خواجہ سرا کیا خدا کی مخلوق نہیں
صحرائے عرب سے اٹھنے والے بگولے ہم تک پہنچتے ہیں اور آنکھوں میں ریت بھر جاتی ہے
صحرائے عرب سے اٹھنے والے بگولے ہم تک پہنچتے ہیں اور آنکھوں میں ریت بھر جاتی ہے۔ اب سے ہفتوں پہلے جب دو انسانوں کی موت کی خبر آئی تو اس کی جس طرح نقشہ کشی کی گئی تھی، اسے پڑھ کر دل بیٹھ گیا۔ وہ دو تھے، انھیں اس جرم میں گرفتار کیا گیا کہ وہ کسی محفل میں رقص کررہے تھے۔ انھیں گرفتار کیا گیا اور پھر ان پر تشدد کیا گیا اور جب اس تشدد سے کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا تو انھیں بوروں میں بند کرکے لاٹھیوں سے مارا گیا اور پتھروں سے انھیں کچلا گیا۔
ہلاکت کی اس تفصیل نے لوگوں کو دہلا دیا، پھر خبر کو تراشا خراشا گیا اور دو ہفتے بعد ہمیں بتایا گیا کہ یہ ملعون ان درجنوں مجرموں میں سے تھے جنہوں نے کسی تقریب میں حصہ لیا تھا۔ ان میں سے کچھ مرد تھے اور انھوں نے زنانہ لباس پہن کر رقص کیا جب کہ چند تیسری جنس سے تعلق رکھتے تھے، جو ناقابل معافی جرم تھا، اس لیے ان پر تشدد کیا گیا، جبڑے توڑے گئے، پھر مبینہ طور پر انھیں بوروں میں بھر کر جہنم واصل کردیا گیا۔
پاکستان تک یہ خبریں پہنچیں تو مقتولین کے ورثا نے واویلا کیا، وزارت خارجہ کے کچھ لوگوں کے دل پگھلے۔ وزارتی سطح پر رابطے کیے گئے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات، بری کوٹ سے تعلق رکھنے والے محمد امین عرف امینہ کا پارہ پارہ بدن لکڑی کے ایک تابوت میں سمیٹ کر ریاض سے بے نظیر ائیرپورٹ، اسلام آباد پہنچایا گیا۔ تابوت پر جو کاغذ چسپاں تھا اس کے مطابق امین کی موت حرکت قلب بند ہوجانے سے ہوئی۔ اسلام آباد ائیرپورٹ پر باپ کا تابوت وصول کرنے والے بیٹے شیر زمان کا کہنا تھا کہ میرے والد تیسری جنس سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
وہ زنانہ لباس پہن کر اور میک اپ کرکے رقص کرتے تھے۔ خاندان والوں کو ان کی یہ عادت ناپسند تھی، رشتے دار انھیں منع کرتے تھے لیکن انھوں نے اپنی روش نہ بدلی۔ امین پیشے کے اعتبار سے درزی تھا۔ 26 فروری کی رات اسے ایک سالگرہ کی دعوت میں بلایا گیا تھا جہاں 34 دوسرے ناچنے والے بھی موجود تھے، جن میں سے کچھ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے یعنی خواجہ سرا بھی تھے۔ شہری پولیس کو اس سالگرہ کی اطلاع ملی۔ اس نے چھاپہ مارا اور ناچنے والے افراد پکڑے گئے۔
ایک اور پاکستانی ناصر عرف مائی سیوگ اس وقت بھی عزیزیہ جیل میں ہے۔ اس کا تعلق ترناب، چارسدہ سے ہے۔ اس کے والدین صدمے سے نڈھال ہیں۔ وہ لوگ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے پریشان رہتے تھے اور اب وہ اس کی قید اور اسے دی جانے والی سزاؤں سے ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہیں۔ انھوں نے صدر مملکت، وزیراعظم اور ہر بااثر پاکستانی کو خط لکھے ہیں کہ کسی طرح ان کے بیٹے کو رہائی دلوائی جائے اور پاکستان واپس بھیجا جائے لیکن ابھی تک ان کی سنوائی نہیں ہوئی ہے۔
26 فروری کو گرفتار کیے جانے والے ان 34پاکستانیوں پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے، اس کی تفصیل سے ہم ناواقف ہیں لیکن ان کا حق ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے اور انھیں پاکستان واپس بھیجا جائے۔ خواتین کے کپڑوں یا میک اپ میں رقص کرنا معیوب ہوسکتا ہے لیکن ناقابل معافی جرم نہیں۔ جس روز پی ایس ایل کا لاہور میں فائنل ہورہا تھا، اس روز ہم سب نے بہت سے نوجوانوں کو رنگین اور گوٹہ لگے کپڑوں میں رقص کرتے دیکھا۔ ہمارے یہاں خوشی کے موقع پر خواجہ سراؤں کا رقص نہ ممنوع ہے اور نہ اسے کسی طور فحش سمجھا جاتا ہے۔ رہ گئے وہ لوگ جو زنانہ لباس پہن کر خوشی کی تقریبات میں رقص کرتے ہیں تو وہ بھی نچلے اور نچلے متوسط طبقے کی تقریبات ہوتی ہیں۔
اس وقت مجھے وہ بنگالی نوجوان یاد آرہا ہے جو گلشن اقبال کے ایک اسکول میں کینٹین چلاتا تھا اور شام کے بعد بنگالی پاڑے میں کسی شادی بیاہ یا سالگرہ کی تقریب میں ساڑی پہن کر اور میک اپ کرکے رقص کیا کرتا تھا۔ مجید کو میں ذاتی طور پر جانتی تھی۔ ایک مرتبہ میں نے اس سے پوچھا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو۔ تو اس کا جواب مجھے خاموش کر گیا تھا۔ اس نے کہا تھا باجی میرا گھر والا سب چاٹگام میں ہے۔ مجھے ان کو ٹکا بھیجنا ہوتا ہے۔ کینٹین سے اتنا نہیں ملتا۔ ڈانس کرکے مجھے بہت مل جاتا ہے۔
اس کی بات کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ دراصل ہم ایسے 'ناصح مشفق' ہیں جو نصیحتیں کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن لوگوں کے مسائل کو سمجھنے یا انھیں حل کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے۔ ان دنوں معروف وکیل بابر اعوان خواجہ سراؤں کے بارے میں ایک بل سینیٹ میں پیش کرنے والے ہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ بل اس مظلوم طبقے کی دست گیری کس حد تک کرسکے گا۔
تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہ طور سماج ہم نے پیچھے کی طرف سفر کیا ہے۔ اب سے پہلے خواجہ سرا مغل اور سلطنت عثمانیہ میں نہایت اہم عہدوں پر تعینات ہوتے تھے۔ بہ طور خاص محل سراؤں کی نگرانی ان کی سب سے اہم ذمے داری تھی۔ چند مہینوں پہلے ایک نجی ٹیلی وژن چینل پر ترکی میں بننے والا سیریل 'میرا سلطان' دکھایا جارہا تھا جس میں خواجہ سراؤں کو اہم منصب پر فائز دکھا یا گیا تھا اور یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ترک افواج سربیا، کروشیا اور دوسری مسیحی ریاستوں پر حملے کرکے وہاں سے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو پکڑ کر لاتی تھیں۔
خوبرو اور خوش اندام لڑکیاں بادشاہوں اور شہزادوں کا دل بہلانے کے کام آتی تھیں اور بہت سے نوجوان لڑکے آختہ کرکے خواجہ سرا بنادیے جاتے تھے۔ عثمانی اور مغل سلطنت میں یہ خواجہ سرا اہم ترین مناصب تک پہنچتے۔ محل کی خواتین کی نگہداری، امراء کی جاسوسی اور اہم سرکاری خط و کتابت ان کے سپرد ہوتی تھی۔ یہ 'خاندان' نہیں رکھتے تھے، اس لیے ان کی وفاداریاں اپنے بادشاہ، ملکہ یا امیر سے مسلم ہوتی تھیں۔یہ بدعنوان نہیں ہوتے تھے اور عمومی طور سے نہ ان پر دوسرے جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد ہوتا تھا۔
اس برادری کے زوال کا آغاز اس وقت ہوا جب برصغیر برطانوی راج کے زیرتسلط آیا۔ انگریزوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دربار میں اور امراء کے یہاں اس گروہ کی اتنی توقیر کیوں ہے۔ انھوں نے کریمنل ٹرائب ایکٹ 1871 کا اجرا کیا جس سے بعض دوسرے ہندوستانی قبائل کے ساتھ ہی خواجہ سرا بھی جرائم پیشہ گروہ کے کھاتے میں ڈال دیے گئے۔ اس کے بعد کون تھا جو ان کا پرسان حال ہوتا۔ خوش حال اور خداترس گھرانوں نے ان لوگوں کا بہت ساتھ دیا۔ یہ نجی تقریبات میں بلائے جاتے، ان کی آؤ بھگت ہوتی۔ ان میں سے کچھ بھانڈ اور نقال بنے۔ کچھ نے گلی گلی تالیاں بجا کر اور اپنا رقص دکھا کر عوام الناس سے چند سکے حاصل کیے اور اپنی روزی روٹی کا بندوبست کیا۔ بیسویں صدی میں خانساماں ہوئے۔
ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے جرائم کا راستہ اختیار کیا اور کچھ جسم فروشی کی تاریک راہوں میں نکل گئے۔ آج ہمارے یہاں کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح ان کا وقار بحال ہوسکے اور یہ سڑکوں پر تالیاں بجا کر بھیک مانگتے نہ دکھائی دیں لیکن یہ ایک مشکل کام ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر یہ کام 2009 سے شروع ہوا جب سپریم کورٹ نے انھیں پاکستانی آئین کی شق 25 کے تحت مساوی رتبے کا شہری تسلیم کیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ والدین کی جائیداد میں ان کے حق، ووٹ ڈالنے کے حق، تعلیم اور ملازمت کے حق کو یقینی بنائیں۔
ریگزار عرب میں ہمارے خواجہ سراؤں کے ساتھ جو ہوا، اس کی تحقیق اور اپنے شہریوں کو انصاف کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس وقت مجھے ایران کی مریم خاتون مُلک آرا یاد آتی ہے۔ وہ 1950میں پیدا ہوئی تو اس کا نام فریدوں ملک آرا رکھا گیا لیکن وہ جوں جوں بڑی ہوئی اس نے خود کو 'لڑکا' تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ ایک ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ آپریشن کے ذریعے وہ مکمل 'لڑکی' بن سکتی ہے لیکن اس کی ماں کو اس خیال سے ہی دورے پڑتے تھے۔
وہ اپنے مسئلے کے حل کے لیے آیت اللہ بہبھانی سے ملی جنہوں نے اسے آیت اللہ خمینی سے ملنے کا مشورہ دیا۔ مریم نے اپنے جنسی تشخص کی تلاش ترک نہیں کی اور انقلاب ایران کے برسوں بعد وہ 1987میں آیت اللہ خمینی تک جا پہنچی۔ لیکن ان تک باریابی سے پہلے مریم کو ان کے محافظین کے ہاتھوں شدید زدو کوب کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ جب آیت اللہ خمینی کے سامنے لہولہان پہنچی تو اس نے مطالبہ کیا کہ وہ اسے آپریشن کی اجازت دیں تاکہ وہ ایک مسلمان عورت کے طور پر اپنے مذہبی فرائض ادا کرسکے۔ اس کے سوال نے آیت اللہ خمینی سے ایک ایسا فیصلہ کروایا جس نے ایران میں تیسری جنس کے طور پر زندگی کرنے والی عورتوں اور مردوں پر آزادی کی راہ کھول دی۔ مریم ملک آرا نے مختصر زندگی پائی لیکن اس کی جدوجہد ہزارہا ایرانی عورتوں اور مردوں کو ان کا تشخص عطا کرگئی۔
ہمارے یہاں کوئی مریم ملک آرا موجود نہیں لیکن ہم اپنے ان لوگوں کی زندگی تو سہل بنا سکتے ہیں جن کی پیدائش میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں۔ ہم اپنے شہریوں پر ناقابل برداشت تشدد اور ان کی ہلاکت پر سوال تو اٹھا سکتے ہیں کہ یہ ان کو انصاف دلانے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔
ہلاکت کی اس تفصیل نے لوگوں کو دہلا دیا، پھر خبر کو تراشا خراشا گیا اور دو ہفتے بعد ہمیں بتایا گیا کہ یہ ملعون ان درجنوں مجرموں میں سے تھے جنہوں نے کسی تقریب میں حصہ لیا تھا۔ ان میں سے کچھ مرد تھے اور انھوں نے زنانہ لباس پہن کر رقص کیا جب کہ چند تیسری جنس سے تعلق رکھتے تھے، جو ناقابل معافی جرم تھا، اس لیے ان پر تشدد کیا گیا، جبڑے توڑے گئے، پھر مبینہ طور پر انھیں بوروں میں بھر کر جہنم واصل کردیا گیا۔
پاکستان تک یہ خبریں پہنچیں تو مقتولین کے ورثا نے واویلا کیا، وزارت خارجہ کے کچھ لوگوں کے دل پگھلے۔ وزارتی سطح پر رابطے کیے گئے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات، بری کوٹ سے تعلق رکھنے والے محمد امین عرف امینہ کا پارہ پارہ بدن لکڑی کے ایک تابوت میں سمیٹ کر ریاض سے بے نظیر ائیرپورٹ، اسلام آباد پہنچایا گیا۔ تابوت پر جو کاغذ چسپاں تھا اس کے مطابق امین کی موت حرکت قلب بند ہوجانے سے ہوئی۔ اسلام آباد ائیرپورٹ پر باپ کا تابوت وصول کرنے والے بیٹے شیر زمان کا کہنا تھا کہ میرے والد تیسری جنس سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔
وہ زنانہ لباس پہن کر اور میک اپ کرکے رقص کرتے تھے۔ خاندان والوں کو ان کی یہ عادت ناپسند تھی، رشتے دار انھیں منع کرتے تھے لیکن انھوں نے اپنی روش نہ بدلی۔ امین پیشے کے اعتبار سے درزی تھا۔ 26 فروری کی رات اسے ایک سالگرہ کی دعوت میں بلایا گیا تھا جہاں 34 دوسرے ناچنے والے بھی موجود تھے، جن میں سے کچھ تیسری جنس سے تعلق رکھنے والے یعنی خواجہ سرا بھی تھے۔ شہری پولیس کو اس سالگرہ کی اطلاع ملی۔ اس نے چھاپہ مارا اور ناچنے والے افراد پکڑے گئے۔
ایک اور پاکستانی ناصر عرف مائی سیوگ اس وقت بھی عزیزیہ جیل میں ہے۔ اس کا تعلق ترناب، چارسدہ سے ہے۔ اس کے والدین صدمے سے نڈھال ہیں۔ وہ لوگ اس کی ان حرکتوں کی وجہ سے پریشان رہتے تھے اور اب وہ اس کی قید اور اسے دی جانے والی سزاؤں سے ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہیں۔ انھوں نے صدر مملکت، وزیراعظم اور ہر بااثر پاکستانی کو خط لکھے ہیں کہ کسی طرح ان کے بیٹے کو رہائی دلوائی جائے اور پاکستان واپس بھیجا جائے لیکن ابھی تک ان کی سنوائی نہیں ہوئی ہے۔
26 فروری کو گرفتار کیے جانے والے ان 34پاکستانیوں پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے، اس کی تفصیل سے ہم ناواقف ہیں لیکن ان کا حق ہے کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے اور انھیں پاکستان واپس بھیجا جائے۔ خواتین کے کپڑوں یا میک اپ میں رقص کرنا معیوب ہوسکتا ہے لیکن ناقابل معافی جرم نہیں۔ جس روز پی ایس ایل کا لاہور میں فائنل ہورہا تھا، اس روز ہم سب نے بہت سے نوجوانوں کو رنگین اور گوٹہ لگے کپڑوں میں رقص کرتے دیکھا۔ ہمارے یہاں خوشی کے موقع پر خواجہ سراؤں کا رقص نہ ممنوع ہے اور نہ اسے کسی طور فحش سمجھا جاتا ہے۔ رہ گئے وہ لوگ جو زنانہ لباس پہن کر خوشی کی تقریبات میں رقص کرتے ہیں تو وہ بھی نچلے اور نچلے متوسط طبقے کی تقریبات ہوتی ہیں۔
اس وقت مجھے وہ بنگالی نوجوان یاد آرہا ہے جو گلشن اقبال کے ایک اسکول میں کینٹین چلاتا تھا اور شام کے بعد بنگالی پاڑے میں کسی شادی بیاہ یا سالگرہ کی تقریب میں ساڑی پہن کر اور میک اپ کرکے رقص کیا کرتا تھا۔ مجید کو میں ذاتی طور پر جانتی تھی۔ ایک مرتبہ میں نے اس سے پوچھا کہ تم یہ کیوں کرتے ہو۔ تو اس کا جواب مجھے خاموش کر گیا تھا۔ اس نے کہا تھا باجی میرا گھر والا سب چاٹگام میں ہے۔ مجھے ان کو ٹکا بھیجنا ہوتا ہے۔ کینٹین سے اتنا نہیں ملتا۔ ڈانس کرکے مجھے بہت مل جاتا ہے۔
اس کی بات کا میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ دراصل ہم ایسے 'ناصح مشفق' ہیں جو نصیحتیں کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں لیکن لوگوں کے مسائل کو سمجھنے یا انھیں حل کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے۔ ان دنوں معروف وکیل بابر اعوان خواجہ سراؤں کے بارے میں ایک بل سینیٹ میں پیش کرنے والے ہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ بل اس مظلوم طبقے کی دست گیری کس حد تک کرسکے گا۔
تاریخ میں جھانک کر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہ طور سماج ہم نے پیچھے کی طرف سفر کیا ہے۔ اب سے پہلے خواجہ سرا مغل اور سلطنت عثمانیہ میں نہایت اہم عہدوں پر تعینات ہوتے تھے۔ بہ طور خاص محل سراؤں کی نگرانی ان کی سب سے اہم ذمے داری تھی۔ چند مہینوں پہلے ایک نجی ٹیلی وژن چینل پر ترکی میں بننے والا سیریل 'میرا سلطان' دکھایا جارہا تھا جس میں خواجہ سراؤں کو اہم منصب پر فائز دکھا یا گیا تھا اور یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ ترک افواج سربیا، کروشیا اور دوسری مسیحی ریاستوں پر حملے کرکے وہاں سے نوجوان لڑکیوں اور لڑکوں کو پکڑ کر لاتی تھیں۔
خوبرو اور خوش اندام لڑکیاں بادشاہوں اور شہزادوں کا دل بہلانے کے کام آتی تھیں اور بہت سے نوجوان لڑکے آختہ کرکے خواجہ سرا بنادیے جاتے تھے۔ عثمانی اور مغل سلطنت میں یہ خواجہ سرا اہم ترین مناصب تک پہنچتے۔ محل کی خواتین کی نگہداری، امراء کی جاسوسی اور اہم سرکاری خط و کتابت ان کے سپرد ہوتی تھی۔ یہ 'خاندان' نہیں رکھتے تھے، اس لیے ان کی وفاداریاں اپنے بادشاہ، ملکہ یا امیر سے مسلم ہوتی تھیں۔یہ بدعنوان نہیں ہوتے تھے اور عمومی طور سے نہ ان پر دوسرے جرائم کے ارتکاب کا الزام عائد ہوتا تھا۔
اس برادری کے زوال کا آغاز اس وقت ہوا جب برصغیر برطانوی راج کے زیرتسلط آیا۔ انگریزوں کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ دربار میں اور امراء کے یہاں اس گروہ کی اتنی توقیر کیوں ہے۔ انھوں نے کریمنل ٹرائب ایکٹ 1871 کا اجرا کیا جس سے بعض دوسرے ہندوستانی قبائل کے ساتھ ہی خواجہ سرا بھی جرائم پیشہ گروہ کے کھاتے میں ڈال دیے گئے۔ اس کے بعد کون تھا جو ان کا پرسان حال ہوتا۔ خوش حال اور خداترس گھرانوں نے ان لوگوں کا بہت ساتھ دیا۔ یہ نجی تقریبات میں بلائے جاتے، ان کی آؤ بھگت ہوتی۔ ان میں سے کچھ بھانڈ اور نقال بنے۔ کچھ نے گلی گلی تالیاں بجا کر اور اپنا رقص دکھا کر عوام الناس سے چند سکے حاصل کیے اور اپنی روزی روٹی کا بندوبست کیا۔ بیسویں صدی میں خانساماں ہوئے۔
ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے جرائم کا راستہ اختیار کیا اور کچھ جسم فروشی کی تاریک راہوں میں نکل گئے۔ آج ہمارے یہاں کوشش کی جارہی ہے کہ کسی طرح ان کا وقار بحال ہوسکے اور یہ سڑکوں پر تالیاں بجا کر بھیک مانگتے نہ دکھائی دیں لیکن یہ ایک مشکل کام ہے۔ پاکستان میں سرکاری سطح پر یہ کام 2009 سے شروع ہوا جب سپریم کورٹ نے انھیں پاکستانی آئین کی شق 25 کے تحت مساوی رتبے کا شہری تسلیم کیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو حکم دیا کہ وہ والدین کی جائیداد میں ان کے حق، ووٹ ڈالنے کے حق، تعلیم اور ملازمت کے حق کو یقینی بنائیں۔
ریگزار عرب میں ہمارے خواجہ سراؤں کے ساتھ جو ہوا، اس کی تحقیق اور اپنے شہریوں کو انصاف کی فراہمی حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس وقت مجھے ایران کی مریم خاتون مُلک آرا یاد آتی ہے۔ وہ 1950میں پیدا ہوئی تو اس کا نام فریدوں ملک آرا رکھا گیا لیکن وہ جوں جوں بڑی ہوئی اس نے خود کو 'لڑکا' تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ ایک ڈاکٹر نے اسے بتایا کہ آپریشن کے ذریعے وہ مکمل 'لڑکی' بن سکتی ہے لیکن اس کی ماں کو اس خیال سے ہی دورے پڑتے تھے۔
وہ اپنے مسئلے کے حل کے لیے آیت اللہ بہبھانی سے ملی جنہوں نے اسے آیت اللہ خمینی سے ملنے کا مشورہ دیا۔ مریم نے اپنے جنسی تشخص کی تلاش ترک نہیں کی اور انقلاب ایران کے برسوں بعد وہ 1987میں آیت اللہ خمینی تک جا پہنچی۔ لیکن ان تک باریابی سے پہلے مریم کو ان کے محافظین کے ہاتھوں شدید زدو کوب کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ جب آیت اللہ خمینی کے سامنے لہولہان پہنچی تو اس نے مطالبہ کیا کہ وہ اسے آپریشن کی اجازت دیں تاکہ وہ ایک مسلمان عورت کے طور پر اپنے مذہبی فرائض ادا کرسکے۔ اس کے سوال نے آیت اللہ خمینی سے ایک ایسا فیصلہ کروایا جس نے ایران میں تیسری جنس کے طور پر زندگی کرنے والی عورتوں اور مردوں پر آزادی کی راہ کھول دی۔ مریم ملک آرا نے مختصر زندگی پائی لیکن اس کی جدوجہد ہزارہا ایرانی عورتوں اور مردوں کو ان کا تشخص عطا کرگئی۔
ہمارے یہاں کوئی مریم ملک آرا موجود نہیں لیکن ہم اپنے ان لوگوں کی زندگی تو سہل بنا سکتے ہیں جن کی پیدائش میں ان کا اپنا کوئی قصور نہیں۔ ہم اپنے شہریوں پر ناقابل برداشت تشدد اور ان کی ہلاکت پر سوال تو اٹھا سکتے ہیں کہ یہ ان کو انصاف دلانے کی طرف پہلا قدم ہوگا۔