پی ایس ایل فائنل مبارک
پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کرنے میں ہمارے کھلاڑیوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے
KARACHI:
پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کرنے میں ہمارے کھلاڑیوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سچ پوچھیے تو ہمارے یہ سپوت وطنِ عزیزکے کامیاب سفیر کہلانے کے مستحق ہیں۔ ان میں بڑے بڑے نام شامل ہیں جن پر پوری قوم اور ملک کو فخر ہے۔ ان کی شہرت سے اقوام عالم میں ملک وقوم کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ مگر ہمارے ازلی دشمنوں کو یہ بات بری طرح سے کھٹکتی تھی کیونکہ وہ تو در اصل ہمارے وجود ہی کے مخالف تھے۔ چنانچہ ان کی مکروہ سازش کے نتیجے میں آج سے آٹھ سال قبل وطن عزیزکا دورہ کرنے والی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر زندہ دلوں کے شہر لاہور میں بزدلانہ حملہ ہوا جس میں 14 سے 15 دہشت گرد ملوث تھے۔ اﷲ کا کرم شامل حال تھا کہ بس ڈرائیور کی ذہانت اور پھرتی سے مہمان کھلاڑیوں کی جانیں بچ گئیں۔
بس یہ ناخوشگوار واقعہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے خاتمے کا بہانہ بن گیا۔ اس سے قبل مئی 2002 میں اسی نوعیت کا ایک اور واقعہ اس وقت رونما ہوا تھا جب نیوزی لینڈ کی کرکٹ ٹیم کراچی کے ایک ہوٹل میں قیام پذیر تھی۔ اس کے بعد ستمبر 2003 میں ہونے والے ایک بم دھماکے کے نتیجے میں جنوبی افریقا کی کرکٹ ٹیم کا دورہ پاکستان ایک ہفتے کے لیے ملتوی ہوا۔ پھر 30 مئی 2015 میں جب زمبابوے کی ٹیم ایک روزہ انٹرنیشنل کرکٹ میچ کھیلنے کے لیے لاہور کے قذافی اسٹیڈیم پہنچی تو دہشت گردوں نے اسٹیڈیم کے باہر بم کا دھماکا کرکے خوف و ہراس پھیلادیا۔
اس صورت حال نے وطن عزیز کے لیے بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند کردیے جس سے ہماری قومی کرکٹ کو بڑا زبردست نقصان اٹھانا پڑا۔اس کے نتیجے میں گزشتہ 9 برس کے طویل عرصے میں پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ کے انعقاد سے محروم ہوگیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس ان حالات میں قومی کرکٹ کو زندہ رکھنے کے لیے اس کے سوا اورکوئی چارہ کار باقی نہ رہا کہ بیرون ملک اس کا بندوبست کرایا جائے جس کے لیے متحدہ عرب امارات کی سرزمین کا انتخاب کیا گیا جہاں پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا اسٹیج سجایا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ کام اتنا آسان نہیں تھا اور اس کے لیے عزم محکم اور بہترین منصوبہ بندی کی اشد ضرورت تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ خراج تحسین کا مستحق ہے کہ اس نے اس کٹھن کام کو سرانجام دینے کا ارادہ کیا اور پھر اسے انتہائی کامیابی اور خو ش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ پی ایس ایل نے اپنے آغازکے مختصر سے عرصے میں دنیائے کرکٹ میں بڑی زبردست مقبولیت اور شہرت حاصل کرلی اور یہ دنیا کے گوشے گوشے میں آباد پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ اس کے لیے پی ایس ایل کے منتظمین کو جتنا بھی کریڈٹ دیا جائے وہ کم ہوگا۔ سب سے بڑا چیلنج پی ایس ایل کے فائنل کے انعقاد کا تھا۔ بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ''ہمت مرداں مدد خدا'' کے بھروسے پر یہ آخری مقابلہ وطن عزیز میں ہی کرایا جائے۔ بظاہر یہ راستہ بڑا پر خطر تھا کیونکہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد نظریہ اندیشہ اور خدشہ لاحق تھا کہ خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہوجائے، کہیں ویسا نہ ہوجائے۔
بظاہر یہ کھیل کا مقابلہ تھا لیکن گردوپیش کے حالات کی وجہ سے یہ Do Or Die والا معاملہ تھا کیونکہ اس میں سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کو شرط اول کی حیثیت و اہمیت حاصل تھی۔ ذرا سی بھول چوک کے لیے اس میں کوئی گنجائش باقی نہ تھی۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی یہ ایک کڑی آزمائش تھی جب کہ حکومت کے لیے تو یہ ایک بہت بڑا اور مشکل امتحان تھا۔ مگر دراصل پی ایس ایل کے فائنل کا انعقاد نہیں بلکہ وطن عزیز میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کا معاملہ تھا جس کے لیے حکومت کے عزم اور حوصلے کی ضرورت تھی۔ بعض سیاسی حلقے اس فائنل کے وطن عزیز میں انعقاد کو اپنے نقطۂ نظر کے حوالے سے پاگل پن قرار دے رہے تھے جس کی وجہ سے یہ فیصلہ اور بھی مشکل ہوگیا تھا۔
خدا کا شکر ہے کہ پی ایس ایل فائنل بخیروعافیت اختتام پذیر ہوا اور بین الاقوامی کرکٹ کی وطن عزیز میں بحالی کے راستے دوبارہ کھل گئے۔ سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات نے اس مقابلے کے کامیاب انعقاد کو تاریخ ساز بنادیا۔کرکٹ جیت گئی اور دشمن ہار گیا۔ کرکٹ کے شائقین کا جوش و جذبہ قابل دید تھا۔ 25 ہزار تماشائیوں سے زائد کی گنجائش رکھنے والا عظیم الشان قذافی اسٹیڈیم شائقین کرکٹ سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔کرکٹ کے شائقین کا نظم وضبط اور صبر و تحمل بھی لائق تحسین تھا۔پی ایس ایل فائنل کے وطن عزیز میں کھیلے جانے سے پوری دنیا تک یہ پیغام پہنچ گیا ہے کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال ہوگئی ہے۔
چنانچہ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس فائنل کے انعقاد کے فوراً بعد زمبابوے کے وزیر کھیل کے زیر قیادت وفد نے لاہور میں پی ایس ایل کے چیئرمین شہر یارخان سے ملاقات کی اور آنے والے مہینوںمیں دونوں ممالک کی ٹیموں کے دوروں کے تبادلوں کے بارے میں بات چیت کی۔ دریں اثنا ایک خوش خبری یہ بھی ہے کہ اس سال ستمبرکے مہینے میں ورلڈ الیون بھی چار ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلنے کے لیے پاکستان آئے گی۔شائقین کرکٹ کے لیے یہ ایک بڑی خبر ہے۔ غیرملکی میڈیا نے بھی پی ایس ایل فائنل کے پاکستان میں انعقاد کا خاص طور پر نوٹس لیا ہے جس میں روزنامہ ''خلیج ٹائمز'' نے لکھا ہے کہ ''دبئی اور شارجہ میں 23 سنسنی خیز مقابلوں کے بعد بالآخرکرکٹ اپنے وطن پاکستان واپس پہنچ گئی'' انڈین ایکسپریس کا کہناہے کہ ''پی ایس ایل کا فائنل ایک میچ سے بڑھ کر تھا۔
اس سے پاکستان میں غیرملکی ٹیموں کی آمد کی راہ ہموار ہوگئی'' غیر ملکی کھلاڑیوں نے اس فائنل میں اپنی شرکت سے پاکستانی کرکٹ شائقین کے دل موہ لیے جن میں ویسٹ انڈیز سے تعلق رکھنے والے پشاور زلمی کے کپتان ڈیرن سیمی سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔ان کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔ لگتاتھا جیسے پاکستان ان کا اپنا ہی وطن ہے۔ انھوں نے شروع ہی میں کہہ دیا تھا کہ وہ ہر حال میں پاکستان جاکر کھیلیںگے۔ پی ایس ایل اس لحاظ سے بھی ایک ایسا ٹورنامنٹ ثابت ہوا ہے کہ اس کے نتیجے میں ملک کے چاروں صوبوں سے بہترین نیا ٹیلنٹ ابھر کر سامنے آیا ہے جو آیندہ نکھر کر وطن عزیز کی کرکٹ کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ثابت ہوگا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور میں کھیلے گئے پی ایس ایل فائنل سے پاکستان کرکٹ کی نشاۃ ثانیہ ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے امکانات روشن ہوئے ہیں امید ہے کہ اب ویسٹ انڈیز اور سری لنکا کی کرکٹ ٹیمیں بھی پاکستان آکر کھیلنا پسند کریںگی۔
لاہور میں پی ایس ایل فائنل کے کامیاب انعقاد نے ثابت کردیا ہے کہ اگر سول اور عسکری قیادت ایک صفحے پر ہوں تو کوئی بھی مخالف طاقت ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ اس زبردست کارنامے کو انجام دینے کے لیے پی سی بی کی انتظامیہ کے علاوہ وزیراعلیٰ پنجاب، وزیراعظم پاکستان، فوج اور پولیس سمیت تمام متعلقہ ادارے خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اگر اپنے تحفظات کو چھوڑ کر پاکستان کے مایہ ناز کرکٹر اور پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان محض اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ایونٹ میں شریک ہوجاتے تو بہت اچھا ہوتا۔ کاش اس میچ میں اس عظیم اور بہادر بس ڈرائیور مہر محمد خلیل کو بھی شرکت کی خصوصی دعوت دی جاتی جس نے اپنی جان پر کھیل کر سری لنکا کے کرکٹ کھلاڑیوں کی جانیں بچائی تھیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس میں سرفراز نواز اور وسیم باری جیسے سابق نامور کھلاڑی بھی شریک محفل کیے جاتے! ملک و قوم کو پی ایس ایل فائنل مبارک!