سرکاری زندگی بہت عجیب ہے

فریدالدین ملتان کے کمشنرتھے۔انتہائی وجیہہ اور بہترین انسان

raomanzarhayat@gmail.com

ملتان میں دومرتبہ رہنے کا اتفاق ہوا۔ پہلی بارجج صاحب کے ساتھ اوردوسری مرتبہ اپنی پہلی پوسٹنگ کی بدولت۔ اتفاق یہ بھی ہے کہ میرے والدمحترم کی بطور ایڈیشنل سیشن جج اورمیری بطوراے سی یوٹی پہلی سرکاری تعیناتی ملتان میں ہی ہوئی۔ 1975ء کاملتان ایک بھرپور دنیا تھی۔

ثقافت، وضعداری اورنفاست کامجموعہ۔ 86ء کاملتان بھی تقریباً ویسا ہی تھا۔بڑے طویل عرصے سے اب وہاں جانا نہیں ہوا، لہذا کچھ کہہ نہیں سکتا۔سناہے بہت بدل گیا ہے۔ بدلنے کامطلب کیاہے،اسکاحقیقت میں مجھے کچھ پتہ نہیں۔ 86ء کا ذکر کروں گا یعنی پچھلی صدی کا۔پچھلی صدی لکھنے سے ایک دم احساس ہواہے کہ بہت بوڑھا ہو چکا ہوں۔

فریدالدین ملتان کے کمشنرتھے۔انتہائی وجیہہ اور بہترین انسان۔حکومت نے دواسسٹنٹ کمشنروں کوتربیت کے لیے ملتان بھجوایاتھا۔نوازاورمیں۔کمشنرصاحب سے ملنے کے لیے ان کے دفترگئے تووہاں اسٹاف افسرکے کمرے میں آدھا گھنٹہ انتظارکرنا پڑا۔ یہ اے سی جنرل کا آفس تھا۔ افسر ساجد سے پہلی ملاقات تھی۔بہت مدبر اور سنجیدہ انسان۔اس وقت معلوم نہیں تھاکہ شاعربھی ہیں۔

ویسے اس وقت توکچھ بھی معلوم نہیں تھا۔یہ بھی پتہ نہیں تھاکہ افسرشاہی ایک جنگل ہے۔ جس میں ہرقامت اور جسامت کاجانور موجود ہے۔ ایسے پرندے بھی ہیں جو ہر حکومت کے درخت پر گھونسلہ بنانے کافن جانتے ہیں۔ ویسے لگتا ہے کہ بتیس برس کے بعدبھی اس جنگل کا کچھ معلوم نہیں ہوسکا۔معلوم ہوتاہے کہ باہرباہرہی گھومتا رہا۔کبھی مکینوں سے راہ ورسم نہیں رکھا۔مکینوں سے مراد بیوروکریسی کے وہ کل پرزے ہیں جوہرمشین میں فٹ ہوجاتے ہیں۔کبھی پہیے بن جاتے ہیں توکبھی بریک۔

افسر ساجدصاحب کی ایک مخصوص عادت تھی۔ ان کی میز پر سفید کلیاں پڑی ہوتی تھیں۔صبح صبح مالی چندکلیاں میزکے ایک خاص خانے میں رکھ جاتاتھا۔پھولوں کی خوشبوآج بھی یاد ہے۔پھولوں کی طرح افسرساجدبھی ایک خوشبودار انسان ہے۔کمشنرکے دفترمیں داخل ہوئے توواقعی لگاکہ کسی افسر سے ملاقات ہورہی ہے۔فریدصاحب کے والد اور دادا دونوں ڈی سی رہ چکے تھے۔ان کی تیسری نسل تھی جوسرکارکی نوکری کررہی تھی۔

فرید صاحب نے ملاقات میں ایک ایسا فقرہ کہا جو میری دانست میں ہرسرکاری ملازم کواپنے دل پر لکھ لینا چاہیے۔ کہنے لگے یہ بڑے بڑے دفتر، گھر اور گاڑیاں،سب کچھ کاغذی ہیں۔حکومت ایک نوٹیفیکیشن کرتی ہے تویہ سب کچھ ہوا میں تحلیل ہوجاتاہے۔ان کی کوئی وقعت نہیں۔ان میں دل نہیں لگاناچاہیے۔اس وقت توان کی یہ بات بالکل سمجھ نہیں آئی مگرآہستہ آہستہ نوکری میںیہ کلیہ ذہن نشین ہوگیا۔سرکارکی چاکری میں افسرکاکچھ بھی نہیں ہوتا۔ وہی گھرجس میں آپ سالہاسال مقیم رہے ہوں۔

ایک دم بیگانہ ہوجاتا ہے۔ آپکے زیراستعمال تمام مراعات صرف ایک کاغذی حکم کے بعدکوئی دوسرااستعمال کررہا ہوتا ہے۔ فریدصاحب کی یہ نصیحت وقت کے ساتھ خوب سمجھ میں آچکی ہے۔کمشنرسے پہلی ملاقات واجبی سی تھی۔ ملتان میں ان سے زیادہ بارنہیں مل سکے۔86ء میں کمشنراورڈی سی کے ساتھ کافی باعزت سابقے اورلاحقے لگائے جاتے تھے۔ افسرساجدسے ہی معلوم ہواکہ اب ڈی سی صاحب کو ملنا ہے۔

طارق محمود اس وقت ڈی سی ملتان تھے۔ دفترگئے تو معلوم ہواکہ لودھراں دورہ پرگئے ہوئے ہیں۔خیراگلے دن نوازاورمیں دوبارہ گئے توملاقات ہوگئی۔گندمی رنگ کاایک ذہین انسان۔معلوم نہیں تھاکہ ایک علم دوست انسان ہیں اور افسانے لکھتے ہیں۔چمکتی ہوئی آنکھیں اورانتہائی عاجزانہ رویہ۔ہرسائل سے ملتے تھے اوراپنی استطاعت کے مطابق کام کرتے تھے۔ڈی سی ملتان کادفترکچہری میں تھا۔

جج صاحب کی وجہ سے کچہری کے ماحول کاکچھ اندازہ تو تھا ہی، مگراس جہانِ حیرت میں کام کرنے کاکوئی تجربہ نہیں تھا۔صبح صبح لوگ آنے شروع ہوجاتے تھے،دفتروں کے باہر مقدموں کی فہرست لگی ہوتی تھی۔مجسٹریٹ صاحبان کا ایک نائب قاصدبلندآوازسے مقدمہ اورسائل کانام پکارتاتھا۔وہ شخص جلدی سے اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں پیش ہو جاتا تھا۔

اس وقت انتظامیہ کے پاس تمام قانونی اختیار تھے۔ کچہری ایک دنیا تھی۔مختلف وضع کے لوگ، مسائل اور چھوٹے چھوٹے کاموں کی بدولت سارادن دفتروں کے باہربیٹھے رہتے تھے۔پہلی دفعہ احساس ہواکہ ہمارے ملک میں لوگوں کی کثیرتعدادصرف اسلیے پیداہوئی ہے کہ سالہا سال دفتروں کے چکرلگاتے رہیں۔نسل درنسل انھی برامدوںمیں پھرتے رہیں۔جہاں جگہ ملے،وہاں بیٹھ جائیں۔ ادنیٰ سی کینٹین سے مسلسل چائے پیتے رہیں۔


عام لوگوں کی مشکلات کاعملی ادراک ملتان جانے سے ہوا۔یہ بھی اندازہ ہواکہ ہمارے نظام میں مسائل کو بڑھانے کی منفی طاقت موجودہے۔ایم بی بی ایس کرتے ہوئے صرف زندگی کاایک اصول سیکھاتھا،کہ لوگوں کی مدد کیسے کرنی ہے۔نوکری کے پہلے دس دنوں میں فیصلہ کرلیاکہ میڈیکل کالج میں سیکھے ہوئے جذبہ کوضایع نہیں ہونے دینا۔تہیہ کیاکہ مثبت انسانی رویہ اختیار کرونگا۔یہ فیصلہ میری زندگی کاسب سے بڑا فیصلہ تھا۔اس پرآج بھی قائم ہوں۔ متعددبار سرکاری طنزکانشانہ بننا پڑا۔ مگر مجھے اس کی کوئی فکر نہیں۔

افسرشاہی کے ریگستان میں تو اکثر لوگ منفی رویوں کو ہی اپنی شناخت بنا لیتے ہیں۔لوگوں کو تکلیف پہنچاکرخوش ہوتے ہیں۔ مگر بھول جاتے ہیں کہ زندگی صرف اورصرف آسانیاں تقسیم کرنے کانام ہے۔جسکو رعب دبدبہ کہتے ہیں، دراصل وہ لوگوں کے دلوں کی نفرت ہے جسکی تپش کومحسوس نہیں کرپاتے۔خیرمیں اپنے فیصلے پرآج بھی قائم ہوں۔

ایک دن ڈی سی صاحب یعنی طارق محمود صاحب کے گھرگیا۔ کیمپ آفس میں کتابیں ہی کتابیں تھیں۔پتہ چلا اکثر اوقات کتابیں پڑھتے رہتے ہیں۔ادبی تقاریب میں کسی کوبتائے بغیرپچھلی نشست پربیٹھ جاتے تھے۔اس طرح کے علم دوست لوگ اب حقیقت میں کم رہ گئے ہیں۔چھ ماہ گزرے تھے کہ انکاتبادلہ ہوگیا۔ان کی جگہ شہزادقیصرآگئے۔فلسفہ کے طالبعلم رہے تھے۔ان دنوں صوفی ازم پرپی ایچ ڈی کرنے میں مصروف تھے۔ انتہائی بذلہ سنج اوربرجستہ انسان۔چھوٹے چھوٹے فقروں میں بہت بڑی بڑی باتیں کہہ جاتے تھے۔

ایک دن شہزاد صاحب کے ساتھ معذوربچوں کے اسکول جانے کااتفاق ہوا۔وہاں جانے کے بعد جیب میںجوکچھ بھی تھا،پرنسپل کے حوالے کردیا۔دفترجاکردس ہزارروپے مزید بھجوائے۔ خلق خداکی خدمت کرناجانتے تھے۔طارق محمود اور شہزاد قیصردونوں بڑے عرصے سے ریٹائرڈہوچکے ہیں۔اپنی اپنی دانست میں دونوں بے مثال انسان تھے۔سمجھ نہیں آتاکہ اس طرح کے افسراتنے نایاب کیوں ہوگئے ہیں یا شائد موجود ہی نہیں رہے۔اکثریت توایسے لوگ ہیں جو ایذا رسانی میں مہارت رکھتے ہیں۔انکاسارارعب اور دبدبہ مخصوص جگہ ختم ہوجاتاہے۔تخت سے وفاداری انکا اوڑھنابچھونا نہیں بلکہ طرزِزندگی ہے۔ اردگرد درجنوں مثالیں پھیلی ہوئی ہیں۔

ملتان میں چندہفتے رہنے کے بعدپتہ چلاکہ توقیر اکبر بھی یہیں ہے۔توقیراورمیں ڈویژنل پبلک اسکول میں پڑھتے تھے۔لائل پورکے باسی ہونے کی بدولت توقیرسے ہمیشہ دوستی رہی ہے۔بطورآئی ٹواوشائداس کی پہلی پوسٹنگ تھی۔ہوٹل کانام بھول گیا۔مگرتوقیرایک ہوٹل کے کمرے میں رہتاتھا۔اب ہم لوگوں نے اکھٹے پھرناشروع کردیا۔ طارق شریف ابھی کپتان تھا یا شائد میجربن چکا تھا۔ وہ بھی بچپن کادوست تھا۔

طارق شریف فوج کے ان افسروں میں ہے جنہوں نے سخت محنت بلکہ ریاضت کی کہ انھیں جرنل نہ بنایاجائے۔دوستوں کادوست اورحددرجہ محفلی انسان۔ کمرے میں ہروقت رونق لگی رہتی تھی۔آج تک یہی حال ہے۔طارق بریگیڈئیربن کرریٹائرہوا۔کراچی میں مقیم ہے۔زندگی کی ازلی رونق آج بھی اس کی رگ رگ میں موجود ہے۔

اصغرخان سے میری ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب جج صاحب ملتان آئے تھے۔یعنی1975ء میں۔اصغرخان نے بینک میں نوکری شروع کردی تھی۔سرخ وسفیدتن آور پٹھان، مرقع خلوص تھا۔دوستوں کے لیے ہروقت حاضر۔اپنی تکلیف ظاہر نہیں کرتا تھا مگر ہر ایک کی مددکے لیے ہمہ وقت تیار رہتا۔جہانگیرکابھی یہی حال تھا۔مگردس بارہ سال پہلے جہانگیر بہت تبدیل ہوچکاہے۔ہروقت قہقہے لگاتا ہوا شخص اب بدل چکاہے۔

دوستوں نے بتایاکہ روزانہ ملتان کے ایک برگزیدہ مزارپرحاضری دیتا ہے۔ کھانا پکواتا ہے اور لوگوں میں تقسیم کردیتاہے۔ان سب کی موجودگی میں وقت اتنی تیزی سے گزرنے لگاکہ بالکل احساس ہی نہیں ہوا۔ ایک بات بھول گیا۔صفدر سہل بھی وہیں آچکاتھا۔اس کے دفتر میں پہلی بارخالدمسعودسے ملاقات ہوئی۔ خالد مسعود اس وقت نہ کالم نگارتھااورنہ ہی شاعر۔ہنستاکھیلتاایک نوجوان تھاجوسب کے ساتھ کرکٹ کھیلتاتھا۔

ڈی سی صاحب نے نوازاورمجھے ایک سرکاری جیپ اَلاٹ کی تھی۔یہ اتنی پرانی جیپ تھی کہ کسی کومعلوم ہی نہیں تھاکہ وہ کس سَن میں بنائی گئی تھی۔اسے چلانے کے لیے بہت زیادہ فنی مہارت کی ضرورت تھی۔نوازنے گاڑی چلانا اسی جیپ پرسیکھا۔طارق شریف کاخیال تھاکہ جوشخص یہ جیپ چلاسکتاہے وہ فوج میں ٹینک بہت آسانی سے چلاسکتا ہے۔ خیرنوازنے اس جیپ پر ڈرائیونگ کیسے سیکھی۔یہ بذات خود ایک حیرت انگیزبات تھی۔سال گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلا۔ایک پَل میں ساراوقت گزرگیا۔

ملتان سے میں شکرگڑھ پوسٹ ہوگیا۔ نواز کی تبدیلی خانیوال ہوگئی۔ اے سی خانیوال اس وقت بہترین پوسٹنگ شمارکی جاتی تھی۔ شکرگڑھ پہنچ کرمعلوم ہواکہ نوازایک دن شام کواپنے گھر بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک دل کادورہ پڑنے سے فوت ہوگیا۔یقین نہیں آتا تھا کہ جس شخص کوچنددن پہلے ہشاش بشاش چھوڑ کر آیا تھا، وہ اچانک دنیاسے چلا گیا۔پتہ نہیں اسے جانے کی اتنی جلدی کیوں تھی! زندگی بھی کیاعجیب چیزہے، مگرسرکاری نوکری، زندگی سے بھی عجیب ہے!
Load Next Story