قومی کرکٹ ٹیم کے لیے پاور ہٹرز کی تلاش ختم نہ ہو سکی
پی ایس ایل میں نوجوان بولرز نے متاثرکن کارکردگی دکھائی
پاکستان سپر لیگ کا دوسرا ایڈیشن اختتام پذیر ہو گیا ہے، اس لیگ میں بھی پہلے ایڈیشن کی طرح بہت سے نئے چہرے سامنے آئے ہیں جبکہ کئی تجربہ کار پلیئرز نے اپنی فارم کے ذریعے ماہرین کی توجہ حاصل کی۔ ایونٹ میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے مقامی پلیئرز میں زیادہ تر بولرز اور آل راؤنڈر رہے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی نمائندگی کرنے والے لیفٹ آرم پیسر رومان رئیس نے 7 میچز میں 12 وکٹیں حاصل کیں، 25 رنز کے عوض 4 وکٹیں ان کی بہترین بولنگ رہی۔ 18سالہ لیگ سپنر شاداب خان نے 8 میچز میں 19.11 کی ایوریج سے9 وکٹیں حاصل کیں، بہترین بولنگ 13 رنز کے عوض 3 وکٹیں رہیں، انہوں نے مشکل وقت میں ٹیم کے لیے 42 رنز کی اننگز بھی کھیلی، انہوں نے اپنی لیگ سپن اور گوگلی پر اچھے کنٹرول، بیٹنگ کے علاوہ شاندار فیلڈنگ سے بھی ماہرین کو متاثر کیا۔ 18 سالہ حسان خان نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے 10 میچز کھیل کر 9 وکٹ حاصل کیے، 16 رنز کے عوض 2 وکٹیں بہترین بولنگ رہی، ایونٹ میں 7 کیچز لے کر تیسرے بہترین فیلڈر رہے۔
سیالکوٹ کے 21 سالہ اسامہ میر نے کراچی کنگز کی طرف سے 8 میچز میں 19 کی اوسط سے 12وکٹیں حاصل کیں۔ بہترین بولنگ 24 رنز دیکر 3 وکٹیں رہی۔ رائٹ آرم پیسر محمد عرفان جونئیر لاہور قلندرز کی جانب سے کھیلے اور سہیل تنویر سے بولنگ ایکشن مشابہہ ہونے کی وجہ سے بھی موضوع بحث رہے، ننکانہ صاحب کے طویل قامت بولر نے 7 میچز میں اتنے ہی شکار کیے۔ خیبرایجنسی کے 19 سالہ لیفٹ آرم پیسر عثمان خان شنواری بھی اچھے ردھم میں نظر آئے انہوں نے کراچی کنگز کی جانب سے 8 میچز میں 6 وکٹیں حاصل کیں۔
بیٹنگ میں نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آ سکا اور قومی ٹیم کے لیے جس طرح کے پاور ہٹرز کی تلاش تھی وہ بھی شاید نہیں مل سکے۔ کامران اکمل ایونٹ کی واحد سنچری کے ساتھ 353 رنز بنا کر کامیاب ترین بیٹسمین رہے، لیکن یہ بھی سوچنا ہو گا کہ 35 سالہ بیٹسمین کتنے عرصے تک قومی ٹیم میں شامل رہ سکتے ہیں۔ گزشتہ ایڈیشن میں دریافت ہونے والے بابر اعظم 291 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ لاہور قلندرز کی جانب سے بائیں ہاتھ کے بیٹسمین فخر زمان نے 8 میچز میں نصف سنچری کے ساتھ 177 رنز بنا چکے ہیں، انہوں نے اچھی تکنیک کی وجہ سے ماہرین کی توجہ حاصل کی لیکن کارکردگی میں تسلسل برقرار نہ رکھ سکے، ان کا سکور بالترتیب 25، 11، 5، 33، 56، 47، 6 اور صفر رنز رہا۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے 20 سالہ لیفٹ ہینڈر حسین طلعت دو میچز ہی کھیل پائے جن میں انہوں نے ففٹی کی مدد سے 67 رنز سکور کیے۔ پی ایس ایل میں پاکستان کے بولرز اور آل راؤنڈرز تو سامنے آئے ہیں لیکن بیٹنگ میں کوئی بڑے نام بیٹنگ میں سامنے نہیں آئے۔
نئے باصلاحیت کرکٹرز تلاش کرنے کے لیے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تین روزہ ایمرجنگ پلیئرز کیمپ لگایا گیا جس میں پی ایس ایل اور ڈومیسٹک ایونٹس میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے پلیئرز کو دعوت دی گئی۔ وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کی جگہ پی ایس ایل کے پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کامران اکمل کو شامل کیا گیا، احمد شہزاد کی بھی واپسی ہوئی، پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے شاداب خان، فخر زمان، رومان رئیس، اسامہ میر، عثمان خان شنواری جبکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں صلاحیتوں کی جھلک دکھانے والے محمد عباس، آصف ذاکر، فہیم اشرف، حسین طلعت، عماد بٹ اور سعد علی کو بھی بلایا گیا جبکہ مسلسل عمدہ کارکردگی کے باوجود فواد عالم کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیا گیا۔
کیمپ میں ہیڈکوچ مکی آرتھر کو عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ ڈومیسٹک کرکٹ میں موجود باصلاحیت کھلاڑیوں کی پرفارمنس جانچنے کا موقع ملا، کوچ اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کی اصل نظر پاور ہٹرز پر رہی کیونکہ قومی ٹیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اچھے بیٹسمینوں کی تلاش ہے جو نہ صرف بہتر اسٹرائیک ریٹ سے سکور کریں بلکہ اپنی کارکردگی میں تسلسل بھی برقرار رکھیں۔ اب 3 روزہ کیمپ میں نوجوان پلیئرز کی صلاحیتیں کس حد تک سامنے آئیں اور کیا نتائج حاصل ہوئے، یہ تو کوچ اور چیف سلیکٹر ہی بتا سکتے ہیں۔ تاہم پی سی بی کو یہ سوچنا ہو گا کہ کیا نئے ٹیلنٹ کی جانچ پڑتال کے لیے 3 دن کافی ہیں؟ کیا یہ ان نوجوان پلیئرز کے ساتھ زیادتی نہیں جو سالہا سال محنت کے بعد ایک مقام تک پہنچے اور اب محض 3 دن کے پوسٹمارٹم کے بعد ان کے مستقبل کا فیصلہ سنا دیا جائے۔ بورڈ کے ذمہ داران کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ مستقبل کے اسٹارز تلاش کرنے کے لیے کیا مناسب حکمت عملی اپنائی جائے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ کی نمائندگی کرنے والے لیفٹ آرم پیسر رومان رئیس نے 7 میچز میں 12 وکٹیں حاصل کیں، 25 رنز کے عوض 4 وکٹیں ان کی بہترین بولنگ رہی۔ 18سالہ لیگ سپنر شاداب خان نے 8 میچز میں 19.11 کی ایوریج سے9 وکٹیں حاصل کیں، بہترین بولنگ 13 رنز کے عوض 3 وکٹیں رہیں، انہوں نے مشکل وقت میں ٹیم کے لیے 42 رنز کی اننگز بھی کھیلی، انہوں نے اپنی لیگ سپن اور گوگلی پر اچھے کنٹرول، بیٹنگ کے علاوہ شاندار فیلڈنگ سے بھی ماہرین کو متاثر کیا۔ 18 سالہ حسان خان نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی جانب سے 10 میچز کھیل کر 9 وکٹ حاصل کیے، 16 رنز کے عوض 2 وکٹیں بہترین بولنگ رہی، ایونٹ میں 7 کیچز لے کر تیسرے بہترین فیلڈر رہے۔
سیالکوٹ کے 21 سالہ اسامہ میر نے کراچی کنگز کی طرف سے 8 میچز میں 19 کی اوسط سے 12وکٹیں حاصل کیں۔ بہترین بولنگ 24 رنز دیکر 3 وکٹیں رہی۔ رائٹ آرم پیسر محمد عرفان جونئیر لاہور قلندرز کی جانب سے کھیلے اور سہیل تنویر سے بولنگ ایکشن مشابہہ ہونے کی وجہ سے بھی موضوع بحث رہے، ننکانہ صاحب کے طویل قامت بولر نے 7 میچز میں اتنے ہی شکار کیے۔ خیبرایجنسی کے 19 سالہ لیفٹ آرم پیسر عثمان خان شنواری بھی اچھے ردھم میں نظر آئے انہوں نے کراچی کنگز کی جانب سے 8 میچز میں 6 وکٹیں حاصل کیں۔
بیٹنگ میں نیا ٹیلنٹ سامنے نہیں آ سکا اور قومی ٹیم کے لیے جس طرح کے پاور ہٹرز کی تلاش تھی وہ بھی شاید نہیں مل سکے۔ کامران اکمل ایونٹ کی واحد سنچری کے ساتھ 353 رنز بنا کر کامیاب ترین بیٹسمین رہے، لیکن یہ بھی سوچنا ہو گا کہ 35 سالہ بیٹسمین کتنے عرصے تک قومی ٹیم میں شامل رہ سکتے ہیں۔ گزشتہ ایڈیشن میں دریافت ہونے والے بابر اعظم 291 رنز کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ لاہور قلندرز کی جانب سے بائیں ہاتھ کے بیٹسمین فخر زمان نے 8 میچز میں نصف سنچری کے ساتھ 177 رنز بنا چکے ہیں، انہوں نے اچھی تکنیک کی وجہ سے ماہرین کی توجہ حاصل کی لیکن کارکردگی میں تسلسل برقرار نہ رکھ سکے، ان کا سکور بالترتیب 25، 11، 5، 33، 56، 47، 6 اور صفر رنز رہا۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کے 20 سالہ لیفٹ ہینڈر حسین طلعت دو میچز ہی کھیل پائے جن میں انہوں نے ففٹی کی مدد سے 67 رنز سکور کیے۔ پی ایس ایل میں پاکستان کے بولرز اور آل راؤنڈرز تو سامنے آئے ہیں لیکن بیٹنگ میں کوئی بڑے نام بیٹنگ میں سامنے نہیں آئے۔
نئے باصلاحیت کرکٹرز تلاش کرنے کے لیے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں تین روزہ ایمرجنگ پلیئرز کیمپ لگایا گیا جس میں پی ایس ایل اور ڈومیسٹک ایونٹس میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے پلیئرز کو دعوت دی گئی۔ وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کی جگہ پی ایس ایل کے پلیئر آف دی ٹورنامنٹ کامران اکمل کو شامل کیا گیا، احمد شہزاد کی بھی واپسی ہوئی، پی ایس ایل میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے شاداب خان، فخر زمان، رومان رئیس، اسامہ میر، عثمان خان شنواری جبکہ ڈومیسٹک کرکٹ میں صلاحیتوں کی جھلک دکھانے والے محمد عباس، آصف ذاکر، فہیم اشرف، حسین طلعت، عماد بٹ اور سعد علی کو بھی بلایا گیا جبکہ مسلسل عمدہ کارکردگی کے باوجود فواد عالم کو ایک بار پھر نظر انداز کر دیا گیا۔
کیمپ میں ہیڈکوچ مکی آرتھر کو عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ ڈومیسٹک کرکٹ میں موجود باصلاحیت کھلاڑیوں کی پرفارمنس جانچنے کا موقع ملا، کوچ اور چیف سلیکٹر انضمام الحق کی اصل نظر پاور ہٹرز پر رہی کیونکہ قومی ٹیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اچھے بیٹسمینوں کی تلاش ہے جو نہ صرف بہتر اسٹرائیک ریٹ سے سکور کریں بلکہ اپنی کارکردگی میں تسلسل بھی برقرار رکھیں۔ اب 3 روزہ کیمپ میں نوجوان پلیئرز کی صلاحیتیں کس حد تک سامنے آئیں اور کیا نتائج حاصل ہوئے، یہ تو کوچ اور چیف سلیکٹر ہی بتا سکتے ہیں۔ تاہم پی سی بی کو یہ سوچنا ہو گا کہ کیا نئے ٹیلنٹ کی جانچ پڑتال کے لیے 3 دن کافی ہیں؟ کیا یہ ان نوجوان پلیئرز کے ساتھ زیادتی نہیں جو سالہا سال محنت کے بعد ایک مقام تک پہنچے اور اب محض 3 دن کے پوسٹمارٹم کے بعد ان کے مستقبل کا فیصلہ سنا دیا جائے۔ بورڈ کے ذمہ داران کو سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ مستقبل کے اسٹارز تلاش کرنے کے لیے کیا مناسب حکمت عملی اپنائی جائے۔