ہم اور ہیں وہ اور ہیں
پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی لکیریں کوئی عام لکیریں نہیں بلکہ یہ لکیریں خون سے کھینچی گئی ہیں
پاکستان اور بھارت کے درمیان سرحدی لکیریں کوئی عام لکیریں نہیں ، یہ لکیریں خون سے کھینچی گئی ہیں ان لکیروں نے کئی ماؤں کی گودیں اجاڑیں اور کئی عزتیں اس پر قربان ہوئیں۔ خاندانوں کے خاندان بچھڑے اور کئی اس میں ایسے گم ہوئے کہ آج تک ہمارے بزرگ ان کی یاد میں صرف آہیں بھرتے ہیں۔ کون ہے جو یہ کہنے کی جرات کر تا ہے کہ یہ سرحدی لکیریں غیر فطری اور عام سی لکیریں ہیں ان کو مٹ جانا چاہیے کیونکہ ہم سب ایک ہیں، ہماری ثقافت ایک ہے اور ہم ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ سب باتیں ہمیں وقتاً فوقتاً وہ لوگ یاد کراتے رہتے ہیں جنہوں نے ستر سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس حقیقت کو قبول نہیں کیا کہ پاکستان ایک آزاد اور خودمختار اسلامی مملکت اور اس کا قیام ہی اسی اسلامی نظریہ کی بنیاد پر عمل میں آیا تھا۔
اس بار اس کا اظہار دبئی میں ہونے والے دونوں ملکوں کے حکام کے اجلاس میں اس بات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا کہ دونوں ملکوں کی سر حدوں پر ہر شام پرچم اتارنے کی منعقد ہونے والی تقریب بدصورت اور بیہودہ ہے۔ ہماری رکن سندھ اسمبلی مہتاب اکبر راشدی نے کہا کہ پچھلے مذاکرات میں اس کے خلاف قرارداد منظور ہوئی تھی ان مذاکرات میں سندھ اور پنجاب اسمبلیوں کے منتخب نمایندوں کے علاوہ بھارتی نمایندے اور میڈیا کے اراکین بھی موجود تھے۔ بھارتی نمایندوں نے بھی ا س پر ناگواری کا اظہار کیا سابق بھارتی وزیر مانی شنکر آئر کا کہنا تھا کہ یہ بدصورت تقریب فوری ختم ہونی چاہیے۔ بات تقریب کی نہیں بلکہ اُس ذہن کی ہے جو کہ دونوں ملکوں میں موجود ہے اور ہمارے روشن خیال پاکستانی دوستوں کواپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے مگر خود استعمال نہیں ہوتا. سرحدوں پر پرچم اتارنے کی تقریب 1959میں شروع ہوئی تھی دونوں ممالک کی جانب سے ہر روز اس تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اور سرحد کے دونوں جانب عوام اس کو دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
رینجرز کے کڑیل، سرو قد، مونچھوں کو تاؤ دیتے جوان جن میں میری اعوان برادری کے جوانوں کی اکثریت ہوتی ہے پُرجوش انداز میں پریڈ کرتے اور عوام کا لہو گرماتے ہیں۔ آپ یاد ہو گا کہ واہگہ بارڈر پر ہونے والے دھماکے کے بعد اس پریڈ کو ملتوی کیا گیا لیکن ہمارے بہادر عوام گزشتہ روز پہلے سے زیادہ تعداد میں بارڈر پر پہنچ گئے۔ جہاں پر جذبے اس طرح کے ہوں اور وہ بھی خاص طور پر بھارت کے معاملے میں وہاں کسی رعایت کی گنجائش نہیں۔
ہمارے روشن خیال اور بھارت نواز دوستوں کی جانب سے ان سرحدی لکیروں پر کئی بار حملہ کیا گیا کبھی دن میں سرحد پار سے آنے والے ان کے خصوصی مہمانوں کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے اور کبھی یوم آزادی کے موقع پر شمعیں جلائی گئیں تو کبھی بھارت یاترا کے لیے جاتے ہوئے ہاتھوں میں موم بتیاں روشن کر کے لے جائی گئیں۔ لیکن برُا ہو ہمارے عوام کا جو کہ کسی بھی قیمت پر اس دوستی پر تیار نہیں اور یہ روشن خیال اور بھارت نواز ہر بار اپنا سا منہ لے کر ہی رہ جاتے ہیں۔ ان کی جانب سے یلغار کا سلسلہ مسلسل جاری ہے لیکن ہم بھی اس کا مقابلے کرنے کے لیے ہر دم تیار۔
بھارت دوستی کے نام پر ووٹ لینے کا معاملہ ہو یا پسندیدہ ملک قرار دینا، پتہ نہیں اتنے بے چین و بے قرار کیوں ہیں اور ہم جو کہ اس خطے میں ایک منفرد جغرافیائی حیثیت کے حامل ہیں کیوں بھارت دوستی اور اس کا طفیلی بننے کے لیے مرے جا رہے ہیں۔ ہمارا منفرد جغرافیائی محل وقوع ہی ہماری سلامتی کی ضمانت ہے اس کے لیے ہمیں کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے شروع دن سے اپنے آپ کو ایک کمزور ملک کے طور پر پیش کیا اور کسی عالمی طاقت کے مرہون منت رہنے کو ترجیح دی۔
بھارت کے ساتھ تجارت کے راستے کھولنے میں بھی ہم نے ہمیشہ پہل کی اور اس کی مصنوعات کو راہداری فراہم کر کے افغانستان تک پہنچایا جہاں سے وہ اس وقت اپنی پاکستان مخالف سرگومیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی پنجاب سے آلو اور دوسری سبزیاں درآمد کر کے اپنے کاشتکاروں کو حوصلہ شکنی کی گئی کیونکہ بھارت میں کسانوں کو اجناس اگانے پر حکومت کی جانب سے بجلی، ڈیزل اور کھادوں پر بہت زیادہ رعایت فراہم کی جاتی ہے جب کہ ہمارے ہاں حکومت اپنے کاشتکاروں کو کوئی قابلِ ذکر امداد فراہم نہیں کر رہی۔
آخری مارشل لائی دور حکومت اور شدید خواہش ہے کہ آخری ہی ہو جس کے دوران ہم نے بھارت کو کچھ زیادہ ہی اہمیت دی جس کے تحت سیاسی، سماجی، معاشی اور صحافتی وفود کا تبادلہ مسلسل جاری رہا اور اس سے یہ کوشش کی گئی کہ ان سرحدی لکیروں کی اہمیت کو ختم کر دیا جائے اور شروع شروع میں ہی پنجاب پنجاب کھیلا جائے ۔ کوئی ان روشن خیال اور ترقی پسند نمایندوں کو سمجھائے کہ جس دھرتی کے لیے ماؤں نے بیٹوں کی قربانیاں دیں، سہاگ اجڑے، عزتیں لٹیں ان کا کفارہ کون دے گا کیا ان میں یہ ہمت ہے کہ بھارت جا کر پاکستان کی بات کر سکیں اپنے ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے بجائے اس کو مضبوط کریں کیونکہ ایک خود مختار ملک میں زندگی گزارنے کا مزہ ہی الگ ہے۔