آ ئیے اسلام آبا د تبا ہ کریں

14جنو ر ی کو پا کستا ن کی ریاست کا دارالخلافہ مفلوج کرنے کی مکمل تیا ر ی ہو چکی ہے۔


Syed Talat Hussain January 11, 2013
www.facebook.com/syedtalathussain.official

لاہور: جب سے سلطنتوں کی تاریخ تحریری طور پر رقم ہونا شروع ہوئی ہے، تمام مورخین اس پر متفق ہیں کہ کسی بھی ریاست اور اس کے زیر دست صوبوں اور دوسرے اندرونی ڈھانچوں کے مستقبل کا تعین اُس ملک کے دارالخلافہ کے حالات سے لگایا جا سکتا ہے ۔ سلطنت کی عظمت ، ترقی اور استحکام کو جاننے کے لیے پوری سلطنت کا دورہ کرنا ضروری نہیں۔ دارالسلطنت یا مرکز حکومت اگر مطلق العنا نی کا شکار نہیں ہے تو یہ امید کی جا سکتی ہے کہ بدترین خر وج وبغاوت پربھی قابو پایا جا سکتا ہے اور خراب حالات کے باوجود بہتری کی گنجا ئش یقیناًموجود ہے۔

اسی وجہ سے جنگو ں میں کوئی بھی شکست اس وقت تک حتمی نہیں سمجھی جاتی جب تک مرکز کو زیر نہ کیا جائے ۔ موجودہ دور میں کا بل، بغداد ، ترپولی ، قا ہرہ اور آج کل د مشق چند ایک مثالیں ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ ٹمٹماتی ہوئی حکومتیں اور ڈگمگاتے ہوئے نظام کی آخری سانس طاقت کے مرکزاس شہر سے جڑ ی ہوتی ہے جس میں حکومت کی بنیاد اور سلطنت کا انتظام موجود ہوتا ہے ۔ دارالخلافہ کا ڈ ھے جا نایا مفلوج ہو جانا اختتام ریاست کی ابتدا ہوتی ہے اوریہ حکمران کے بے اختیار ہونے کی سب سے بڑی دلیل بھی ہوتی ہے ۔

اگر چہ متحد ہ قو می مو و منٹ نے ڈ اکٹر طا ہر ا لقا د ر ی کو اپنے ڈ ر و ن کا نشا نہ بنا د یا ہے مگر آ خر ی خبریں آ نے تک 14جنو ر ی کو پا کستا ن کی ر یا ست کا دارالخلافہ مفلوج کرنے کی مکمل تیا ر ی ہو چکی ہے۔ ظاہری طور پر سب کچھ جوں کا توں ہے اور انتظامی ڈھانچہ اپنی میٹنگز اور پھر معمولی تیاریوں کے ذریعے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے مگر اصل میں یہ شہر ڈ ا کٹر طا ہر ا لقا د ر ی کے لا نگ ما ر چ کے سا منے آ ہستہ آ ہستہ ڈھیر ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے ۔ اگر ما ر چ ہو ا تو اسکول و کالج بند ہوں گے، سڑکوں پر کسی قسم کی کوئی گاڑی نہیں چلے گی۔

سارے بازارسنسا ن ہوں گے اور اسپتالوں تک پہنچنا ممکن نہیں ہوگا، اگر اس دوران کسی کے گھرفوتگی ہو جائے تو جنازہ پڑھانے کے لیے خاص اجازت درکار ہو گی۔ اگر مارچ ہوا تو سڑکوں پر ہجوم کا راج ہو گا، اس کے درمیان موجود ایک غیر ملکی شہریت رکھنے والا شخص یہ فیصلہ کرے گا کہ اُ س نے دارالخلافہ میں زندگی معمول پرکب واپس لا نی ہے اور اگر اس دوران کوئی دہشت گرد یا مختلف گروہ خود کش حملے کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر ہزاروں(یا لاکھوں اگر قادری صاحب کے پہلے د عو ئو ں کو ا ہمیت د ی جا ئے ) افراد یہاں پر دندناتے پھریں گے اور ان کے بھڑکے ہوئے جذبات پر کوئی قابو نہ پا سکے گا اور طو ا ئف ا لملو کی عروج پرہو گی ۔

دنیا میں کوئی ملک اپنے دارالخلافہ کو اتنی فراخدلی سے باہر سے آنے والوں کے سامنے نہیں پھینک دیتا جیسے کہ اس مملکتِ خدا داد میں روایت بن گئی ہے، اگر کوئی لیڈر لندن میں اپنے حق میں چھوٹا سا اور انتہائی شریفانہ مظاہرہ کرانا چاہے تو اس کے لیے با قاعدہ اجازت کے سات مراحل سے گزرنا پڑے گا، انتظامیہ جگہ وقت اور دورانیے کا تعین کرے گی اور اس پہلوکو پہلے سے طے کیا جائے گا کہ اس اجتماع ( جو عموماً چند درجن سے زائد افراد پر مبنی نہیں ہوتا ) کی نوعیت کیا ہوگی، دورانیہ ختم ہوتے ہی ان افراد کومنظم انداز میں گھروں کو واپس جانا ہو گا ۔

خلاف ورزی کرنے والے کو گُدی سے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ مظاہرے کے آمنے سامنے دائیں بائیں نہ کوئی گزرگاہ بند ہو گی اور نہ ہی کوئی اورشخص اپنے مقررہ کاموں کے اوقات میں ایک سیکنڈ کی تبد یلی کرنے پر مجبور ہو گا۔قادری صاحب کے ملک کینیڈا میں بھی تما م تر جمہوریت کے باوجود شہری انتظامیہ کی مرضی کے بغیروہ کسی فٹ پاتھ پر راستہ روک کر ایک لمحے کے لیے بھی کھڑے نہیں ہو سکتے، سڑک پر رکاوٹ کھڑی کرنا تو دورکی بات اور اگر وہ کسی روز ٹورانٹو پر چڑھائی کو اپنے بنیادی جمہوری حقوق کی اساس قرار دے کر دلائل دیں اور مصر ہوں کہ انھوں نے ہر حال میں ان حقوق کا استعمال کرنا ہے تو ان کی جگہ یا تو جیل ہو گی اور یاپھر نفسیاتی امراض کا وہ وارڈ جہاں پربسترکے ساتھ ہتھکڑیاں اور بیڑیاں موجود ہوتی ہیں۔

مگر چوں کہ پاکستان برطانیہ ہے اور نہ کینیڈا لہذا اس کا دارالخلافہ ہر قسم کی کارروائی کے لیے کھلا ہے جس کا دل چاہے وہ اس پر قبضہ کر لے' جو جب چاہے اس کو مفلوج کر دے، اگر آج طاہر القادری نے یہ سب کچھ کر نے کی د ھمکی د ی تھی تو کل اکوڑہ خٹک ' جماعت اسلامی اور ایم کیو ایم کو یہ سب کچھ کرنے سے کو ن ر و کے گا، اس سے اگلے روز کوئی اور ہو گا اور پھرعین ممکن ہے، ملک کے ہیجڑے اور خو اجہ سر اء اپنی قیا د ت کے کہنے پر شہر ی نا کہ بند ی کر دیں۔ اسلام آباد کے حالات سے اگر آپ پاکستان کی ریاست کو پرکھیں تو یقیناً خیر کی توقع کرنا چھوڑ دیں گے۔

صو بو ں کے حا لا ت آپ کے سا منے ہیں، کوئٹہ میں خو فنا ک اور اندو ہناک خو ن ر یز ی، سو ات میں خو فنا ک د ہشت گر د ی اور کر ا چی میں معمو ل کی ٹارگٹ کلنگ۔ اِ س بھیا نک تصو یر کو اگر مکمل کر نا ہو تو اسلام آ با د میں تہلکہ مچا نا ہو گا۔ نہ جانے ہم کن سرحدوں کا دفاع کر رہے ہیں، اس ریاست کا دارالخلافہ ایک مسلسل شورش کی زد میں ہے، اس کی فصیلیں کمزور اور بنیادیں ہلانے کی کوششیں جاری ہیں یہاں کے بزد لیر حکمران محفوظ پناہ گاہوں میں بیٹھ کر اس کی بربادی کا نظارہ کرتے اور ر سمی افسوس کا اظہار کرنے کے سوا کو ئی کا وش کر نے کو تیار نہیں۔

میر ا خیال ہے کہ اب ہمیں اسلا م آ با د ا یئر پورٹ کے باہر کچھ اِس قسم کے ا شتہا ر نصب کر نے چاہئیں ( اسلا م آ با د آ پ کا ہو ا، تما م ملکیو ں ،بر ائے نا م ملکیو ں اور غیر ملکیو ں کو دعوت ہے کہ اپنے بو ٹو ں اور لوٹوں سمیت تشر یف لا ئیں اور جہاں د ل چا ہے بیٹھ کر اپنا بوجھ ہلکا کر یں۔اِ س سے آ پ کے قد ر تی اور جمہوری حق کا ا ظہا ر ہو گا اور ر یا ست کے اختیا ر کو جا نچنے میں مد د ملے گی)اور آ خر میں اُن سا د ہ لو ح د و ستو ں کے لیے جو یہ سمجھ بیٹھے کہ 14 جنوری کے طوفان نو ح کے بعد ایک نئی تہذیب کی بنیاد ڈالی جائے گی، ان سے گزارش ہے کہ تاریخ ابن خلدون کی جلد اول میں بے بنیادمد عین ہد ایت ، مکار دین دار اور جعلی صو فیو ں کا ذ کر پڑ ھ لیں سب معا ملہ سمجھ میں آ جا ئے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں