دھوکا دہی
آدمی دھوکا کیوںکھاتاہے؟ دھوکا ہوتا کیا ہے؟
آدمی دھوکا کیوںکھاتاہے؟ دھوکا ہوتا کیا ہے؟ اِن دونوں باتوں کے جواب کے لیے کسی تحقیقاتی مقالے کی ضرورت نہیںہے۔ لوگ روزانہ دھوکا دہی کا شکار ہوتے رہتے ہیں جو خود دھوکا دہی میں ملّوث ہوتے ہیں وہ بھی دھوکا دہی کا شکارہوتے رہتے ہیں۔ دھوکا دہی کے ماہر ین نہیں ہوتے کیونکہ دھوکا کو ماہرین کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔ دھوکا دہی عام زندگی کے روزمرہ کے واقعات ہیں اور معاشرے کے تقریباً سارے لوگ زندگی میں کئی دفعہ یا خود اِس کا شکار رہتے ہیں یا اُنکے ہاتھوں دوسرے لوگ دھوکا دہی کا شکار رہے ہوتے ہیں۔
آپ چور اچکوں لچے لفنگوں ظالموں بدمعاشوں مجرموں غنڈوں اور نوسربازوں کی نشاندھی تو بڑے آرام سے کرسکتے ہیں لیکن دھوکا بازوں کی پہچان ذرا مشکل سے ہی ہوتی ہے کیونکہ دھوکا دہی وہ واحد حرکت ہے جوقابل دست اندازی پولیس نہیں ہوتی۔ میری مراد دھوکا دہی کی اُن حرکات وسکنات سے ہے جن کے بروئے کار آنے پر کوئی دفعہ نافذالعمل نہیں ہوسکتی مثلاً ایک دل پھینک عاشق اپنی ترنگ میں اپنی محبوبہ سے جو وعدے وعید کرلیتا ہے ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اگر بدنصیب محبوبہ خودکشی کربیٹھے تو مرحومہ اِس کارروائی کی خود ہی ذمے دار قرار دی جائے گی اور قانون مرحومہ کے پسماندگان کے لیے کسی بھی قسم کی تشّفی کا باعث ثابت نہ ہوسکے گا۔
اگر شادی سے پہلے عاشقی کے زمانے میں بدنصیب شوہر نے چند ناقابل یقین عہدوپیمان کرلیے ہوں اور بوجوہ شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد انھیں کوشش کے باوجود یادداشت میں تازہ دم رکھنے سے قاصر رہ جائے تو دھوکا دہی کے زمرے میںآنے کے باوجودکسی بھی مدعی کی طرف سے کسی بھی قسم کا کوئی بھی مقدمہ بنام سرکار درج نہیں کرایا جاسکے گا۔ لڑکے والوں نے جہیز مانگا اور لڑکی والوں نے توقعات کے مطابق جہیز نہ دیا تو اس بات پر رخصتی تو منسوخ ہوسکتی ہے لیکن ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔
دھوکا دہی کی یہ اقسام بعض صورتوں میں بہیمانہ ہونے کے باوجود مجرمانہ نہیں ہوتیں اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دھوکا دہی کوئی جرم نہیں ہوتا۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی بھی صورت میں دھوکا دہی جرم نہیں بن سکتا۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ آج کل تو سائبر کرائم کے تحت بظاہر بڑے بڑے معصوم دھوکا بازوں کو پکڑ کر نا صرف بے نقاب کردیا جاتاہے بلکہ سرکاری مہمان بننے کا شرف بھی عطا کردیا جاتاہے۔
جس طرح جھوٹ بولنا اب اس قدر عام ہوگیاہے کہ اُسے جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا مثلاً دروازہ کھٹکنے پر جب ابّا حضور خود چھوٹے بچے کو تاکید کرتے ہیں کہ کہہ دو ابوگھر پر نہیں ہیں تو بچہ بڑا ہونے تک جھوٹ کو جھوٹ سمجھنے سے قاصر ہوجاتا ہے۔ وہ سچ کو جھوٹ سے جدا کرنے کی صلاحیت ہی کھوبیٹھتا ہے۔ بعض لوگوں کو اکثر کہتے سناگیا ہے کہ جی میںنے سرکاری ملازمت اس لیے نہیں کی کہ اُس میں رشوت لینی پڑجاتی ہے اس لیے ذاتی کاروبار کو ترجیح دی۔ وہ یہ چھوٹا سا اعلان اِس اعتماد کے ساتھ کرتے ہیں جیسے وطن عزیر میں کاروبار ایک ایسا پاک وپاکیزہ ذریعہ معاش ہے جس میں راشی اور مرتشی جہنم کے ''خوف'' سے زندگی بھر ''پوتر'' ہی رہتے ہیں۔
دھوکے کی کئی شکلیں ہوتی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ بعض رشتے دھوکا دہی سے مبرّا ہوتے ہیں کیونکہ دھوکا ایک ایسا فعل جوکسی بھی رشتے سے منسلک ہونے میں پل بھر کی دیر بھی نہیں لگاتا۔ بہترین رشتے بھی بعض اوقات ایک دوسرے کو دھوکا دینے سے باز نہیںآتے۔ کبھی ایسا ہوتاہے کہ بچے ماں باپ کو دھوکا دیتے ہیں کبھی ماں باپ بچوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ بھائی بہنوں کو دھوکا دیتے ہیں اور کبھی بہنیں بھائیوں کو دھوکا دیتی ہیں۔ شوہر بیویوں کو دھوکا دیتے ہیں اور بیویاں شوہروں کو دھوکا دیتی ہیں اُستاد شاگردوں کو اور شاگرداُستادوں کو افسرماتحتوںکو اور ماتحت افسروں کو جاگیر دار مزارعوںکو اور مزارعے جاگیرداروں کو کارخانہ دار مزدوروں کو اور مزدورکارخانہ داروںکو دھوکا دیتے ہیں۔
سرکار عوام کو دھوکا دیتی ہے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ عوام بھی سرکار کو دھوکا دیتے ہیں اگر ووٹ کسی اورکو دیدیں ۔ اب کوئی تعلق اور کوئی رشتہ دھوکا دہی سے عاری نظر نہیں آتا۔ بعض اوقات تو آدمی خود کو اوروں کی نسبت زیادہ دھوکا دیتا ہے۔ مثلاً شوگو کا مریض جب اپنے پیاروں سے چھپ کر گلاب جامن کھاتا ہے تو اپنے علاوہ کس کو دھوکا نہیںدے رہا ہوتا۔ غالباً اِسی لیے خوبصورت ترین دعاؤں میںسے ایک دعا یہ بھی کہ یااللہ مجھ سے محبت رکھنے والوں کو میرے اعمال کی بدولت پریشان نہ فرما۔
دھوکے کی سب سے بڑی اور بھیانک شکل پارسائی کا دھوکا ہوتاہے جب لوگ میرے ظاہری اچھے اور پاکیزہ اعمال کے باعث میری عزت کرنے لگ جاتے ہیں تو میرے ہاتھ میں دھوکا دہی کا ایسا موثر اور کاریگرہتھیار آجاتاہے جس سے میں ایک طرف اپنے حلقہ اثر میں زیادہ طاقت ور ہوجاتاہوں اور دوسری طرف طاقت کے اس میزائیل پر چڑھ کر میں دُور دُور تک صحیح صحیح اور ٹھیک ٹھیک نشانے باندھ سکتا ہوں۔
میرے نشانے پر کوئی بھی آسکتاہے میں اگر خود کو بیچنا چاہوں تومیری بھاری قیمت لگ سکتی ہے اور اِس قیمت کے ذریعے آدمی وطن عزیز میںاکثر لوگوں کا یقین ہے کہ کچھ بھی خرید سکتا ہے کوئی خیال کوئی نظریہ کوئی اصول اور کوئی بھی نعرہ خریدا جاسکتاہے۔ ہماری تاریخ شاہد ہے کہ فتوے بھی بکتے رہے ہیں کیونکہ فتووں کے ضرورت مند حکمرانوں کی تجوریاں ہر وقت منہ کھولے رکھتی تھیں۔
دھوکا دہی صرف معاشرتی سطح پر ہی دندناتی نہیں پھرتی بلکہ یہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر ایک مسلّم اورسکّہ رائج الوقت کا روپ دھارچکی ہے۔ نو گیارہ کے بعد افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کو جس طرح باری باری ایک منظم طریقہ کار کے تحت تباہ و برباد کیاگیا وہ بین الاقوامی دھوکا دہی کی حالیہ تاریخ میں واضح ترین مثال ہے۔