فاٹا کا انضمام سیاست یا حقیقت
ایٹمی دھماکا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا
ایٹمی دھماکا کرنا کوئی آسان کام نہ تھا۔امریکا سمیت تمام مغربی ممالک کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی تھیں جب حکومت کسی طرح بھی اپنے فیصلے سے پیچھے نہ ہٹی تو امریکی حکومت نے فوجی اور اقتصادی امداد بند کرنے اور دیگر پابندیاں عائدکرنے کی دھمکی دے ڈالی مگر میاں صاحب ملک کی بقا اور دشمن کے ناپاک ارادوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنے ارادے سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے اور پھر 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکا ہی نہیں کیا بلکہ پاکستان کو ایٹمی ملک بنا ڈالا۔
پچھلے ہفتے کی ہی بات ہے کہ لاہور میں دشمن کے دہشت گردانہ حملے کے باوجود ملک کے وقار اورملک میں کرکٹ کی بحالی کی خاطر اپنوں کے ڈرانے اور دہشت گردی کے خطرے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پی ایس ایل کا فائنل فوج کے تعاون سے لاہور میں ہی کراکے رہے۔ میاں صاحب کا تیسرا تاریخی کارنامہ فاٹاکو قومی دھارے میں لاکر خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کا بے مثال فیصلہ ہے مگر یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس عمل کے مکمل ہونے میں پانچ برس کا عرصہ کیوں رکھا گیا ہے۔
حالات وواقعات کے تناظر میں اس فیصلے پر فوراً عمل درآمد ہونا چاہیے۔ بدقسمتی سے وطن عزیزکے اس خطے کو قیام پاکستان سے لے کر اب تک ہر حکومت مسلسل نظر انداز کرتی رہی جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ انگریز سامراج سے ایک معاہدے کے تحت اس خطے کو آزادی کے بعد فوری طور پر قومی دھارے میں نہیں لایا جاسکتا تھا۔چنانچہ تمام حکومتیں انگریزوں سے وفاداری نبھاتی رہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ انگریزوں نے ہمارے ساتھ کون سی وفا کی۔
کشمیر ہر لحاظ سے پاکستان کا حصہ بنتا تھا مگر وہ اسے متنازعہ بناکر چلے گئے جس کی وجہ سے پاکستان اب ستر برس بعد بھی حالت جنگ میں ہے اورمحض کشمیر کی وجہ سے پاکستانی قوم ساری مصیبتیں جھیل رہی ہے۔ فاٹا کا علاقہ انگریزوں کے زمانے سے ہر قسم کے جرائم پیشہ لوگوں کی جنت بنا ہوا تھا اوروہاں کے عوام انگریزوں کے نافذ کردہ غلامانہ اور جابرانہ نظام میں زندگی بسر کررہے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہاں کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی پھر افغانستان پر امریکی حملے کے بعد تو یہ خطہ دہشت گردی کا عالمی اڈہ بن گیا، مختلف ممالک کے دہشت گرد یہاں اپنی پناہ گاہیں بناکر پناہ گزین ہوگئے۔
افغان طالبان کے بعد پاکستانی طالبان نے بھی یہاں ڈیرے ڈال لیے۔ گو کہ طالبان کا مقصد چھاپہ مار جنگ کے ذریعے امریکی سامراج کو افغانستان سے نکالنا تھا مگر انھوں نے افغانستان کے بجائے پاکستان کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنانا شروع کردیا اور حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے افغانستان کو کم اور پاکستان کو زیادہ نقصان پہنچایا۔ شکر ہے کہ اب پاک فوج نے اس علاقے کو طالبان کی گند سے پاک کردیا ہے اب جو بھی دہشت گرد بچے کچھے رہ گئے ہیں انھیں بھی جلد ہی ٹھکانے لگادیا جائے گا۔
شاید طالبان کو ہماری فوج بہت پہلے ہی ٹھکانے لگاچکی ہوتی اگر ہماری بعض سیاسی اور مذہبی جماعتیں ان سے ہمدردی کا اظہار نہ کرتیں۔ خوش فہمی میں کچھ مذہبی جماعتیں انھیں اسلامی نظام کا داعی خیال کرتی رہیں کہ وہی بزور طاقت ملک میں اسلامی نظام نافذ کرکے رہیںگے حالانکہ افغانستان میں انھوں نے اسلامی اقدار کا جو حشر کیا ہے وہ ہم سب دیکھ چکے ہیں تاہم اسلامی نظام ایک حقیقت ہے اور وہ موجودہ پریشان اور شورش زدہ دنیا کا واحد شافی علاج ہے مگر افغانستان میںطالبان نے اسے بدنام کرکے رکھ دیا ہے ہماری حکومتیں بھی طالبان کی پھیلائی ہوئی ملک میں دہشت گردی کو روکنے میں ایک عرصے تک تذبذب سے کام لیتی رہیں ان سے کئی مرتبہ مذاکرات کے دور چلے مگر سب ناکام رہے۔ اس لیے کہ طالبان کی شرائط ایسی عجیب و غریب تھیں کہ انھیں پورا کرنا حکومت کے بس میں نہیں تھا۔
مذاکرات کے پس منظر میں ملک کے طول و عرض میں ان کی دہشت گردی بدستور جاری رہی مگر اس دہشت گردی کے بارے میں یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ مذہبی جماعتوں سے قریب طالبان کی کارروائیاں نہیں تھیں بلکہ انھیں بھارت نواز طالبان انجام دے رہے تھے تاہم افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت نواز طالبان دہشت گرد ان جماعتوں کے پسندیدہ طالبان کی آڑ میں اپنا گھناؤنا کھیل کھیلتے رہے، کاش کہ یہ جماعتیں ابتدا میں ہی اس بات کا ادراک کرلیتیں تو شاید ملک میں اتنی تباہی بربادی نہ ہوپاتی۔
اب اس وقت ملک میں جو دہشت گردی ہورہی ہے وہ بھارت نواز طالبان ہی انجام دے رہے ہیں۔ حال ہی میں بعض سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک نیا شوشا چھوڑا گیا ہے کہ پنجاب میں پختونوں کے خلاف بلا جواز کارروائیاں کی جارہی ہیں اس شوشے سے دہشت گردوں کو پورا پورا فائدہ پہنچ سکتا ہے اور حکومت کو ان کے خلاف کارروائیوں میں دشواریاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ پنجاب میں دہشت گردی کی اصل ذمے دار لشکر جھنگوی بتائی جاتی ہے اور اس کے تمام دہشت گرد پنجاب سے متعلق ہیں۔ لیکن ان کا طالبان سے گہرا ربط و ضبط قائم ہے یہ دونوں مل کر دہشت گردانہ کارروائیاں کررہے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے بھی اپنے ایک بیان میں پنجاب میں پختونوں کے ساتھ ناروا سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے حکومت پنجاب کے ترجمان نے اسے سیاسی بیان قرار دیا ہے ان کے مطابق اس بیان کے ذریعے پختونوں کی حمایت حاصل کرنے بھی کوشش کی گئی ہے۔ اس بیان کو پختونوں کو پنجاب کے خلاف کرنے کی سازش بھی کہا گیا ہے افسوس اس بات پر ہے کہ ملک میں پہلے ہی منافرت کی فضا پائی جاتی ہے تینوں چھوٹے صوبے پنجاب کو حق تلفی کا طعنہ دیتے رہتے ہیں یقینا پنجاب ملک کا بڑا صوبہ ہے اس کے وسائل بھی زیادہ ہیں مگر مسائل بھی سب سے زیادہ ہیں۔
اسی صوبے میں ہی سرائیکی اور چولستان جیسے پسماندہ علاقے واقع ہیں جہاں کے لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے بھی محتاج رہتے ہیں۔ پنجاب کے ان علاقوں کے لوگ کیا بلوچستان کی طرح ترقی کے معاملے میں پیچھے نہیں رہ گئے ہیں مگر حقیقت بات کوئی نہیں کرتا صرف پنجاب کو ہی مطعون کہاجاتا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے بلوچستان کے وزیراعلیٰ ثناء اﷲ زہری سے ایک ملاقات میں بہت اچھی بات کہی ہے کہ ملک کے تمام وسائل پوری قوم کے وسائل ہیں اور ہر صوبے کا ان پر برابر حق ہے حکومت اس امانت کو ایمانداری سے ان تک پہنچانے کی پابند ہے ماضی میں جو کچھ ہوا وہ مفاد پرست عناصر کا کیا دھرا تھا انھوں نے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے پر حکومت کرکے وہاں کے عوام کی حالت کو بہتر بنانے کے بجائے خود اپنی تجوریاں بھریں اور بعد میں دشمن کے ساتھ ساز باز کرکے صوبے کو علیحدگی کی راہ پر ڈالنے کی ناکام کوشش کی۔
اب جہاں تک طالبان کا تعلق ہے خواہ وہ افغانی ہوں یا پاکستانی ان میں اب کوئی تمیز نہیں کی جاسکتی۔ اچھے برے طالبان کی کہانی اب سمٹ چکی ہے۔ اب ان کا صفایا ناگزیر ہے بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ فضل اﷲ جیسا مولوی ''را'' کا کرائے کا دہشت گرد بن چکا ہے۔ جب سے اس نے ''را'' کے اشارے پر آرمی پبلک اسکول پشاور کے ڈیڑھ سو معصوم بچوں کو شہید کروایا ہے طالبان کی پاکستان دشمنی کھل کر سامنے آچکے ہے۔ افغان حکومت بھارت کی خوشنودی کے لیے پاکستان میں طالبان دہشت گردوں کی سہولت کار بنی ہوئی ہے۔
اب فاٹا کو قومی دھارے میں لینے کے فیصلے کے ساتھ ہی افغان حکمرانوں نے ڈیورنڈ لائن کا مقصد پھر چھیڑ دیا ہے۔ در اصل اس شوشے کو پروان چڑھانے والا بھارت کا زر خرید غلام کرزئی ہے وہ پاکستان دشمنی میں حد سے آگے نکل چکا ہے۔ اس احسان فراموش کو دونوں مرتبہ پاکستان نے ہی صدارت کے مرتبے پر پہنچایا تھا مگر اس نے اپنے دونوں ہی ادوار میں بھارت نوازی اور پاکستان دشمنی کی انتہا کردی تھی۔ اب اس نے پھر بیان داغا ہے کہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔ دراصل اس نادان شخص کو تاریخی حقائق کا علم ہی نہیں۔
انگریزوں اور افغان حکومت نے 1919، 1921 اور 1930 کے معاہدات میں ڈیورنڈ لائن کو ہندوستان اور افغانستان کے درمیان باقاعدہ بین الاقوامی سرحد تسلیم کرلیا تھا بدقسمتی سے بعض ملکی عناصر بھی فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے معاملے کو متنازع بنانے کے درپے معلوم ہوتے ہیں، چنانچہ ضرورت اس امر کی ہے کہ فاٹا کو جلد از جلد خیبر پختونخوا میں مکمل طور پر ضم کرکے تمام سازشوں کے دروازے بند کردیے جائیں۔ ساتھ ہی حزب اختلاف کے اس خدشے کو بھی دورکردیا جائے کہ حکومت فاٹا کے معاملے کو سیاسی کھیل کھیل رہی ہے۔