گریٹر اسرائیل کا نظریہ اور اسلامی ملکوں کی حالت
آرمی چیف کا یہ کہنا انتہائی اہم ہے کہ پاک فوج ایران کے ساتھ تعلقات پر کوئی ’’سمجھوتہ‘‘ نہیں کرے گی
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ پاک ایران تعلقات پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ انھوں نے یہ بات پاکستان میں ایرانی سفیر مہدی ہنر دوست سے ملاقات میں کہی' اس ملاقات میں علاقائی سیکیورٹی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
آرمی چیف نے کہا کہ پاک ایران فوجی تعاون سے علاقے میں امن کو فروغ ملے گا۔ ایرانی سفیر نے کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاک فوج کا کردار قابل قدر' دہشتگردی کے خاتمے کے لیے آپریشن ردالفساد قابل تعریف اقدام ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاک فوج برادر ممالک کے ساتھ تاریخی تعلقات کو بہت اہمیت دیتی ہے۔
آرمی چیف کا یہ کہنا انتہائی اہم ہے کہ پاک فوج ایران کے ساتھ تعلقات پر کوئی ''سمجھوتہ'' نہیں کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاک ایران تعلقات پچھلی چند دہائیوں میں بڑی آزمائشوں سے گزرے ہیں۔ ایرانی شہنشاہیت کے خاتمے اور انقلاب ایران کے بعد جس نے ایران میں امریکی مفادات کا خاتمہ کر دیا تھا امریکا کی خواہش تھی کہ پاکستان افغانستان کی طرح ایران کے خلاف بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنے۔لیکن پاکستان امریکا کے دباؤ میں نہیں آیا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ہمیں اگر تین ملکوں بھارت' ایران اور افغانستان سے لڑنا پڑتا تو کیا ہوتا۔ دشمنی تو ایک ہمسائے کی بھی بری ہوتی ہے چہ جائیکہ تین سے۔
افغانستان میں امریکا کی جنگ لڑنے کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ فرقہ واریت' ناجائز اسلحہ' دہشتگردی اور منشیات سوویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کا نتیجہ ہیں۔ اس پالیسی کو اپنانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج افغانستان بھارت کے ساتھ پاکستان دشمنی میں متحد ہے۔
پچھلی چار دہائیوں میں افغانستان میں جو تباہی بربادی اور لاکھوں لوگ مارے گئے ان سب کا ذمے دارافغانستان کا قوم پرست گروہ پاکستان کو سمجھتا ہے جب کہ دوسری طرف یہ صورت حال ہے کہ ہم افغان پناہ گزینوں کو جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں واپس افغانستان نہیں بھیج سکتے کیونکہ یہ لوگ امریکی پالیسی اور دباؤ کے تحت پاکستان میں ایک طویل مدت سے رہ رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ پاکستانی سوسائٹی میں انتشار، جرائم اور دہشتگردی میں اضافہ کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ خاص طور پر صوبہ خیبرپختونخوا بلوچستان اور کراچی میں۔
پاکستانی شناختی کارڈ، پاسپورٹ ان کے پاس ہے۔ جائیدادیں یہ خرید چکے ہیں' کاروبار یہ کر رہے ہیں یعنی ہر طرح سے قانونی بن چکے ہیں۔ چاروں صوبوں سے ان کے بارے میں ٹیلیفون آتے رہتے ہیں۔ جہاں مقامی لوگوں کی زندگیاں انھوں نے اجیرن کر رکھی ہیں۔ مانسہرہ میں انھوں نے قومی پرچم جلا دیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بہت سی جگہوں پر ان کی آبادی مقامی آبادی سے بڑھ چکی ہے۔ مقامی کاروبار پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ پہلے یہ اقلیت میں تھے اب اکثریت میں ہیں۔
غیرقانونی اسلحہ' جرائم اور دہشتگردی میں زیادہ تر یہی ملوث پائے جاتے ہیں' جنوبی پنجاب کے شہر بھکر سے ایک صاحب نے ٹیلی فون پر بتایا کہ یہاں بھی افغانستان سے آنے والے خاصی تعداد میں ہیں اور اس پسماندہ شہر میں بھی جرائم بڑھ گئے ہیں۔
جب تک پاکستان افغانستان میں سامراجی جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا یہاں رواداری، برداشت پائی جاتی تھی لیکن یہ اب یہاں جنس نایاب ہے۔ اس حوالے سے عراق اور شام میں صورتحال اور زیادہ خراب ہے۔ مذہبی جنونیت سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ ان ملکوں میں شاید ہی کوئی دن خالی جاتا ہو جب ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد درجنوں میں نہ پہنچ جائے۔ المناک بات یہ ہے کہ یہ سب مسلمان ملکوں میں ہو رہا ہے جب کہ یورپ اور امریکا اس سے محفوظ ہیں۔ اگر وہاں کوئی اکادکا واقعہ ہوتا بھی ہے تو پالیسی کے تحت وہاں مقیم مسلمانوں کی زندگی کو مزید اجیرن بنا دیا جاتا ہے اور چند دہشتگردوں کا کیا دھرا لاکھوں مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
دہشتگرد تنظیمیں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں۔ اس میں سب سے آگے داعش ہے۔ پچھلے ماہ لال شہباز قلندر کے مزار پر حملہ جس میں سیکڑوں لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے اس کی ذمے داری داعش نے قبول کی۔ تازہ ترین حملہ کابل میں ایک اسپتال پر ہوا جس میں فوری طور پر 130 جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اندازہ کریں حملہ آور ڈاکٹر کا لباس پہن کر آئے۔ داعش نے بڑے فخر سے بے گناہ مسلمانوں کے اس قتل عام کی ذمے داری قبول کی۔ جو لوگ ان دہشتگردوں کے بارے میں ذرا سا بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ انھیں اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس تمام صورت حال سے اسرائیل کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ مسلم ممالک کمزور سے کمزور تر اور مسلمان بے پناہ تباہی بربادی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس طرح گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار ہو رہی ہے' جب کہ حال ہی میں اسرائیل کے زیر قبضہ بیت المقدس میں فجر کی اذان پر پابندی لگ چکی ہے کہ اس سے اسرائیلیوں کی نیند خراب ہوتی ہے۔
ادھر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ذہن میں رکھیں' کہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے عظیم اسرائیل کا خواب سچا ہو جائے۔ البتہ لگتا ہے کہ ٹرمپ کی اسرائیل سے محبت اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کا فاتح بنا کر رہے گی... افغانستان' عراق شام کے تلخ تجربات کے بعد امریکا شام اور ایران میں اپنی فوج بھیجنے سے رہا' اللہ کرے' میرے خدشات غلط ثابت ہوں۔
سابق آرمی چیف راحیل شریف نے کیرئیر کے حوالے سے مارچ اپریل اہم مہینے ہیں۔
سیل فون:۔0346-4527997
آرمی چیف نے کہا کہ پاک ایران فوجی تعاون سے علاقے میں امن کو فروغ ملے گا۔ ایرانی سفیر نے کہا کہ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاک فوج کا کردار قابل قدر' دہشتگردی کے خاتمے کے لیے آپریشن ردالفساد قابل تعریف اقدام ہے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاک فوج برادر ممالک کے ساتھ تاریخی تعلقات کو بہت اہمیت دیتی ہے۔
آرمی چیف کا یہ کہنا انتہائی اہم ہے کہ پاک فوج ایران کے ساتھ تعلقات پر کوئی ''سمجھوتہ'' نہیں کرے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پاک ایران تعلقات پچھلی چند دہائیوں میں بڑی آزمائشوں سے گزرے ہیں۔ ایرانی شہنشاہیت کے خاتمے اور انقلاب ایران کے بعد جس نے ایران میں امریکی مفادات کا خاتمہ کر دیا تھا امریکا کی خواہش تھی کہ پاکستان افغانستان کی طرح ایران کے خلاف بھی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنے۔لیکن پاکستان امریکا کے دباؤ میں نہیں آیا۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ہمیں اگر تین ملکوں بھارت' ایران اور افغانستان سے لڑنا پڑتا تو کیا ہوتا۔ دشمنی تو ایک ہمسائے کی بھی بری ہوتی ہے چہ جائیکہ تین سے۔
افغانستان میں امریکا کی جنگ لڑنے کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ فرقہ واریت' ناجائز اسلحہ' دہشتگردی اور منشیات سوویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کا نتیجہ ہیں۔ اس پالیسی کو اپنانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج افغانستان بھارت کے ساتھ پاکستان دشمنی میں متحد ہے۔
پچھلی چار دہائیوں میں افغانستان میں جو تباہی بربادی اور لاکھوں لوگ مارے گئے ان سب کا ذمے دارافغانستان کا قوم پرست گروہ پاکستان کو سمجھتا ہے جب کہ دوسری طرف یہ صورت حال ہے کہ ہم افغان پناہ گزینوں کو جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں واپس افغانستان نہیں بھیج سکتے کیونکہ یہ لوگ امریکی پالیسی اور دباؤ کے تحت پاکستان میں ایک طویل مدت سے رہ رہے ہیں۔ جس کا نتیجہ پاکستانی سوسائٹی میں انتشار، جرائم اور دہشتگردی میں اضافہ کی صورت میں برآمد ہو رہا ہے۔ خاص طور پر صوبہ خیبرپختونخوا بلوچستان اور کراچی میں۔
پاکستانی شناختی کارڈ، پاسپورٹ ان کے پاس ہے۔ جائیدادیں یہ خرید چکے ہیں' کاروبار یہ کر رہے ہیں یعنی ہر طرح سے قانونی بن چکے ہیں۔ چاروں صوبوں سے ان کے بارے میں ٹیلیفون آتے رہتے ہیں۔ جہاں مقامی لوگوں کی زندگیاں انھوں نے اجیرن کر رکھی ہیں۔ مانسہرہ میں انھوں نے قومی پرچم جلا دیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بہت سی جگہوں پر ان کی آبادی مقامی آبادی سے بڑھ چکی ہے۔ مقامی کاروبار پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ پہلے یہ اقلیت میں تھے اب اکثریت میں ہیں۔
غیرقانونی اسلحہ' جرائم اور دہشتگردی میں زیادہ تر یہی ملوث پائے جاتے ہیں' جنوبی پنجاب کے شہر بھکر سے ایک صاحب نے ٹیلی فون پر بتایا کہ یہاں بھی افغانستان سے آنے والے خاصی تعداد میں ہیں اور اس پسماندہ شہر میں بھی جرائم بڑھ گئے ہیں۔
جب تک پاکستان افغانستان میں سامراجی جنگ میں شامل نہیں ہوا تھا یہاں رواداری، برداشت پائی جاتی تھی لیکن یہ اب یہاں جنس نایاب ہے۔ اس حوالے سے عراق اور شام میں صورتحال اور زیادہ خراب ہے۔ مذہبی جنونیت سر چڑھ کر بول رہی ہے۔ ان ملکوں میں شاید ہی کوئی دن خالی جاتا ہو جب ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد درجنوں میں نہ پہنچ جائے۔ المناک بات یہ ہے کہ یہ سب مسلمان ملکوں میں ہو رہا ہے جب کہ یورپ اور امریکا اس سے محفوظ ہیں۔ اگر وہاں کوئی اکادکا واقعہ ہوتا بھی ہے تو پالیسی کے تحت وہاں مقیم مسلمانوں کی زندگی کو مزید اجیرن بنا دیا جاتا ہے اور چند دہشتگردوں کا کیا دھرا لاکھوں مسلمانوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔
دہشتگرد تنظیمیں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں۔ اس میں سب سے آگے داعش ہے۔ پچھلے ماہ لال شہباز قلندر کے مزار پر حملہ جس میں سیکڑوں لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے اس کی ذمے داری داعش نے قبول کی۔ تازہ ترین حملہ کابل میں ایک اسپتال پر ہوا جس میں فوری طور پر 130 جاں بحق اور 50 سے زائد زخمی ہو گئے۔ اندازہ کریں حملہ آور ڈاکٹر کا لباس پہن کر آئے۔ داعش نے بڑے فخر سے بے گناہ مسلمانوں کے اس قتل عام کی ذمے داری قبول کی۔ جو لوگ ان دہشتگردوں کے بارے میں ذرا سا بھی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ انھیں اس بارے میں ضرور سوچنا چاہیے۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس تمام صورت حال سے اسرائیل کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ مسلم ممالک کمزور سے کمزور تر اور مسلمان بے پناہ تباہی بربادی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس طرح گریٹر اسرائیل کی راہ ہموار ہو رہی ہے' جب کہ حال ہی میں اسرائیل کے زیر قبضہ بیت المقدس میں فجر کی اذان پر پابندی لگ چکی ہے کہ اس سے اسرائیلیوں کی نیند خراب ہوتی ہے۔
ادھر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی ذہن میں رکھیں' کہیں ڈونلڈ ٹرمپ کے ذریعے عظیم اسرائیل کا خواب سچا ہو جائے۔ البتہ لگتا ہے کہ ٹرمپ کی اسرائیل سے محبت اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کا فاتح بنا کر رہے گی... افغانستان' عراق شام کے تلخ تجربات کے بعد امریکا شام اور ایران میں اپنی فوج بھیجنے سے رہا' اللہ کرے' میرے خدشات غلط ثابت ہوں۔
سابق آرمی چیف راحیل شریف نے کیرئیر کے حوالے سے مارچ اپریل اہم مہینے ہیں۔
سیل فون:۔0346-4527997