جی ٹی روڈ پر سفر
مقامی سطح کے کسی لیڈر کی طرف سے 40لاکھ لوگوں کے لشکر کو خوش آمدید کہنے کی کوئی تیار ی نظر نہ آئی۔
BRIGHTON, UK:
لاہور اسلام آباد موٹروے بن جانے کے بعد ہمارے لوگوں کی اکثریت کو قدیمی جی ٹی روڈ سے سفر کرنا بہت اذیت ناک محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے ۔یہ بات درست ہے کہ اس موٹروے نے لاہور اور اسلام آباد کے درمیانی فاصلے کو تقریباََ سوکلومیٹر زیادہ کردیا ہے۔ لیکن دونوں طرف تین تین لین والی جدید سڑک نے ہمارے سفر کو کہیں زیادہ سبک رفتار ،محفوظ اور منظم بھی تو بنادیا ہے ۔اس شاہراہ کے دونوں طرف کے مناظر بھی بہت فرحت بخش ہیں اور یہاں تھوڑی دیر رکنے کے بعد تازہ دم کرنے والی سہولتیں بھی بڑی مناسب ،جدید اور صاف ستھری ہیں۔
ان سب خصوصیات اور سہولتوں کے باوجود میں اس موٹروے پر سفر کرتے ہوئے خود کو حقیقی پاکستان سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہوں اور جب بھی موقعہ ملے جی ٹی روڈ کو ترجیح دیتا ہوں ۔مگر گزشتہ پانچ سال سے مجھے یہ موقع ہی نہ مل سکا۔اب کی بار لاہور سے نکلا تو جی ٹی روڈ کی طرف مڑنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی اور میں نے اس سڑک سے گاڑی میں بیٹھ کر گزرتے ہوئے بہت ساری حقیقتوں کو دریافت کیا ۔سب سے اہم بات شاہدرہ سے جہلم تک دونوں طرف لگے ہوئے بڑے بڑے بورڈ تھے ۔
وہ اس بات کا بلند آہنگی سے اظہار کررہے تھے کہ وسطی پنجاب کے شہر،قصبے اور دیہات نئے انتخابات کے لیے تقریباََ تیار ہوچکے ہیں ۔سب سے زیادہ تعداد ان اشتہاروں کی تھی جن میں پا کستان مسلم لیگ کے مقامی عہدیدار اپنی اور اپنے مقامی سطح کے پرستاروں اور ساتھیوں کی تصویروں کے ساتھ نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کا بے تابی سے انتظار کرتے ہوئے پائے گئے ۔گوجرانوالہ سے سیالکوٹ ۔پسرور روڈ والا بائی پاس لیتے ہوئے البتہ عمران خان کے پرستاروں کی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی۔
ان میں سے کچھ لوگوں نے خود کو بڑے اعتماد کے ساتھ ''انشاء اللہ ایم این اے '' بھی قرار دے رکھا تھا ۔خود کو ''انشاء اللہ ایم این اے '' کہلوانے والے چند افراد البتہ یہ بھول بیٹھے تھے کہ ان کے حلقے سے قومی اسمبلی کا صرف ایک امیدوار ہی کامیاب ہوسکتا ہے ۔ان کی اس بھول نے مجھے اس خدشے میں مبتلا کردیا کہ تحریک انصاف کی ٹکٹ کی تقسیم کے وقت لاہور،گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے کافی حلقوں میں عمران خان کے چاہنے والے بہت سارے ''انشاء اللہ ایم این اے '' ایک دوسرے کے لتے لیتے نظر آئیں گے ۔
وزیر آباد کے قریب حامد ناصر چٹھہ کی موجودگی کا کچھ احساس بھی ہونا شروع ہوگیا اور گجرات سے کھاریاں تک آتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (قاف) کی توانا موجودگی نظر آئی۔پاکستان پیپلز پارٹی نامی جماعت کا وجود صرف امتیاز صفدر وڑائچ کے حلقے میں ہی محسوس ہوا ۔
کینیڈا سے آئے قادری نے 13جنوری سے اسلام آباد کی طرف اسی سڑک سے مارچ کرنا ہے۔ جی ٹی روڈ کے دونوں طرف ان کی تصویروں والے بورڈ بھی موجود ہیں ۔مگر ان پر نام اور تصویر صرف ''قائد انقلاب'' کی ہے ۔ مقامی سطح کے کسی لیڈر کی طرف سے 40لاکھ لوگوں کے لشکر کو خوش آمدید کہنے کی کوئی تیار ی نظر نہ آئی۔ صرف گوجرخان کے قریب آتے ہوئے محسوس ہوا کہ اس شہر میں ایک پیر صاحب ہیں جو اپنے مریدین کی ایک کافی تعداد کے ساتھ''قائد انقلاب'' کے مارچ میں شمولیت کا بے تابی سے انتظار کررہے ہیں۔
اسی شہر میں لیکن وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی موجودگی کا بڑی شدت سے پتہ بھی چلتا ہے۔ چائے کے ایک کپ کے لیے رکنے کے بعد یہ بھی محسوس ہوا کہ یہاں کے لوگ اپنے ایک ''گرائیں'' کے وزیراعظم بن جانے پر بہت فخر محسوس کررہے ہیں۔جن مقامی لوگوں سے میری گفتگو ہوئی، ان کی اکثریت نے اس بات کا اعتراف کیا کہ نواز شریف کے مقامی چوہدریوں کے مقابلے میں وزیر اعظم کے بھائی راجہ جاوید اشرف لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل سننے اور ان کا حل ڈھونڈنے میں مدد دینے کو ہر وقت میسر رہتے ہیں ۔
نوازشریف کی سرپرستی میں کام کرنے والے لوگوں کے مقابلے میں وہ افسروں پر دھونس جماکر ''ناجائز کام'' نہیں کراتے۔ مہذب اور ملنسار ہیں ۔20جنوری کو وزیراعظم کے بیٹے کی شادی ہے۔ اس کی تیاریاں دس دن پہلے سے شروع ہوگئی ہیں۔ جمعرات کو وزیراعظم اپنی اہلیہ کے ہمراہ ڈھولک یا مایوں کی کسی تقریب کے لیے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنے آبائی گھر گئے تھے ۔ان کی وہاں موجودگی کے باوجود گوجرخان میں نہ تو پروٹوکول کا کوئی کروفردکھائی دیا نہ ہی سیکیورٹی کے نام پر عوام کو جھنجلادینے والے ٹریفک بلاک۔ گوجرخان گزرنے کے بعد فضا ایک بار پھر نواز شریف اور ان کی جماعت کے بھاری بھر کم اور متحرک وجود کا پتہ دینے لگی اور عمران خان کی جماعت کی طرف سے ان کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں بھی ۔
دیواروں پر لکھے اشتہاروں اور کھمبوں پر لٹکے بینروں کے ذریعے کچھ سیاسی پیغامات وصول کرنے کے بعد مجھے یہ دریافت کرنے پر بھی بہت خوشی ہوئی کہ لالہ موسیٰ سے جہلم تک سڑک کے دونوں طرف دنیا بھر میں معروف برانڈ والے کپڑوں اور جوتوں کے بڑے بڑے اسٹور بن گئے ہیں ۔ان کی موجودگی سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والوں کو یورپ اور امریکا میں موجود اپنے عزیزوں کا محض اس وجہ سے انتظار کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ وہ اپنے ساتھ ان کے لیے معروف ناموں والے تحفے بھی لائیں گے۔
سب کچھ یہی میسر ہے اور مناسب نرخوں پر۔کبھی پسماندہ اور باقی دنیا سے کٹے ہوئے قصبے اب گلوبل ولیج کا خوش حال اور آسودہ حصہ بن چکے ہیں ۔مگر ان اسٹوروں کے اِرد گرد عام لوگوں سے گفتگو کرنے کے بعد احساس ہوا کہ آیندہ انتخابات میں ووٹ اب بھی دھڑے اور برادری کی بنیاد پر دیا جائے گا۔ "Levis"کے کپڑے او رجوتے پہن کر بھی گوجر گوجر ہے، راجپوت راجپوت اور جاٹ کا اپنا مان ہے ۔
لاہور اسلام آباد موٹروے بن جانے کے بعد ہمارے لوگوں کی اکثریت کو قدیمی جی ٹی روڈ سے سفر کرنا بہت اذیت ناک محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے ۔یہ بات درست ہے کہ اس موٹروے نے لاہور اور اسلام آباد کے درمیانی فاصلے کو تقریباََ سوکلومیٹر زیادہ کردیا ہے۔ لیکن دونوں طرف تین تین لین والی جدید سڑک نے ہمارے سفر کو کہیں زیادہ سبک رفتار ،محفوظ اور منظم بھی تو بنادیا ہے ۔اس شاہراہ کے دونوں طرف کے مناظر بھی بہت فرحت بخش ہیں اور یہاں تھوڑی دیر رکنے کے بعد تازہ دم کرنے والی سہولتیں بھی بڑی مناسب ،جدید اور صاف ستھری ہیں۔
ان سب خصوصیات اور سہولتوں کے باوجود میں اس موٹروے پر سفر کرتے ہوئے خود کو حقیقی پاکستان سے کٹا ہوا محسوس کرتا ہوں اور جب بھی موقعہ ملے جی ٹی روڈ کو ترجیح دیتا ہوں ۔مگر گزشتہ پانچ سال سے مجھے یہ موقع ہی نہ مل سکا۔اب کی بار لاہور سے نکلا تو جی ٹی روڈ کی طرف مڑنے میں کوئی رکاوٹ نہ تھی اور میں نے اس سڑک سے گاڑی میں بیٹھ کر گزرتے ہوئے بہت ساری حقیقتوں کو دریافت کیا ۔سب سے اہم بات شاہدرہ سے جہلم تک دونوں طرف لگے ہوئے بڑے بڑے بورڈ تھے ۔
وہ اس بات کا بلند آہنگی سے اظہار کررہے تھے کہ وسطی پنجاب کے شہر،قصبے اور دیہات نئے انتخابات کے لیے تقریباََ تیار ہوچکے ہیں ۔سب سے زیادہ تعداد ان اشتہاروں کی تھی جن میں پا کستان مسلم لیگ کے مقامی عہدیدار اپنی اور اپنے مقامی سطح کے پرستاروں اور ساتھیوں کی تصویروں کے ساتھ نواز شریف کے وزیر اعظم بننے کا بے تابی سے انتظار کرتے ہوئے پائے گئے ۔گوجرانوالہ سے سیالکوٹ ۔پسرور روڈ والا بائی پاس لیتے ہوئے البتہ عمران خان کے پرستاروں کی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی۔
ان میں سے کچھ لوگوں نے خود کو بڑے اعتماد کے ساتھ ''انشاء اللہ ایم این اے '' بھی قرار دے رکھا تھا ۔خود کو ''انشاء اللہ ایم این اے '' کہلوانے والے چند افراد البتہ یہ بھول بیٹھے تھے کہ ان کے حلقے سے قومی اسمبلی کا صرف ایک امیدوار ہی کامیاب ہوسکتا ہے ۔ان کی اس بھول نے مجھے اس خدشے میں مبتلا کردیا کہ تحریک انصاف کی ٹکٹ کی تقسیم کے وقت لاہور،گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے کافی حلقوں میں عمران خان کے چاہنے والے بہت سارے ''انشاء اللہ ایم این اے '' ایک دوسرے کے لتے لیتے نظر آئیں گے ۔
وزیر آباد کے قریب حامد ناصر چٹھہ کی موجودگی کا کچھ احساس بھی ہونا شروع ہوگیا اور گجرات سے کھاریاں تک آتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (قاف) کی توانا موجودگی نظر آئی۔پاکستان پیپلز پارٹی نامی جماعت کا وجود صرف امتیاز صفدر وڑائچ کے حلقے میں ہی محسوس ہوا ۔
کینیڈا سے آئے قادری نے 13جنوری سے اسلام آباد کی طرف اسی سڑک سے مارچ کرنا ہے۔ جی ٹی روڈ کے دونوں طرف ان کی تصویروں والے بورڈ بھی موجود ہیں ۔مگر ان پر نام اور تصویر صرف ''قائد انقلاب'' کی ہے ۔ مقامی سطح کے کسی لیڈر کی طرف سے 40لاکھ لوگوں کے لشکر کو خوش آمدید کہنے کی کوئی تیار ی نظر نہ آئی۔ صرف گوجرخان کے قریب آتے ہوئے محسوس ہوا کہ اس شہر میں ایک پیر صاحب ہیں جو اپنے مریدین کی ایک کافی تعداد کے ساتھ''قائد انقلاب'' کے مارچ میں شمولیت کا بے تابی سے انتظار کررہے ہیں۔
اسی شہر میں لیکن وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی موجودگی کا بڑی شدت سے پتہ بھی چلتا ہے۔ چائے کے ایک کپ کے لیے رکنے کے بعد یہ بھی محسوس ہوا کہ یہاں کے لوگ اپنے ایک ''گرائیں'' کے وزیراعظم بن جانے پر بہت فخر محسوس کررہے ہیں۔جن مقامی لوگوں سے میری گفتگو ہوئی، ان کی اکثریت نے اس بات کا اعتراف کیا کہ نواز شریف کے مقامی چوہدریوں کے مقابلے میں وزیر اعظم کے بھائی راجہ جاوید اشرف لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مسائل سننے اور ان کا حل ڈھونڈنے میں مدد دینے کو ہر وقت میسر رہتے ہیں ۔
نوازشریف کی سرپرستی میں کام کرنے والے لوگوں کے مقابلے میں وہ افسروں پر دھونس جماکر ''ناجائز کام'' نہیں کراتے۔ مہذب اور ملنسار ہیں ۔20جنوری کو وزیراعظم کے بیٹے کی شادی ہے۔ اس کی تیاریاں دس دن پہلے سے شروع ہوگئی ہیں۔ جمعرات کو وزیراعظم اپنی اہلیہ کے ہمراہ ڈھولک یا مایوں کی کسی تقریب کے لیے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اپنے آبائی گھر گئے تھے ۔ان کی وہاں موجودگی کے باوجود گوجرخان میں نہ تو پروٹوکول کا کوئی کروفردکھائی دیا نہ ہی سیکیورٹی کے نام پر عوام کو جھنجلادینے والے ٹریفک بلاک۔ گوجرخان گزرنے کے بعد فضا ایک بار پھر نواز شریف اور ان کی جماعت کے بھاری بھر کم اور متحرک وجود کا پتہ دینے لگی اور عمران خان کی جماعت کی طرف سے ان کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں بھی ۔
دیواروں پر لکھے اشتہاروں اور کھمبوں پر لٹکے بینروں کے ذریعے کچھ سیاسی پیغامات وصول کرنے کے بعد مجھے یہ دریافت کرنے پر بھی بہت خوشی ہوئی کہ لالہ موسیٰ سے جہلم تک سڑک کے دونوں طرف دنیا بھر میں معروف برانڈ والے کپڑوں اور جوتوں کے بڑے بڑے اسٹور بن گئے ہیں ۔ان کی موجودگی سے صاف پتہ چل جاتا ہے کہ ان علاقوں میں رہنے والوں کو یورپ اور امریکا میں موجود اپنے عزیزوں کا محض اس وجہ سے انتظار کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہی کہ وہ اپنے ساتھ ان کے لیے معروف ناموں والے تحفے بھی لائیں گے۔
سب کچھ یہی میسر ہے اور مناسب نرخوں پر۔کبھی پسماندہ اور باقی دنیا سے کٹے ہوئے قصبے اب گلوبل ولیج کا خوش حال اور آسودہ حصہ بن چکے ہیں ۔مگر ان اسٹوروں کے اِرد گرد عام لوگوں سے گفتگو کرنے کے بعد احساس ہوا کہ آیندہ انتخابات میں ووٹ اب بھی دھڑے اور برادری کی بنیاد پر دیا جائے گا۔ "Levis"کے کپڑے او رجوتے پہن کر بھی گوجر گوجر ہے، راجپوت راجپوت اور جاٹ کا اپنا مان ہے ۔