تصویر جس نے زندگی بدل ڈالی بارک اوباما کی تبدیلی ِ فکر کا اچھوتا ماجرا
پادری کا خطاب سن کر اوباما نے سبھی شکوک و شبہات ایک طرف رکھے اور امیدکا دامن تھام لیا۔
ایک تخلیق کار اپنی تمام تر توانائیوں سے جو تخلیقی شہ پارہ تخلیق کرے،وہ اپنے اندر یہ قوت و سحر رکھتا ہے کہ دوسروں کی زندگیوں کا رخ موڑ دے۔
1990ء میں برطانوی مصّور،جیمز واٹس کی ایک تصویر ''امید'' (Hope)نے شکاگو کے اس نوجوان، باراک اوباما پر کچھ ایسا ہی اثر ڈالا جسے آگے چل کر پہلے سیاہ فام امریکی صدر ہونے کا اعزاز پانا تھا۔ واضح رہے، یونانی دیومالا میں امید ایک ایسی لڑکی ہے جسے دیوتا پرومیتھس نے ''پینڈورا کے پٹارے '' میں بند کردیا تھا۔ جب پٹارا کھلا اور تمام برائیاں فرار ہوگئیں، تب بھی امید اس میں موجود رہی۔ امید ایک کردار سے زیادہ مثبت نظریہ ہے تاہم واٹس سمیت کئی مغربی مصوروں نے اسے بحیثیت انسان پیش کیا ہے۔
واٹس کی تصویر میں ایک لڑکی دنیا پر براجمان ہے۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے انداز سے بے یارومددگار نظر آتی ہے۔ اس نے بربط تھام رکھا ہے جس کے ایک کے سوا سارے تار ٹوٹ چکے ۔ پھر بھی وہ بربط بجانے میں محو ہے۔ حیرت انگیز بات یہ کہ تصویر میں ''امید'' آس بندھانے کے بجائے ناظر کو غم و افسوس میں گرفتار کر دیتی ہے۔ تاہم واٹس اس تصویر کے ذریعے دیکھنے والے کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ ''کبھی پریشان مت ہوں'' اور ''امید پر دنیا قائم ہے۔'' وہ اپنی کوشش میں کامیاب رہا اور وکٹوریہ عہد کے عام لوگ اس کا مطلب سمجھ گئے۔چناں چہ اس تصویر کو بڑی مقبولیت ملی۔
آخرکار ''امید'' ہی واٹس کی شاہکار تصویر قرار پائی۔ اس تصویر نے سب سے پہلے دور حاضر کے ممتاز مصور،پکاسو کو متاثر کیا۔ ''امید'' کو دیکھ کر پکاسو کے اندر جو لطیف و مثبت جذبات ابھرے، وہ اس کی مشہور تصویر ''بلیوگٹار'' کی صورت ظاہر ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم میں لندن کی ٹینٹ گیلری نے ''امید'' کو ایک خصوصی کمرے میں لٹکائے رکھا۔ دراصل اس زمانے میں ضرورت تھی کہ لوگوں کا حوصلہ اور عزم جوان رکھا جائے... ''امید'' نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔
1990ء میں باراک اوباما ایک دن شکاگو کے ٹرینٹی یونائیٹڈ چرچ آف کرائسٹ گئے تو وہاں پادری، جرمیاہ رائٹ نے ''امید'' تصویر کو خطاب کا موضوع بنایا۔ انھوں نے حاضرین کو بتایا ''ذرا تصویر دیکھیے، بربط نواز چیتھڑوں میں ملبوس ہے۔ وہ اپنے حلیے سے ہیروشیما کی متاثرہ تباہ حال لڑکی لگتی ہے۔ پھر بھی لڑکی نے نہایت بے باکی (Audacity) سے امیدکا دامن تھام رکھا ہے۔''یہ جملہ اوباما کے ذہن میں نقش ہوگیا۔ تب نوجوان سیاہ فام عقیدے، رنگ اور نسل وغیرہ کے نظریات پر نفسیاتی کشمکش کا شکار تھا۔
پادری کا خطاب سن کر اوباما نے سبھی شکوک و شبہات ایک طرف رکھے اور امیدکا دامن تھام لیا۔ امید نے نہ صرف نوجوان میں نئی توانائی بھر دی بلکہ اسے زندگی گزارنے کا مقصد بھی عطا کر ڈالا۔2006ء میں اوباما نے اپنی سوانح حیات کا نام بھی ''دی اوڈیسٹی آف ہوپ'' (The Audacity of Hope) رکھا۔یہی نہیں ،انھوں نے دو سال بعد ''امید'' اور ''تبدیلی''ہی کو اپنی انتخابی مہم کے نعرے قرار دیا اور بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے۔
اوباما نے آپ بیتی ''ڈریمز فرام مائی فادر'' میں اپنی زندگی کا رخ بدل دینے والی''امید''تصویر کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:''اس کے جذبات مجروح ہیں اور جسم زخم زخم۔کپڑے پھٹ چکے ہیں اور بربط کا بھی صرف ایک تار باقی ہے ۔لیکن تصویر کو مرکزِنگاہ بنائیے... وہ امید کی دولت سے مالامال ہے۔ بربط نواز اوپر دیکھ رہی ہے اور چند سْر آسمان کی سمت محوپرواز ہیں۔ اس حالت میں بھی لڑکی نے امیدکا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اس میں اتنی بے باکی ہے کہ محض ایک تار سے سْر نکال کر خدا کی تعریف و توصیف بیان کرسکے۔''
1990ء میں برطانوی مصّور،جیمز واٹس کی ایک تصویر ''امید'' (Hope)نے شکاگو کے اس نوجوان، باراک اوباما پر کچھ ایسا ہی اثر ڈالا جسے آگے چل کر پہلے سیاہ فام امریکی صدر ہونے کا اعزاز پانا تھا۔ واضح رہے، یونانی دیومالا میں امید ایک ایسی لڑکی ہے جسے دیوتا پرومیتھس نے ''پینڈورا کے پٹارے '' میں بند کردیا تھا۔ جب پٹارا کھلا اور تمام برائیاں فرار ہوگئیں، تب بھی امید اس میں موجود رہی۔ امید ایک کردار سے زیادہ مثبت نظریہ ہے تاہم واٹس سمیت کئی مغربی مصوروں نے اسے بحیثیت انسان پیش کیا ہے۔
واٹس کی تصویر میں ایک لڑکی دنیا پر براجمان ہے۔ اس کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں اور وہ اپنے انداز سے بے یارومددگار نظر آتی ہے۔ اس نے بربط تھام رکھا ہے جس کے ایک کے سوا سارے تار ٹوٹ چکے ۔ پھر بھی وہ بربط بجانے میں محو ہے۔ حیرت انگیز بات یہ کہ تصویر میں ''امید'' آس بندھانے کے بجائے ناظر کو غم و افسوس میں گرفتار کر دیتی ہے۔ تاہم واٹس اس تصویر کے ذریعے دیکھنے والے کو یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ ''کبھی پریشان مت ہوں'' اور ''امید پر دنیا قائم ہے۔'' وہ اپنی کوشش میں کامیاب رہا اور وکٹوریہ عہد کے عام لوگ اس کا مطلب سمجھ گئے۔چناں چہ اس تصویر کو بڑی مقبولیت ملی۔
آخرکار ''امید'' ہی واٹس کی شاہکار تصویر قرار پائی۔ اس تصویر نے سب سے پہلے دور حاضر کے ممتاز مصور،پکاسو کو متاثر کیا۔ ''امید'' کو دیکھ کر پکاسو کے اندر جو لطیف و مثبت جذبات ابھرے، وہ اس کی مشہور تصویر ''بلیوگٹار'' کی صورت ظاہر ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم میں لندن کی ٹینٹ گیلری نے ''امید'' کو ایک خصوصی کمرے میں لٹکائے رکھا۔ دراصل اس زمانے میں ضرورت تھی کہ لوگوں کا حوصلہ اور عزم جوان رکھا جائے... ''امید'' نے یہ کام بخوبی انجام دیا۔
1990ء میں باراک اوباما ایک دن شکاگو کے ٹرینٹی یونائیٹڈ چرچ آف کرائسٹ گئے تو وہاں پادری، جرمیاہ رائٹ نے ''امید'' تصویر کو خطاب کا موضوع بنایا۔ انھوں نے حاضرین کو بتایا ''ذرا تصویر دیکھیے، بربط نواز چیتھڑوں میں ملبوس ہے۔ وہ اپنے حلیے سے ہیروشیما کی متاثرہ تباہ حال لڑکی لگتی ہے۔ پھر بھی لڑکی نے نہایت بے باکی (Audacity) سے امیدکا دامن تھام رکھا ہے۔''یہ جملہ اوباما کے ذہن میں نقش ہوگیا۔ تب نوجوان سیاہ فام عقیدے، رنگ اور نسل وغیرہ کے نظریات پر نفسیاتی کشمکش کا شکار تھا۔
پادری کا خطاب سن کر اوباما نے سبھی شکوک و شبہات ایک طرف رکھے اور امیدکا دامن تھام لیا۔ امید نے نہ صرف نوجوان میں نئی توانائی بھر دی بلکہ اسے زندگی گزارنے کا مقصد بھی عطا کر ڈالا۔2006ء میں اوباما نے اپنی سوانح حیات کا نام بھی ''دی اوڈیسٹی آف ہوپ'' (The Audacity of Hope) رکھا۔یہی نہیں ،انھوں نے دو سال بعد ''امید'' اور ''تبدیلی''ہی کو اپنی انتخابی مہم کے نعرے قرار دیا اور بھاری اکثریت سے منتخب ہوئے۔
اوباما نے آپ بیتی ''ڈریمز فرام مائی فادر'' میں اپنی زندگی کا رخ بدل دینے والی''امید''تصویر کا ذکر کچھ یوں کیا ہے:''اس کے جذبات مجروح ہیں اور جسم زخم زخم۔کپڑے پھٹ چکے ہیں اور بربط کا بھی صرف ایک تار باقی ہے ۔لیکن تصویر کو مرکزِنگاہ بنائیے... وہ امید کی دولت سے مالامال ہے۔ بربط نواز اوپر دیکھ رہی ہے اور چند سْر آسمان کی سمت محوپرواز ہیں۔ اس حالت میں بھی لڑکی نے امیدکا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اس میں اتنی بے باکی ہے کہ محض ایک تار سے سْر نکال کر خدا کی تعریف و توصیف بیان کرسکے۔''