ہاکی ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ گرین شرٹس مشکل ہدف حاصل کر پائیں گے
گرین شرٹس مشکل ہدف حاصل کر پائیں گے؟
کہتے ہیں کہ ایک ملک کی ٹیم کی بڑی دھوم تھی،ورلڈ کپ، اولمپکس اورچیمپئنز ٹرافی سمیت دنیا بھر کے تمام ٹائٹلز اس کے پاس تھے، جدید ترین ٹیکنالوجی، روپیہ پیسہ، مہنگے ترین کوچز اور منصوبہ بندیاں اس کے سامنے ہیچ دکھائی دیتیں، اس ٹیم کے کھلاڑی جب میدان میں اترتے تو حریف ٹیموں پر اس قدر رعب و دبدبہ طاری ہو جاتا کہ ان کے پلیئرز مقابلے سے پہلے ہی ہمت ہار جاتے، اس ملک کی ٹیم کے کھلاڑی یہ جانتے ہی نہ تھے کہ شکست کس بلا کا نام ہے اور اگر کسی وجہ سے کوئی چھوٹی موٹی ناکامی کا سامنا کرنا پڑ بھی جاتا تو پلیئرز شرم کے مارے کئی کئی دن اپنے منہ چھپاتے پھرتے، شائقین اس ٹیم کے پلیئرز سے ملنا اور آٹوگراف لینے میں فخر محسوس کرتے اور ببانگ دہل کہتے دکھائی دیتے آپ سپورٹس کے لیجنڈ ہو، پھر نہ جانے کیا ہوا۔
نیتیں بدلیں، کھلاڑی ملک وقوم کی نیک نامی کی بجائے بینک بیلنس بڑھانے کی طرف توجہ دینے لگے، سلیکشن کمیٹیاں اپنی من مانیاں کرنے لگیں، میرٹ کا استحصال کیا جانے لگا، عہدیدار فیڈریشن کے خزانے کو ذاتی جاگیر کی طرح استعمال کرنے لگے، ارباب اختیار اپنے درباریوں اور خوشامدیوں کو اپنے دفاتر میں بٹھا کر ٹیم کی بہتری کے لئے عملی طور پر اقدامات کرنے کی بجائے اپنے ماضی کے کارناموں کے قصے سناتے رہتے، نوجوان اس کھیل سے دور ہونے لگے اور کرتے کرتے وہ ٹیم نہ صرف دنیا بھر کے تمام ٹائٹلز سے ہاتھ دھو بیٹھی بلکہ تمام ایونٹس سے بھی باہر ہونے لگی۔
وہ ٹیم کسی اور ملک کی نہیں بلکہ ہمارے اپنے پاکستان کی ہاکی ٹیم ہے، وہ ٹیم جسے 4 بار ورلڈ کپ، 3دفعہ اولمپکس سمیت دنیا کے تمام بڑے بڑے ٹائٹلز جیتنے کا اعزاز حاصل ہے اور جس کے کھلاڑیوں پر دنیا رشک کرتی اور ان کے عمدہ کھیل کی مثالیں دیتی رہی، کوئی سوچ سکتا تھا کہ منور زمان، شہباز احمد سینئر، سہیل عباس، حسن سردار، سمیع اللہ خان، کلیم اللہ خان، شاہد علی خان، منظور حسین جونیئر، منظور الحسن، شہناز شیخ، آصف باجوہ، کامران اشرف، اصلاح الدین صدیقی، طاہر زمان، وسیم فیروز، خواجہ محمد جنید، رانامجاہد، نصیر بندہ، منیر احمد ڈار، بریگیڈیئر(ر) عاطف، استاد سعید، اختر رسول اورخالد محمود کی ٹیم پر اس قدر برا وقت آئے گا کہ ایک دن ورلڈ کپ کی دوڑ سے بھی باہر ہو جائے گی، اولمپکس کے دروازے اس پر بند ہو جائیں گے، چیمپئنز ٹرافی میں بھی گرین شرٹس ایکشن میں دکھائی نہیں دے سکیں گے اور تو اور سلطان اذلان شاہ کپ میں شرکت کے لئے بھی پی ایچ ایف حکام کو غیروں کی منتیں کرنا پڑیں گی۔
کہتے ہیں کہ ہر عروج کو زوال ہے اور اگر اس زوال سے سبق سیکھ کر بہتری کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں تو دوبارہ سے عروج حاصل کیا جا سکتا ہے، اسی نظریئے اور فارمولے کو ذہن میں رکھ کر پاکستان ہاکی فیڈریشن کی موجودہ انتظامیہ قومی ٹیم کو ایک بار ماضی کے سنہری دور کی طرف لے جانے کے لئے کوشاں ہے، سابق اولمپیئز خواجہ محمد جنید اور حنیف خان بھی عملی طور پر میدان میں ہیں، ماضی کے دونوں عظیم کھلاڑی بخوبی جانتے ہیں کہ دوبارہ سے عالمی ایونٹس کی دوڑ میں شامل ہونے کے لئے پاکستان ٹیم کا رواں برس انگلینڈ میں شیڈول ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں کامیابی حاصل کرنا ضروری ہے، میگا ایونٹ میں فتح کے لئے کراچی کے بعد لاہور میں بھی کھلاڑیوں کو ٹریننگ دینے کا سلسلہ جاری ہے۔
ان کیمپوں کے دوران کھلاڑیوں کو نہ صرف جدید ہاکی کے بارے میں ٹریننگ دی جا رہی ہے بلکہ پلیئرز کے لئے بیوروکریٹس، سابق اولمپئنز، ماہر نفسیات و غزائیات کے خصوصی لیکچرز کا اہتمام بھی کیا گیا ہے۔ اب قارئین جب یہ سطور پڑھ رہے ہوں گے، اس کے ٹھیک ایک دن کے بعد پاکستان ٹیم نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دوروں کے لئے روانہ ہو گی، ٹیم کی قیادت عبدالحسیم خان کریں گے جبکہ سینئرز کے ساتھ جونیئرز کو بھی حتمی سکواڈ کا حصہ بنایا گیا ہے، دورے کے دوران پاکستانی ٹیم نیوزی لینڈ کے خلاف پانچ ٹیسٹ میچ کھیلنے کے بعد آسٹریلیا کے خلاف بھی چار میچوں کی سیریز میں حصہ لے گی۔
ٹیم مینجمنٹ سمجھتی ہے کہ ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ میں کوالیفائی کرنے کے لئے گرین شرٹس کا دنیا کی بڑی ٹیموں کے ساتھ ایکشن میں دکھائی دیا جانا ناگزیر ہے، ہیڈ کوچ خواجہ محمد جنید کا کہنا ہے کہ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دوروں سے نہ صرف کھلاڑیوں کے کھیل میں نکھار آئے گا بلکہ اس کا فائدہ ورلڈ کپ کوالیفائنگ راؤنڈ کے دوران بھی ہوگا۔ پی ایچ ایف حکام اور ٹیم مینجمنٹ کی کوششیں کس حد تک کامیاب رہتی ہیں، اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا تاہم یہ بات طے ہے کہ موجودہ فیڈریشن حکام بھی اپنے مشن میں سرخرو نہ ہو سکے تو قومی کھیل کو پستیوں اور ناکامیوں سے نکالنے کے لئے قوم کو نہ جانے مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔