عام لوگوں کے لیے خاص سپرفوڈ اسٹورز

چھوٹا اوربڑا گوشت یعنی مٹن اور بیف تو اب بہت سوں کے لیے ایک سراب سا خواب بن گئے ہیں

moazzamhai@hotmail.com

فش، مٹن، چکن، کباب، باربی کیو، پلاؤ،کھیر، ٹرائفل وغیرہ وغیرہ۔کہیے بھر آیا نا منہ میں پانی بہت سا۔ 4 مارچ کو ہونے والی سیاسی کانفرنس میں کھانے کا یہ جسیم مینو بلاشبہ معزز شرکا کے روز افزوں جاہ وجثے کے شایان شان تھا۔ اب آپ اسے قسمت کی شعبدہ گری گردانیے یا ہمارے ارب پتی و کھرب پتی لیڈران کرام کی بے بہا برکت یا کچھ اور کہ ان کے شیدائی عوام میں سے بہت سوں کو ڈھنگ کا کھانا ہی نصیب نہیں۔گزرے آٹھ نو باکمال سالوں میں جہاں پاکستان 188 ممالک میں موٹاپے کی فراوانی کے لحاظ سے نویں درجے پہ جا پہنچا ہے (حوالہ: گلوبل برڈن آف ڈزیز اسٹڈی، لینسٹ میڈیکل جرنل 2014) وہیں پیٹ بھر خوراک سے محروم لوگوں کی تعداد بھی نمایاں رہی ہے۔ مثلاً آپ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پبلک اپی نین کے اکتوبر 2008 کو جاری کردہ سروے کو ہی لے لیں۔

جس کے مطابق غذائی اشیا کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے 32 فیصد پاکستانیوں کو اپنی خوراک کی مقدارگھٹانے پہ مجبورکردیا۔ اب آگے چلیے جون 2010 میں سوئس ایجنسی فور ڈیولپمنٹ اینڈ کوآپریشن کی رپورٹ ''دا اسٹیٹ آف فوڈ سیکیورٹی ان پاکستان'' کے مطابق 48 فیصد پاکستانی یعنی پاکستان کی تقریباً نصف آبادی غذائی عدم تحفظ میں مبتلا پائی گئی۔ اسی سال پاکستان میں اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے کنٹری ڈائریکٹر ولف گینگ ہربنگر نے انکشاف کیا کہ قوت خرید میں کمی کے باعث پاکستان میں بنیادی غذائی جزو آٹے کا استعمال 10 فیصد کم ہوگیا۔ اگست 2011 میں Oxfam نے بتایا کہ 36 فیصد پاکستانی غذائیت میں کمی کا شکاراور پاکستانی قوم غذائی کمی کا شکار دنیا کی 21 بدقسمت اقوام میں شامل پائے گئے۔

اگرآپ سوچیں کہ حالیہ برسوں میں حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں تو یہ بس ایک معصوم سی خوش فہمی ہی ہوگی۔ یونیسیف کے اشتراک سے تیارکردہ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے مطابق 45 فیصد بچے غذائیت کی دائمی کمی میں مبتلا پائے گئے۔ اسی سال 2016 میں ورلڈ فوڈ پروگرام کی کنٹری ڈائریکٹر لولا کیسٹروصاحبہ نے ایکسپریس ٹریبیون کو ایک انٹرویو میں بیان کیا کہ 43 فیصد پاکستانی شہری غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ فروری 2017 میں بچوں کے حقوق کے تحفظ کی تنظیم SPARC نے پاکستان ایمرجنسی فوڈ سیکیورٹی الائنس (PEFSA) کی رپورٹ ''چلڈرن آن داموو''کے حوالے سے بتایا کہ صوبہ سندھ میں 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں سے 57 فیصد یعنی آدھے سے بھی زیادہ کی نشوونما غذائیت کی کمی کی وجہ سے متاثر ہے۔ مگر جناب آپ صوبہ سندھ کوکہیں ہلکا نہ لے بیٹھیے گا، یہ بہرحال ایک غیر معمولی امیرکبیر صوبہ ہے جیسے کہ پاکستان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے مارچ 2016 میں آبزرویشن دی تھی کہ سندھ میں معمولی سرکاری ملازم بھی ہر سال نئی لینڈ کروزر نکلواتا ہے۔ جی ہاں یہ وہی سندھ ہے جہاں لوگوں کو صاف پانی تک میسر نہیں۔

مگر صاحب اب ہرکوئی تو سندھ سرکار کے کارگزاروں کی مانند خوش قسمت و خوشحال تو نہیں کہ مہنگائی سے بے اعتنائی افورڈ کرسکے۔ پھر یہاں تو ہر چند سالوں میں قیمتیں دگنی بلکہ تگنی بڑھ جاتی ہیں اور لوگوں کی قوت خرید ہے کہ کچھوے کی چال سی آگے بڑھتی ہے مثلاً 1999 سے 2008 تک میں روزمرہ کی چیزوں بشمول بنیادی غذائی آئٹمزکی قیمتیں تین گنا بڑھ گئیں۔ 2008 سے 2013 کے دوران یہ قیمتیں اور ساتھ ہی کاسٹ آف لونگ یعنی مصارف زندگی کی لاگت مزید دگنی ہوگئیں۔ یہ وہی سنہرا دور ہے جس بابت اس وقت کے چیئرمین نیب ریٹائرڈ ایڈمرل فصیح بخاری نے 13 دسمبر 2012 کو بتایا کہ ہر روز 13 ارب یعنی 1300 کروڑ یعنی 130,000 لاکھ روپوں کی کرپشن کی جاتی ہے۔ اسی روز خود وفاقی حکومت کی وزارت فوڈ سیکیورٹی نے سینیٹ کو بتایا کہ 2008 سے 2012 کے بیچ یعنی غریب عوام کی نمایندہ حکومت کے دوران ملک میں غربت میں کمی کے بجائے الٹا اضافہ ہوا۔


تو اب آخر عام لوگ بھاگ کر کہاں جائیں کیا کھائیں؟ چھوٹا اوربڑا گوشت یعنی مٹن اور بیف تو اب بہت سوں کے لیے ایک سراب سا خواب بن گئے ہیں جب کہ حکومت بجائے ملک سے بکروں کی اسمگلنگ روکنے کے الٹا گوشت کی برآمد بڑھانے کوکوشاں ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹورز بھی کرپشن، نااہلی اور معیار میں گراوٹ کا شکار ہوگئے۔ لوگوں کو کم ازکم گوشت، سبزی اور پھل ہی معیاری اورسستے مل جائیں۔ حکومتوں سے اس سلسلے میں کوئی خاص امید رکھنا کوئی خاص عقل مندی کی بات نہیں۔ البتہ ہم لوگوں کی بھلائی کے لیے سرگرداں افراد اور نجی اداروں اور تنظیموں سے امید کرسکتے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ کریں۔ مثلاً یہ کہ وہ مل کر لوگوں کے لیے سپرفوڈ اسٹورزکی چین قائم کریں۔

یہ سپرفوڈ اسٹورز صرف گوشت، سبزی اور پھل فروخت کریں اور نو پرافٹ نو لاس پر یا کم سے کم آپریٹنگ منافع پہ کام کریں۔ یہ سپر فوڈ اسٹورز گاہکوں کو مخصوص راشن کارڈ جاری کریں۔ ایک پتے (شناختی) کارڈ والے پہ صرف ایک ہی راشن کارڈ جاری کیا جائے۔ اس راشن کارڈ پہ ہر مہینے گوشت، سبزی اور پھلوں کی ایک مخصوص مقدار ہی مل سکتی ہو اور وہ بھی ہر مہینے کے چار ہفتوں میں تقسیم ہو تاکہ لوگ سستے دام خریدی گئی چیزیں باہر جاکر مہنگے داموں نہ بیچ سکیں۔

مختلف نجی ادارے اور افراد مل کر ایک کمپنی بناکر ان مجوزہ سپر فوڈ اسٹورز کی چین قائم کرسکتے ہیں جو براہ راست کاشتکاروں، ڈیری فارمرز، پولٹری فارمرز اور فشریز سے مال حاصل کرنے کے نظام کے ساتھ کام کرے تاکہ بیچ کے لوگوں کی حد سے زیادہ ناجائز منافع خوری سے بچ کر سستے داموں مال بیچا جا سکے۔ گوکہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات ہوں گے مگر بیچ کے لوگ بھی باربرداری کے اخراجات قیمتوں میں شامل کرتے ہیں بلکہ اکثر کچھ بڑھا چڑھا کر ہی شامل کرتے ہیں۔

ان سپر فوڈ اسٹورزکی بدولت مارکیٹ کے ناجائز منافع خور بتدریج مہنگی قیمتیں کم کرنے پہ بھی مجبور ہوسکتے ہیں۔ ان سپرفوڈ اسٹورز کی کمپنی اپنے بینک اکاؤنٹ میں لوگوں سے مختلف ذرایع بشمول SMS کے ذریعے عطیات حاصل کرسکتی ہے کہ لوگوں کو کھانا کھلانا پسندیدہ ترین نیکیوں میں شامل ہے۔ تاہم سرکاری اداروں میں کرپشن اور حکمراں طبقے کے لوگوں کے عام انسانوں کے لیے کھانے پینے کی چیزیں مہنگے داموں بیچنے کے بے رحم نظام میں مفادات ان سپرفوڈ اسٹورزکی راہ میں ناقابل عبور رکاوٹ بن سکتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کے نزدیک مال ہی سب کچھ ہے چاہے کیسے بھی آئے اور یہ ہمیشہ زندہ بیٹھے اپنا مال بڑھاتے رہیں گے چنانچہ سپرفوڈ اسٹورزکا ایک اچھا آئیڈیا ہونے کے باوجود بھی ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔
Load Next Story