وردی نہیں۔۔ سوچ اور کرتوت بدلیں
پنجاب پولیس کے حلقوں میں آجکل دو موضوعات زیرِ بحث ہیں
پنجاب پولیس کے حلقوں میں آجکل دو موضوعات زیرِ بحث ہیں، ایک سینٹرل پولیس آفس میں وزیرِ اعظم نواز شریف صاحب کا خطاب اور دوسرا آئی جی کی طرف سے پولیس یونیفارم تبدیل کرنے کا فیصلہ۔
اگر پولیس لیڈر شپ فدویانہ کے بجائے قائدانہ طرزِعمل کا مظاہرہ کرتی تو وزیرِاعظم کی تقریب میں شہداء (جنکا لہو ادارے کا سب سے قابلِ فخر سرمایہ ہے) کے ورثاء کو سب سے اگلی قطار میں بٹھایا جاتا اور ان کی وزیرِاعظم سے ملاقات بھی کرائی جاتی ۔ مگر افسوس کہ وہاں قوم کے محسنوں کے ورثاء کے بجائے وزیروں اور افسروں کو بٹھادیا گیا۔
وزیرِ اعظم نے اپنے خطاب میں ایک طرف سنگین جرائم اور دہشت گردی کے خلاف پولیس کے جرأتمندانہ کردار کو سراہا اور وطنِ عزیز میں قیامِ امن کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے شہداء کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کیا مگر دوسری طرف منتخب لیڈر کی حیثیّت سے عوم کے جذبات اور شہریوں کی شکایات کا بھی برملاذکر کیا انھوں نے پولیس کی سینئر کمانڈکو باور کرایا کہ" شہریوں کو، پولیس سے خصوصاً تھانوں میں تعیّنات اہلکاروں سے خاصی شکایات ہیں"۔ انھوں نے درست کہا کہ'' انصاف حاصل کرنا ہر شخص کا حق ہے اورانصاف کی فراہمی میں پولیس اسٹیشن کا کلیدی کردار ہے ۔
عوام سمجھتے ہیں کہ تھانہ اسٹاف کی اکثریت راشی بھی ہے اور بدتمیز بھی۔ تھانہ اسٹاف کا مظلوم اور بے سہارا افراد کے ساتھ رویّہ نامناسب اور غیرہمدردانہ ہوتا ہے۔اسی لیے اس ماحول میں مظلوم اپنے آپ کو uncomfortableمحسوس کرتا ہے۔ لہٰذاپولیس اہلکاروں کی سوچ اور تھانوں کے ماحول کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ پولیس اسٹیشن ایسے ہونے چاہئیںجو بے آسرا لوگوں کے لیے سائبان کی حیثیّت رکھتے ہوں''۔ وزیرِاعظم کے یہ خیالات سو فیصد درست ہیں، پنجاب اور سندھ میں تھانوں کا ماحول ایسا ہے کہ جہاں رشوت اور سفارش کے بغیر جائز کام بھی نہیں ہوتے اور انصاف کا حصول تقریباً ناممکن ہے۔ یہ صورتِ حال پولیس لیڈر شپ کی نیندیں حرام کرنے کے لیے کافی ہے، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر ضلعوں اور ڈویژنوں میں تھانوں کے ماحول کی تبدیلی، پولیس افسروں کی ترجیحات میں ہی شامل نہیں ۔ پولیسنگ کے عمل میں سیاسی یا حکومتی مداخلت (مداخلت تو صرف حکومت کرسکتی ہے ۔
سیاسی دور میں سیاستدان اور مارشل لاء میں جرنیل مداخلت کرتے ہیں) بلاشبہ ایک بڑا مسئلہ ہے اور سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ وہ پولیس میں سیاسی مداخلت ختم کرائیں۔ بیرونی مداخلت ختم ہونے سے بلاشبہ پولیس کو سازگار ماحول (enabling environment)میّسر آئیگا اور پولیس اہلکارآزادی سے اپنے فرائض ادا کرسکیں گے۔ خیبرپختونخواہ میں عمران خان صاحب نے حکومتی مداخلت کا دروازہ بند کرکے چیف سیکریٹری اور آئی جی کو مکمّل آزادی دی ہے۔ اس سے پہلے 1997-99 میں شہباز شریف صاحب نے پنجاب میں سیاسی مداخلت بند کرادی تھی، اور 2013-15 میں بلوچستان میں ڈاکٹر مالک صاحب کے دور میں سیاسی مداخلت ختم ہوگئی تھی۔ مگر پولیس کی ناقص کارکردگی اور عوام کے عدمِ اعتماد کی صرف یہی وجہ نہیں ہے اور پولیس میں بہتری لانے کے لیے سیاسی مداخلت کا خاتمہ واحد نسخہ نہیں ہے۔
لہٰذا ایسا سوچنا سادگی اور مسائل سے لاعلمی ہے کہ سیاسی مداخلت بند کردینے سے پولیس ایک دم ٹھیک ہوجائے گی اور تھانوں پر عوام کا اعتماد بحال ہوجائیگا ۔ پولیس اہلکاروں کی حرام خوری، کرپشن اور شہریوں سے بدتمیزی اور غیر اخلاقی روّیے کا سیاسی یا حکومتی مداخلت سے کوئی تعلّق نہیں۔کیا پولیس افسروں پر سیاستدان یا جرنیل دباؤ ڈالتے ہیں کہ آپ ضرور رشوت لیں اور عوام کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آئیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہے پولیس کی ہر برائی کو سیاسی مداخلت سے منسوب کرنا درست نہیں ہے اور یہ توقع بے جا ہے کہ سیاسی مداخلت دور ہوتے ہی پولیس اہلکار فرشتے بن جائیں گے۔
عوامی شکایات دور کرنے، پولیس سے کرپشن اور بدگفتاری کے خاتمے کے لیے پولیس قیادت کو سائینسی انداز میں کام کرنا ہوگا۔ وجوہات اور عوامل کی نشاندھی کرکے اس کے ازالے کے لیے جامع اور مربوط حکمتِ عملی ترتیب دینا ہوگی اور پھر پورے خلوص، تندہی اور مشنری جذبے کے ساتھ ہدف کی جانب بڑھنا ہوگا اس کے لیے بہت درد سہنا پڑیگا، خونِ جگر جلانا پڑیگا اور ایک طویل جدّو جہد کرنا ہوگی۔۔۔ پرائم منسٹر نے موٹروے پولیس کی مثال دیتے ہوئے صحیح کہا ہے کہ موٹروے پولیس نے اپنی ایمانداری،خوش اخلاقی اور مسافروں کی مددسے لوگوں کے دل جیتے ہیں۔
اسی لیے قوم کے ہرطبقہء فکر کا موٹروے پولیس پر اعتماد ہے اور ہر فورم پر انھیں سراہا جاتا ہے۔۔۔ وزیرِاعظم نے پولیس افسروں کو ہدایات دیتے ہوئے درست کہا ہے کہ جسطرح موٹروے پولیس نے اپنے اعلیٰ کردار اور اوصاف (جن میں ایمانداری اور خوش اخلاقی نمایاں ہیں) سے نیک نامی کمائی ہے اور عوام کا اعتماد حاصل کیا ہے اسی طرح باقی پولیس فورسز بھی اگر عوام کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی ہیں تو انھیں موٹروے پولیس کیطرح ایمان داری اور خوش اخلاقی کو اپنی بنیادی اقدار (core values)بنانا ہوگا۔
جہاں تک پنجاب پولیس کی یونیفارم تبدیل کرنے کا مسئلہ ہے تو میرے خیال میں یہ ایک غیر ضروری اور بے فائدہ اقدام ہے کیونکہ نہ یہ عوام کا مطالبہ ہے اور نہ پولیس فورس کی خواہش ۔ موجودہ یونیفارم ہی تمام صوبوں میں رائج ہے۔یہ پورے ملک کی پولیس فورسز کے لیے Esprit De-corps اور Commeraderyکی علامت ہے۔ اس کا ایک رعب اور دبدبہ ہے جو قانون نافذ کرنے والے ادارے کے لیے ضروری ہے۔ یہ پولیس افسروں پر (جسمانی طور پر بے ڈھنگے نہ ہوں تو) جچتی ہے اور ان کی شخصیّت کو متاثر کن بناتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام کو پولیس سے شکایات ہیں وہ تھانہ اسٹاف سے بہت نالاں ہیں مگرتین دہائیوں سے زیادہ سروس میں مَیں نے کبھی کسی شہری کو وردی سے ناراض یا شکوہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔
شہریوں کو شکایات ہیں۔مگر وردی سے نہیں، وردی میں چھپے ہوئے حرام خور اہلکاروںسے ،شہری ناراض ہیں۔ مگر وردی سے نہیں وردی پہنے ہوئے بدتمیز اور بداخلاق ملازموں سے، عوام کو نفرت کالی وردی سے نہیں ان کے کالے کرتوتوں سے ہے۔ عوام کو نفرت اُن بھیڑیوں سے ہے جو چند ٹکوں کے لیے محافظ کے بجائے لٹیرے اور ڈاکو کا روپ دھار لیتے ہیں ۔۔ قاتلوں کو چھوڑ دیتے اور بے گناہوں کو قتل کے مقدموں میں چالان کردیتے ہیں۔ عوام کا عدمِ اعتماد۔ وردی پر نہیں، وردی پہننے والے اُن افسروں پر ہے جو حکمرانوں کی خوشنودی کے لیے ان کے مخالفوں کا جینا دوبھر کردیتے ہیں۔ ان کے خلاف جھوٹے پرچے درج کرکے انھیں ذلیل و خوار کرتے ہیںاورجو قانون کی حکمرانی قائم کرنے کے بجائے حکمرانوں کی خواہشات کے غلام بن جاتے ہیں۔
لہٰذا یونیفارم نہیں۔ پولیس اہلکاروں کی سوچ ، رویّہ اور طرزِ عمل بدلنے کی ضرورت ہے ۔۔اُنکے وہ شیطانی کرتوت بدلنے کی ضرورت ہے جنکے باعث وہ شہداء کی قربانیوں کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ شہداء اپنے لہو سے پولیس کے دامن پر لگے داغ دھوکرصاف کرتے ہیں مگر کچھ وردی پوش مجرم (Devils in uniform) اپنے کرتوتوں سے پھر اس دامن کو داغدار کردیتے ہیں ایسے اہلکاروں کی شیطانی سوچ کھرچ کر نکال پھینکنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات رسوائی کی ہے مگر سچ ہے کہ آج بھی تفتیشی افسر مجرموں اور مظلوموں ۔ دونوں سے رشوت لے رہے ہیں۔ آج بھی سینئر افسر بدنام افسروں کو تعینات کروارہے ہیں، آج بھی بہت سے ڈی پی او اور سی پی او حکمرانوںکے قریبی وزراء کے ذاتی نوکر یا گن مین کا کردار ادا کررہے ہیں، اور انھی کی سفارش سے عوام پر کرپٹ ایس ایچ او مسلّط کررہے ہیں۔
ایسے گھٹیا طرزِ عمل کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔ وزیرِاعظم نے پولیس تفتیشوں کا معیار بہتر بنانے کے لیے ہر سطح پر ٹریننگ کرانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ کیا تفتیشی افسروں کے لیے اعلیٰ معیار کے تربیتی کورسز ہورہے ہیں؟Mob Control پولیس کا ایک اور کمزور پہلوہے، اس میں ہمیشہ پروفیشنلزم کی کمی نظر آتی ہے۔ کیا اس پہلو کی درستگی کے لیے اور crowd managementمیں مہارت حاصل کرنے کے لیے معیاری تربیّت کا اہتمام کیا جارہا ہے؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جس افسر سے بھی پوچھا ہے جواب ناں میں ہی ملا ہے ۔ کہیں میڈیا کو دکھانے کے لیے بورڈ تولگ گئے ہیں مگر معیاری تربیّت ندارد ہے۔ لہٰذا پولیس لیڈر شپ کو چاہیے کہ وردی بدلنے کی سعئی لا حاصل پر وقت اور پیسہ برباد کرنے کے بجائے پولیس کی سوچ اور ان کے روئیے کو تبدیل کرنے پر توّجہ دے، اور پولیس کی استعدادِ کار بڑہانے اور پولیس اسٹیشنوں کا ماحول اور کلچر تبدیل کرنے کو ترجیحِ اوّل بنائے۔
پنجاب میں تھانوں کے فرنٹ ڈیسک پر سولین اسٹاف تعینات کیاگیا ہے ۔کیا یہ پولیس کمانڈ کی طرف سے اس بات کا اعتراف ہے کہ باوردی پولیس افسروں کو عوام کا دوست اور ہمدرد بنایا ہی نہیں جاسکتا؟ یہ اعترافِ شکست افسوسناک بھی ہے اور غلط بھی!آج بھی اچھے پولیس افسروں نے جس ضلعے میں پڑھے لکھے نوجوان افسروں کو پبلک ڈیلنگ کی ذمے داری ہے انھوں نے عوام کا اعتماد حاصل کرکے دکھایا ہے اور اس میں ان کی وردی کبھی رکاوٹ نہیں بنی۔ لوگوں کو جہاں بھی رزقِ حلال کھانے والا ہمدرد اور بہادر پولیس افسر نظر آتا ہے ، وہ اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ انھیں اس کی کالی وردی پر کوئی اعتراض نہیںہے۔ وزیرِاعلی پنجاب کو اس بے فائدہ پراجیکٹ کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے، باقی چاروں صوبوں کی وردی ایک جیسی ہواور پنجاب کی الگ ہو۔ اس سے بہت غلط میسج جائیگا اور پھر اس میں ایسی ملوں اور ایسے صنعتکاروں کے نام آنا شروع ہوگئے ہیں کہ اس سے کئی سکینڈلز جنم لے سکتے ہیں۔