کتاب کلچر کے داعی
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com
پچھلے دنوں کراچی میں کتابوں کی ایک ایسی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے پبلشرز کے علاوہ کچھ دوسرے ملکوں کے پبلشرز نے بھی شرکت کی جن میں بھارت بھی شامل تھا۔ نمائش کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا اور مختلف اسٹالز میں ادب، شاعری، سائنس، بچوں کی کہانیاں اور درسی کتابوں کو بڑے سلیقے سے سجایا گیا تھا۔ ہم نمائش کے آخری دن گئے تھے، یہ دیکھ کر بڑی خوشی ہورہی تھی کہ سارے ہال کتابوں کے شائقین سے بھرے ہوئے تھے۔
بچے، نوجوان، مرد اور خواتین بڑی دلچسپی سے اپنی اپنی پسند کی کتابیں خرید رہے تھے۔ البتہ کتابوں کی قیمتوں میں جس کمی کا چرچہ تھا وہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ بھارت میں اچھا ادب لکھا جارہا ہے اور اردو میں ان کے ترجمے بھی شایع ہورہے ہیں، ہماری اس نمائش میں شرکت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم بھارت میں شایع ہونے والی ادبی کتابوں سے استفادہ کرنا چاہتے تھے۔
جب بھارتی اسٹال کا پتہ کرکے ہم اسٹال پر پہنچے تو یہ دیکھ کر بڑی حیرت اور مایوسی ہوئی کہ بھارت کا اسٹال خالی پڑا تھا، کچھ نوجوان اسٹال کے ایک حصے میں لنچ کر رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ نمائش کا چونکہ آخری دن ہے اور شام بھی ہونے کو ہے شاید بھارتی پبلشرز اپنی کتابیں پیک کرنے میں لگے ہوں لیکن اسٹال پر موجود ایک نوجوان سے جب ہم نے اسٹال خالی ہونے کی وجہ پوچھی تو اس نے تلخ لہجے میں کہا کہ ہماری کتابوں کو کلیئر ہی نہیں کیا گیا۔ اسٹال خالی ہونے کی یہ وجہ سن کر ہمیں بڑی مایوسی ہوئی۔
ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ اس خطے کے دوسرے ممالک رنگ، نسل، زبان اور عقائدی اختلافات کی وجہ سے جن مسائل کا شکار ہیں ان کو حل کرنے کی سرکاری سطح پر تو کوششیں ہورہی ہیں لیکن ان کوششوں کے نتائج مایوس کن ہی نظر آرہے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان 65 سال سے جو کشیدگی موجود ہے اسے دور کرنے میں حکمران طبقات اور سیاستدان تو ناکام ہوگئے ہیں۔ تقسیم کے بعد اور تقسیم سے پہلے جو ادب لکھا گیا اس کا عمومی طور پر موضوع تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت کے المیے اور تقسیم ہوجانے والے خاندانوں کی المناکیاں تھیں۔
ادیبوں کی اس کھیپ نے انتہائی ذمے داری سے اپنے ادب اور شاعری میں ان المیوں کو اتنے موثر انداز میں پیش کیا کہ انسان حیوانیت سے واپس انسانیت کی طرف سفر کرنے لگا لیکن یہ سلسلہ اس لیے رک گیا کہ متحدہ ہندوستان کی اس کھیپ کے گزر جانے کے بعد دونوں ملکوں میں ایسے ادیب اور شاعر پیدا نہ ہوسکے جو اس خلا کو پُر کرسکیں اور نئے ابھرنے والے مسائل کو اپنا موضوع بناسکیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ادبی زندگی میں ایک سناٹا چھایا ہوا ہے۔ تقسیم کے حوالے سے جنم لینے والی نفرتیں وقت کی راکھ میں دبی ہوئی ہیں اور دونوں ملکوں میں موجود مذہبی انتہاپسند وقت کی راکھ میں دبی ہوئی ان چنگاریوں کو شعلوں میں بدلنے کی مجنونانہ کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کوششوں کی آگ پر دہشت گردی تیل بن کر گر رہی ہے۔
دونوں ملکوں کے غریب عوام قریب آنے کی خواہشوں کے باوجود قریب نہیں آ پارہے ہیں کیونکہ راستے میں کشمیر کا مسئلہ ایک مضبوط آہنی دیوار کی طرح کھڑا ہے اور دونوں ملکوں کے انتہا پسند اس دیوار کو نفرتیں پھیلانے کے مورچے کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ عدم اعتماد کی دھند نے عقل و خرد سے محروم دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو اسلحے کی دوڑ میں اس طرح ملوث کردیا ہے کہ غریب ملکوں کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ اس اندھی دوڑ پر صرف ہورہا ہے۔ اگنی، پرتھوی، غوری اور حتف میزائلوں کا مقابلہ جاری ہے۔
بھارت جہاں کی آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اربوں ڈالر کا اسلحہ خرید رہا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے بھارتی حکومت نے دو سے 3 ارب ڈالر کے اسلحے کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان کے حکمران طاقت کے بگڑتے ہوئے اس توازن کو متوازن بنانے کے لیے یقیناً اسلحے کی خریداری کے کسی بڑے معاہدے کی تیاری کررہے ہوں گے۔
پاکستان اس خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا قبرستان بنا ہوا ہے، جہاں ہر روز درجنوں بے گناہ انسان دفن ہورہے ہیں۔ مذہبی نفرتیں مذہب کی سرحدوں کو عبور کرکے اب فقہوں اور قومیتوں کی نفرتوں کے دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہیں۔ پہلے ہندو مسلمان کو اور مسلمان ہندو کو بے رحمی سے قتل کرتے تھے اب اس سے زیادہ بے رحمی سے مسلمان، مسلمان کو قتل کر رہا ہے۔ ان افسوس ناک زمینی حقائق کا احساس کرکے بھارتی حکمران طبقہ ان بلاؤں کی جڑ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی مخلصانہ کوششیں کرنے کے بجائے ممبئی حملوں کی عینک لگا کر ساون کا اندھا بنا ہوا ہے۔
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس بھارتی پالیسی کے جواب میں دفاع پاکستان کونسل بنا رہی ہے، کالعدم تنظیموں کے رہنما اور ٹارگٹ کلرز شہروں میں سرگرم عمل ہیں اور ان کی یہ سرگرمیاں پاکستانی عوام کے ذہنوں کو مسموم کر رہی ہیں۔دونوں ملکوں میں جرائم کی بھرمار ہے، پاکستان میں ملالہ پر گولیاں چلائی جارہی ہیں تو بھارت میں نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرکے اجتماعی آبروریزی کی جارہی ہے، دونوں ملکوں کے 98 فیصد عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں اور حکمران طبقات اربوں کی کرپشن سے اپنی دولت کی بھوک مٹانے میں مصروف ہیں۔
کراچی اور دہلی میں مایوس عوام سڑکوں پر آکر اپنے غصے اور نفرت کا اظہار کر رہے ہیں کیا ان بدترین مسائل پر ہندوستانی اور پاکستان کے اہل قلم، قلم اٹھا رہے ہیں؟ یہی دیکھنے کے لیے ہم ایکسپو سینٹر میں لگی کتابوں کی نمائش دیکھنے گئے تھے لیکن کم ازکم بھارت کی ادبی کتابیں خریدنے کی ہماری آرزو پوری نہ ہوسکی۔ بھارتی پبلشرز کی یہ شکایت کہ ان کی کتابوں کو نمائش میں پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔
ہمارے ملک کے ادبی اداروں کی ''ادب نوازی'' ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ اس وقت ہمارا ملک جرائم، دہشت گردی، انتہا پسندی کے جن عذابوں میں لتھڑا ہوا ہے انھیں ختم کرنے کی حکومتی کوششیں تو ناکام ہورہی ہیں، اس مایوسی کے ماحول میں ادب ہی ایک ایسا وسیلہ رہ جاتا ہے جو ملک اور معاشرے کو ان عذابوں سے بچانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے لیکن ادبی اداروں پر ایسے غیر ادبی وڈیروں کا قبضہ ہے جنھیں ادب سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ایک وڈیرے کو ہاریوں سے ہوسکتی ہے۔ان اداروں کو کروڑوں روپوں کے فنڈ مل رہے ہیں لیکن انھیں صرف فن پر صرف کیا جارہا ہے ادب کا اس میں حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
ہمارے بعض اہل اور ادب نواز لوگوں کی طرف سے ادبی کلچر کے فروغ کی ضرورت پر بیانات تو آتے ہیں لیکن ادبی کلچر صرف بیانات اور تقاریر سے فروغ نہیں پاتا اس کے لیے وسائل اور عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور ماشاء اﷲ ان ادب نواز دوستوں کے پاس وسائل بھی ہیں اور اس کلچر کے فروغ کے لیے درکار منظم کام کی صلاحیت بھی ہے۔ کیا ادبی کلچر کے فروغ کا مسئلہ بیانات سے نکل کر عمل کی طرف آئے گا؟
ادب میں حیوانوں کو انسان بنانے کی طاقت ہوتی ہے، ماضی میں ادب اپنی اس طاقت کا مظاہرہ بھی کرتا رہا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ اس میدان کو ''اچھا ادب نہیں لکھا جارہا'' کہہ کر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اس قسم کی مایوسیاں پھیلانے والوں کی منطق کا اندازہ اس بدنما حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ آئی کون اپنی انا کی مچان پر بیٹھ کر یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاس آج کے ادب، آج کی شاعری کے مطالعے کا وقت ہی نہیں، نہ انھیں یہ علم ہے کہ کون کیا لکھ رہا ہے۔ پھر یہ فیصلہ کرنے میں یہ حضرات کس قدر حق بجانب ہیں کہ ''اچھا ادب تخلیق ہی نہیں ہورہا ہے''۔
پچھلے دنوں میڈیا میں یہ خبریں چھپیں کہ غالب، منیر نیازی اور پروین شاکر کی برسیاں آئیں اور خاموشی سے گزرگئیں۔ کسی ادبی ادارے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ان کی یاد تازہ کرنے کا اہتمام کرتا۔ ادبی اداروں کے ان رویوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادب کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والوں کے پاس ادب کی کیا اہمیت ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارت کے شہروں میں غالب کی برسی کا بھرپور انداز میں اہتمام کیا گیا۔ کیا دن رات بھارت پر لعن طعن کرنے والوں کو بھارت میں غالب کی عزت و توقیر اور پاکستان میں غالب سے مجرمانہ خاموشی کا اندازہ ہے؟
بچے، نوجوان، مرد اور خواتین بڑی دلچسپی سے اپنی اپنی پسند کی کتابیں خرید رہے تھے۔ البتہ کتابوں کی قیمتوں میں جس کمی کا چرچہ تھا وہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ ہم نے سن رکھا تھا کہ بھارت میں اچھا ادب لکھا جارہا ہے اور اردو میں ان کے ترجمے بھی شایع ہورہے ہیں، ہماری اس نمائش میں شرکت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہم بھارت میں شایع ہونے والی ادبی کتابوں سے استفادہ کرنا چاہتے تھے۔
جب بھارتی اسٹال کا پتہ کرکے ہم اسٹال پر پہنچے تو یہ دیکھ کر بڑی حیرت اور مایوسی ہوئی کہ بھارت کا اسٹال خالی پڑا تھا، کچھ نوجوان اسٹال کے ایک حصے میں لنچ کر رہے تھے۔ ہم نے سوچا کہ نمائش کا چونکہ آخری دن ہے اور شام بھی ہونے کو ہے شاید بھارتی پبلشرز اپنی کتابیں پیک کرنے میں لگے ہوں لیکن اسٹال پر موجود ایک نوجوان سے جب ہم نے اسٹال خالی ہونے کی وجہ پوچھی تو اس نے تلخ لہجے میں کہا کہ ہماری کتابوں کو کلیئر ہی نہیں کیا گیا۔ اسٹال خالی ہونے کی یہ وجہ سن کر ہمیں بڑی مایوسی ہوئی۔
ہمارا ملک ہی نہیں بلکہ اس خطے کے دوسرے ممالک رنگ، نسل، زبان اور عقائدی اختلافات کی وجہ سے جن مسائل کا شکار ہیں ان کو حل کرنے کی سرکاری سطح پر تو کوششیں ہورہی ہیں لیکن ان کوششوں کے نتائج مایوس کن ہی نظر آرہے ہیں۔ خاص طور پر پاکستان اور بھارت کے درمیان 65 سال سے جو کشیدگی موجود ہے اسے دور کرنے میں حکمران طبقات اور سیاستدان تو ناکام ہوگئے ہیں۔ تقسیم کے بعد اور تقسیم سے پہلے جو ادب لکھا گیا اس کا عمومی طور پر موضوع تقسیم کے نتیجے میں ہونے والی قتل و غارت کے المیے اور تقسیم ہوجانے والے خاندانوں کی المناکیاں تھیں۔
ادیبوں کی اس کھیپ نے انتہائی ذمے داری سے اپنے ادب اور شاعری میں ان المیوں کو اتنے موثر انداز میں پیش کیا کہ انسان حیوانیت سے واپس انسانیت کی طرف سفر کرنے لگا لیکن یہ سلسلہ اس لیے رک گیا کہ متحدہ ہندوستان کی اس کھیپ کے گزر جانے کے بعد دونوں ملکوں میں ایسے ادیب اور شاعر پیدا نہ ہوسکے جو اس خلا کو پُر کرسکیں اور نئے ابھرنے والے مسائل کو اپنا موضوع بناسکیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ادبی زندگی میں ایک سناٹا چھایا ہوا ہے۔ تقسیم کے حوالے سے جنم لینے والی نفرتیں وقت کی راکھ میں دبی ہوئی ہیں اور دونوں ملکوں میں موجود مذہبی انتہاپسند وقت کی راکھ میں دبی ہوئی ان چنگاریوں کو شعلوں میں بدلنے کی مجنونانہ کوششیں کر رہے ہیں۔ ان کوششوں کی آگ پر دہشت گردی تیل بن کر گر رہی ہے۔
دونوں ملکوں کے غریب عوام قریب آنے کی خواہشوں کے باوجود قریب نہیں آ پارہے ہیں کیونکہ راستے میں کشمیر کا مسئلہ ایک مضبوط آہنی دیوار کی طرح کھڑا ہے اور دونوں ملکوں کے انتہا پسند اس دیوار کو نفرتیں پھیلانے کے مورچے کی طرح استعمال کر رہے ہیں۔ عدم اعتماد کی دھند نے عقل و خرد سے محروم دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو اسلحے کی دوڑ میں اس طرح ملوث کردیا ہے کہ غریب ملکوں کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ اس اندھی دوڑ پر صرف ہورہا ہے۔ اگنی، پرتھوی، غوری اور حتف میزائلوں کا مقابلہ جاری ہے۔
بھارت جہاں کی آبادی کا 40 فیصد سے زیادہ حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے اربوں ڈالر کا اسلحہ خرید رہا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے بھارتی حکومت نے دو سے 3 ارب ڈالر کے اسلحے کی خریداری کا معاہدہ کیا ہے۔ پاکستان کے حکمران طاقت کے بگڑتے ہوئے اس توازن کو متوازن بنانے کے لیے یقیناً اسلحے کی خریداری کے کسی بڑے معاہدے کی تیاری کررہے ہوں گے۔
پاکستان اس خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا قبرستان بنا ہوا ہے، جہاں ہر روز درجنوں بے گناہ انسان دفن ہورہے ہیں۔ مذہبی نفرتیں مذہب کی سرحدوں کو عبور کرکے اب فقہوں اور قومیتوں کی نفرتوں کے دلدل میں دھنستی چلی جارہی ہیں۔ پہلے ہندو مسلمان کو اور مسلمان ہندو کو بے رحمی سے قتل کرتے تھے اب اس سے زیادہ بے رحمی سے مسلمان، مسلمان کو قتل کر رہا ہے۔ ان افسوس ناک زمینی حقائق کا احساس کرکے بھارتی حکمران طبقہ ان بلاؤں کی جڑ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی مخلصانہ کوششیں کرنے کے بجائے ممبئی حملوں کی عینک لگا کر ساون کا اندھا بنا ہوا ہے۔
پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اس بھارتی پالیسی کے جواب میں دفاع پاکستان کونسل بنا رہی ہے، کالعدم تنظیموں کے رہنما اور ٹارگٹ کلرز شہروں میں سرگرم عمل ہیں اور ان کی یہ سرگرمیاں پاکستانی عوام کے ذہنوں کو مسموم کر رہی ہیں۔دونوں ملکوں میں جرائم کی بھرمار ہے، پاکستان میں ملالہ پر گولیاں چلائی جارہی ہیں تو بھارت میں نوجوان لڑکیوں کو اغوا کرکے اجتماعی آبروریزی کی جارہی ہے، دونوں ملکوں کے 98 فیصد عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں اور حکمران طبقات اربوں کی کرپشن سے اپنی دولت کی بھوک مٹانے میں مصروف ہیں۔
کراچی اور دہلی میں مایوس عوام سڑکوں پر آکر اپنے غصے اور نفرت کا اظہار کر رہے ہیں کیا ان بدترین مسائل پر ہندوستانی اور پاکستان کے اہل قلم، قلم اٹھا رہے ہیں؟ یہی دیکھنے کے لیے ہم ایکسپو سینٹر میں لگی کتابوں کی نمائش دیکھنے گئے تھے لیکن کم ازکم بھارت کی ادبی کتابیں خریدنے کی ہماری آرزو پوری نہ ہوسکی۔ بھارتی پبلشرز کی یہ شکایت کہ ان کی کتابوں کو نمائش میں پیش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔
ہمارے ملک کے ادبی اداروں کی ''ادب نوازی'' ایک سوالیہ نشان بن گئی ہے۔ اس وقت ہمارا ملک جرائم، دہشت گردی، انتہا پسندی کے جن عذابوں میں لتھڑا ہوا ہے انھیں ختم کرنے کی حکومتی کوششیں تو ناکام ہورہی ہیں، اس مایوسی کے ماحول میں ادب ہی ایک ایسا وسیلہ رہ جاتا ہے جو ملک اور معاشرے کو ان عذابوں سے بچانے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے لیکن ادبی اداروں پر ایسے غیر ادبی وڈیروں کا قبضہ ہے جنھیں ادب سے اتنی ہی دلچسپی ہے جتنی ایک وڈیرے کو ہاریوں سے ہوسکتی ہے۔ان اداروں کو کروڑوں روپوں کے فنڈ مل رہے ہیں لیکن انھیں صرف فن پر صرف کیا جارہا ہے ادب کا اس میں حصہ آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
ہمارے بعض اہل اور ادب نواز لوگوں کی طرف سے ادبی کلچر کے فروغ کی ضرورت پر بیانات تو آتے ہیں لیکن ادبی کلچر صرف بیانات اور تقاریر سے فروغ نہیں پاتا اس کے لیے وسائل اور عملی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے اور ماشاء اﷲ ان ادب نواز دوستوں کے پاس وسائل بھی ہیں اور اس کلچر کے فروغ کے لیے درکار منظم کام کی صلاحیت بھی ہے۔ کیا ادبی کلچر کے فروغ کا مسئلہ بیانات سے نکل کر عمل کی طرف آئے گا؟
ادب میں حیوانوں کو انسان بنانے کی طاقت ہوتی ہے، ماضی میں ادب اپنی اس طاقت کا مظاہرہ بھی کرتا رہا ہے۔ دکھ یہ ہے کہ اس میدان کو ''اچھا ادب نہیں لکھا جارہا'' کہہ کر نظرانداز کیا جارہا ہے۔ اس قسم کی مایوسیاں پھیلانے والوں کی منطق کا اندازہ اس بدنما حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ آئی کون اپنی انا کی مچان پر بیٹھ کر یہ حقیقت بھول جاتے ہیں کہ ان کے پاس آج کے ادب، آج کی شاعری کے مطالعے کا وقت ہی نہیں، نہ انھیں یہ علم ہے کہ کون کیا لکھ رہا ہے۔ پھر یہ فیصلہ کرنے میں یہ حضرات کس قدر حق بجانب ہیں کہ ''اچھا ادب تخلیق ہی نہیں ہورہا ہے''۔
پچھلے دنوں میڈیا میں یہ خبریں چھپیں کہ غالب، منیر نیازی اور پروین شاکر کی برسیاں آئیں اور خاموشی سے گزرگئیں۔ کسی ادبی ادارے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ ان کی یاد تازہ کرنے کا اہتمام کرتا۔ ادبی اداروں کے ان رویوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ادب کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والوں کے پاس ادب کی کیا اہمیت ہے۔ اطلاعات کے مطابق بھارت کے شہروں میں غالب کی برسی کا بھرپور انداز میں اہتمام کیا گیا۔ کیا دن رات بھارت پر لعن طعن کرنے والوں کو بھارت میں غالب کی عزت و توقیر اور پاکستان میں غالب سے مجرمانہ خاموشی کا اندازہ ہے؟