شبلی شکنی کی روایت اور دوسرے مضامین
ڈاکٹر خالد ندیم سرگودھا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں
ڈاکٹر خالد ندیم سرگودھا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ علم و ادب، تنقید و تحقیق کے حوالے سے کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، وہ تقریباً سترہ کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں، ان کا تحقیقی کام بے حد وقیع ہے۔ اس کی وجہ انھوں نے نہایت عرق ریزی اور معلومات کی مشکل راہ کا انتخاب اور بہت ساری اہم کتابوں کا مطالعہ کیا ہے، تب کہیں گوہر مراد ہاتھ آیا۔ اقبالیاتی مکاتیب اور ارمغان رفیع الدین ہاشمی جیسی تنقیدی کتابوں کی میں بھی قاری رہی ہوں، ڈاکٹر خالد ندیم جس کام کا بھی ارادہ کرتے ہیں اسے مکمل کرکے ہی دم لیتے ہیں۔
حال ہی میں ان کی کتاب ''شبلی شکنی کی روایت اور دوسرے مضامین'' منصۂ شہود پر اپنی رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے۔ مذکورہ کتاب 6 ابواب اور 151 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے ہر باب کو عنوان عطا کرکے قارئین کے لیے بڑی سہولت پیدا کردی ہے، اس طرح پڑھنا آسان اور دلچسپ ہوگیا ہے۔ موضوع کی پسندیدگی کے حوالے سے کوئی بھی باب پڑھا جاسکتا ہے۔
''تعدیم'' کے عنوان سے ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر (سابق صدر شعبۂ اسلامی، کراچی یونی ورسٹی) کا مضمون بھی شامل کتاب ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ:
''علامہ شبلی نعمانی (1857 تا 1914) کے نہ سال پیدائش کو کوئی بھول سکتا ہے، نہ سال وفات کو، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے حوالے سے 1857 وہ سال تھا جب ان کی مایوسی انتہا پر تھی اور 1914 وہ سال تھا جب صرف جنوبی ایشیا کے مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ شکست و درماندگی کے نصف النہار پر تھی، زوال و شکستگی کی اس صدی میں شبلی جیسے نابغۂ روزگار کا پیدا ہونا، زیست کرنا اور امکانات کی دنیا آباد کرنا اہم واقعہ ہے۔ زیر نظر کتاب میں شبلی شکنی کی اس روایت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر خالد ندیم، جو پاکستان میں ''شبلی شناسی'' کے حوالے سے بھی ایک اہم نام ہے، بڑی دل سوزی اور دل جمعی سے سنجیدہ تحقیق میں مصروف ہیں۔ زیر نظر کتاب ڈاکٹر خالد ندیم کے متفرق مقالات کا مجموعہ ہے جن میں ایک معنوی ربط نے کتاب کا قالب اختیار کرلیا۔ شبلی صدی (2014) کے آغاز میں ان کی کتاب شبلی کی آب بیتی سامنے آئی تھی، پھر اردو ترجمہ مکاتیب شبلی اور اب اسی تسلسل میں شبلی شکنی کی روایت، امید ہے اہل علم سے داد تحسین وصول کرے گی۔
شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کسی کی برسی پر برسی کی صدی پر اس کی قبر پر پھول چڑھادینے اور عرق گلاب انڈیل دینے سے تعلق کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ شبلی صدی کا تقاضا ہے کہ ایک ''شبلی عصر'' پیدا کیا جائے اور اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ شبلی کو فراموش نہ ہونے دیا جائے''۔
ڈاکٹر خالد ندیم اپنے مضمون جو کہ ''پیش لفظ'' کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ:
''میرے لیے شبلی پر لکھنے کا جواز پیش کرنا ذرا مشکل سی بات ہے، وہ اس لیے کہ میں اپنے تئیں شبلی شناسی کی راہ میں پہلے قدم پر پاتا ہوں۔ پھر یہ جسارت کیوں کی، اس کا جواب محض یہ ہے کہ میں کسی بھی فن کار کی بے جا مخالفت کو ادبی بد دیانتی تصور کرتا ہوں۔ میں کسی طور شبلی کا وکیل نہیں اور نہ ہی اس کا اہل ہوں، لیکن جہاں کہیں شبلی نعمانی کی ذات یا علمی کارناموں پر تنقیص ہوتی ہے میں تڑپ اٹھتا ہوں۔ ادبی تنقید سے کسے مفر ہے اور کون ہے جو اس سے مستثنیٰ ہو لیکن شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کو ادبی تنقید کا سامنا نہیں، بلکہ ان پر ہونے والی تنقید کا تعلق ذاتی تعصبات سے ہے''۔
ڈاکٹر خالد ندیم نے دیانت اور قدر دانی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب مرتب کی ہے ان کے اس جذبے سے ان کی انسان دوستی اور ادب اور ادیبوں سے بے لوث محبت کی عکاسی ہوتی ہے اور یہ خوبی انھیں تنگ نظر اور منافق لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھرپور طریقے سے شبلی نعمانی کی وکالت بڑے مدلل انداز میں ان کے ہم عصر قلمکاروں کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے کی ہے اور حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہوئے ان کے سامنے شبلی نعمانی کی ذاتی زندگی اور ادبی امور بھی ان کی موقر تحریر کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے ان کی نجی زندگی کے اوراق کی رونمائی بے حد خلوص کے ساتھ کی ہے۔ علامہ شبلی کا المیہ ان کی مخالفت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ انھیں اپنوں کی محبت نے بھی روند ڈالا۔ پہلا دکھ ان کے والد کی دوسری شادی اور پھر والدہ کی وفات اور پھر آخری ایام میں انھیں اپنے ہی لگائے ہوئے پودے کی چھاؤں سے اٹھ کر اعظم گڑھ آنا پڑا اور شدید علالت کے باوجود انھوں نے دارالمصنفین جیسے فکری ادارے کی اساس رکھ دی۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریر کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے ان کے عنوانات تجویز کردیے ہیں، مثال کے طور پر ''شبلی شکنی کی روایت''، شبلی، اقبال اور عطیہ فیضی ، انھوں نے شبلی کی سوانح عمری، علمِ کلام، تنقید، تحقیق، تاریخ، سفر نامہ، شاعری اور سیرت اسی طرح علامہ اقبال کے بارے میں اپنے قارئین کے لیے مختصر سا تعارف پیش کیا ہے جو اہل علم علامہ کی شاعری اور حالات زندگی سے واقف ہیں وہ یقینا عطیہ فیضی سے بھی شناسا رکھتے ہوں گے۔
ڈاکٹر خالد ندیم نے عطیہ فیضی کے بارے میں بھی کی، تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے معلومات کے در وا کیے ہیں، وہ ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئیں، انھوں نے یورپ میں تعلیم حاصل کی، عطیہ فیضی کی پہلی ملاقات شبلی نعمانی سے لکھنو میں ہوئی جب کہ علامہ اقبالؒ سے عطیہ فیضی کی شبلی نعمانی اور علامہ اقبال سے خط و کتابت بھی برسوں جاری رہی۔
مولانا شبلی نعمانی نے عطیہ کوتقریباً سوا تین سال کے مختصر عرصے میں پچپن خطوط لکھے، علامہ کے جو خطوط عطیہ فیضی کے نام ہیں ان کی تعداد نہ جانے کتنی ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے مطابق دستیاب ہونے والے خطوط 11 ہیں۔ القاب و آداب اور آپس کے تعلقات خوشگوار رہے۔ خطوط یہ ہی بتاتے ہیں۔
ایک اور باب ''شبلیؔ اور حالیؔ تعلقات کا از سر نو جائزہ'' جو لوگ شبلی نعمانی کی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں بالکل نہیں جانتے ہیں ان کے لیے ادب کے طالب علموں کے لیے ''شبلی شکنی کی روایت اور تاریخی واقعات اور ادبی حقائق، الزام تراشی، کینہ پروری، منافقانہ رویوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ متذکرہ باب کی ابتدا ان سطور سے ہوتی ہے۔ علامہ شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی کے باہمی تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔ سید سلیمان ندی کا بیان اس حوالے سے ایک ثبوت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
''مولانا کو اپنے معاصرین میں حالی سے سب سے زیادہ عقیدت اور محبت تھی وہ ان کی وقت نظر اور سخن فہمی کے ہمیشہ مداح رہے''۔
ڈاکٹر خالد ندیم ماشا اﷲ تحقیق و تنقید کے میدان میں اس قدر فعال ہیں کہ تھوڑے عرصے کے بعد ان کا ادبی کارنامہ ایک نئی کتاب کی شکل میں سامنے آجاتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اﷲ کرے زورِ قلم اور زیادہ ہو۔
حال ہی میں ان کی کتاب ''شبلی شکنی کی روایت اور دوسرے مضامین'' منصۂ شہود پر اپنی رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے۔ مذکورہ کتاب 6 ابواب اور 151 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کتاب کے ہر باب کو عنوان عطا کرکے قارئین کے لیے بڑی سہولت پیدا کردی ہے، اس طرح پڑھنا آسان اور دلچسپ ہوگیا ہے۔ موضوع کی پسندیدگی کے حوالے سے کوئی بھی باب پڑھا جاسکتا ہے۔
''تعدیم'' کے عنوان سے ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر (سابق صدر شعبۂ اسلامی، کراچی یونی ورسٹی) کا مضمون بھی شامل کتاب ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ:
''علامہ شبلی نعمانی (1857 تا 1914) کے نہ سال پیدائش کو کوئی بھول سکتا ہے، نہ سال وفات کو، جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے حوالے سے 1857 وہ سال تھا جب ان کی مایوسی انتہا پر تھی اور 1914 وہ سال تھا جب صرف جنوبی ایشیا کے مسلمان ہی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ شکست و درماندگی کے نصف النہار پر تھی، زوال و شکستگی کی اس صدی میں شبلی جیسے نابغۂ روزگار کا پیدا ہونا، زیست کرنا اور امکانات کی دنیا آباد کرنا اہم واقعہ ہے۔ زیر نظر کتاب میں شبلی شکنی کی اس روایت کا تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے۔
ڈاکٹر خالد ندیم، جو پاکستان میں ''شبلی شناسی'' کے حوالے سے بھی ایک اہم نام ہے، بڑی دل سوزی اور دل جمعی سے سنجیدہ تحقیق میں مصروف ہیں۔ زیر نظر کتاب ڈاکٹر خالد ندیم کے متفرق مقالات کا مجموعہ ہے جن میں ایک معنوی ربط نے کتاب کا قالب اختیار کرلیا۔ شبلی صدی (2014) کے آغاز میں ان کی کتاب شبلی کی آب بیتی سامنے آئی تھی، پھر اردو ترجمہ مکاتیب شبلی اور اب اسی تسلسل میں شبلی شکنی کی روایت، امید ہے اہل علم سے داد تحسین وصول کرے گی۔
شاید یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کسی کی برسی پر برسی کی صدی پر اس کی قبر پر پھول چڑھادینے اور عرق گلاب انڈیل دینے سے تعلق کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ شبلی صدی کا تقاضا ہے کہ ایک ''شبلی عصر'' پیدا کیا جائے اور اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ شبلی کو فراموش نہ ہونے دیا جائے''۔
ڈاکٹر خالد ندیم اپنے مضمون جو کہ ''پیش لفظ'' کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ:
''میرے لیے شبلی پر لکھنے کا جواز پیش کرنا ذرا مشکل سی بات ہے، وہ اس لیے کہ میں اپنے تئیں شبلی شناسی کی راہ میں پہلے قدم پر پاتا ہوں۔ پھر یہ جسارت کیوں کی، اس کا جواب محض یہ ہے کہ میں کسی بھی فن کار کی بے جا مخالفت کو ادبی بد دیانتی تصور کرتا ہوں۔ میں کسی طور شبلی کا وکیل نہیں اور نہ ہی اس کا اہل ہوں، لیکن جہاں کہیں شبلی نعمانی کی ذات یا علمی کارناموں پر تنقیص ہوتی ہے میں تڑپ اٹھتا ہوں۔ ادبی تنقید سے کسے مفر ہے اور کون ہے جو اس سے مستثنیٰ ہو لیکن شبلی نعمانی اور علامہ اقبال کو ادبی تنقید کا سامنا نہیں، بلکہ ان پر ہونے والی تنقید کا تعلق ذاتی تعصبات سے ہے''۔
ڈاکٹر خالد ندیم نے دیانت اور قدر دانی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کتاب مرتب کی ہے ان کے اس جذبے سے ان کی انسان دوستی اور ادب اور ادیبوں سے بے لوث محبت کی عکاسی ہوتی ہے اور یہ خوبی انھیں تنگ نظر اور منافق لوگوں سے ممتاز کرتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بھرپور طریقے سے شبلی نعمانی کی وکالت بڑے مدلل انداز میں ان کے ہم عصر قلمکاروں کی رائے کو مد نظر رکھتے ہوئے کی ہے اور حقیقت کی نقاب کشائی کرتے ہوئے ان کے سامنے شبلی نعمانی کی ذاتی زندگی اور ادبی امور بھی ان کی موقر تحریر کا حصہ بن جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے ان کی نجی زندگی کے اوراق کی رونمائی بے حد خلوص کے ساتھ کی ہے۔ علامہ شبلی کا المیہ ان کی مخالفت سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ انھیں اپنوں کی محبت نے بھی روند ڈالا۔ پہلا دکھ ان کے والد کی دوسری شادی اور پھر والدہ کی وفات اور پھر آخری ایام میں انھیں اپنے ہی لگائے ہوئے پودے کی چھاؤں سے اٹھ کر اعظم گڑھ آنا پڑا اور شدید علالت کے باوجود انھوں نے دارالمصنفین جیسے فکری ادارے کی اساس رکھ دی۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی تحریر کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے ان کے عنوانات تجویز کردیے ہیں، مثال کے طور پر ''شبلی شکنی کی روایت''، شبلی، اقبال اور عطیہ فیضی ، انھوں نے شبلی کی سوانح عمری، علمِ کلام، تنقید، تحقیق، تاریخ، سفر نامہ، شاعری اور سیرت اسی طرح علامہ اقبال کے بارے میں اپنے قارئین کے لیے مختصر سا تعارف پیش کیا ہے جو اہل علم علامہ کی شاعری اور حالات زندگی سے واقف ہیں وہ یقینا عطیہ فیضی سے بھی شناسا رکھتے ہوں گے۔
ڈاکٹر خالد ندیم نے عطیہ فیضی کے بارے میں بھی کی، تاریخ پیدائش اور جائے پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے معلومات کے در وا کیے ہیں، وہ ترکی کے شہر استنبول میں پیدا ہوئیں، انھوں نے یورپ میں تعلیم حاصل کی، عطیہ فیضی کی پہلی ملاقات شبلی نعمانی سے لکھنو میں ہوئی جب کہ علامہ اقبالؒ سے عطیہ فیضی کی شبلی نعمانی اور علامہ اقبال سے خط و کتابت بھی برسوں جاری رہی۔
مولانا شبلی نعمانی نے عطیہ کوتقریباً سوا تین سال کے مختصر عرصے میں پچپن خطوط لکھے، علامہ کے جو خطوط عطیہ فیضی کے نام ہیں ان کی تعداد نہ جانے کتنی ہے، لیکن ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے مطابق دستیاب ہونے والے خطوط 11 ہیں۔ القاب و آداب اور آپس کے تعلقات خوشگوار رہے۔ خطوط یہ ہی بتاتے ہیں۔
ایک اور باب ''شبلیؔ اور حالیؔ تعلقات کا از سر نو جائزہ'' جو لوگ شبلی نعمانی کی زندگی کے نشیب و فراز کے بارے میں بالکل نہیں جانتے ہیں ان کے لیے ادب کے طالب علموں کے لیے ''شبلی شکنی کی روایت اور تاریخی واقعات اور ادبی حقائق، الزام تراشی، کینہ پروری، منافقانہ رویوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ متذکرہ باب کی ابتدا ان سطور سے ہوتی ہے۔ علامہ شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی کے باہمی تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے۔ سید سلیمان ندی کا بیان اس حوالے سے ایک ثبوت کے طور پر سامنے آیا ہے۔
''مولانا کو اپنے معاصرین میں حالی سے سب سے زیادہ عقیدت اور محبت تھی وہ ان کی وقت نظر اور سخن فہمی کے ہمیشہ مداح رہے''۔
ڈاکٹر خالد ندیم ماشا اﷲ تحقیق و تنقید کے میدان میں اس قدر فعال ہیں کہ تھوڑے عرصے کے بعد ان کا ادبی کارنامہ ایک نئی کتاب کی شکل میں سامنے آجاتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اﷲ کرے زورِ قلم اور زیادہ ہو۔