۔ یہ جب چاہیں اور جیسے چاہیں کسی بھی پلڑے کو جھکا دیتے ہیں، عدالتی نظام کو ماننا یہ اپنی طاقت کی توہین سمجھتے ہیں۔

موجودہ دہشتگردی کی لہر ہو یا گزشتہ چند سالوں کی، ہر جگہ مذہبی منافرت کے سانپ لہرا رہے ہیں۔ مزارات پہ حملے ہو رہے تھے اور ہو رہے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ اپنی طاقت دکھانا یا دوسروں پر اپنی مرضی اور اپنا مسلک مسلط کرنا۔ ہمارے بعض علما بھی اس نفرت کو اپنے خطبات میں ہوا دیتے ہیں۔ سرکار کی عین ناک کے نیچے اور نظروں کے سامنے دہشتگردوں کا نیٹ ورک کامیابی سے چل رہا ہے۔

ایسے ماحول میں سب سے زیادہ ضرورت مذہبی رواداری کی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا کہ ... ''اپنا عقیدہ مت چھوڑو، دوسروں کے عقیدے کو مت چھیڑو'' بات صرف ''چھیڑو'' کی ہے۔ لیکن یہاں تو یہ عالم ہے کہ ایک فرقہ دوسرے فرقے کی مسجد میں نماز نہیں پڑھ سکتا، وقفوں وقفوں سے اذانیں ہوتی ہیں، مختلف دنوں میں عید منائی جاتی ہے۔ کس کی مجال ہے کہ رویت ہلال کمیٹی کی بات نہ ماننے والوں کی گردن ناپی جائے۔ حکومت کی کوئی رِٹ ہو تو وہ بلا وجہ کا اختلاف کرنے والوں کی گردن ناپے۔ وجہ وہی مذہبی رواداری اور حکومت کا ناکام ہونا ہے۔

جو لوگ بین المذاہب یک جہتی کے حامی ہیں وہ کھل کر اپنی بات نہیں کر سکتے کیونکہ نفرت میں بڑی طاقت ہوتی ہے۔ کسی جگہ کسی سے دشمنی یا نفرت کا اظہارکیا جا رہا ہو تو آپ دیکھیے کہ ہر شخص اپنی بساط کے مطابق لقمہ دے گا تاکہ نفرت کا درخت تناور ہو جائے لیکن جہاں کہیں محبت، اخلاص اور رواداری کی بات ہو گی تو لوگ ایک کان سے سن کے دوسرے کان سے اڑا دیتے ہیں۔

تعجب ہے کہ ایسے ماحول میں بھی بھارت کے شہر میرٹھ میں ایک شخص مذہبی رواداری کا پرچم بلند کیے ہوئے ہے۔ یہ ہیں ایک مدرسے کے ناظم ''شیخ الحدیث مولانا شاہین جمالی چترویدی'' یہ اپنی اسلامی تعلیمات کے علاوہ ہندوؤں کی مذہبی کتابیں بھی پڑھاتے ہیں۔ اسی لیے یہ رواداری کی زندہ مثال بن گئے ہیں۔ کشادہ دل اور کشادہ ذہن والے مولانا ہندوؤں کی اکثریت والے علاقے صدر میں رہتے ہیں اور ان کا مدرسہ ایک سو بیس سال سے قائم ہے جس کا نام ''مدرسہ امداد الاسلام'' ہے۔ مدرسے میں ڈیڑھ سو کے قریب طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ جن میں سے اکثریت کا تعلق غریب خاندانوں سے ہے۔

مولانا نے سنسکرت کی تعلیم علی گڑھ یونیورسٹی کے استاد سید بصیر الدین سے حاصل کی، وہ قدیم ہندی کتب کے بہت بڑے عالم تھے۔ پنڈت کا خطاب انھیں ان کی علمی قابلیت پر پنڈت جواہر لعل نہرو نے دیا تھا۔ مولانا شاہین نے ہندو اور مسلمانوں کو قریب لانے کے لیے اسلامی تعلیمات اور سنسکرت کے اشلوک کا حوالہ دیتے ہیں۔ انھوں نے خود کو محدود نہیں کیا ہے۔ ان کا کہناہے کہ اپنے مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔ اس طرح لوگوں میں فاصلے ختم ہوتے ہیں اور قربتیں بڑھتی ہیں۔ انھوں نے خود کو انسانی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر دیا ہے۔

انھوں نے خود کو کسی ایک دائرے میں نہیں قیدکیا بلکہ اپنی سوچ کو وسیع کیا ہے، ان کے مدرسے میں ہندو اور مسلمان دونوں پڑھتے ہیں۔ مولانا شاہین اس سوچ کے حامی ہیں کہ پانی مٹکے میں ہو، سمندر میں ہو، جمی ہوئی برف ہو یا جگ اورگلاس میں رکھا ہو۔ ہے تو یہ پانی ہی۔ مختلف دریا سمٹ کر سمندر بن جاتے ہیں کنواں ہو، تالاب یا جھیل سب پانی کے کھیل ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی مذہب نفرت کی تعلیم نہیں دیتا۔ یہ نفرتیں سیاست دانوں کی ضرورت ہیں سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی جماعتیں۔ لوگوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پیدا کر کے انھیں آپس میں لڑاکر وہ اپنا ہدف حاصل کرتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں جہالت کا ڈیرہ ہے۔

جاگیردار ہوں، سردار ہوں یا وڈیرے یہ سب عام لوگوں کو تعلیم سے اسی لیے دور رکھتے ہیں تاکہ وہ تعلیم حاصل کرکے ان کے مقابل نہ کھڑے ہوجائیں ۔آج ہم جس منافقانہ دور سے گزر رہے ہیں اس میں سب سے زیادہ ضرورت مذہبی رواداری کی ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کے نصاب میں اسکول اورکالج کی سطح پر مذہبی رواداری اور بین المذاہب تعلیم کا نظام کیوں نہیں ہے۔ کیا اسکول اور کالج کی سطح پر ایک پرچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جس میں اسلام، ہندو مت، عیسائیت اور یہودیت سے آگاہی ہو تاکہ نفرت کی فضا ختم ہوسکے اور ہمارے طالب علم جان سکیں کہ دنیا کا کوئی مذہب تشدد اور دہشتگردی کی تعلیم نہیں دیتا۔

بد قسمتی سے ہماری مذہبی مجالس اور نماز کے خطبوں میں کبھی لوگوں کو اس طرف راغب نہیں کیا جاتا کہ وہ تشدد سے دور رہیں بلکہ زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ ''صرف ہم صحیح ہیں باقی سب غلط ۔'' اسی منفی سوچ کا نتیجہ ہے کہ آج ہم دنیا بھر میں رسوا ہیں اور نکو بن رہے ہیں۔ مسلمانوں کا نام صرف دہشتگردی سے جوڑ دیا گیا ہے۔ وہ بھی غلط نہیں کہتے کہ ہمارے بعض مدارس دہشتگردی میں ملوث ہیں۔ ہمیں ہمارے ہی برادر اسلامی ممالک میں کن ناموں سے پکارا جاتا ہے۔

ہمیں ایئرپورٹ پر سب سے آخر میں کھڑا کیا جاتا ہے کیونکہ ہمارا گرین پاسپورٹ ہماری دہشتگردی کی علامت ہے۔ ایسے میں کاش کوئی رہنما یا مولانا شاہین جیسا کوئی عالم اٹھے اور صرف نفرت کے خلاف علم بلند کرے تو پوری قوم ان کے پیچھے چل پڑے گی۔ یقین کیجیے ہر آدمی امن اور شانتی چاہتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے علما اور ہمارے نام نہاد لیڈروں کو امن کا نسخہ سوٹ نہیں کرتا۔ نفرت کی بنیاد پر ووٹ لے کر آنے والے جلد ہی بے نقاب ہوجاتے ہیں۔

ضرورت ہے صرف محبت اور امن کی۔ آج کی دنیا کو اس کی بڑی ضرورت ہے لیکن دہشتگردوں کے گاڈ فادرزکو امن اور شانتی کا ایجنڈاپسند نہیں، غربت، مہنگائی اور بے روزگاری نے دہشتگردی اور دوسرے مذاہب اور مسلک سے نفرت کا سامان خود بخود مہیا کردیا ہے اور ہم صرف نفرت کے کلبلاتے کیڑوں کو ریشم و کمخواب میں لپیٹ کر پال رہے ہیں۔

ضرورت پڑنے پر انھیں اطلس و کمخواب کے ڈبوں سے نکالتے ہیں، کبھی لعل شہباز قلندر کے مزار پر چھوڑ دیتے ہیں، کبھی عبداﷲ شاہ غازی کے مزار پر تو کبھی داتا دربار پر۔ آگے کیا ہونے والا ہے یہ انھیں پتہ ہوگا جنھیں سب پتہ ہوتا ہے بس کبھی کبھی جان بوجھ کر وہ انجان بن جاتے ہیں اور اسامہ بن لادن کا بلند و بالا گھر ان کی نظروں سے پوشیدہ ہو جاتا ہے ... اور پھر...؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں