ہر انتہا پسندی خطرناک ہے

پچھلی چاردہائیوں کے کئی واقعات گواہ ہیں کہ پاکستان کے لیے انتہاپسندی بہت بڑا خطرہ ہے

KARACHI:
پاکستا نی معاشرے کو کن بڑے خطرات اور کن چیلنجز کا سامنا ہے؟

پچھلی چاردہائیوں کے کئی واقعات گواہ ہیں کہ پاکستان کے لیے انتہاپسندی بہت بڑا خطرہ ہے۔ انتہا پسندی کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی کئی اچھائیاں دب کر رہ گئیں اور عدم برداشت، غصہ، زور زبردستی، جبر عام ہونے لگا۔ مذہبی رنگ لیے ہوئے ہو یا اس نے لبرل ازم کا لبادہ اوڑھا ہوا ہو، انتہا پسندی کی دونوں صورتیں پاکستانی معاشرے کے لیے خطرناک ہیں۔ ایک انتہا پسندی نے قوم کے مذہبی جذبات کو مخاطب کرکے اپنا کام آگے بڑھایا، دوسری انتہا پسندی آزادی اظہار اور آزادی عمل کی انسانی خواہش اور حق کو ڈھال بنا کر اپنا ایجنڈا پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایک انتہا پسندی اپنے مخصوص مذہبی فہم اور مسلکی موقف پر اصرار کرتے ہوئے حصول علم، معاشی اور سماجی ترقی، عورتوں کو حقوق کی فراہمی جیسے امور میں مزاحم ہے۔ دوسری انتہا پسندی روایات اور مسلمات سے انحراف یا بغاوت کرتے ہوئے آزادی، کھلے پن (Openness) اور ترقی کے نعروں کی آڑ میں سماج کی بنیادوں پر حملہ آور ہے۔ مذہبی انتہا پسند خوف پھیلا کر جب کہ لبرل انتہا پسند شکوک پھیلاکر اپنے اپنے کئی مقاصد حاصل کر نا چاہتے ہیں۔دونوں طبقات سے پاکستان کو ضرر ہی پہنچ رہا ہے۔ ابلاغ کے قدیم و جدید ذرایع یعنی پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا دونوں طرح کے انتہا پسندوں کے کام آرہے ہیں۔

میڈیا کے ذریعے ایک طرف تو مذہبی یا لبرل انتہا پسندانہ خیالات و نظریات پھیلائے جارہے ہیں۔ دوسری طرف بعض دانشور اس انتہا پسندی کی تاریخ اور اسباب کے حوالے سے معلومات فراہم کرتے ہوئے اپنے اپنے فہم یا نظریات کے مطابق انتہا پسندی سے نمٹنے کے طریقے تجویز کررہے ہیں۔ ایک کے نزدیک مذہبی مدارس میں اصلاحات اور انھیں کنٹرول کیا جانا نہایت ضروری ہے۔ دوسرے کے خیال میں انگلش میڈیم تعلیمی ادارے نئی نسل میں سیکولر سوچ پھیلانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔

مدارس میں اصلاح کا مطالبہ کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے مدارس کا دفاع کرنے والے بعض افراد زورقلم یا جوش خطابت میں پاکستان کے مذہبی مدارس کا شجرہ صدیوں پہلے کے ان مدارس سے جوڑ دیتے ہیں جہاں سے عالم اسلام کے بڑے بڑے دانشور، فلسفی، حکیم، سائنس دان فارغ التحصیل ہوئے تھے۔ پاکستان میں پائی جانے والی انتہا پسندی کے حوالے سے مدارس سے ناراض حلقے ہوں یا سماج میں آنے والی کئی تبدیلیوں کے حوالے سے کالجز اور یونیورسٹیز کے کردار پر معترض حلقے، ان دونوں کو ہی اپنی اپنی راسخ فکر سے ہٹ کر علمی اور تنقیدی انداز اختیار کرنے، دلائل پر مبنی بات کرنے اور سننے کا حق تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کے شمال مغرب میں 70ء کے عشرے سے حالات زیادہ خراب ہیں۔ 1979ء میں افغانستان پر سویت یونین کی جارحیت سے پاکستان بھی شدید متاثر ہوا۔ہاکستان کو سوویت عزائم سے اپنے بچاؤکے لیے حکمت عملی بنانی پڑی۔ اس دور میں امریکا اور سویت یونین کی سرپرستی میں دنیا دو بلاکس میں تقسیم تھی۔ امریکی سی آئی اے اور دیگر ادارے، سویت کے جی بی اور ان کے بعض دیگر ادارے دنیا کے مختلف ملکوں میں اپنے اپنے لیے حمایت کے حصول میں سرگرداں تھے۔ اس کام کے لیے امریکی ڈالرز اور روسی روبل کھلے ہاتھوں خرچ کیے جارہے تھے۔


لوگوں کو اپنے نظریے پر قائل کرتے ہوئے مختلف خطوں میں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام اور جمہوریت کے حامی تیار کیے جارہے تھے تو دوسری طرف اشتراکیت کو نسخہ شفاء قرار دیتے ہوئے سوشلزم یا کمیونزم پر قائل افراد کی تنظیمیں تیار اور مضبوط کی جارہی تھیں۔ پاکستان کے شمالی مغربی سرحدی صوبے (اب خیبر پختون خوا) اور بلوچستان پر روس کی نظریں زیادہ تھیں۔ سویت یونین نے ان علاقوں میں اپنی حامی کئی تنظیموں کی سرپرستی کرتے ہوئے کثیر دولت کے ساتھ ساتھ انھیں اسلحہ اور جنگی تربیت بھی فراہم کی۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں کے طالب علموں اور اساتذہ میں، ذرایع ابلاغ میں، ادیبوں شاعروں میں، اور دیگر اہم حلقوں میں کمیونزم یا اشتراکیت کی خوبیوں پر لوگوں کو قائل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔کئی پروفیسرز، دانشور،ادیب، شاعر، صحافی، نوجوان طالب علم اور دوسرے شعبوں کے اشتراکیت کے حامی افراد کو پاکستان سے بدگماں یا ناراض کرنے کی کوششیں بھی کی گئیں۔ صدر ایوب خان کی حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان میں جمہوریت نہیں ہے۔ تماشا تو یہ تھا کہ پاکستان میں جمہوریت نہ ہونے پر طنز کے تیر سویت یونین کے مدح خواں بھی برسارہے تھے۔ جہاں فاشزم خود بدترین آمریت کی شکل میں برسراقتدار تھا۔

اس دور میں پاکستان کے دو صوبوں میں ہونے والی کئی شورشیں سویت یونین کی پشت پناہی سے برپا کی گئیں۔ سوویت یونین نے پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی کئی تخریبی سرگرمیوں کی سرپرستی کی۔ پاکستان میں پہلا انتہائی مہلک بم دھماکا جولائی 1987ء میں کراچی میں ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب سویت یونین کی افواج افغانستان میں پے در پے شکستوں کا سامنا کر رہی تھیں۔

اپنی ان شکستوں کا غصہ سویت یونین نے اس وقت کی افغان انٹیلی جنس ایجنسی خاد کے ذریعے پاکستان کے معصوم عوام پر اتارا تھا۔ تیس برس پہلے کراچی میں ہونے والے ایک بم دھماکے کا یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ دہشت گردی کسی ایک مخصوص گروہ کی طرف سے ہی نہیں ہوتی رہی۔ ہمارے خطے میں دہشت گردوں کے سرپرست کبھی کمیونسٹ رہے، کبھی کیپٹلسٹ تو کبھی مذہب کے نام لیوا۔ ہر سرپرست کے بدلنے پر سہولت کار اور آپریٹرز تبدیل ہوتے رہے ہیں۔1987 میں اس بم دھماکے کے بعد پاکستان میں کمیونسٹ لابی کی طرف سے یہ کہا گیا کہ یہ سوویت یونین کے بارے میں پاکستان کی پالیسیوں کا ردعمل ہے۔

آرمی پبلک اسکول پر حملے سے پہلے تک پاکستان میں ہونے والے کئی دھماکوں اور حملوں کے بعد ایک لابی یہ کہتی رہی کہ یہ نائن الیون کے بعد طالبان کے بارے میں پاکستانی پالیسی میں تبدیلیوں کے رد عمل ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ پندرہ بیس سال میں بعض لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنے کے لیے مذہب کا نام خوب استعمال کیا گیا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ لبرل انتہا پسند ہمارے معاشرے میں کسی برائی یا تخریب میں شامل نہیں رہے۔ اب چند برسوں سے بھارت پاکستان کے خلاف اپنے عزائم کو افغانستان کے ذریعے پورے کر رہا ہے۔ پاکستان میں امن و امان کی صورت حال خراب کرنے، پاکستان میں سی پیک کی تعمیر میں رکاوٹیں کھڑی کرنے، ملکی استحکام اور خوش حالی کے لیے حکومت اور فوج کی راہوں میں دشواریاں پیدا کرنے اور پاکستان کے خلاف اپنے دیگر کئی عزائم کی خاطر پاکستان میں مذہبی یا لبرل دونوں انتہاپسندوں کو استعمال کرسکتا ہے۔

پاکستانی قوم کو بیرونی دشمنوں اور ان کے کئی اندرونی سپورٹرز سے مقابلہ ہے۔ ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ نظریاتی اساس کے تحفظ کے لیے ریاست، حکومت اورعوام کو حالات کے صحیح ادراک، اسباب کے حقیقت پسندانہ تعین، اور اپنے اپنے فرائض کی بالکل ٹھیک ادائی لازمی ہے۔ خاص طور بھارت کی چالوں سے بہت زیادہ باخبر اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story