جالب سچ کا دم بھرجانا… 24 ویں برسیپہلا حصہ

سہگلوں کے بنگلے بھی مل کے اندر بنے ہوئے تھے

''سچ ہی لکھتے جانا'' اور جالب آخری سانس تک اس پر قائم رہا۔

یہی رات تھی جو گزر گئی، آدھی جانے والا کاٹ گیا تھا، اور آدھی رہ گئی تھی (وہ بھی اب کٹنے کو ہے) 12 اور 13 مارچ کی درمیانی رات ساڑھے بارہ بجے سے کچھ پہلے حبیب جالب زید اسپتال لاہور میں آخری سانسیں لے رہا تھا، اکھڑتی سانسیں، بیوی نے کہا ''یہ کیسے سانس لے رہے ہو؟'' جانے والے نے کہا ''تاج! ہن گل مک گئی اے'' یعنی ''تاج! (بیگم حبیب جالب کا نام) اب بات ختم ہوگئی ہے۔'' اور وہ چلا گیا، مگر جاتے جاتے اپنے لوگوں سے کہہ گیا ''تھکنا نہیں! جدوجہد جاری رکھنا'' اور ''میں ضرور آؤں گا اک عہد حسیں کی صورت''۔

اسے گئے 24 سال ہوگئے، مگر وہ گیا کہاں! وہ تو موجود ہے، اپنے لوگوں کے دلوں میں، اس کے گیت نوجوان گاتے ہیں اور انقلاب کے رستے پر چل رہے ہیں، وہ کروڑوں مجبوروں، مقہوروں، مظلوموں کا شاعر ہے، گاڑی بانوں، مزدوروں، کسانوں کا شاعر ۔

یہ البیلا شاعر 24 مارچ 1928 کے مطابق یکم شوال (عیدالفطر) 1346 ہجری بروز ہفتہ صبح ساڑھے آٹھ بجے گاؤں میانی افغاناں تحویل دسوہہ ضلع ہوشیارپور مشرقی پنجاب ہندوستان میں عنایت اللہ جفت ساز کے گھر پیدا ہوا۔ پرائمری تعلیم گاؤں کے اسکول میں حاصل کی اور مشہور صوفی شاعر مولوی غلام رسول عالم پوری (مصنف یوسف زلیخا) کے شاگرد عیسیٰ مہر سے قرآن شریف پڑھا۔ عیسیٰ مہر کے گھر میں اپنے استاد مولوی غلام رسول عالم پوری کی شعری کتب موجود تھیں، یہیں حبیب جالب کا شاعری سے تعارف ہوا۔ پرائمری کے بعد 12 سال کی عمر میں حبیب جالب ماں باپ کے ساتھ دہلی آگئے، غالب و داغ کی دلی سائل و بے خود کی دلی سائل و بے خود زندہ تھے اور جالب نے ان بزرگ شاعروں کو مشاعروں میں سنا کہ جنھوں نے غالب و داغ کو سن رکھا تھا جرأت و جگر کو بھی سنا۔ ساتویں جماعت اردو کے امتحانی پرچے میں ''وقت سحر'' کا جملہ بنانا تھا، جملہ تو نہ بنا، شعر ہوگیا، جالب کا پہلا شعر:

وعدہ کیا تھا آئیں گے امشب ضرور وہ
وعدہ شکن کو دیکھتے وقت ِ سحر ہوا

دسویں جماعت میں دوسرا شعر ہوگیا۔ اسکول کے سامنے مسجد تھی جہاں اساتذہ و طلبا نماز ادا کرتے تھے، بعد نماز دعا بھی ہوتی، شعر ہوگیا:

مدتیں ہوگئیں خطا کرتے
شرم آتی ہے اب دعا کرتے

بٹوارے (1947) کے بعد یہی دو شعر لیے جالب کراچی پاکستان آگئے اور جیکب لائن ہائی اسکول میں داخل ہوگئے۔ جہاں نصراللہ خان (سینئر کالم نگار) اردو اور اے ٹی نقوی (ڈان اخبار) انگریزی کے اساتذہ تھے۔ جمیل نشتر سردار عبدالرب نشتر کے بیٹے بھی اسی غربا اسکول میں پڑھتے تھے۔ والدین کی انتہائی خواہش کے باوجود جالب اپنے بڑے بھائی مشتاق مبارک (اردو کے ممتاز شاعر) کی طرح میٹرک پاس کرکے سرکاری بابو نہ بن سکے اور شاعر ضرور بن گئے۔ اب وہ حبیب احمد مست تھے اور اپنی مشہور غزل پڑھتے شہر شہر پھرتے تھے۔

آج اس شہر میں کل نئے شہر میں بس اسی لہر میں
اڑتے پتوں کے پیچھے اڑاتا رہا شوق آوارگی

یہی شوق آوارگی انھیں لائل پور (فیصل آباد) لے گیا، سہگلوں کی کوہ نور ٹیکسٹائل ملز لائل پور میں مشاعرہ پڑھا، سعید سہگل (مل مالک) مشاعرہ گاہ میں بیٹھے تھے، جالب کے کلام سے خوش ہوکر مل میں ملازمت دے دی اور رہنے کو مزدور کالونی میں ایک کمرے کا گھر بھی دے دیا۔ مل میں کام کرتے مزدوروں کو دیکھا، چند دن بعد پھر مشاعرہ ہوا، جالب صاحب نے یہ شعر پڑھے، سامنے مل مالکان بھی بیٹھے تھے:

شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں
زندگی ڈھل گئی مشینوں میں

پیار کی روشنی نہیں ملتی
ان مکانوں میں ان مکینوں میں

سہگلوں کے بنگلے بھی مل کے اندر بنے ہوئے تھے۔ جالب صاحب نے ان مکانوں اور مکینوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شعر پڑھے، اگلے روز مل کی نوکری بھی گئی، اور ایک کمرے کا ٹھکانہ بھی۔ کراچی واپس آئے اور حیدر بخش جتوئی کی ہاری تحریک میں شامل ہوگئے۔ یہ 1952 تھا۔


حیدر بخش جتوئی نے لاڑکانے کے رئیس وڈیرے ایوب کھوڑو کے مقابلے میں الیکشن لڑا۔ کراچی کے نوجوان ہاری کارکن الیکشن کا کام کرنے لاڑکانے گئے، جالب صاحب لکھتے ہیں (حوالہ جالب بیتی صفحہ نمبر 33) ''ایک بار کھوڑو نے ہمارے قریب آکر کہا ''تم اسٹوڈنٹ یہاں کیا لینے آتے ہو؟'' میں نے اس سے کہا ''ہم تمہاری بنیادیں اکھاڑنے یہاں آتے ہیں'' تو وہ یہ سن کر چلا گیا، لیکن جہاں ہم رات کو ٹھہرے ہوئے تھے اس مکان کو اس نے آگ لگوادی اور حیدر بخش جتوئی کی کار بھی جلادی۔ وہاں ہمارا جلسہ بھی ہوا''۔

شاعری ہوتی رہی ادبی حلقوں میں جالب صاحب کا نام ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر کی حیثیت اختیار کرچکا تھا۔ انھی دنوں جگر مرادآبادی کی زیرصدارت ایک مشاعرہ پنجاب یونیورسٹی ہال لاہور میں منعقد ہوا۔ آگے کا حال جالب صاحب سے سنیے، (حوالہ جالب بیتی صفحہ 36 اور 37)۔

''لائل پور ہی کے زمانے میں ایک مشاعرہ لاہور میں ہوا تھا جس سے میں پہلی بار لاہور میں متعارف ہوا۔ مجھے بس نہیں ملی تو میں ایک ٹرک والے کی منت خوشامد کرکے اس کے ساتھ ہی بیٹھ گیا۔ میں بہت دیر سے پہنچا۔ اس وقت مشاعرہ شباب پر تھا۔ شوکت تھانوی نظامت کے فرائض ادا کر رہے تھے، جب میں پنڈال میں داخل ہوا تو شور برپا تھا، زہرہ نگاہ، زہرہ نگاہ، لوگ کسی اور کو سننا نہیں چاہتے تھے۔ بس یہی شور تھا زہرہ نگاہ، زہرہ نگاہ۔

اب شوکت تھانوی نے میری جانب دیکھا کہ میں آگیا ہوں، تو انھوں نے سامعین سے کہا ''اب میں لائل پور (فیصل آباد) سے آئے ہوئے نوجوان شاعر حبیب جالب کو دعوت سخن دیتا ہوں'' اب جب میں مائیک کے سامنے آکر کھڑا ہوا تو میں نے دیکھا کہ لوگ مجھ سے بھی وہی سلوک کر رہے ہیں، جو دوسرے شاعروں کے ساتھ کرچکے تھے۔ مجھے شاعروں کی لاشیں نظر آرہی تھیں، مشاعرہ کیا تھا مقتل گاہ بنا ہوا تھا۔ ان لاشوں میں مجھے اپنی لاش بھی نظر آرہی تھی۔ اب دو باتیں میرے ذہن میں تھیں کہ اگر نہ سنایا تو حسرت رہ جائے گی۔ سناؤں تو شاید سن لیں، اس وقت مجھ پر ہوٹنگ ہو رہی تھی، لوگ شور کر رہے تھے ''نکالو کہاں سے آگیا ہے یہ پاگل، دیوانہ، فقیر'' میرے سر کے بال بھی لمبے تھے اور ایک چادر سی میں نے اوڑھی ہوئی تھی، سردیوں کا موسم تھا میں نے مطلع پڑھا:

دل کی بات لبوں پر لاکر اب تک ہم دکھ سہتے ہیں
ہم نے سنا تھا اس بستی میں دل والے بھی رہتے ہیں

اب جو میں نے یہ پڑھا تو لوگوں نے کہا ''یہ تو کوئی ٹھیک ٹھاک شاعر ہے'' میں نے پھر مطلع پڑھا اور پھر دوسرا شعر:

بیت گیا ساون کا مہینہ، موسم نے نظریں بدلیں
لیکن ان پیاسی آنکھوں سے اب تک آنسو بہتے ہیں

اور جب میں نے یہ شعر پڑھا کہ:

ایک ہمیں آوارہ کہنا، کوئی بڑا الزام نہیں
دنیا والے دل والوں کو اور بہت کچھ کہتے ہیں

جگر مراد آبادی مشاعرے کی صدارت کر رہے تھے، انھوں نے واہ واہ کہہ کر مجھے داد دی، میں نے مائیک چھوڑ کر ان سے ہاتھ ملایا، داد وصول کی اور دوبارہ آکر وہی شعر پڑھا، اور پھر غزل مکمل کی:

جن کی خاطر شہر بھی چھوڑا، جن کے لیے بدنام ہوئے
آج وہی ہم سے بیگانے، بیگانے سے رہتے ہیں

وہ جو ابھی اس راہ گزر سے چاک گریباں گزرا تھا
اس آوارہ دیوانے کو جالب جالب کہتے ہیں

(جاری ہے)
Load Next Story