سی پیک منصوبہ… خطے کے دیگر ممالک بھی فائدہ اٹھا سکیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے زیر اہتمام ’’سی پیک: ترجیحات اور چیلنجز‘‘ کے موضوع پر شرکاء کی گفتگو


مقررین نے سی پیک کے حوالے سے خصوصی سیمینار منعقد کرانے پر ایکسپریس میڈیا گروپ کو خراج تحسین پیش کیا۔ فوٹو: ایکسپریس

ایکسپریس میڈیا گروپ اور فاسٹ مارکیٹنگ کے زیر اہتمام اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں '' سی پیک: ترجیحات اور چیلنجز'' کے موضوع پرگزشتہ دنوں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں سی پیک منصوبے کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا۔

سیمینار کے مہمانان خصوصی وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ،ترقی و اصلاحات احسن اقبال اور پاکستان میں تعینات چینی سفیر سن وی ڈونگ تھے جبکہ مقررین میں وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ سینیٹر میر حاصل خان بزنجو،شعبہ پاکستان اسٹڈیز بیجنگ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پروفیسر تنگ منگ شنگ، رکن قومی اسمبلی وچیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار اسد عمر، پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنماشیری رحمن، اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر خالد اقبال ملک، ایکسپریس پبلی کیشنز کے چیف ایگزیکٹیو آفیسراعجاز الحق اور فاسٹ مارکیٹنگ کے ڈائریکٹر نعمان باجوہ شامل تھے۔

سیمینار میں روزنامہ ایکسپریس کے گروپ ایڈیٹر ایاز خان، ایکسپریس پبلی کیشنز کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اظفر نظامی، ایکسپریس نیوز اسلام آباد کے بیوروچیف عامر الیاس رانا، روزنامہ ایکسپریس اسلام آبا دکے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر مارکیٹنگ منیر حسین، روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد کے چیف رپورٹر ارشاد انصاری سمیت غیر ملکی سفارتکاروں، صنعتکاروں، تاجر برادری کے نمائندوں، متعدد میڈیا گروپس کے مدیران، اساتذہ اور طلباء و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

مقررین نے سی پیک کے حوالے سے خصوصی سیمینار منعقد کرانے پر ایکسپریس میڈیا گروپ کو خراج تحسین پیش کیا۔ واضح رہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے زیر اہتمام ملک بھر میں سی پیک سیمینارز کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس حوالے سے دوسرا سیمینار 15مارچ کو کراچی میں منعقد کیا جائے گا ۔ اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔



احسن اقبال (وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ،ترقی و اصلاحات)

پاکستان کی اقتصادی تاریخ ، اس کے مستقبل اور دنیا بھر میں علاقائی تعاون کے حوالے سے سی پیک دنیا بھر میں ایک بڑا منصوبہ بن کر ابھر چکا ہے۔50ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے سی پیک کا شمار علاقائی تعاون کے حوالے سے دنیا کے سب سے بڑے منصوبے کے طور پر ہورہا ہے۔ ''ون بیلٹ ون روڈ'' کے چینی منصوبے میں متعدد کوریڈور ہیں لیکن ان میں سب اہم اور نمایاں سی پیک ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ نہ صرف پاکستان کیلئے اہم ہے بلکہ یہ ایشیاء کی معیشت اور علاقائی تعاو ن کے حوالے سے بھی اہمیت کا حامل ہے۔

مجھے خوشی ہے کہ ایکسپریس میڈیا گروپ نے سیاسی باتوں سے ہٹ کر ایک اہم معاشی معاملے پر پروگرام کا انعقاد کیا ہے۔ میرے نزدیک اس طرح کے مذاکرے تمام صوبوں میں ہونے چاہئیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہوسکے کہ سی پیک سے ان کے علاقے میں کیا تبدیلی آئے گی اور یہ واضح ہوسکے کہ اس منصوبے میں ان کے علاقے کیلئے کن منصوبوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم چند اہم فیصلے کرنے ہیں۔ اگر ہمیں مختلف نتائج چاہئیں تو پھر ہمیں اپنے طرز عمل میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔

20ویں صدی سیاسی تقسیم اور سرد جنگ کی صدی تھی لیکن ڈینگ زی یاؤ پنگ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ مستقبل میں وہی دنیا پر راج کرے گا جس کی معیشت مضبوط ہوگی۔ پھر انہوں نے چین میں اصلاحات کا آغاز کیا گیا اور لوگوں کو ترقی کی ایک سوچ دی کہ ہم دنیا کی ایک اقتصادی قوت بنیں گے۔ اس کا نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ چین دنیا کی ایک بڑی معاشی طاقت ہے۔ قومی ترقی ٹیسٹ میچ ہے، اسے ہم ٹی 20کی طرح نہیں کھیل سکتے۔ اس میں آہستہ اور مسلسل جدوجہد اور اقدامات ضروری ہوتے ہیں۔ ا ب ہم ایک مسلسل جدوجہد میں آگے بڑھ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ تیسری مرتبہ پاکستان کو اپنی معیشت بہتر کرنے کا موقع ملا ہے۔

اگر خدانخواستہ ہم نے یہ موقع بھی ضائع کردیا تو تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ انشاء اللہ ہم یہ موقع ضائع نہیں کریں گے اور پاکستان اب ضرور معاشی طاقت بن کر ابھرے گا۔ برطانوی محقق نے لکھا کہ ماضی میں پاکستان نے اپنی قسمت بدلنے کے بہت سارے مواقع ضائع کیے ہیں جس کی وجہ سے میں نے ان پر لکھنا چھوڑ دیا لیکن اب سی پیک چونکہ ایک گیم چینجرہے اس لیے میں اسے نظر انداز نہیں کرسکا۔ سی پیک 2014ء سے لیکر 2030ء تک کا منصوبہ ہے۔ اس دوران یہ مختلف مراحل میں مکمل ہوگا۔ پہلے فیز میں بنیادی اہمیت انفراسٹرکچر اور ان مسائل کے خاتمے پر دی گئی جن کی وجہ سے ہماری معیشت ترقی نہیں کررہی تھی۔

ہمیں ہر سال 20 لاکھ سے 25لاکھ ملازمتیں چاہئیں، لوگوں کو روزگار دینا ہے، ان کے مسائل کا خاتمہ کرنا ہے، اس لیے ہماری معیشت میں آئندہ 20 سے 30 سالوں میں 6سے 7فیصد سالانہ اضافہ ضروری ہے۔ اگر ہم اس گروتھ ریٹ پر نہیں جائیں گے تو ہم سوشل اور اکنامک پریشر تلے دب جائیں گے۔ اس لیے ضروری تھا کہ اس منصوبے کے آغاز سے پہلے ان مسائل کا خاتمہ کیا جائے جن کی وجہ سے ہماری اکنامک گروتھ رکی ہوئی تھی۔ سی پیک میں زیادہ حصہ انرجی سیکٹر کو دیا گیا جس پر ماضی میں توجہ نہیں دی گئی۔ توانائی بحران کی وجہ سے ہم اندھیروں میں چلے گئے تھے اور اس سے معیشت کو نقصان ہوا۔

ہمیں ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کے مسائل کا بھی سامنا تھا جس کی وجہ سے سامان کی آمدورفت وغیرہ میں مسئلہ تھا، اس لیے 11ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سڑک، ریل و ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر پر خرچ کی جارہی ہے۔ 21ویں صدی میں سڑک و ریل ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ہائی ویز بھی ضروری ہیںجس کے لیے چین سے پاکستان تک فائبر آپٹیک کیبل بھی ڈالی گئی تاکہ ہماری ڈیجیٹل ریڑھ کی ہڈی بھی مضبوط ہو اور ہم دنیا میں معاشی طاقت کے طور پر ابھر سکیں۔

گوادر بندرگاہ جسے ہم نے سی پیک کا گیٹ وے بنانا ہے اس میں سوشل انفراسٹرکچر کے منصوبے شامل کیے گئے جن میں ایئرپورٹ بھی شامل ہے جس کا جلد آغاز کردیا جائے گا۔ اسی طرح ایکسپریس وے شروع ہونے والی ہے۔ گوادر پورٹ کے انفراسٹرکچر کو وسیع کیا جارہا ہے، ٹریڈ فری زون کے حوالے سے کام شروع کردیا گیا ہے جو اس سال کے اختتام تک کام مکمل ہوجائے گا۔ وہاں پانچ ملین گیلن روزانہ کے حساب سے ریورس اوسموسس واٹر پلانٹ کی منظوری ہوچکی ہے تاکہ گوادر میں پانی کا مسئلہ حل کیا جاسکے۔ وہاں تعلیمی اداروں و ہسپتال کے منصوبے منظور ہو چکے ہیں تاکہ عوام کو بنیادی سہولیات مل سکیں۔

اس کے علاوہ وہاں کے مچھیروں کے لیے فشنگ انڈسٹری و کشتی بنانے کی صنعت کی منظوری دی جاچکی ہے ۔ اس طرح کے منصوبوں سے گوادر کی معاشی و معاشرتی ترقی ہوگی۔وہ گوادر جو ایک چھوٹے سے قصبے کی طرح تھا آج اس میں 6سے 8لین سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے۔ وہاں بچے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے جدید ترین سکول میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور اس سکول کا اسلام آباد کے کسی بھی بڑے سکول سے موازنہ کیا جاسکتا ہے۔یہ ایک نئے بلوچستان اور نئے گوادر کی ضمانت فراہم کررہے ہیں۔

چین کے تعاون سے بھی اسکول قائم کیا جارہا ہے جبکہ گوادر یونیورسٹی نے تدریس کا کام شروع کردیا ہے۔جو پرانے سیاستدان بلوچستان کو 18ویں صدی میں ہی رکھنا چاہتے ہیں میری ان سے گزارش ہے کہ اسے ترقی کرنے دیں اور آج کا بلوچستان ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے۔ جس گوادر کا 70 سال تک کوئٹہ سے کسی نے رابطہ قائم نہ کیا، سی پیک کے ذریعے ہم نے 2سال میںسڑکوںکی تعمیر کر کے 2 دن کا فاصلہ 8 گھنٹوںمیں بدل دیا ہے اور اب لوگ ایک دوسرے سے منسلک ہوگئے ہیں۔ وہاں زمین کی قدر بڑھ گئی ہے اور وہاں تیزی سے ترقی کا عمل جاری ہے۔

کچھ لوگ یہ تنقید کر تے ہیں کہ اس حکومت کو صرف سڑکیں بنانا آتی ہیں، انہیں معلوم نہیں کہ دنیا میں ہر معیشت نے انفراسٹرکچر سے ہی ترقی کی ہے کیونکہ اگر سڑک نہ ہو گی تولوگوں تعلیم ، صحت و دیگر سہولیات میسر ہو ں گی نہ ہی فیکٹریوں کا مال مارکیٹ میں پہنچ سکے گا۔ سی پیک پاکستان کی اکنامک گروتھ کا ڈرائیور ہے ۔ انرجی بحران کا خاتمہ، انفراسٹرکچر کی بہتری اور پاکستان کے پسماندہ علاقوں کی ترقی کے ساتھ سی پیک پاکستان میں امن و استحکام کا ضامن ہے۔

سی پیک کے تحت پاکستان میں 9انڈ سٹریل زونز وفاق، تمام صوبوں اور آزاد کشمیر میں بھی قائم کیے جائیں گے ، اس سے نہ صرف چین کا سرمایہ اور ٹیکنالوجی یہاں آئے گی بلکہ دنیا بھی ہماری طرف رجوع کرے گی۔ چین کے ذریعے ہمیں ری نیو ایبل اور کول بیسڈ انرجی کے منصوبے مل رہے ہیں، اس سے ہم دس سال آگے چلے گئے ہیں۔ سی پیک کی وجہ سے پاکستان ایشیاء میں علاقائی تعاون کا مرکز بن گیا ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم پاکستان میں اپنے اس سفر کو مکمل یکجہتی کے ساتھ جاری رکھیں۔

ہمیں دنیا سے مقابلہ کرنا ہے،ہم نے جو ویژن 2025ء بنایا ہے یہ مسلم لیگ (ن) نہیں بلکہ پاکستان کا پروگرام ہے، اس کے تحت اب ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ ہم دنیا کے ساتھ مقابلہ کریں گے یا آپس میں دست و گریباں ہوں گے ۔ یہ مقابلے کی صدی ہے،ہمیں بہتر اور تیز کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سی پیک نے پاکستان کو جیو اکنامکس کے دائرے میں ڈال دیا ہے، یہ کام ہمیں 70سال پہلے کرنا چاہیے تھا مگر ہم جیو پولیٹکس کا حصہ بنتے رہے۔ دنیا میں جب توازن میں تبدیلی آتی ہے تو اس کے نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ سی پیک کا فائدہ ہمیں ہے جبکہ اس کا نقصان ہمارے دشمن کو ہے لہٰذا ہمیں دشمن کی سازشوں سے باخبر رہنا ہوگا۔

دشمن نے صوبوں میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی تاہم تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے سی پیک کی 6 ویں ''جے سی سی'' میںشامل ہو کر اپنے متفق ہونے کا پیغام دیا ہے کیونکہ یہ قومی منصوبہ ہے۔اب ہمیں عوامی سطح پر بھی اس یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے اور صرف ریٹنگ کی بنیاد پر انتشار کی آواز کو فروغ نہیں دینا چاہیے کیونکہ سی پیک کا تعلق کسی میڈیا ہاؤس کی ریٹنگ سے نہیں بلکہ پاکستان کی ترقی کی ریٹنگ سے ہے۔ ایک اور سازش یہ ہے کہ پاکستان میں بزنس کمیونٹی میں یہ بد گمانیاں پید ا کی جا رہی ہیں کہ چین آئے گا توان کا بزنس تباہ ہو جائے گا جو غلط ہے۔ چین 50 ارب ڈالر اس لیے پاکستان میں لگا رہا ہے کہ پاکستان کی صنعت اور بزنس مضبوط ہوں ،وہ پیسے لگا کر ہمارے ساتھ دشمنی کیوں مول لے گا۔

چین تو یہ چاہتا ہے کہ دونوں ممالک میں انڈسٹری و دیگرحوالے سے جوائنٹ وینچر ہوں۔ سی پیک کے آغاز سے ہی پاکستان کی صنعت ترقی کررہی ہے اور یہاں روزگار کے نئے مواقع پیدا ہورہے ہیں۔ سی پیک ایک ایسا منصوبہ ہے جس میں دونوں ممالک کو ہی فائدہ ہوگا۔ اسلام آباد میں سی پیک ٹاور قائم کیا جائے گا جس میں شاپنگ مال،ہوٹل، رہائشی اپارٹمنٹ، ٹیکنالوجی پارک و دیگر سہولیات میسر ہونگی ، یہ ٹاور پبلک پاور پارٹنر شپ کے تحت بنایا جائے گا اور یہ پاک چین دوستی کی علامت ہوگا۔

ایک بات یہاں قابل ذکر ہے کہ توانائی کے منصوبوں میں جو مراعات دی گئی ہیں وہ غیر معمولی نہیں ہیں بلکہ یہ وہی شرائط ہیں جن کی تشہیر بھی کی گئی لیکن کوئی بھی ملک پاکستان میں پیسہ لگانے پر تیار نہیں تھا۔ہم چین کی حکومت اور عوام کے شکر گزار ہیں جنہوں نے پاک چین دوستی کا حق ادا کیا۔ 2015ء میں چینی صدر نے دورئہ پاکستان میں 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان سرمایہ کاری کے حوالے سے ایک محفوظ ملک ہے۔

2013ء میں یہ منصوبہ صرف کاغذ کا ٹکڑا تھا مگر میں تمام اداروں اور قیادت کا مشکور ہوں جن کی محنت اور تیز رفتاری کی وجہ سے یہ منصوبہ تیزی سے مکمل ہورہا ہے۔ یہ پاکستانی قوم کا عزم ہے اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔میں یہ یقین دلاتا ہوں کہ کوئی بھی طاقت یا سازش سی پیک کا راستہ نہیں روک سکے گی اور نہ ہی کسی کو اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔پاکستان زندہ باد!!

سن وی ڈونگ (چینی سفیر)

سی پیک پر سمینار منعقد کر وانے پر ایکسپریس میڈیا گروپ کی اس کاوش کو سراہتا ہوں کہ اس نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کو سپورٹ کیا۔اس سیمینار میں شرکت میرے لیے باعث مسرت ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہدا ری کی بنیاد دونوں ممالک کے سیاسی، سماجی اور باہمی تعلقات ہیں جس سے اکنامک گلوبلائزیشن اور ریجنل کووآپریشن کی بنیاد پڑے گی۔ سی پیک کے تحت چین نے پاکستان کے ساتھ طویل المد تی دو ستی کی بنیا د رکھی ہے ۔ ہم نے ہمیشہ ایک دوسرے کے وقار کا خیال رکھا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہیں۔

پاک چین تعلقات ریاستی تعلقات کا نمونہ ہیں اور دونوں ممالک اس خطے میں پارٹنر ہیں۔ قراقرم ہائی وے، چشمہ نیوکلیئر پاور پلانٹ، گوادر بندرگاہ جیسے بڑے منصوبوں نے طویل المدتی تعلقات کے ساتھ ساتھ سی پیک منصوبے کی بھی بنیاد رکھی ۔ چین، پاکستان کا سچا دوست ہے، دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور امن پسند بھی ہیں۔ ہم دونوں چاہتے ہیں کہ سٹرٹیجک اہمیت، جغرافیائی اہمیت اور اکنامک پوٹینشل سے فائدہ اٹھایا جائے اور پاکستان کا سی پیک کے مستقبل کے حوالے سے خطے میں ایک مضبوط کردار سامنے آئے تاکہ مشترکہ ترقی کا حصول ممکن ہوسکے۔

علاقائی تعاون کا رجحان دیکھتے ہوئے چین کی لیڈر شپ نے ''ون بیلٹ ون روڈ'' منصوبے کا آغاز کیا تاکہ اس سے منسلک ممالک کو ساتھ ملایا جاسکے۔ اس منصوبے کا مقصد ایک بڑے پیمانے پر ڈویلپمنٹ ہے اور اس کا فائدہ بعدازاں چین کو بھی ہوگا۔ اسی منصوبے کے تحت سی پیک کا آغازبھی ہوا۔ سی پیک کا بنیا دی مقصد پاکستان کی ڈویلپمنٹ ہے ۔ سی پیک پاکستان کی معیشت کے فروغ میں اہم کردار اداکر ے گا۔ 2015ء میں چینی صدرنے پاکستان کا ایک تاریخی دورہ کیا اور اس دوران دونوں ممالک نے 4+1 کووآپریٹیو لائحہ عمل تیار کیا جس میں سے ایک سی پیک ہے جبکہ اس سے منسلک باقی چار چیزوں میں گوادر، انرجی، گوادر پورٹ اور صنعتی تعاون شامل ہیں۔

دونوں ممالک نے سی پیک کے تحت بڑے پیمانے پر منصوبوں پر دستخط کیے۔ چینی صدرکے اس دورے سے سی پیک کا نہ صرف آغاز ہوا بلکہ تیزی سے اس پر کام جاری ہے۔سی پیک سے پاکستان کی معاشی و معاشرتی ترقی ہوگی۔ سی پیک کے آغاز کے چند سالوںمیں ہی پاکستان کی معیشت نے واضح ترقی کی ہے اور اس میں تیزی آئی ہے۔ دنیا کے بڑے ادارے اس کی تصدیق کررہے ہیں۔ پاکستان کا عالمی سطح پر امیج بھی بہتر ہوا ہے۔ میں اس حوالے سے پاکستان کا دوست ہونے پر فخر محسوس کررہا ہوں۔ راہداری منصوبہ پاکستان کے تمام سیکٹر کے لوگوں کے لیے فائدہ لا رہا ہے۔

چین اور پاکستان دونوں سی پیک کے فوائد حاصل کرنے والے ہیں۔ اس کا سب سے اہم ایجنڈا ڈویلپمنٹ ہے۔ یہ منصوبہ پائیدار امن کی ضمانت بھی ہے۔ اس سے غربت کا خاتمہ بھی ہوگا اور دونوں ممالک کے لوگ اپنے بچوں کے لیے اچھی تعلیم، صحت و دیگر سہولیات کا خواب پورا کرسکیں۔ ہم اپنے بچوں کو بہتر تعلیم فراہم کرتے ہوئے ترقی و امن کے ساتھ دنیا میں رہناچاہتے ہیں جو ''سی پیک'' سے ممکن ہے۔ یہ ایک جامع منصوبہ ہے جس سے پاکستان اور چین کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

سی پیک سے پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری آرہی ہے جبکہ چینی سرمایہ کار بھی اس میں دلچسپی ظاہر کررہے ہیں۔ چین کی کمپنیاں پاکستان کے مقامی لوگوں کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے بھی کام کررہی ہیں ۔پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے شیڈول کے مطابق ہو رہے ہیں جبکہ اس میں دیگر منصوبے بھی شامل کیے جائیں گے اور دونوں ملک اس منصوبے کے فاتح ہیں۔سی پیک کے 18منصوبے زیر تکمیل ہیں، ان منصوبوں سے 30ہزار سے زائد مقامی لوگوں کے لیے نوکریاں پید ا ہوں گی ۔ بیجنگ میں ''جے سی سی'' کی میٹنگ میں دونوں ممالک کے ارباب اختیار نے شرکت کی اور سی پیک کی تکمیل کے حوالے سے لائحہ عمل پر اتفاق کیا۔

رواں سال سی پیک کے مڈم ٹرم اور لانگ ٹرم پلان کو بھی حتمی شکل دی جائے گی ، اس منصوبے سے پاکستان کے تمام صوبوں کی ترقی ہوگی۔2018ء تک توانائی سمیت بہت سارے منصوبے مکمل ہو جائیں گے، توانائی، انفراسٹرکچر کے ایک کے بعد ایک منصوبے شروع کیے جارہے ہیں۔ گوادرکو فری زون بنانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ اکنامک زونز کا آغاز بھی کیا جارہا ہے۔ سی پیک سے ''ون بیلٹ ون روڈ'' منصوبے کی اصل روح سامنے آگئی ہے اور اس سے علاقائی اور معاشی تعاون کی بنیاد پڑی ہے۔

سینیٹر میرحاصل خان بزنجو (وفاقی وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ)

جن حالات میں پاکستان میں سی پیک کا آغاز ہوا اور جس طرح ہم مالی مشکلات میں پھنسے ہوئے تھے، ان میں سی پیک ایک نعمت ہے جو پاکستان کے حصے میں آئی ہے۔ ہمیں چین کا شکر گزار ہونا چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ اندازہ بھی ہونا چاہیے کہ ہم سٹرٹیجک لحاظ سے دنیا کی سب سے اچھی اور سب سے خطرناک جگہ پر ہیں۔کسی دور میں سنگاپور، دبئی، شکاگو دنیا کیلئے اہم تھا لیکن اب کہا جارہا ہے کہ دنیا میں اگر کوئی اہم جگہ ہے تو وہ گوادر ہے، اس کی اہمیت کو ہمیں تسلیم کرنا چاہیے۔ ہمیں سٹریٹجی بنانا ہوگی کہ دنیا ہمیں کس نگاہ سے دیکھ رہی ہے، ان کے مسائل کیا ہیں اور چین کے ساتھ دنیا کے کیسے روابط ہیں۔

میں سمجھتا ہوں کہ حکومت اور سیاسی قیادت کو ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھ کر لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے۔ سی پیک پر کسی کو اعتراض نہیں ہے، اگر کسی کو اس کی بعض چیزوں پر کوئی اعتراض ہو تو اس پر بات ہوسکتی ہے لیکن اس منصوبے کو متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے اختلافات کی وجہ سے بڑے بڑے منصوبوں کو متنازعہ بنا دیتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ گوادر سے سکھر روڈ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اس وقت ایک بڑی سڑک جو بہت کم لوگوں کے علم میں ہے وہ زاہدان کو گوادر سے ملا رہی ہے، جہاں سے ملک کے مختلف حصوں میں جانا ممکن ہوسکے گا۔ سی پیک خودبخود پھیلتا جارہا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ گوادر بننے سے چابہار کو نقصان ہوگا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ چا بہار بندرگاہ کازیادہ تر انحصار گوادر بندرگاہ پر ہوگا اور اس کے بغیر چابہار چل ہی نہیں سکتا۔میری رائے ہے کہ ہمیں گوادر اور چابہار کے درمیان ایک سڑک بنانی چاہیے اور اس سڑک کا فاصلہ صرف 80سے 85کلومیٹر ہے، اس سے بہتری آئے گی۔ سی پیک کے حوالے سے ایک اہم چیز منرلز ہیں کیونکہ دنیا کے دوسرے بڑے منرل کے ذخائر پاکستان میں ہیں۔

اس لحاظ سے گوادر پورٹ بہت اہم ہوجائے گا اور ہمیں گوادر میں دیگر ٹرمینلز کے ساتھ ساتھ منرل ٹرمینل بھی بنانا پڑے گا۔سی پیک کو صرف چین کے تناظر میں نہ دیکھیں بلکہ یہ دیکھیں کہ وسطی ایشیاء کے پاس سی پیک کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے لہٰذا یہ سب سی پیک کا حصہ بنیں گے۔ ہمیں سی پیک کی سٹرٹیجک اور کمرشل اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ ہمارے پاس بہت اچھا موقع ہے لیکن اہم یہ ہے کہ ہم اس کے ثمرات سمیٹنے کیلئے کیسے پلاننگ کرتے ہیں۔



پروفیسر تنگ منگ شنگ (ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ، بیجنگ یونیورسٹی)

سی پیک پر چین میں سکالرز سنجیدگی سے ریسرچ کررہے ہیں اور انہوں نے اپنی حکومت کو تجاویز بھی پیش کی ہیں۔ وہاں سیمینارز منعقد کرائے جارہے ہیں اور چینی کمپنیاں بھی پاکستان کے بارے میں جاننے کیلئے دلچسپی لے رہی ہیں۔ چین نے چالیس سال میں جو ترقی کی ہے چینی عوام سمجھتے ہیں کہ اس میں پاکستان کی مدداور تعاون شامل ہے۔ ''چین کے برابر پاکستان کی مدد'' چین میں ایک مقبول جملہ بن چکاہے اور لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر ہم اس وقت پاکستان کی مدد نہیں کریں گے تو یہ درست نہیں ہوگا۔ ''ون بیلٹ ون روڈ'' میں چھ کوریڈور ہیں لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری ان میں سب سے بہترین اور مثالی ہے۔

ہماری آزادی کے بعد سے پاکستان ہمارا سچا دوست ہے، اگر ہمارے اس دوست کی ترقی نہیں ہوگی اور اس کے لوگوں کا معیار زندگی بلند نہیں ہوگا تو ہم اپنے اس دوست کا سامنا کیسے کریں گے۔ آپ لوگ اس منصوبے پر شک نہ کریں ہم یہاں کمانے کیلئے کام نہیں کررہے بلکہ آپ کی مدد ہماری اولین ترجیح ہے۔ ''ون بیلٹ ون روڈ'' میں ہمارا نظریہ ہے کہ پہلے دینا اور پھر کم مفاد حاصل کرنا ہے تاکہ ہمارے ہمسایہ ملک کی ترقی ہوجائے اور پاکستان کی ترقی سے چین بھی محفوظ ہوجائے گا۔

لوگ پوچھتے ہیں کہ اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ سی پیک کو تین سال ہوچکے ہیں اور ان سالوں کے دوران پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ پہلے سے بہت بہتر ہوگیا ہے اور مزید دوسالوں تک یہ مسئلہ بالکل ختم ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ جب سڑکیں بنیں گی تو فیکٹریوں کا مال آسانی سے جاسکے گا، لوگوں کو دیہاتوں و دوردراز علاقوں میں جانے میں آسانی ملے گی۔ سی پیک سے صنعتی زونز بنیں گے جس سے لوگوں کو روزگا ر ملے گااور ترقی ملے گی۔

آپ کو سمجھنا چاہیے کہ ترقی ایک دن میں نہیں آئے گی بلکہ اسے وقت لگے گا۔ چین میں آج سے چالیس سال قبل لوگ ایک سائیکل، گھڑی اور سلائی مشین کیلئے جدوجہد کرتے تھے اور جس کے گھر میں یہ تین چیزیں ہوتی تھیں اسے امیر تصور کیا جاتا تھا۔بیس سال کے بعد لوگ فریج، ٹی وی وغیرہ لینا چاہتے تھے، مزید 10 سال بعد مکان، گاڑی وغیرہ کیلئے سوچنے لگے۔ چالیس سال میں لوگوں کے معیار زندگی تین مراحل سے گزرا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہمارا یہی راستہ پاکستان کے لوگوں کا راستہ ہوگا اور آپ بھی خوشحال ہوجائیں گے لیکن سی پیک کے لیے ملکر محنت کرنا ہوگی۔

پاکستان ا ور چین کے کلچرمیں بہت فرق ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنا کلچر تبدیل کرلیں لیکن یہ ضرور دیکھیں کہ چین کی ترقی کی وجہ کیا ہے۔ 1982ء میں پاکستان کی فی کس آمدنی چین سے زیادہ تھی، لیکن اب چین بہت آگے ہے۔ چینی ثقافت ایک مقصد کو سامنے رکھ کر کوشش کرتی ہے اور اسی پر توجہ دی جاتی ہے لیکن ہمارے دوست پاکستان کا کلچر ہمیشہ راستے میں ادھورا رہ جاتا ہے۔

چین میں ''ون بیلٹ ون روڈ'' منصوبے پر چھ ماہ کے بعد بحث نہیں ہوئی، کنفیوژن دور ہوگئی اور اب سب مل کر اسے آگے لیجا رہے ہیں لیکن پاکستان میں تین سال گزرنے کے باوجود سی پیک کے بارے میںبحث کی جارہی ہے کہ اس کی اہمیت کیا ہے۔ اس وقت ہمیں اس پر بحث کرنی چاہیے کہ ہم نے اس پر کام کیسے کرنا ہے ، مثبت نتائج کیسے حاصل کرنے ہیں کہ پاکستان کی ترقی ہوجائے۔ میڈیا کو چاہیے کہ سی پیک جیسے اہم منصوبے پر تنقید کے بجائے لوگوں کو مثبت پیغام دے تاکہ منصوبے کو آگے بڑھایا جاسکے۔

ہمارا مقصد ہے کہ چین، پاکستان دونوں کی ترقی ہوجائے اور ہماری قوم مضبوط ہوجائے۔میں 1970ء میںجب پہلی مرتبہ پاکستان آیا تو یہاں انتخابات میں روٹی ،کپڑا اور مکان کا نعرہ لگایا گیا، آج بھی یہی نعرہ لگایا جاتا ہے ،ہمیں اب یہ نعرہ تبدیل کرلینا چاہیے۔ چین میں اس وقت جس کے پاس گھڑی اورسائیکل تھی آج وہ بنگلہ اور گاڑی پہ ہے۔مجھے امید ہے پاکستان کی بھی ترقی ہوجائے گی اور سی پیک سے ہمارا مقصد پاکستان کی مدد ہے اور پاکستان کی مدد ہم چین کی مدد سمجھتے ہیں۔

اسد عمر (رکن قومی اسمبلی وچیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار)

سی پیک ایک گیم چینجر ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس سے ترقی کی راہ ہموار ہوگی۔پاکستان کی معیشت کے بہت سارے مسائل ہیں جن کی وجہ سے سرمایہ کاری کم ہوتی ہے۔ پاکستان خطے میں تجارت و ترقی کے لحاظ سے تنہائی کا شکار ہے، ایک طرف ہمارا مشرقی ہمسایہ جو گزشتہ ایک ہزار سال تک کی مسلمانوں کی حکومت کا ازالہ کرنے کی کوشش کررہا ہے، مغرب میں افغانستان اور ایران ہیں، افغانستان میں دہشت گردی و دیگر مسائل ہیں جبکہ ایران میں بھی عالمی مسائل کی وجہ سے معاملات ٹھیک نہیں ہیں۔

چین کی طرف پہاڑی سلسلہ ہے جس کی وجہ سے ہم اس کے ساتھ بھی خاطر خواہ تجارت نہیں کرسکے۔ پاکستان کے حوالے سے ماہرین یہ تلاش کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ یہاں معیشت کو فروغ کیسے ملے گا اور یہ چیز تجارت ہے لہٰذا ہمیں سی پیک کو بھی اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے، اس سے معاشی مسائل حل ہوجائیں گے۔ سی پیک ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہر پاکستانی کو پوری طرح سپورٹ کرنا چاہیے۔بدقسمتی سے خطے میں موجود دشمن سی پیک کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتے، اس کے لیے آپس میں اتحاد ضروری ہے۔

سی پیک فیز1 میں ہمارا انفراسٹرکچر بہتر ہورہا ہے، اس میں سڑکیں، ریل کا نظام اور بجلی کی پیداوار و ترسیل کے منصوبے شامل ہیں۔ اس سے لوڈ شیڈنگ میں بھی واضح کمی آئے گی، مکمل ختم ہوگی یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ سی پیک کے ابتدائی دو برسوں میں شفافیت کا فقدان نظر آتا تھا لیکن اب رواں سال اس میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جتنی شفافیت ہوگی اتنے ہی معاملات بہتر ہوں گے۔ سی پیک کا سارادارومدار گوادر بندرگاہ پر ہے، اس لیے گوادر کو ترقی کے لحاظ سے اس کا حصہ دیا جائے اور اس حوالے سے منصوبہ بندی کی جائے۔

اس منصوبے میں کسی بھی صورت یہ تاثر نہیں جانا چاہیے کہ اس سے کسی ایک علاقے کو زیادہ فائدہ ہورہا ہے۔ سی پیک کے منصوبوں میں پاکستانی کمپنیوں اور لیبر کو اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنی ملنی چاہیے لہٰذاانہیں زیادہ سے زیادہ مواقع دیے جائیں اور اس حوالے سے غور کرنا چاہیے کہ سی پیک کے فیز 2میں معاملات بہتر کیے جائیں۔ سرکاری و پرائیویٹ پاکستانی کمپنیوں کو بھی سی پیک میں کام کرنے کے مواقع ملنے چاہئیں۔

پاکستان کی تاجر برادری افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ سے بہت نقصان اٹھا چکی ہے، ایسا نہ ہو کہ سی پیک روٹ سے دنیا بھر میں جانے والا سامان پاکستان کی مارکیٹ میں بھی پھینک دیا جائے اور مقامی تاجر مسائل کا شکار ہوجائیں۔ ہمیں چیمبرز کے ساتھ مل کر اس حوالے سے پلاننگ کرنی چاہیے تاکہ منفی تاثرات کا خاتمہ ہوسکے۔ ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ صرف سی پیک ہر مسئلے کا حل نہیں ہے، ہمیں عالمی معیار کی چیزیں بنانی چاہئیں اور خود کو اس قابل بنانا چاہیے کہ ہم اس منصوبے سے فائدہ اٹھا سکیں۔

شیری رحمن (مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)

روٹی، کپڑا اور مکان پیپلز پارٹی کا دیرینہ نعرہ ہے اور افسوس ہے کہ آج بھی پاکستان میں لوگوں کو روٹی، کپڑا اور مکان کی ضرورت ہے۔ سی پیک اور حکومت سے عوام کی پانی، روزگار، تعلیم، صحت ودیگر ضروریات زندگی کی امیدیں وابستہ ہیں۔ اس تناظر میں ہمیں سی پیک کو دیکھنا چاہیے کیونکہ سی پیک پاکستان کے لیے ایک بڑا اور سنہری موقع ہے کہ وہ ترقی کرسکے ۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو چین کا کردار ہمیشہ دلچسپ رہا ہے، 17ہویں صدی میں چین کا گراس پراڈکٹ 80فیصد ہوتا تھا جو امریکا اور یورپ کا نہیں تھا۔

دنیا میں جو تبدیلیاں آرہی ہیں اس سے کہا جارہا ہے کہ یہ ایشیاکی صدی ہے۔ امریکا سپر پاور رہا ہے لیکن اب معاملات میں تبدیلی آرہی ہے اور امریکا بھی چین کے ساتھ بہت بڑی تجارت کررہا ہے۔ اب دنیا ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے اور اس میں چین کا بڑا کردار ہے۔ چین یہ نہیں چاہتا کہ وہ اکیلا دنیا پر راج کرے اور اس کے قریب کوئی دوسرا ملک نہ ہو۔ پاکستان بھی ہمیشہ دنیا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارت اور مثبت انداز سے آگے بڑھنے کی پالیسی پر یقین رکھتا ہے جبکہ بھارت کا رویہ مختلف ہے۔ سی پیک کو متنازعہ بنانے میں ہمارے اپنے لوگوں کا ہاتھ ہے جو باعث افسوس ہے۔ پیپلزپارٹی کا چین کے ساتھ بہت پرانا تعلق ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی تعلقات بہت اچھے تھے۔ چین اپنا ماضی اور پرانی دوستی کو بھی یاد رکھتا ہے۔ دنیا بھر میں جب قومیت پرستی اور دیواریں کھڑی کرنے کی باتیں ہورہی ہیں تو ایسے حالات میں چین ''ون بیلٹ ون روڈ'' کے ذریعے دنیا بھر کوساتھ لیکر چل رہا ہے جو بہت مثبت اقدام ہے اور سی پیک اس منصوبے کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ پاکستان میں ہر سال چار ملین افراد ورک فورس میں داخل ہوتے ہیں ،ہر تین میں سے دو لوگ تیس سال سے کم عمر ہیں، جنہیں ہم نے باعزت روزگار دینا ہے اور انہیں روٹی، کپڑا اور مکان کی بھی ضرورت ہے۔ اس کے لیے سی پیک اہم ہے۔

اس منصوبہ کی بنیاد سابق صدر آصف علی زرداری نے رکھی اور چین کو گوادر بندرگاہ کے حوالے سے سہولت دی۔ ہم سی پیک سے نہ صرف اپنی معیشت کو بڑھتا ہوا دیکھ رہے ہیں بلکہ اس سے ہم دنیا کے ساتھ منسلک ہوجائیں گے جس سے ہمارا فائدہ ہوگا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں کو حقوق ملے ہیں ، وہاں الگ الگ جماعتوں کی حکومتیں ہیں، ہمیں مستقل مزاجی کے ساتھ سب کے تحفظات دور کرکے آگے بڑھنا ہوگا۔ یہ قومی معاملہ ہے اور پاکستان کو اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے لہٰذا کسی کو بھی اسے متنازعہ نہیں بنانا چاہیے۔

خالد اقبال ملک (صدر اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری)

میں ایکسپریس میڈیا گروپ کو سی پیک منصوبے کی ترجیحات اور چیلنجز پر سیمینار منعقد کرانے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ سی پیک پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس سے ملک میں صنعتی و تجارتی ترقی کا نیا دور شروع ہو رہا ہے۔اس منصوبے کے تحت پاکستان میں توانائی بحران کا خاتمہ ہوگا، سڑک اور ریل کے نظام کو بہتر کیا جائے گا جبکہ صنعتی زونزکے قیام سے لوگوں کو روزگار ملے گا اور ملکی ترقی ہوگی اور اس منصوبے سے پاک چین دوستی مزید مستحکم ہوگی۔

سی پیک کے حقیقی ثمرات عوام اور تاجروں تک پہنچانے کی ضرورت ہے، اس کے لیے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ نجی شعبے کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ ہم ترقی کر سکیں۔ اس کے علاوہ بجلی سستی کی جائے اور اگلے بجٹ میں صنعتی مشینری کی امپورٹ پر ڈیوٹی کا خاتمہ کیا جائے ۔ دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کے درمیان جوائنٹ وینچر کیے جائیں، اقتصادی زونز میں پاکستان کے سرمایہ کاروں کو چین کے سرمایہ کاروں کے برابر مراعات دی جائیں تاکہ ملکی صنعتی ترقی ہوسکے۔

اسلام آباد میں بھی سی پیک صنعتی زون قائم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے، اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اس علاقے کا سب سے بڑا ادارہ ہے، ہمارا مطالبہ ہے سی پیک کے منصوبوںمیں مقامی صنعتکاروں اورچیمبرآف کامرس کو اعتماد میں لیاجائے اور ان کے تحفظات دور کیے جائیں، اس سے بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری حکومت کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتا ہے، ہم پر امید ہیں کہ پاکستان ضرور ترقی کرے گا۔ پاک چین دوستی زندہ باد!!



اعجاز الحق (چیف ایگزیکٹو آفیسر ایکسپریس پبلی کیشنز)

سی پیک اس وقت ہماری زندگی کا اہم ترین لفظ ہے،اسے گیم چینجر اور فیٹ چینجر کہا جارہا ہے۔ سی پیک کے بارے میں ہم صبح و شام بہت ساری باتیں سنتے ہیں لیکن ان سیمینارز کا مقصد اس بات پر خصوصی روشنی ڈالنا ہے کہ اس منصوبے سے عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچے گا کیونکہ آج بھی عام آدمی کے ذہن میں بہت سارے سوالات ہیں۔

سی پیک کے حوالے سے ملک بھر میں سیمینار منعقد کرنے کا مقصد لوگوں کو یہ آگاہی دینا ہے کہ سی پیک کیا ہے۔ہم نے اس سیمینار میں ارباب اختیار، عام لوگ اور بزنس کمیونٹی کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے تاکہ وہ سوال و جواب سے اپنے خدشات دور کرسکیں۔ سی پیک کے حوالے سے ایکسپریس میڈیا گروپ مثبت کردار ادا کررہا ہے اور کرتا رہے گا۔ یہ سلسلے کا پہلا سیمینار ہے جبکہ بعد ازاں کراچی، لاہور اورگوادر میں بھی سی پیک کے خصوصی سیمینارز منعقد کیے جائیں گے۔

نعمان باجوہ (ڈائریکٹر فاسٹ مارکیٹنگ)

چین پاکستان اقتصادی راہداری ایک اہم منصوبہ ہے جس سے یقینا پاکستان کو فائدہ ہوگا۔ سی پیک فاصلوں کو کم کررہا ہے، اس سے 16ہزارکلومیٹر کا فاصلہ 25سو کلومیٹر رہ جائے گا جو چین کے لیے بہت مفید ہے۔ اس کے علاوہ گوادرکے پانی کی گہرائی زیادہ ہے جو اس کی اہمیت میں اضافے کا باعث ہے۔ پاکستان میں جن چیزوں کا وعدہ کیا گیا ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ وہ بروقت مکمل ہوجائیں گی ۔ ہم ان تمام لوگوں سے خوش ہیں جنہوں نے بغیر سیاست کے سی پیک منصوبے کے آغاز میں اپنا کردار ادا کیا اور اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ سی پیک سے منسلک پراجیکٹس شروع ہوچکے ہیں اور بعض اپنی تکمیل کے قریب ہیں۔

موٹرویزکی تعمیر سے سفری سہولیات میں بہتری اور فاصلے کم ہوئے ہیں، اس کے علاوہ لاہور میں میٹرو ٹرین منصوبہ بھی بہترین ہے۔ سی پیک سے رئیل اسٹیٹ اور سٹاک مارکیٹ کو براہ راست فائدہ ہوگا۔ سی پیک کے ابھی جو فوائد ہمیں نظر آرہے ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں لیکن ہم گارنٹی سے کہہ سکتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے بے شمار فائدے سامنے آئیں گے۔ہمیں امن اور استحکام کی طرف جانے کیلئے اس منصوبے کی مخالفت کو کم کرنا ہوگا، ہمیں دنیا کے ممالک کو سہولت دینی چاہیے اور دشمن ملک کو بھی بتانا چاہیے کہ اس منصوبے سے ان کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ اس طرح یہ منصوبہ با آسانی پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔

پاکستان کی جغرافیائی حیثیت کے باعث اسے اہم مقام حاصل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اب اس نے ہمیں اپنی قسمت بدلنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ سی پیک کے مثبت نتائج ابھی سے آنا شروع ہوگئے ہیں اور اکنامک انڈیکیٹرز یہ بتا رہے ہیں کہ اب پاکستان کی معیشت تیزی سے بہتری کی طرف گامزن ہے۔ فاسٹ مارکیٹنگ کے تحت گوادر اور پنجاب بھر میں تیس کے قریب منصوبے چلائے جارہے ہیں اور اقتصادی راہداری کے بعد سے ان تمام منصوبوں کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں جو خوش آئند ہے۔

میں ایکسپریس میڈیا گروپ کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے سی پیک کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیا ہے، اگر اس طرح کے فورمز ہوتے رہے تو لوگوں کے ذہنوں میں جو خدشات ہیں وہ دور ہوجائیں گے اور انہیں اصل حقائق معلوم ہوجائیں گے۔ ہمیں امن کی طرف چلنا چاہیے اور کپیسٹی بلڈنگ کی طرف توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم اس کے ثمرات سمیٹ سکیں۔



سوال و جواب کا سیشن

سوال: (محمد علی امجد):کیا سی پیک کی سیکورٹی کے اخراجات کا بوجھ پاکستان کے دفاعی بجٹ پر پڑے گا؟

جواب: (احسن اقبال):سیکورٹی اخراجات ڈویلپمنٹ کا حصہ ہیں۔ ہر منصوبے کی لاگت کا 1فیصد سیکورٹی کیلئے مختص کیا گیا ہے لہٰذا اس کا بوجھ ہمارے دفاعی بجٹ پر نہیں پڑے گا۔

سوال:(فضل حسیب):سی پیک سے منسلک منصوبوں کیلئے ٹیکنیکل لوگوں کی ضرورت پڑے گی، کیا حکومت تعلیمی اداروں میں اس حوالے سے اقدامات کررہی ہے؟

جواب:(احسن اقبال):یونیورسٹیوں کے طلباء کوینگ ڈویلپمنٹ کور اور ینگ ڈویلپمنٹ فیلوز جیسے پروگراموں کے ذریعے شامل کیا جارہا ہے۔ طلبہ کو ایک سال کے فیلو شپ پروگرام میںپبلک پالیسی، ڈویلمپنٹ، سی پیک و دیگر حوالے سے تربیت دی جاتی ہے۔ 5بہترین بزنس سکولز کا کنسورشیم بھی بنایا گیا ہے جبکہ اس وقت 50کے قریب پاکستانی اور چینی یونیورسٹیوں کے اشتراک کا پروگرام بھی چل رہا ہے جس سے دونوں ممالک کی یونیورسٹیوں میں بہتری آئی گی۔

سوال(صہیب): انڈسٹریلائزیشن اور انفراسٹرکچر سے ایکوسسٹم خراب ہوگا،اس حوالے سے کیا پالیسی بنائی گئی ہے؟

جواب (احسن اقبال): سی پیک کے ہر منصوبے میں ماحولیاتی پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے ، اس کے بغیر کسی منصوبے کی منظوری نہیں دی جاتی۔

سوال(ندیم سید):گوادر میں تعلیم و دیگر حوالے سے ڈویلپمنٹ کی پالیسی کیا ہے؟ میرا سیکورٹی کا کاروبار ہے،میں سی پیک کی سیکورٹی میں کیسے کردار ادا کرسکتا ہوں؟

جواب (احسن اقبال): گوادر کی ڈویلپمنٹ کے لیے چین کے ساتھ مل کر 50سالہ ماسٹر پلان بنا یا جارہا ہے تاکہ گوادر کو ماڈل پورٹ سٹی بنایا جا سکے۔ سیکورٹی کے معاملات وزارت داخلہ دیکھ رہی ہے، اس لیے وزارت داخلہ یا چینی کمپنیوں سے رابطہ کیا جائے ۔

سوال(محمد احمد سلطان): ہزارہ ڈویژن، ایبٹ آبادکے لوگوں کی زمینیں سی پیک روٹ میں آچکی ہیں لیکن ابھی تک انہیں رقم کی ادائیگی نہیں ہوئی، حکومتی پالیسی کیا ہے؟

جواب(احسن اقبال):ہم لوگوں کو ان کی رقم کی بروقت ادائیگی کیلئے کوشش کررہے ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ تیزی سے مسائل حل کرے اور کسی کی حق تلفی نہ ہو۔

سوال(نینا علی):حکومت کی خارجہ پالیسی واضح نہیں ہے، اس پر روشنی ڈالیں؟

جواب(احسن اقبال): بلاوجہ تنقید نہیں کرنی چاہیے، چند روز بیشتراسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم کی سربراہی کانفرنس کا پر امن اور خوشگوار ماحول میں انعقاد حکومت کی کامیاب خارجہ پالیسی کی مرہون منت ہے۔

سوال(شہباز رانا): سی پیک کے بہت سارے منصوبے ڈیڈلائن پر مکمل نہیں ہوئے، جے سی سی نے بعض منصوبوں کی دوبارہ ڈیڈلائن مقرر کی ہے، آپ کے نزدیک پاکستان کو کیا کرنا چاہیے؟ حاصل بزنجو نے کہا کہ گوادر اور چابہار کے درمیان سڑک بننی چاہیے، اس بارے میںآپ کی رائے کیا ہے؟

جواب( سن وی ڈونگ):تمام منصوبے اپنے مقررہ وقت پر مکمل ہوئے ہیں، حالات و واقعات کے حوالے سے بعض منصوبوں میں ترجیحات تبدیل کی جاسکتی ہیں۔سی پیک سے اس خطے کے تمام ممالک اور دوسری بندرگاہیں بھی منسلک ہوسکتی ہیں۔

سوال(ہمایوں اقبال شامی): کیاقراقرم ہائی وے دنیا بھر کی تجارت کا دباؤ برداشت کرسکے گی؟کیا ایئر لفٹ کو چین کے ساتھ تجارت کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے؟

جواب(احسن اقبال): قراقرم ہائی وے کو ممکنہ حد تک کھلا کیا جارہا ہے۔ چین کے ساتھ صرف سڑک ہی نہیں بلکہ ریل کے ذریعے بھی سامان کی آمد و رفت ہوگی۔ فضائی سہولیات کو بھی اس حوالے سے استعمال کیا جائے گا، گوادر ایئر پورٹ بھی اسی لیے بنایا جارہا ہے تاکہ سمندری بندرگاہ کے ساتھ ساتھ اسے ''ایئر حب'' بھی بنایا جا سکے۔n

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں