وزیر خزانہ سے سینئر سٹیزن کی درخواست
افراتفری کے من مانے فیصلوں نے خاص طور پر سینئر سٹیزن (عمر رسیدہ لوگ) کو توہین و تذلیل کے اندھے کنوئیں میں اتار دیا ہے
اقتصادی طور پر ملک کا حال تو اس بھیڑ کی طرح ہے جو ہر وقت سہمی سہمی رہتی ہے اور وہ بھیڑ ہمارے معصوم عوام ہیں۔ 75 فیصد عوام خط غربت کے مزے لے لے کر زندہ ہیں۔ جب ہمارے کرتا دھرتا اجتماعی سوچ کو دفن کرکے انفرادی سوچ کو اجاگر کرتے ہیں تو پھر غریب ملیامیٹ ہوجاتے ہیں۔
افراتفری کے من مانے فیصلوں نے خاص طور پر سینئر سٹیزن (عمر رسیدہ لوگ) کو توہین و تذلیل کے اندھے کنوئیں میں اتار دیا ہے اور ان عمر رسیدہ حضرات کو مفلوک الحال بنانے میں عمر رسیدہ سیاست دانوں کا بڑا عمل دخل ہے۔ ماہرین اقتصادیات حکومتی ارکان کے بیانات کا جنازہ اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں۔ کیا انھیں نہیں معلوم کہ ہمارے ملک میں سینئر سٹیزن جنھوں نے دوران سروس قومی سلامتی و استحکام اور ایمانداری کو اپنا اپنا بنیادی نقطہ سمجھا اور یہ سینئر سٹیزن جن کی خدمات کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے، آج کوڑی کوڑی کے محتاج ہیں۔
ستمبر 2016 میں اسٹیٹ بینک نے ایک سرکلر جاری کیا تھا جس کے تحت اسلامی بینکنگ کو سود سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، اس کا مقصد اسلامی بینکاری کو فروغ دینا تھا، مگر افسوس عمر رسیدہ لوگ اس سے مستفید نہ ہوسکے۔ ہمارے معاشرے کا ستیاناس غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کو پابند کردیا گیا کہ وہ ایک محدود شرح کے علاوہ پرافٹ جاری کرنے کے بینکوں کو احکامات نہیں دے گا۔
پرائیویٹ بینکوں نے اسلامی سرٹیفکیٹ کے نام پر پرافٹ اتنا کم کر رکھا ہے کہ لوگ جو اب سینئر سٹیزن ہوچکے ہیں وہ دیگر اداروں میں پیسہ رکھ کر سود کو اہمیت دیتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جنوبی ایشیا کے بہترین وزیر خزانہ ہونے پر آئی ایم ایف نے اسحاق ڈار کو سال کا بہترین وزیر خزانہ قرار دیا اور وزیراعظم نے اس موقع پر انھیں خراج تحسین پیش کیا، جب کہ وزیراعظم اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار خود بھی سینئر سٹیزن میں شمار ہوتے ہیں۔
ایک مقامی نجی بینک سود کے ساتھ ایک لاکھ پر 900 روپے پرافٹ دے رہا ہے جب کہ اسلامی سرٹیفکیٹ پر جو نجی بینکوں سے دیے جاتے ہیں، ایک بینک تو 280 روپے اور ایک بینک 360 روپے لاکھ پر دے رہا ہے۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ صراط مستقیم پر چلنے والوں کو تو رسوا کیا جا رہا ہے اور جو سود لیتا ہے اسے نوازا جا رہا ہے۔
ایک شخص ساری عمر دیانت اور تندہی سے کولہو کے بیل کی طرح کام کرتا ہے اور جب ریٹائر ہوتا ہے تو حکومت پاکستان اسے ای او بی آئی کے توسط سے 5250 روپے ماہانہ ادا کرتی ہے۔ جب کہ یہ پنشن کم ازکم دس ہزار ہونی چاہیے۔ کیا کوئی عمر رسیدہ شخص اپنی فیملی کے ساتھ 5250 روپے میں گزر اوقات کرسکتا ہے؟
ملک کی معاشی ترقی کے بلند بانگ دعوے چھوڑیے اور خدارا انصاف سے کام لیں۔ جب پرائیویٹ بینک اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کرسکتے ہیں تو دیگر اداروں میں اسلامی سرٹیفکیٹ کا اجرا کیوں نہیں ہوسکتا؟ سینئر سٹیزن کے پرافٹ کو بھی قومی بچت میں اتنا کم کردیا ہے کہ اب تو ان عمر رسیدہ افراد کو سود لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔
پاکستان کا نظام سیاست اور طریقہ کار کی صورتحال دن بہ دن ابتر سے ابتر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے ملک میں 22 گریڈ کے افسر ایسے ہوتے ہیں کہ وہ وفاقی وزیر کو گھاس نہیں ڈالتے، جب کہ وہ اسی کے محکمے کے آفیسر ہوتے ہیں۔ وفاقی وزیر اور صدر پاکستان میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، جب کہ ہمارے صدر ممنون حسین کہتے ہیں کہ سود نے معاشرے کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں۔ کیا یہ بیان وزیر خزانہ کی نظروں سے نہیں گزرا ہوگا۔
راقم نے دو سال قبل بھی حکومت سے گزارش کی تھی کہ خدارا ان بزرگوں کو سود کی ٹرین سے اتار لیں، اس میں آپ کی بقا و سلامتی ہے اور ان بزرگوں کو اسلامی سرٹیفکیٹ کی مد میں کم ازکم 900 اور 1000 روپے کے درمیان پرافٹ دیا جائے، جو ٹیکس سے مبرا ہوں۔
ذرا سوچیں جو شخص گریڈ 17 میں ریٹائر ہوا اور اسے بقایا جات کی مد میں، اگر اچھے گورنمنٹ ادارے میں ہے، تو زیادہ سے زیادہ 15 لاکھ ملتے ہیں اور اگر وہ کسی اسلامی بینک میں اسلامی سرٹیفکیٹ کی مد میں پیسہ جمع کراتا ہے تو اسے ایک بینک تو لاکھ پر 280 روپے دے رہا ہے، اس حساب سے 4200 روپے ملیں گے اور ایک بینک جو 360 روپے کے قریب دیتا ہے، تو اسے 5400 ملیں گے۔ آپ بتائیں کہ وہ اس عمر میں کیسے گھر چلائے گا؟
کچھ سوچیں یہ غریب کیسے زندگی گزارے گا؟ اس کے پاس نہ تو لینڈ کروزر ہے، نہ پروٹوکول، نہ مراعات ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ وہ سرکاری ملازمین جن کے توسط سے یہ ملک چل رہا ہے، ان کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے 6 سے 7 ماہ طویل میٹنگز ہوتی ہیں، اس کے بعد خیرات کے طور پر 10 فیصد اضافہ کیا جاتا ہے۔
کیا ایم این اے اور ایم پی اے ایسی مراعات پر کام کر رہے ہیں؟ پنشنرز اپنی پنشن کے لیے دفاتر کے دھکے کھاتے ہیں۔ KMC کی ٹیچروں کو اس شہر میں 6 سے 7 ماہ کی پنشن ادا نہیں کی گئی۔ یہ کیسا انصاف ہے۔ ان برائیوں اور بگاڑ کی ذمے دار کیا آپ کی معاشی پالیسی ہے؟ سود کا معاملہ وفاقی شرعی عدالت کے دائرہ کار میں آتا ہے، لہٰذا وفاقی شرعی عدالت قومی بچت میں بھی اسلامی سرٹیفکیٹ کے اجرا کے لیے اپنا قدم اٹھائے۔