کراچی کے کچھ تفریحی مقامات کی یادیں تیسرا اورآخری حصہ

کراچی کی ایک پہاڑی پر ہل پارک کی تعمیرکی منظوری اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے 1960ء میں دی

shabbirarman@yahoo.com

ہوا بندر (کلفٹن ) کے بعد فریئرہال ہی وہ مقام تھا جہاں کراچی کے شہریوں کے علاوہ سیروتفریح کے لیے غیرملکی سیاح بھی آتے تھے، ہمارے بچپن میں فریئرہال کے اندرایک بت خانہ (عجائب گھر )ہوا کرتا تھا، لیاری کے بلوچوں میں فریئرہال(بت خانہ ہی کے نام سے مشہور تھا ) جس میں پرانی تہذیب وثقافت کو مجسموں کی صورت میں اجاگرکیا گیا تھا اوراسی زمانے کی اشیاء محفوظ کی گئی تھی جسے میں شوق سے دیکھا کرتا تھا، فریئر ہال کے چاروں طرف خوب صورت باغ تھا ، قیام پاکستان کے بعد اسے قائداعظم محمدعلی جناح کے نام سے منسوب کرکے ( باغ جناح ) رکھا گیا۔

اس باغ میں ہم دوڑاکرتے تھے،کھیل کودکرتے تھے، باغ میں ایک فوارہ نصب تھا جو رات دن رونق فراہم کرتا تھا، یہ باغ اورفوارہ آج بھی موجود ہیں، درمیان میں فریئرہال اس کا باغ اور فوارہ عدم توجہی کی وجہ سے ویران ہوگئے تھے، بعد ازاںباغ کی تزئین وآرائش کی گئی، یہاں ایک بہت بڑی لیاقت لائبریری تعمیرکی گئی، صادقین آرٹ گیلری اورجنگ عظیم دوم میں شہید ہونے والے بلوچ رجمنٹ کے سپاہیوں اورافسران کی یادگار بھی تعمیرکی گئی ۔ آج بھی فریئرہال کی عمارت کراچی کی پہچان بنی ہوئی ہے ۔

کراچی کی ایک پہاڑی پر ہل پارک کی تعمیرکی منظوری اس وقت کے صدر پاکستان جنرل ایوب خان نے 1960ء میں دی، فنڈزکی کمی اور 1965کی جنگ کی وجہ سے پارک کی تعمیر ی کام سست روی کا شکار رہا ،1969ء میں اس کا افتتاح ہوا ۔ پارک تک پہنچنے کے لیے چڑھائی سے گزرنا پڑتا ہے ، ایک چڑھائی پیدل چلنے والوں کے لیے دوسری چڑھائی گاڑیوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ہل پارک کراچی میں پہلا سرکاری پارک ہے۔ اس پارک کی خوبصورتی کا انداز اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس پارک میں کئی پاکستانی فلموں اورپی ٹی وی کے ڈراموں کی شوٹنگ ہوا کرتے تھے، عین پارک کے بیچو بیچ ایک بہت بڑا حوض تعمیرکیا گیا تھا جو دل کش منظرپیش کرتا تھا،کھلی فضا میں سیروتفریح کا اپناایک الگ لطف ہوا کرتا تھا، پارک میں بینچیں، سائبان ، پختہ سڑکیں ،کھانے پینے کی دکانیں، پارکنگ ایریا جہاں کھڑے ہوکر شہرکا نظارہ دلکش ہواکرتا تھا ۔ تفریح کے لیے بھوت بنگلہ ، بچوں اور بڑوں کے لیے الیکڑونک جھولے،الیکڑونک ریل گاڑی، سب کا اپنا مزا ہواکرتا تھا، پارک میں داخل ہونے کے لیے ٹکٹ لینا پڑتا تھا، یہ پارک صرف فیملی پارک تھا، وقت اورحالات نے اس پارک کی خوب صورتی کو بھی گہن لگادیا۔

اس وقت کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو نے کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں واقع ایک پہاڑی کے اوپر اور اس کے اردگرد 300ایکڑ رقبہ پر سفاری پارک کی تعمیرکی منظوری دی، سفاری پارک میں بھی کام کی رفتار سست رہی، یہاںہم اس وقت بھی سیروتفریح کوجایا کرتے تھے جب یہاں صرف پارک ہواکرتا تھا اور پہاڑی کی چوٹی ہوا کرتی تھی باقی چیزیں زیر تعمیر ہوا کرتے تھے ، اس وقت اس پر فضا مقام پر لطف آتا تھا،اب یہاں بہت ساری تفریح کے لوازمات پائے جاتے ہیں جن سے بچے اور بڑے لطف اندوز ہوتے ہیں۔


سفاری پارک میں بھی داخلہ مفت نہیں ہے یہاں بھی اندر جانے کے لیے ٹکٹ لینا پڑتا ہے ، سفاری پارک میں داخل ہوکر آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ پہلے کس سمت سے تفریح کا آغازکیا جائے ، ہرطرف تفریح ہی تفریح ہے، منی چڑیاگھر،شٹل سروس جس میں بیٹھ کر منی جنگل میں جنگلی جانوروں کا نظارہ کیا جاتا ہے، پہاڑی کی چوٹی سے آزاد گھومتے پھرتے جانوروں کو دیکھا جاسکتا ہے ، پارک میں ایک جھیل خوبصورت منظر پیش کرتی ہے ، الیکٹرونک چیئر میں بیٹھ کر اور سے نیچے کا منظر بھلا لگتا ہے ، سفاری موٹر سائیکلوں کی دوڑ ، بغیر سہارے کے دیوار پر چڑھنا ، ہوا میں معلق تا ر پر چلنا ، بچوں اوربڑوں کے لیے مختلف الیکٹرونک جھولے ، منی ریل گاڑی ، مختلف اقسام کے کھانے پینے کی دکانیں سفاری پارک کی خصوصیات ہیں ۔ الہ ٰ دین پارک جو کہ 30ایکڑ رقبہ پر پھیلا ہوا ہے 1997ء میں تعمیر ہوا ، یہاں بھی طرح طرح کے الیکٹرونک جھولے ہیں ۔

سبزہ زار پارک ہے مگر اب اجڑا ہوا ہے ، الہٰ دین پارک کے 6ایکڑ رقبے پر شاپنگ سینٹر اورہوٹل تعمیر ہے ، وسیع پارکنگ ایریا ہے، واٹر پارک جو پہلے الگ چاردیواری میں تھا اب اس کی دیواریں مسمارکردی گئی ہیں، اسے بھی پارک کا حصہ بنا دیا گیا ہے مگر اس میں پانی نظر نہیں آرہا تھا غالبا بند کیا گیا ہے ۔ شروع دنوں میں اس پارک کا جو نقشہ تھا اب اس میں کافی تبدیلی نظر آتی ہے ، پارک کا ایک حصہ دوسرے پارک میں تبدیل کردیا گیا ہے ۔ بچوں کے لیے ٹوکن والے جھولے کا مقام ویران ہے ،ایسا لگتا ہے کہ الہٰ دین پارک بٹوارے اور عدم توجہی کا شکار ہے البتہ پارک کا ایک حصہ خوب صورت بنایا گیا ہے جہاں ہوٹل کے علاوہ بچوں کے لیے ٹوکن والی منی گاڑیاں ہیں جس پر بچے شوق سے سواری کرتے ہیں ۔ سندباد پارک 1992ء میں شروع ہوا ، شروع دنوں میں یہ کامیاب تفریح گاہ کے طور پر بہت مشہور ہوا تھا جہاں پانی پرگزرنے والی کشتی بچوں اور بڑوں میں مقبول تھی ، پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ یہ تفریح گاہ اب ویران سا ہوگیا ہے ۔

کوزی پارک ایک واٹر پارک ہے جہاںتیراکی کے شوقین انجوائے کرتے ہیں اس کے چند قدم آگے واٹر پلس چڑیا گھر بنام سیمزو پارک ہے اس میں بھی واٹر پارک ہے اور بچوں کے لیے جھولے ہیں ۔کراچی پرانی سبزی منڈی کے خاتمے کے بعد یہاں عسکری پارک بنایا گیا ہے،جوکہ پاک فوج کی زیر نگرانی ہے ، یہ پارک صرف فیملی کے لیے ہے ۔ خوبصورت نظاروں سے بھرپورکراچی کا ساحل ہے ۔ ہاکس بے طویل خوبصورت ساحل ہے جہاں شہری بڑی تعداد میں تفریح کے لیے آتے ہیں یہاں پہاڑوں اور ساحل پرباز موجود ہوتے ہیں ، صاف ستھرا سمندرکا پانی، صاف ستھری سمندری ریت ، ٹھنڈی ہوا تفریح میں لطف دیتے ہیں ۔ سینڈزپٹ کا ساحل بھی خوبصورت ہے یہاں نایاب نسل کے گرین ٹرٹلزکی افزائش نسل ہوتی ہے ، یہاں بڑی تعداد میں تمبر کے درخت پائے جاتے ہیں جو خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں ، مگر یہاں دیوہیکل گودام اور کنٹینرز یارڈز تعمیر ہونے سے ماحول میں آلودگی پیدا ہورہی ہے ۔

جس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ منوڑہ ایک تاریخی مقام ہے جہاں سے انگریزکراچی میں داخل ہوئے اور اپنا قبضہ جمایا اور آگے بڑھتے رہے اور ہم پر سو سال حکمرانی کی ، یہاں تاریخی لائٹ ہاوس ہے جو بحری جہازوں کو راستہ دکھاتا ہے ، یہاں بابا یوسف شاہ غازی کا مزار ہے جہاں بڑی تعداد میں عقیدت مند آتے ہیں ، ساحل سمندر پر شہری نہاتے ہیں، اونٹ پر سواری کرتے ہیں، یہاں گفٹ کی دکانیں ہیں،ایک قدیمی مندر بھی یہاں موجود ہے ، منوڑہ سے وابستہ ہماری بہت سی یادیں ہیں ، یہاں سے آپ سمندر کے بیچ بڑی بحری جہازوں کا نظارہ کرسکتے ہیں ۔ ہاکس بے سے آگے کی طرف فرنچ بیچ واقع ہے یہ ساحل بھی بہت خوب صورت اور پرسکون ہے ۔

پیراڈائز پوائنٹ بھی خوبصورت ساحل ہے جہاں تاریخی محراب والی چٹان تھی جو اب ٹوٹ چکی ہے ، یہاں کی ہر چیزٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ، لے دے کے ساحل اپنی چٹانوں اورسنہری ریت سے مزیں ہے ، یہاں غروب آفتاب کا منظر دل کش ہوتا ہے ۔ کیپ ماؤنٹ یہ پہاڑی ساحل ہے یہاں اونچائی سے سمندرکا نظارہ آنکھوں کو بہت بھاتا ہے، یہاں ماہی گیروں کی ایک پرانی بستی بھی آباد ہے ۔ سنہری پوائنٹ ساحل بھی اپنی خوبصورتی کی مثال آپ ہے ۔ مبارک ولیج ساحل پر قائم لکڑی کے جھونپڑ ی دیکھ کر آپ خود کو زمانہ قدیم میں محسوس کریں گے،ایک طرف پہاڑ ،دوسری طرف طویل خوبصورت ساحل ، سمندری لہروںکا شور آپ کو یہی پر قیام کرنے پر مجبورکرتے ہیں ۔ الغرض کراچی کے یہ خوبصورت ساحل شہرکی خوبصورتی کو مزیددوبالاکرتے ہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ ساحلی مقامات پر ترقیاتی کام کیے جائیں اورساحل کی بستیوں میں بنیادی سہولیات فراہم کیے جائیں ۔
Load Next Story