امریکی دھمکیاں اور غیر سنجیدہ خارجہ پالیسیاں

شمالی کوریا نے 1919 میں جاپان سے اور پاکستان نے 1947 میں انگریزوں سے آزادی حاصل کی

ali.dhillon@ymail.com

شمالی کوریا نے 1919 میں جاپان سے اور پاکستان نے 1947 میں انگریزوں سے آزادی حاصل کی، دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں، دونوں کا ایٹمی طاقت ہونا دنیا کو ایک آنکھ نہیں بھاتا، شمالی کوریا، جنوبی کوریا کی وجہ سے اور پاکستان، بھارت و افغانستان کی وجہ سے ہمیشہ امریکا کے زیر عتاب رہتے ہیں، شمالی کوریا کے ہمسایہ ملک جنوبی کوریا میں امریکی اڈے موجود ہیں جب کہ یہی حال پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کا ہے۔ پاکستان اور شمالی کوریا دونوں چین کے ساتھ طویل سرحد رکھتے ہیں، اس لیے دنیا دونوں ممالک کو چین کا ''بغل بچہ'' بھی کہتی ہے۔

اس کے علاوہ ان دونوں ممالک کے درمیان اور بھی بہت سی مماثلتیں ہیں۔ لیکن ایک خاص بات یہ ہے کہ ان کا 'ذکر خیر' امریکا میں بہت ہوتا ہے۔ اس کی تازہ مثال امریکا میں موجود معروف قانون دان ٹیڈپو کی جانب سے ایوان نمایندگان میں ایک بل پیش کیا گیا ہے جس میں استدعا کی گئی ہے کہ ''پاکستان کو دہشت گردی کا کفیل ملک قرار دیا جائے'' اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ''پاکستان ایسا ملک ہے جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا، اس نے برسوں امریکا کے دشمنوں کا ساتھ دیا اور مدد کی'' اور امریکا پاکستان کو ''دوسرے شمالی'' کوریا میں بدل دے تا کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرے وغیرہ وغیرہ۔

میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ جو قوم وینا ملک اور اسد خٹک کی شادی کے بندھن کو ٹوٹنے جیسے نجی مسئلے کو قومی معاملہ قرار دے دے، اُس قوم اور اُس کے میڈیا کی سنجیدگی کا عالم کیا ہو گا؟ کیا کریں جب حکمران ہی غیر سنجیدہ ہوں گے تو قوم خود بخود ایسی ہو جائے گی۔ بقول شاعر:

تھا ارادہ تری فریاد کریں حاکم سے
وہ بھی کم بخت ترا چاہنے والا نکلا


لیکن پوری قوم میں سے چند سنجیدہ بھی ہوں گے جن کے نزدیک ہم نے 70 سال میں امریکا کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا کے کئی احسانات ہم پر بھی ہیں۔ لیکن میرے خیال میں 7 دہائیوں پر مشتمل پاک امریکا تعلقات ایک ایسی داستان ہیں جو اس سارے عرصے میں بے پناہ پرُپیچ راہوںسے گزری ہے۔ ایک ایسی ریلیشن شپ جس کے لیے ہم نے کوئی خاص منصوبہ بندی نہیں کی۔ امریکا کا ہمیشہ اپر ہینڈ رہا اور ہم اپنی ثانوی حیثیت پر قانع رہے۔ اس دوران بارگینگ کے مواقعے بھی آئے مگر ''اچھا دوست'' ہونے کے ناتے ہم نے سیرچشمی کا مظاہرہ کیا اور لگی بندھی ''تنخواہ'' پر گزارہ کرتے رہے۔ امریکی قانون سازپاکستان کے خلاف یہ فضا ایک ایسے وقت میں بنانے میں مصروف ہیں جب پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات میں شریف برادران اپنے مستقبل اور بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اب ہدف کیا ہے کیا نہیں؟ اس کا بخوبی علم ہمارے حکمرانوں کو ہونا چاہیے۔ہمارے وفاقی وزیرعبدالقادر بلوچ کا کہنا ہے کہ اس وقت ہمارا خارجہ آفس بہترین کام کر رہا ہے۔ ہمارے تین ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہیں مگر باقی دنیا کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔ موصوف کو شاید علم ہی نہیں کہ اگر آپ کے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہ ہوں تو آپ کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے۔

اور رہی بات امریکا کی تو امریکا جیسے ملک میں ہم نے پاکستان کی ''نمایندگی '' حسین حقانی جیسے افراد کو سونپ دی ہے جو امریکی انتظامیہ کو ہمیشہ پاکستان کے خلاف اکساتی رہتے ہیں۔ اور ابھی حال ہی میں ٹرمپ انتظامیہ نے سات مسلم ممالک کے لیے ویزہ کے ضوابط سخت کیے تو پاکستانیوں پر بھی لرزہ طاری ہو گیا کہ کہیں وہ بھی اس کی زد میں نہ آ جائیں... اندیشہ ہائے دور دراز آن گھیرتے ہیں کہ ہماری تو تین بلین ڈالر کی صرف ٹیکسٹائل امریکا جاتی ہے۔کچھ گڑبڑ ہوگئی تو کیا کریں گے؟ کبھی یہ فکر دامن گیر ہو جاتی ہے کہ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کا تو سارا بھرم ہی بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم پر ہے، پاکستانی امریکیوں کا جس میں بڑا ہاتھ ہے۔

ہماری اشرافیہ الگ سے پریشان ہے کیونکہ امریکا ان کا دوسرا گھر ٹھہرا۔ ویزا پالیسی سخت ہوگئی تو پاکستان میں تو ان کا دم ہی گھٹ جائے گا۔ یہ سب فکرمندیاں اپنی جگہ ہیں مگر کیا ہم اس سے بے خبر ہیں کہ امریکا، اسرائیل، بھارت اور افغانستان مل کر سی پیکCPEC کے خلاف محاذ کھڑا کرنے والے ہیں۔ میںنے شروع میں شمالی کوریا کی مثال اس لیے دی کہ وہ بطور قوم جو فیصلہ کر لیتے ہیں وہاں کا ہر باشندہ اُس فیصلے کی تائید کرتا ہے جب کہ یہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے اور ایک دوسرے کو غدار کہنے والے ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں موجود ہیں۔ جو دشمنوں کے ساتھ مل کر سی پیک جیسے منصوبے کو داغدار بنانے اور رکوانے کے لیے کوشاں ہیں۔

ہماری حکومت نہ جانے کیوں اس بات سے غافل ہے کہ ہم دنیا کی ساتویں مستند نیوکلیئر پاور ہیں۔ پھرہماری باصلاحیت فوج کا سکہ دنیا تسلیم کرتی ہے۔ اسی لیے دنیا میں اس حوالے سے بھی سازشیں کی جا رہی ہیں لیکن اس فوج نے دشمن کے عزائم کو ہمیشہ وقت سے پہلے جانچ لیا ہے اور ہر سطح پر کامیابی حاصل کی ہے۔

الغرض پاک امریکا تعلقات کو توانائی بخشنے والے عوامل کی کمی نہیں۔ شرط صرف یہ ہے کہ ہمارے حکمران ہمت پکڑیں اور روایتی خوئے غلامی سے نجات کا حوصلہ پیدا کریں۔ پاکستان کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی خودداری پر کبھی سمجھوتا نہ کرے ۔ امید ہے کہ امریکی ایوان نمایندگان حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اس بل کو مسترد کر دے گا۔ لیکن حکمرانوں کو امریکا میں بھارتی لابی، افغان لابی، اور بعض پاکستانی شخصیات کی لابی جو پاکستان مخالف ہے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے سفارتی محاذ پر زیادہ مستعدی کا ثبوت دیناچاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو عقل دے اور اس ملک پر رحم فرمائے(آمین)
Load Next Story