جسٹس قیوم کی رپورٹ اور حالیہ فکسنگ کیس

وہ کھلاڑی جنہوں نے ملکی کرکٹ کو نہیں بیچا انھیں کوئی نہیں پوچھتا۔


Saleem Khaliq March 14, 2017
وہ کھلاڑی جنہوں نے ملکی کرکٹ کو نہیں بیچا انھیں کوئی نہیں پوچھتا ۔ فوٹو فائل

''آپ کو افسوس تو ہوتا ہوگا کہ اتنی محنت سے تحقیقات کیں مگر کوئی فائدہ نہ ہوا، وہ سب لوگ جنھیں سزائیں ہوئیں اب کسی نہ کسی انداز میں کرکٹ سے منسلک ہو چکے ہیں'' شاید ایک سال یا اس سے بھی پرانی بات ہے جب لاہور میں میرے اپنے دیرینہ ساتھی عباس رضا کے ساتھ جسٹس قیوم سے ملاقات ہوئی اور ان سے میچ فکسنگ اسکینڈل کی تحقیقات اور رپورٹ پر کافی دیر تک تفصیلی گفتگو ہوتی رہی، جانے سے قبل جب میں نے ان سے مذکورہ جملہ کہا تو انھوں نے گہری سوچ میں گم ہونے کے بعد جواب دیا ''ایک جج اور وکیل کے طور پر ہمارا کام کسی نتیجے پر پہنچ کر درست رائے دینا اور انصاف کے تقاضے پورے کرنا ہے، فیصلے پر عملدرآمد حکومت اور اداروں کی ذمے داری ہے، کمیشن کی رپورٹ سامنے آنے پر اس وقت تو تھوڑے بہت اقدامات اٹھائے گئے تھے، بعد میں حکام نے اسے نظر انداز کردیا جسے بدقسمتی ہی کہوں گا، مایوسی تو ہوتی ہے کہ کیا بورڈ کو ملکی کرکٹ کی خدمت کیلیے اچھے لوگ نہیں مل سکتے تھے''۔

قارئین آپ میں سے بہت سے لوگ جسٹس قیوم کی رپورٹ سے شاید زیادہ واقف نہ ہوں، میں بتاتا چلوں کہ انھوں نے ستمبر 1998میں میچ فکسنگ کی تحقیقات کا آغاز کیا اور 18ماہ بعد رپورٹ تیار کر کے بورڈ کو دی، اس دوران انھوں نے 33افراد، 3آسٹریلوی پلیئرز، 4صحافیوں اور 13پولیس حکام و دیگر متعلقہ شخصیات کے بیانات لیے، مشکوک میچز کی فہرست میں شامل ایک ایک مقابلے پر غورکیا گیا، تحقیقات مکمل ہونے پر سلیم ملک اور عطا الرحمان تاحیات پابندی کے سزاوار ٹھہرے، وقار یونس، مشتاق احمد، وسیم اکرم، انضمام الحق، اکرم رضا اور سعید انورپر جرمانے ہوئے۔ شکوک کی زد میں آنے والے بیشتر کھلاڑیوں کو آئندہ پاکستان کرکٹ میں اہم ذمے داریاں نہ دینے کی بھی سفارش ہوئی تھی لیکن سب ایک ایک کرکے عہدے حاصل کرتے گئے، وقار یونس کئی بار کوچ بن چکے، ان کے بارے میں عاقب جاوید کا بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ بکیز سے پجیرو جیپ لی تھی جسے بعد میں واپس کردیا،کچھ عرصے قبل ہی وہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا تیاپانچہ کرنے کے بعد کوچنگ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔

مشتاق کئی بار قومی ٹیم کے بولنگ کوچ بنے اور اب نیشنل کرکٹ اکیڈمی سے وابستہ ہیں، وسیم اکرم پی ایس ایل کے سفیر اور اسلام آباد یونائٹیڈ کے ٹیم ڈائریکٹر ہیں جس کے تین کھلاڑی اسپاٹ فکسنگ میں پکڑے گئے،انضمام الحق ان دنوں قومی کرکٹ کے چیف سلیکٹر ہیں۔ بورڈ کی کمزور پالیسی کے سبب 2010 کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل بھی سامنے آیا، سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف اسٹنگ آپریشن میں پکڑے جانے پر جیل کی ہوا کھانے پر مجبور ہوئے، پھر عامر واپس آئے تو دیگر کا بھی حوصلہ بڑھا کہ جب وہ پیسے کھا کر چند برس بعد دوبارہ ہیرو بن گیا تو ہم بھی بن سکتے ہیں، یہی سوچ پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ کیس کا سبب بنی، جسٹس قیوم کی رپورٹ کے وقت ہی اگر قصور وار کھلاڑیوں کیخلاف سخت ایکشن لیا جاتا تو شاید ہماری کرکٹ دوبارہ داغدار نہ ہوتی مگر افسوس ہم اس معاشرے کا حصہ ہیں جہاں کرپٹ لوگوں کو سر آنکھوں پر بٹھانا عام ہے۔

وہ کھلاڑی جنھوں نے ملکی کرکٹ کو نہیں بیچا انھیں کوئی نہیں پوچھتا، مشکوک ماضی والوں کو سیلوٹ کیے جاتے ہیں، اسی لیے اب بھی کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ سامنے آ جاتا ہے جس سے ہماری کرکٹ منفی خبروں کی زینت بنتی ہے، حکام سبق لینے کو تیار نہیں، حالیہ کیس کو ہی دیکھ لیں، شرجیل اور خالد کو فوراً معطل کر دیا مگر شکوک کے باوجود عرفان کھیلتے رہے، پی ایس ایل ختم ہونے کے بعد اب ان کی تحقیقاتی کمیٹی کے سامنے پیشی ہوئی اور معطل کیا گیا، اسی طرح شاہ زیب کو بھی یو اے ای سے واپس نہ بھیجا گیا، جس طرح عرفان کو مسلسل کھیلنے کا موقع دیا گیا اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے سر پر کسی بڑی شخصیت کا ہاتھ تھا، بورڈ حکام نے پی ایس ایل کے دوران انھیں معطل نہ کیا کیونکہ ان کے نزدیک ملکی عزت سے زیادہ لیگ اہم تھی، اگر پتلی گردن والے کو پکڑنے اور دیگر کو چھوڑنے کا سلسلہ جاری رہا تو بہتری کی کوئی امید نہ رکھیں، اچانک ایسے حیران کن نتائج سامنے آتے رہیں گے کہ لوگ دانتوں تلے انگلیاں دبا لیں گے، کامران اکمل کیخلاف سڈنی ٹیسٹ سمیت کئی معاملات کی تحقیقات ہوئیں مگر کچھ ثابت نہ ہوا، انھیں چیف سلیکٹر قومی کیمپ تک تو لے آئے اب فٹنس ثابت کر دی تو وہ بھی ویسٹ انڈیز کے ٹور پر چلے جائیں گے۔

سنا ہے انضمام الحق سے سلمان بٹ کی قومی ٹیم سے دوری بھی برداشت نہیں ہو رہی اور ٹیسٹ اسکواڈ میں انھیں شامل کرنے پر غور جاری ہے، اگر ایسا ہوا تو کسی کو حیران نہیں ہونا چاہیے، یہ اور بات ہے کہ سزا یافتہ سابق کپتان کئی برس تک جھوٹ بولتے رہے،ان کا اصرار تھا کہ کوئی غلط کام نہیں کیا، جب ہرکوشش ناکام ہو گئی تو آخرکار اعتراف کر لیا، چلیں عامر کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس نے کم از کم واقعے کے فوراً بعد شاہد آفریدی کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف تو کر لیا تھا، سلمان تو وہ شخص ہے جس نے قرآن پاک اٹھا کر جھوٹ بولا، ایسے انسان پر آپ کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ واپس آ کر پھرکسی منفی سرگرمی میں ملوث نہیں ہو گا، عامر کو گوروں سے کم عمری کے سبب ہمدردی ملی سلمان تو اسپاٹ فکسنگ کیس کے مرکزی کردار تھے، ان کو ایسا کوئی فائدہ حاصل نہ ہوگا، ڈومیسٹک کرکٹ میں دیگر پلیئرزبھی اچھا پرفارم کر رہے ہیں مگر حیرت ہے سلیکٹرز کو وہ نظر نہیں آتے، انھیں ایسے ہی کھلاڑی پسند ہیں جو ملک کی بدنامی کا باعث بن چکے، دانش کنیریا پر پابندی عاید ہے مگر انضمام کے بھائی بنکاک میں منعقدہ ایک ٹورنامنٹ میں انھیں کپتان بنا کر لے گئے، وہ بھی کسی دن سزا ختم کرانے میں کامیاب ہو گئے تو فوراً قومی کرکٹ ٹیم میں واپسی ہو جائے گی۔

ابھی ہم نے خود ہی نئی نسل کو پیغام دے دیا کہ جو کرنا ہے کرو، اول تو پکڑے نہیں جاؤ گے اور اگر پکڑے گئے تو بعد میں بچ نکلو گئے، بکیز بھی اب فخر سے کہتے ہوں گے دیکھو فلاں فلاں کھلاڑی ہمارے کام آیا مگر اب بھی کھیل رہا ہے، خیر اب ہم کیا کر سکتے ہیں جیسے '' پنکچرز'' کے ساتھ کرکٹ بورڈ کی ''بیحد پرانی'' گاڑی چل رہی ہے ویسے ہی چلتی رہے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں