انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی پی ایس ایل فائنل ایک قدم طویل سفر باقی
سنگ میل کو منزل سمجھ لینا غلط ہوگا
بات ہے 2009ء کی، سری لنکن ٹیم تمام سکیورٹی خدشات کو جھٹک کر پاکستان آنے کے بعد ایک ٹیسٹ کھیل چکی،3مارچ کو دوسرے میچ کا تیسرا روز ہے، دونوں ملکوں کے شائقین کرکٹ قذافی سٹیڈیم میں برتری کی جنگ دیکھنے کے لیے بیتاب ہیں، صبح 9بجے کے قریب مہمان ٹیم کی بس کے لبرٹی چوک کے قریب پہنچتے ہی گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوجاتی ہے، ڈرائیور حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے بس کو تیزی سے سٹیڈیم کی جانب گامزن رکھتا ہے،6پولیس اہلکاروں سمیت 7کی زندگی کا چراغ گل ہوجاتا ہے،20زخمیوں میں 7مہمان کھلاڑی بھی شامل ہوتے ہیں،دہشت گرد دندناتے ہوئے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، پاکستان اور سری لنکا کے عوام کیساتھ دنیا بھر میں شائقین کرکٹ ایک صدماتی کیفیت سے دوچار ہیں،کہنے کو تو یہ چند منٹ کے یہ مناظر تھے لیکن ان کے اثرات 8سال میں بھی زائل نہیں ہوسکے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی حالات کو دیکھتے ہوئے سری لنکن ٹیم کو صدر کے برابر سیکیورٹی فراہم کرنے کا دعوٰی کیا گیا تھا، حملے کے چند روز بعد ایک حساس ادارے کے سابق افسر سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے حفاظتی انتظامات میں کئی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ قطعی طور پر سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول نہیں تھا، ان کا کہنا تھا کہ روٹ کو کلیئر کرنے کے لوازمات پورے نہیں کئے گئے، مرکزی سٹرک کی جانب آنے والے تمام راستے بند نہیں تھے، آس پاس کی عمارات کی چھتیں بھی کور نہیں کی گئیں، مہمان ٹیم کی بس کیساتھ چلنے والی پولیس کی گاڑیاں اوپر، دائیں، بائیں سے ڈھکی ہونے کی وجہ سے اہلکاروں کے لیے قبر بن گئیں،ان کو کیسے خبر ہوسکتی تھی کہ آس پاس کیا ہونے جارہا ہے۔ اوپن گاڑی میں کھڑا ایک گنر سامنے نظر رکھے ہوئے ہوتا،دو اس کے پیچھے حفاظت کے لیے مستعد ہوتے، سیٹوں پر بیٹھے، دائیں اور بائیں نظر رکھتے تو حملہ آوروں کو منہ توڑ جواب دے سکتے تھے،کورڈ گاڑیوں میں میں تو اہلکاروں کو اس وقت ہی پتا چلا ہوگا جب گولیوں کی بوچھاڑ ہوگئی، ڈرائیور حواس پر قابو نہ رکھتا تو شاید سری لنکن ٹیم کے کئی کھلاڑی جان کی بازی ہارجاتے،سابق افسر کہ یہ باتیں سن کر مجھے تو قوم کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے شرمندگی ہوئی لیکن ارباب اختیار میں سے کسی نے بھی ذمہ داری قبول کرنے کی ہمت نہیں کی۔
حملہ سری لنکن ٹیم پر ہوا لیکن چھلنی پاکستان کرکٹ ہو گئی، بسیار کوشش کے باوجود یہ زخم مندمل نہیں ہو سکے، پی سی بی کئی میگا ایونٹس کی میزبانی سے محروم ہوا تو ہوم سیریز کے مواقع بھی ختم ہوگئے،مجبوری میں متحدہ عرب امارات کے سٹیڈیم ہوم گراؤنڈ بنے،متعدد نوجوان کرکٹرز ایسے ہونگے جن کو کبھی اپنی سرزمین پر انٹرنیشنل میچ کھیلنے کا موقع نہیں ملا، مئی 2015میں زمبابوے کا دورہ پاکستان بارش کا پہلا قطرہ تھا، طویل عرصہ بعد شائقین نے اپنے ملک میں بین الاقوامی ون ڈے اور ٹوئنٹی 20میچز دیکھے،دوسری بڑی کوشش کرنے کا عزم لئے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانے کا اعلان کیا گیا تو ملک کے بدخواہوں نے اس مہم کو کمزور کرنے کے لیے چیئرنگ کراس پر خودکش حملہ کروادیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند سال پاکستان نے دہشت گردی کے عفریت سے پیچھا چھڑانے کے لیے اسلحہ، ٹیکنالوجی اور مہارت میں بہتری لانے کے لیے قابل قدر کام کیا ہے۔
پاک افواج نے بڑی حدتک شرپسندوں کو واصل جہنم اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ بھی کیا ہے لیکن اب بھی بڑا کام باقی ہے،چیئرنگ کراس پر حملہ پی ایس ایل فائنل نہیں بلکہ قوم کے عزم کو پامال کرنے کی کوشش تھی لیکن عوام نے دہشت کی اس فضا میں قدم پیچھے ہٹانے سے انکار کردیا، غیر ملکی کرکٹرز کے انکار کو پیش نظر رکھتے ہوئے چند سیاسی اور سماجی حلقے لاہور میں دھماکے سے قبل فائنل کی میزبانی کے خلاف تھے لیکن دہشت گردوں کے مذموم ارادے خاک میں ملانے کے عزائم سامنے آئے تو سب کی ایک ہی رائے تھی کہ دیگرملکوں کے کھلاڑی آئیں یا نہ آئیں، یہ میگا ایونٹ قذافی سٹیڈیم میں ہی ہونا چاہیے، یوں کرکٹ پچ کے گرد آہنی قومی عزم کا میچ کھیلنے کی تیاریاں ہونے لگیں، عوام کی بھرپور حوصلہ افزائی نے سکیورٹی اداروں میں جذبے کی نئی روح پھونک دی،3مارچ 2009 تلخ یادیں دے کر رخصت ہوا تھا تو 5مارچ 2017ء نے نیا حوصلہ دے دیا۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دشمن تاک میں تھا، کوئی چھوٹا سا ناخوشگوار واقعہ بھی اس کے مقاصد پورے کردیتا لیکن عوام کی معاونت سے سیکیورٹی ادارے مشکل ترین آزمائش میں سرخرو ہوگئے،بہترین احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے نشتر پارک کے اطراف کی نگرانی فائنل سے کئی روز قبل ہی شروع کردی گئی تھے، میچ کے روز سیکیورٹی اداروں کے افسران سرگرم اور اہلکار مستعد تھے تو عوام نے بھی قومی جذبے کے تحت مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس دوران پیش آنے والی چند مشکلات کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا، یوں تو شہر بھر میں ہی سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے، رینجرز، پولیس، ایلیٹ اور ڈولفن فورسز کے دستے مختلف علاقوں میں گردش کرتے رہے، تاہم سٹیڈیم کے اطراف میں سخت ترین سکیورٹی حصار نظر آیا، رینجرز،ایلیٹ فورس اور پولیس کی گاڑیاں بڑی تعداد میں موجود تھیں، مختلف سٹینڈز میں بھی فورسز کے جوان تعینات تھے، ہیلی کاپٹروں سے سارے علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔
لاہور اور ملک کے دیگر شہروں سے شائقین 12بجے سے ہی بڑی تعداد میں قذافی سٹیڈیم کے اطراف میں داخلے کے لیے مقرر کردہ مقامات پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے، وینیو تک رسائی سے قبل سیکیورٹی کلیئرنس کے لیے انتہائی سخت لیکن فول پروف سسٹم وضع کیا گیا تھا، ٹکٹ اور شناختی کارڈ کے بغیر کسی کو پارکنگ کی اجازت نہیں دی گئی، 2پوائنٹس پر جامہ تلاشی اور پھر واک تھرو گیٹ سے گزارے جانے کے بعد فری شٹل بس سروس فراہم کی جاتی،اگلے مرحلے میں واک تھرو گیٹ سے دوبارہ گزرنے کے بعد سٹیڈیم کے مین گیٹ تک جانے کا موقع دیا جاتا، راستے میں کسی بھی فرد کو بائیومیٹرک سے شناخت کا عمل کرنے کے لیے طلب کرلیا جاتا، سٹینڈز تک رسائی سے قبل بھی ایک بار پھر سکیورٹی چیک سے گزرنا پڑا،خواتین کے داخلے کے لیے الگ واک تھرو گیٹ مخصوص ہونے کی وجہ سے انہیں بھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا، ہزاروں شائقین کی آمد انتہائی نظم و ضبط کیساتھ ہونے کی وجہ سے کہیں غیر معمولی ہجوم یا افراتفری کا ماحول نظر نہیں آیا، مردوخواتین اور بچے مرحلہ وار سٹیڈیم میں داخل ہوتے رہے، ہر چیک پوائنٹ پر لاؤڈ سپیکر کے ذریعے تماشائیوں کی رہنمائی بھی کی جاتی رہی اور بغیر ٹکٹ افراد کو دور جانے کے لیے کہا جاتا، شناختی کارڈ گھر بھول آنے والوں کو بھی قریب نہیں پھٹکنے دیا گیا۔
سکیورٹی پلان کے تحت سٹیڈیم کے دروازے شام 6بجے سے قبل بند کر دیئے گئے جس کے بعد شائقین کو پہلے پوائنٹ سے ہی داخلے کی اجازت نہیں دی گئی، اس سخت پالیسی کی وجہ سے تاخیر سے آنے والے کئی افراد ٹکٹ ہونے کے باوجود میچ دیکھنے سے محروم رہے،سب سے اہم بات یہ تھی کہ سکیورٹی انتظامات کے معاملے میں امیر، غریب، شہری، دیہاتی،سرکاری ملازم اور مزدور سب کیساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھتے ہوئے ہر فرد کو عزت ضرور دی گئی لیکن ڈسپلن کی پابندی میں کسی سے رعایت نہیں برتی گئی،نتیجے میں شائقین نے بھی بھرپور تعاون کیا، مثال کے طور پر شٹل سروس کا استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں، بچوں اور بڑوں نے مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیا،سب باری آنے پر سوار ہوتے، جگہ نہ ہوتی تو اگلی بس کا انتظار کرتے، خواتین کے لیے نوجوان خوش دلی سے سیٹیں خالی کرتے رہے۔شائقین کی بڑی تعداد یہ کہتی پائی گئی کہ پی ایس ایل فائنل کی طرح زندگی کے ہرشعبے میں قانون سب کے لیے یکساں ہو تو سب پاسداری کریں اور عوام کے مسائل کم ہوں۔
ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی سسٹم مساوات پر مبنی ہوتو ہر کوئی اس کو قبول کرتے ہوئے غلطیوں سے گریز کرے گا، بہتر نظم وضبط کا نتیجہ تھا کہ لوگوں نے سخت سیکیورٹی حصار میں ایک ایک لمحے کا لطف اٹھایا، تماشائیوں نے چہرے پینٹ کروائے، جہاں جہاں موقع ملا قومی پرچم اور بینرز لہرائے، اپنی ٹیموں کی سپورٹ کے لیے شرٹس بھی پہنیں، سٹیڈیم میں داخل ہونے تک نوجوان بھنگڑے ڈالتے نظر آئے، فائنل میں مقابلہ جاندار نہ ہونے کے باوجود سٹینڈز میں جوش و خروش دیدنی رہا،دوسری جانب لاہور میں تو میلے کا سماں تھا ہی، پاکستان بھر میں میچ دیکھنے کے لیے خصوصی اہتمام کئے گئے،بڑی سکرینیں، رنگ برنگی شرٹس اور مزیدار پکوانوں سمیت کرکٹ کی رونقیں بحال ہونے کا جشن منانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کئے گئے۔
پی ایس ایل کا فائنل یوں تو ایک کرکٹ میچ تھا لیکن حالات نے اس کو قومی عزم کا ایک مشکل امتحان بنادیا، ٹائٹل تو پشاور زلمی نے جیتا لیکن اصل جیت پاکستان کی ہوئی،سیکیورٹی مسائل کو پیش نظر رکھیں تو کامیاب ایونٹ سے ملک کا مان ضرور بڑھا، اس کے لیے دن رات ایک کرنے والوں کو کریڈٹ بھی دینا چاہیے لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کرنے کا ابھی وقت نہیںآیا، پی ایس ایل فائنل اس سمت میں ایک قدم ، طویل سفر ابھی باقی ہے، ستمبر میں انٹرنیشنل الیون کی آمد ہوئی بھی تو تمام میچز لاہور میں کروائے جانے کا پلان ہے،پی ایس ایل فائنل قومی وقار کا مسئلہ بن گیا تھا،سب نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا،خطیر سرمایہ بھی خرچ ہوا، کسی غیر ملکی ٹیم کی سیریز کے لیے پاکستان آمد پر مختلف شہروں میں میچز کروانے کے لیے بہت زیادہ وسائل اور پلاننگ کی ضرورت ہوگی، مثبت سمت میں سفر جاری رکھتے ہوئے بتدریج آگے بڑھنا ہوگا،دعاہے کہ حالات اتنے اچھے ہوجائیں کہ سیکیورٹی انتظامات کے لیے اتنی زیادہ محنت کی ضرورت ہی نہ پڑے،فی الحال سنگ میل کو ہی منزل سمجھ لینا غلط ہوگا،کبھی سری لنکا کو بھی اس طرح کے مسائل کا سامنا تھا،اب حالات بہتر ہوچکے،ہمیں بھی اچھے کی امید رکھنا چاہیے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت بھی حالات کو دیکھتے ہوئے سری لنکن ٹیم کو صدر کے برابر سیکیورٹی فراہم کرنے کا دعوٰی کیا گیا تھا، حملے کے چند روز بعد ایک حساس ادارے کے سابق افسر سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے حفاظتی انتظامات میں کئی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ قطعی طور پر سربراہ مملکت کے برابر پروٹوکول نہیں تھا، ان کا کہنا تھا کہ روٹ کو کلیئر کرنے کے لوازمات پورے نہیں کئے گئے، مرکزی سٹرک کی جانب آنے والے تمام راستے بند نہیں تھے، آس پاس کی عمارات کی چھتیں بھی کور نہیں کی گئیں، مہمان ٹیم کی بس کیساتھ چلنے والی پولیس کی گاڑیاں اوپر، دائیں، بائیں سے ڈھکی ہونے کی وجہ سے اہلکاروں کے لیے قبر بن گئیں،ان کو کیسے خبر ہوسکتی تھی کہ آس پاس کیا ہونے جارہا ہے۔ اوپن گاڑی میں کھڑا ایک گنر سامنے نظر رکھے ہوئے ہوتا،دو اس کے پیچھے حفاظت کے لیے مستعد ہوتے، سیٹوں پر بیٹھے، دائیں اور بائیں نظر رکھتے تو حملہ آوروں کو منہ توڑ جواب دے سکتے تھے،کورڈ گاڑیوں میں میں تو اہلکاروں کو اس وقت ہی پتا چلا ہوگا جب گولیوں کی بوچھاڑ ہوگئی، ڈرائیور حواس پر قابو نہ رکھتا تو شاید سری لنکن ٹیم کے کئی کھلاڑی جان کی بازی ہارجاتے،سابق افسر کہ یہ باتیں سن کر مجھے تو قوم کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے شرمندگی ہوئی لیکن ارباب اختیار میں سے کسی نے بھی ذمہ داری قبول کرنے کی ہمت نہیں کی۔
حملہ سری لنکن ٹیم پر ہوا لیکن چھلنی پاکستان کرکٹ ہو گئی، بسیار کوشش کے باوجود یہ زخم مندمل نہیں ہو سکے، پی سی بی کئی میگا ایونٹس کی میزبانی سے محروم ہوا تو ہوم سیریز کے مواقع بھی ختم ہوگئے،مجبوری میں متحدہ عرب امارات کے سٹیڈیم ہوم گراؤنڈ بنے،متعدد نوجوان کرکٹرز ایسے ہونگے جن کو کبھی اپنی سرزمین پر انٹرنیشنل میچ کھیلنے کا موقع نہیں ملا، مئی 2015میں زمبابوے کا دورہ پاکستان بارش کا پہلا قطرہ تھا، طویل عرصہ بعد شائقین نے اپنے ملک میں بین الاقوامی ون ڈے اور ٹوئنٹی 20میچز دیکھے،دوسری بڑی کوشش کرنے کا عزم لئے پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کروانے کا اعلان کیا گیا تو ملک کے بدخواہوں نے اس مہم کو کمزور کرنے کے لیے چیئرنگ کراس پر خودکش حملہ کروادیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند سال پاکستان نے دہشت گردی کے عفریت سے پیچھا چھڑانے کے لیے اسلحہ، ٹیکنالوجی اور مہارت میں بہتری لانے کے لیے قابل قدر کام کیا ہے۔
پاک افواج نے بڑی حدتک شرپسندوں کو واصل جہنم اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ بھی کیا ہے لیکن اب بھی بڑا کام باقی ہے،چیئرنگ کراس پر حملہ پی ایس ایل فائنل نہیں بلکہ قوم کے عزم کو پامال کرنے کی کوشش تھی لیکن عوام نے دہشت کی اس فضا میں قدم پیچھے ہٹانے سے انکار کردیا، غیر ملکی کرکٹرز کے انکار کو پیش نظر رکھتے ہوئے چند سیاسی اور سماجی حلقے لاہور میں دھماکے سے قبل فائنل کی میزبانی کے خلاف تھے لیکن دہشت گردوں کے مذموم ارادے خاک میں ملانے کے عزائم سامنے آئے تو سب کی ایک ہی رائے تھی کہ دیگرملکوں کے کھلاڑی آئیں یا نہ آئیں، یہ میگا ایونٹ قذافی سٹیڈیم میں ہی ہونا چاہیے، یوں کرکٹ پچ کے گرد آہنی قومی عزم کا میچ کھیلنے کی تیاریاں ہونے لگیں، عوام کی بھرپور حوصلہ افزائی نے سکیورٹی اداروں میں جذبے کی نئی روح پھونک دی،3مارچ 2009 تلخ یادیں دے کر رخصت ہوا تھا تو 5مارچ 2017ء نے نیا حوصلہ دے دیا۔
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی دشمن تاک میں تھا، کوئی چھوٹا سا ناخوشگوار واقعہ بھی اس کے مقاصد پورے کردیتا لیکن عوام کی معاونت سے سیکیورٹی ادارے مشکل ترین آزمائش میں سرخرو ہوگئے،بہترین احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے نشتر پارک کے اطراف کی نگرانی فائنل سے کئی روز قبل ہی شروع کردی گئی تھے، میچ کے روز سیکیورٹی اداروں کے افسران سرگرم اور اہلکار مستعد تھے تو عوام نے بھی قومی جذبے کے تحت مثالی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس دوران پیش آنے والی چند مشکلات کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا، یوں تو شہر بھر میں ہی سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے، رینجرز، پولیس، ایلیٹ اور ڈولفن فورسز کے دستے مختلف علاقوں میں گردش کرتے رہے، تاہم سٹیڈیم کے اطراف میں سخت ترین سکیورٹی حصار نظر آیا، رینجرز،ایلیٹ فورس اور پولیس کی گاڑیاں بڑی تعداد میں موجود تھیں، مختلف سٹینڈز میں بھی فورسز کے جوان تعینات تھے، ہیلی کاپٹروں سے سارے علاقے کی فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔
لاہور اور ملک کے دیگر شہروں سے شائقین 12بجے سے ہی بڑی تعداد میں قذافی سٹیڈیم کے اطراف میں داخلے کے لیے مقرر کردہ مقامات پر جمع ہونا شروع ہو گئے تھے، وینیو تک رسائی سے قبل سیکیورٹی کلیئرنس کے لیے انتہائی سخت لیکن فول پروف سسٹم وضع کیا گیا تھا، ٹکٹ اور شناختی کارڈ کے بغیر کسی کو پارکنگ کی اجازت نہیں دی گئی، 2پوائنٹس پر جامہ تلاشی اور پھر واک تھرو گیٹ سے گزارے جانے کے بعد فری شٹل بس سروس فراہم کی جاتی،اگلے مرحلے میں واک تھرو گیٹ سے دوبارہ گزرنے کے بعد سٹیڈیم کے مین گیٹ تک جانے کا موقع دیا جاتا، راستے میں کسی بھی فرد کو بائیومیٹرک سے شناخت کا عمل کرنے کے لیے طلب کرلیا جاتا، سٹینڈز تک رسائی سے قبل بھی ایک بار پھر سکیورٹی چیک سے گزرنا پڑا،خواتین کے داخلے کے لیے الگ واک تھرو گیٹ مخصوص ہونے کی وجہ سے انہیں بھی کسی پریشانی کا سامنا نہیں ہوا، ہزاروں شائقین کی آمد انتہائی نظم و ضبط کیساتھ ہونے کی وجہ سے کہیں غیر معمولی ہجوم یا افراتفری کا ماحول نظر نہیں آیا، مردوخواتین اور بچے مرحلہ وار سٹیڈیم میں داخل ہوتے رہے، ہر چیک پوائنٹ پر لاؤڈ سپیکر کے ذریعے تماشائیوں کی رہنمائی بھی کی جاتی رہی اور بغیر ٹکٹ افراد کو دور جانے کے لیے کہا جاتا، شناختی کارڈ گھر بھول آنے والوں کو بھی قریب نہیں پھٹکنے دیا گیا۔
سکیورٹی پلان کے تحت سٹیڈیم کے دروازے شام 6بجے سے قبل بند کر دیئے گئے جس کے بعد شائقین کو پہلے پوائنٹ سے ہی داخلے کی اجازت نہیں دی گئی، اس سخت پالیسی کی وجہ سے تاخیر سے آنے والے کئی افراد ٹکٹ ہونے کے باوجود میچ دیکھنے سے محروم رہے،سب سے اہم بات یہ تھی کہ سکیورٹی انتظامات کے معاملے میں امیر، غریب، شہری، دیہاتی،سرکاری ملازم اور مزدور سب کیساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھتے ہوئے ہر فرد کو عزت ضرور دی گئی لیکن ڈسپلن کی پابندی میں کسی سے رعایت نہیں برتی گئی،نتیجے میں شائقین نے بھی بھرپور تعاون کیا، مثال کے طور پر شٹل سروس کا استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں، بچوں اور بڑوں نے مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیا،سب باری آنے پر سوار ہوتے، جگہ نہ ہوتی تو اگلی بس کا انتظار کرتے، خواتین کے لیے نوجوان خوش دلی سے سیٹیں خالی کرتے رہے۔شائقین کی بڑی تعداد یہ کہتی پائی گئی کہ پی ایس ایل فائنل کی طرح زندگی کے ہرشعبے میں قانون سب کے لیے یکساں ہو تو سب پاسداری کریں اور عوام کے مسائل کم ہوں۔
ثابت ہوا ہے کہ کوئی بھی سسٹم مساوات پر مبنی ہوتو ہر کوئی اس کو قبول کرتے ہوئے غلطیوں سے گریز کرے گا، بہتر نظم وضبط کا نتیجہ تھا کہ لوگوں نے سخت سیکیورٹی حصار میں ایک ایک لمحے کا لطف اٹھایا، تماشائیوں نے چہرے پینٹ کروائے، جہاں جہاں موقع ملا قومی پرچم اور بینرز لہرائے، اپنی ٹیموں کی سپورٹ کے لیے شرٹس بھی پہنیں، سٹیڈیم میں داخل ہونے تک نوجوان بھنگڑے ڈالتے نظر آئے، فائنل میں مقابلہ جاندار نہ ہونے کے باوجود سٹینڈز میں جوش و خروش دیدنی رہا،دوسری جانب لاہور میں تو میلے کا سماں تھا ہی، پاکستان بھر میں میچ دیکھنے کے لیے خصوصی اہتمام کئے گئے،بڑی سکرینیں، رنگ برنگی شرٹس اور مزیدار پکوانوں سمیت کرکٹ کی رونقیں بحال ہونے کا جشن منانے کے لیے مختلف طریقے اختیار کئے گئے۔
پی ایس ایل کا فائنل یوں تو ایک کرکٹ میچ تھا لیکن حالات نے اس کو قومی عزم کا ایک مشکل امتحان بنادیا، ٹائٹل تو پشاور زلمی نے جیتا لیکن اصل جیت پاکستان کی ہوئی،سیکیورٹی مسائل کو پیش نظر رکھیں تو کامیاب ایونٹ سے ملک کا مان ضرور بڑھا، اس کے لیے دن رات ایک کرنے والوں کو کریڈٹ بھی دینا چاہیے لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کرنے کا ابھی وقت نہیںآیا، پی ایس ایل فائنل اس سمت میں ایک قدم ، طویل سفر ابھی باقی ہے، ستمبر میں انٹرنیشنل الیون کی آمد ہوئی بھی تو تمام میچز لاہور میں کروائے جانے کا پلان ہے،پی ایس ایل فائنل قومی وقار کا مسئلہ بن گیا تھا،سب نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا،خطیر سرمایہ بھی خرچ ہوا، کسی غیر ملکی ٹیم کی سیریز کے لیے پاکستان آمد پر مختلف شہروں میں میچز کروانے کے لیے بہت زیادہ وسائل اور پلاننگ کی ضرورت ہوگی، مثبت سمت میں سفر جاری رکھتے ہوئے بتدریج آگے بڑھنا ہوگا،دعاہے کہ حالات اتنے اچھے ہوجائیں کہ سیکیورٹی انتظامات کے لیے اتنی زیادہ محنت کی ضرورت ہی نہ پڑے،فی الحال سنگ میل کو ہی منزل سمجھ لینا غلط ہوگا،کبھی سری لنکا کو بھی اس طرح کے مسائل کا سامنا تھا،اب حالات بہتر ہوچکے،ہمیں بھی اچھے کی امید رکھنا چاہیے۔