میرکیا سادہ ہیں
لوگ یونہی بیچارے پرویزمشرف کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جیسے ان سے پہلے سب فرشتے تھے اور بھول جاتے ہیں
لوگ یونہی بیچارے پرویزمشرف کے پیچھے پڑے رہتے ہیں جیسے ان سے پہلے سب فرشتے تھے اور بھول جاتے ہیں کہ کبھی ایک جنرل رانی بھی ہواکرتی تھی اور ہررانی کی طرح اس کا بھی ایک راجا تھا، رانی جنرل تھی تو راجا کم رینک کا کیسے ہوسکتا تھا، سو وہ نہ صرف جنرل بلکہ صدر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بھی تھا۔ بزرگ کہا کرتے تھے مرے ہوؤں کی مٹی خراب نہیں کرنی چاہیے، ہم نے کبھی کی بھی نہیںلیکن اگرکسی مرے ہوئے کا کوئی ہم عصر ایسا کر گزرے تو ہم کیا کرسکتے ہیں۔ مرے ہوئے تو ہیں جنرل یحییٰ خان اورانکی مٹی پلیدکرنے نکلے ہیں، سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر جنہوں نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ موصوف نے 1971ء میں بھارت کے حملے سے پہلے ہی امریکاکو بتادیا تھا کہ وہ مشرقی پاکستان کو آزادی دینے جا رہے ہیں۔
جی ہاں، یہ وہی ہنری کسنجر ہیں جنہوں نے بھٹوصاحب کو دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کیا تو انھیں نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ کسنجر نے اپنا کہا سچ بھی کردکھایا لیکن یہ مت بھولیے کہ اس میں آلہ کار ہماری تاریخ کا بدنام ترین جنرل ضیاء الحق بنا تھا۔ دی ایٹلانٹک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بوڑھے یہودی نے جس کا شماردنیاکے مشہورترین سفارتکاروں میں ہوتا ہے،کہا کہ پاکستان کے اس وقت کے صدر اورمسلح افواج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے نومبر 1971ء میں ہی امریکا کے صدر رچرڈنکسن کو بتا دیا تھا کہ مشرقی پاکستان کو آزادی دیدی جائے گی۔گویا مشرقی پاکستان کی علیحدگی جنرل یحیٰ خان کے پہلے سے تیار کردہ اور سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ تھی اور 3 دسمبر 1971ء کو بھارت کا حملہ محض ایک بہانہ تھا۔ بھارتی حملہ ہی نہیں، شیخ مجیب الرحمان کے 6 نکات اور ملک سے غداری، بھٹوکے کہے ہوئے جملے ''ادھر ہم ادھر تم'' کو لے کر ملک توڑنے میں ان کو ملوث کرنا، سب قصے کہانیاں تھیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔
اب سب کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ بھٹوملک کا صدر اورسویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہوتے ہوئے کیوں جنرل یحییٰ کا کچھ نہ بگاڑسکا، وہ تو اچھا ہوا نظربندی کے دوران ہی مرگیا ورنہ اس نے سب کے لیے مسئلہ ہی بنے رہنا تھا،اگر یہ سب کچھ جنرل یحییٰ ہی کا کیا دھرا نہ ہوتا تو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال کر دنیا بھر میں پاک فوج کی ذلت و رسوائی کا باعث بننے والا جنرل امیرعبداللہ خان نیازی ہرگز کورٹ مارشل اورسزا سے نہیں بچ سکتا تھالیکن اس کا بال بھی بیکا نہیں ہوا اورنہ جنگی قیدیوں کی رہائی کے نتیجے میں وطن واپسی کے بعد وہ جس ذھنی دباؤ کا شکار تھا، اس کا ہم نے خود بھی مشاہدہ کیا تھا۔سقوط ڈھاکہ کے کئی سال بعد جنرل ضیا کے فوجی راج میں جب صحافیوں نے اپنے پیشے کی آزادی کے لیے ملک گیر تحریک چلائی تو جیل یاترا کرنیوالوں میں ہم بھی شامل تھے۔
سینٹرل جیل سکھر میں دوران اسیری ہمیں پولیٹیکل وارڈ میں منتقل کرنے سے پہلے کچھ عرصہ اسپیشل وارڈ میں رکھا گیا تھا جس کی دیواریں کوئلے سے یوں کالی سیاہ کی ہوئی تھیں جیسے بچے پنسل یا بال پوائنٹ ہاتھ لگنے سے گھرکی دیواریں گندی کرتے ہیں۔ بعد میں جیل حکام سے پتہ چلا کہ جنرل نیازی کو حفاظتی نظر بندی کے نام پر اسی اسپیشل وارڈ میں رکھا گیا تھا جو پختہ اینٹوں سے بنے ہوئے،ایک بڑے ہال کی طرح تھا اورجس کے دونوں اطراف کشادہ دالان اور آگے صحن تھے، سردیوں کے دن رہے ہونگے اورہال کوگرم رکھنے کے لیے انگیٹھی وغیرہ جلائی جاتی ہوگی اس لیے جنرل کو کوئلے وافرتعداد میں دستیاب ہونگے لیکن وہ کس قدرشدید ذہنی دباؤ اورکرب کا شکار تھا، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ اس نے ہال کی چاروں دیواریں اپنے دستخطوں (اے اے کے نیازی) سے اتنی بلندی تک کالی کر رکھی تھیں جہاں تک اس جیسے لمبے تڑنگے آدمی کا ہاتھ جاسکتا تھا۔
تو ہم بات کر رہے تھے سابق امریکی وزیرخارجہ ہینری کسنجرکے انٹرویوکی، جس میں اس نے اور بھی بہت سے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں مثلاً امریکا نے ہمیں سقوط ڈھاکہ کا تحفہ چین، امریکا تعلقات استوارکرنے میں سہولت کارکا کردار ادا کرنے پربطورانعام دیا تھاکیونکہ اگر جنرل یحییٰ کے مشرقی پاکستان سے جان چھڑانے کے منصوبے کو امریکی حمایت اور منظوری حاصل نہ ہوتی تو وہ اسے ایسا کرنے سے باز بھی رکھ سکتا تھا کیونکہ یہ بہرحال ایک آزادوخودمختاردوست ملک کی سالمیت کا سوال تھالیکن اس نے ایسا کرنا ضروری نہ سمجھا اور ہروقت شراب کے نشے میں دھت رہنے والے جنرل کو من مانی کرنے دی۔ کسنجر نے خوداعتراف کیا ہے کہ جنرل یحییٰ نے امریکا کومشرقی پاکستان کو آزادی دینے کی یقین دہانی اس شدید دباؤ پرکرائی تھی جو وہ اس پر مشرقی پاکستان میں فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ڈال رہا تھا۔
کسنجر نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ امریکا مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کوخودمختاری دینے کے لیے پاکستان پرمسلسل دباؤ ڈالے ہوئے تھا۔ ہینری کسنجر امریکا کے 56 ویں وزیرخارجہ تھے، انھوں نے اس حیثیت سے 22 ستمبر 1973ء سے 20 جنوری 1977ء تک خدمات انجام دیں۔ وہ 20 جنوری 1969ء سے 3 نومبر 1975 تک امریکا کے مشیربرائے قومی سلامتی بھی رہے، یوں انھوں نے 1969ء سے 1977ء تک امریکی خارجہ پالیسی میں کلیدی کردارادا کیا تھا۔انھوں نے میگزین کے چیف ایڈیٹر،جیفری گولڈ برگ کوبتایا کہ جنرل یحییٰ خان نے نومبر 71ء میں صدر نکسن سے مارچ 72ء تک مشرقی پاکستان کو آزادی دینے پر اتفاق کیا تھا۔
اب یاد کیجیے جنرل رانی کے اس رنگیلے راجا کا قوم سے وہ خطاب جس میں اس نے مشرقی پاکستان پر 3 دسمبر 71ء کو بھارتی حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال میں پاکستان کی مدد کے لیے چھٹے امریکی بحری بیڑے کے پہنچنے کی نوید سنائی تھی اوراندازہ کیجیے کہ بڑی طاقتیں کس مکاری اورچالاکی سے چھوٹے ملکوں کی قسمت کے فیصلے کرتی اور پھر انھی کے حکمرانوں سے ان پرعملدرآمد کرواتی ہیں۔ بنگالیوں سے جان چھڑانے کے اس مذموم منصوبے میں فیلڈ مارشل ایوب خان بھی پوری طرح شریک تھے، تبھی انھوں نے 1962ء کے اپنے ہی دیے ہوئے آئین میں درج شدہ طریقہ کارکے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکرفضل القادر چوہدری کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے مسلح افواج کے اپنے ہی بنائے ہوئے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو مارشل لا لگا کر ملک کا نظم ونسق سنبھالنے کی دعوت دی تھی۔
اس کی گواہی مستقبل کا مورخ بھی دیگا۔ کسنجر کے انٹرویوکی طرف آگے بڑھتے ہیں جہاں ایک جگہ وہ اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کی تردید کرتے بھی نظر آتے ہیں۔گولڈ برگ کے اس سوال پر کہ کیا چین سے تعلقات کا آغاز واقعی اتنا اہم تھا کہ اس کے لیے بنگلہ دیش بحران کے نام پر پاکستان اوربھارت میں جنگ کروا کر لاکھوں انسانوں کو مروا دینا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، کسنجر نے کہا کہ انسانی حقوق امریکی پالیسی کا لازمہ ہیں اور اتنی ہی اہم قومی سلامتی بھی ہے۔بعض اوقات ہمیں ایسی صورتحال درپیش ہوتی ہے جس میں ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرنا پڑتا لیکن کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ تصادم سے بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ان کے بقول بنگلہ دیش کے بحران اور چین کے ساتھ تعلقات میں انتخاب کا مسئلہ درپیش نہیں تھا انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ امریکا درپردہ بنگلہ دیش کے قیام میں شریک تھا لیکن یہ کہنے کے لیے ڈاکٹرکسنجر نے جو الفاظ چنے وہ یہ تھے کہ ہم اپنی پالیسی کے ہاتھوں بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے پر مجبور تھے اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی خاطر پاکستان پر کھل کرتنقید بھی نہیں کرسکتے تھے اس کمبخت بوڑھے یہودی نے تو سقوط ڈھاکہ کی یاد دلاکر ہمارے زخم پھر سے ہرے کر دیے مگر ہمارا بھی جواب نہیں جو چاپلوسی اورخوشامد کرنیوالی اپنی خو بدلنے کوکسی قیمت پرتیار نہیں اورآدھا ملک چھن جانے کے باوجود ابھی تک امریکاکے دم چھلے بنے ہوئے ہیں۔
میرکیا سادہ ہیں بیمارہوئے جس کے سبب
اسی عطارکے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
جی ہاں، یہ وہی ہنری کسنجر ہیں جنہوں نے بھٹوصاحب کو دھمکی دی تھی کہ اگر انھوں نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کیا تو انھیں نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ کسنجر نے اپنا کہا سچ بھی کردکھایا لیکن یہ مت بھولیے کہ اس میں آلہ کار ہماری تاریخ کا بدنام ترین جنرل ضیاء الحق بنا تھا۔ دی ایٹلانٹک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے اس بوڑھے یہودی نے جس کا شماردنیاکے مشہورترین سفارتکاروں میں ہوتا ہے،کہا کہ پاکستان کے اس وقت کے صدر اورمسلح افواج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان نے نومبر 1971ء میں ہی امریکا کے صدر رچرڈنکسن کو بتا دیا تھا کہ مشرقی پاکستان کو آزادی دیدی جائے گی۔گویا مشرقی پاکستان کی علیحدگی جنرل یحیٰ خان کے پہلے سے تیار کردہ اور سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ تھی اور 3 دسمبر 1971ء کو بھارت کا حملہ محض ایک بہانہ تھا۔ بھارتی حملہ ہی نہیں، شیخ مجیب الرحمان کے 6 نکات اور ملک سے غداری، بھٹوکے کہے ہوئے جملے ''ادھر ہم ادھر تم'' کو لے کر ملک توڑنے میں ان کو ملوث کرنا، سب قصے کہانیاں تھیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔
اب سب کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ بھٹوملک کا صدر اورسویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ہوتے ہوئے کیوں جنرل یحییٰ کا کچھ نہ بگاڑسکا، وہ تو اچھا ہوا نظربندی کے دوران ہی مرگیا ورنہ اس نے سب کے لیے مسئلہ ہی بنے رہنا تھا،اگر یہ سب کچھ جنرل یحییٰ ہی کا کیا دھرا نہ ہوتا تو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈال کر دنیا بھر میں پاک فوج کی ذلت و رسوائی کا باعث بننے والا جنرل امیرعبداللہ خان نیازی ہرگز کورٹ مارشل اورسزا سے نہیں بچ سکتا تھالیکن اس کا بال بھی بیکا نہیں ہوا اورنہ جنگی قیدیوں کی رہائی کے نتیجے میں وطن واپسی کے بعد وہ جس ذھنی دباؤ کا شکار تھا، اس کا ہم نے خود بھی مشاہدہ کیا تھا۔سقوط ڈھاکہ کے کئی سال بعد جنرل ضیا کے فوجی راج میں جب صحافیوں نے اپنے پیشے کی آزادی کے لیے ملک گیر تحریک چلائی تو جیل یاترا کرنیوالوں میں ہم بھی شامل تھے۔
سینٹرل جیل سکھر میں دوران اسیری ہمیں پولیٹیکل وارڈ میں منتقل کرنے سے پہلے کچھ عرصہ اسپیشل وارڈ میں رکھا گیا تھا جس کی دیواریں کوئلے سے یوں کالی سیاہ کی ہوئی تھیں جیسے بچے پنسل یا بال پوائنٹ ہاتھ لگنے سے گھرکی دیواریں گندی کرتے ہیں۔ بعد میں جیل حکام سے پتہ چلا کہ جنرل نیازی کو حفاظتی نظر بندی کے نام پر اسی اسپیشل وارڈ میں رکھا گیا تھا جو پختہ اینٹوں سے بنے ہوئے،ایک بڑے ہال کی طرح تھا اورجس کے دونوں اطراف کشادہ دالان اور آگے صحن تھے، سردیوں کے دن رہے ہونگے اورہال کوگرم رکھنے کے لیے انگیٹھی وغیرہ جلائی جاتی ہوگی اس لیے جنرل کو کوئلے وافرتعداد میں دستیاب ہونگے لیکن وہ کس قدرشدید ذہنی دباؤ اورکرب کا شکار تھا، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ اس نے ہال کی چاروں دیواریں اپنے دستخطوں (اے اے کے نیازی) سے اتنی بلندی تک کالی کر رکھی تھیں جہاں تک اس جیسے لمبے تڑنگے آدمی کا ہاتھ جاسکتا تھا۔
تو ہم بات کر رہے تھے سابق امریکی وزیرخارجہ ہینری کسنجرکے انٹرویوکی، جس میں اس نے اور بھی بہت سے چونکا دینے والے انکشافات کیے ہیں مثلاً امریکا نے ہمیں سقوط ڈھاکہ کا تحفہ چین، امریکا تعلقات استوارکرنے میں سہولت کارکا کردار ادا کرنے پربطورانعام دیا تھاکیونکہ اگر جنرل یحییٰ کے مشرقی پاکستان سے جان چھڑانے کے منصوبے کو امریکی حمایت اور منظوری حاصل نہ ہوتی تو وہ اسے ایسا کرنے سے باز بھی رکھ سکتا تھا کیونکہ یہ بہرحال ایک آزادوخودمختاردوست ملک کی سالمیت کا سوال تھالیکن اس نے ایسا کرنا ضروری نہ سمجھا اور ہروقت شراب کے نشے میں دھت رہنے والے جنرل کو من مانی کرنے دی۔ کسنجر نے خوداعتراف کیا ہے کہ جنرل یحییٰ نے امریکا کومشرقی پاکستان کو آزادی دینے کی یقین دہانی اس شدید دباؤ پرکرائی تھی جو وہ اس پر مشرقی پاکستان میں فوج کے ہاتھوں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے ڈال رہا تھا۔
کسنجر نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ امریکا مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کوخودمختاری دینے کے لیے پاکستان پرمسلسل دباؤ ڈالے ہوئے تھا۔ ہینری کسنجر امریکا کے 56 ویں وزیرخارجہ تھے، انھوں نے اس حیثیت سے 22 ستمبر 1973ء سے 20 جنوری 1977ء تک خدمات انجام دیں۔ وہ 20 جنوری 1969ء سے 3 نومبر 1975 تک امریکا کے مشیربرائے قومی سلامتی بھی رہے، یوں انھوں نے 1969ء سے 1977ء تک امریکی خارجہ پالیسی میں کلیدی کردارادا کیا تھا۔انھوں نے میگزین کے چیف ایڈیٹر،جیفری گولڈ برگ کوبتایا کہ جنرل یحییٰ خان نے نومبر 71ء میں صدر نکسن سے مارچ 72ء تک مشرقی پاکستان کو آزادی دینے پر اتفاق کیا تھا۔
اب یاد کیجیے جنرل رانی کے اس رنگیلے راجا کا قوم سے وہ خطاب جس میں اس نے مشرقی پاکستان پر 3 دسمبر 71ء کو بھارتی حملے سے پیدا ہونے والی صورتحال میں پاکستان کی مدد کے لیے چھٹے امریکی بحری بیڑے کے پہنچنے کی نوید سنائی تھی اوراندازہ کیجیے کہ بڑی طاقتیں کس مکاری اورچالاکی سے چھوٹے ملکوں کی قسمت کے فیصلے کرتی اور پھر انھی کے حکمرانوں سے ان پرعملدرآمد کرواتی ہیں۔ بنگالیوں سے جان چھڑانے کے اس مذموم منصوبے میں فیلڈ مارشل ایوب خان بھی پوری طرح شریک تھے، تبھی انھوں نے 1962ء کے اپنے ہی دیے ہوئے آئین میں درج شدہ طریقہ کارکے مطابق قومی اسمبلی کے اسپیکرفضل القادر چوہدری کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے مسلح افواج کے اپنے ہی بنائے ہوئے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو مارشل لا لگا کر ملک کا نظم ونسق سنبھالنے کی دعوت دی تھی۔
اس کی گواہی مستقبل کا مورخ بھی دیگا۔ کسنجر کے انٹرویوکی طرف آگے بڑھتے ہیں جہاں ایک جگہ وہ اپنی ہی کہی ہوئی باتوں کی تردید کرتے بھی نظر آتے ہیں۔گولڈ برگ کے اس سوال پر کہ کیا چین سے تعلقات کا آغاز واقعی اتنا اہم تھا کہ اس کے لیے بنگلہ دیش بحران کے نام پر پاکستان اوربھارت میں جنگ کروا کر لاکھوں انسانوں کو مروا دینا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا، کسنجر نے کہا کہ انسانی حقوق امریکی پالیسی کا لازمہ ہیں اور اتنی ہی اہم قومی سلامتی بھی ہے۔بعض اوقات ہمیں ایسی صورتحال درپیش ہوتی ہے جس میں ان دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب نہیں کرنا پڑتا لیکن کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ تصادم سے بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔
ان کے بقول بنگلہ دیش کے بحران اور چین کے ساتھ تعلقات میں انتخاب کا مسئلہ درپیش نہیں تھا انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ امریکا درپردہ بنگلہ دیش کے قیام میں شریک تھا لیکن یہ کہنے کے لیے ڈاکٹرکسنجر نے جو الفاظ چنے وہ یہ تھے کہ ہم اپنی پالیسی کے ہاتھوں بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے پر مجبور تھے اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی خاطر پاکستان پر کھل کرتنقید بھی نہیں کرسکتے تھے اس کمبخت بوڑھے یہودی نے تو سقوط ڈھاکہ کی یاد دلاکر ہمارے زخم پھر سے ہرے کر دیے مگر ہمارا بھی جواب نہیں جو چاپلوسی اورخوشامد کرنیوالی اپنی خو بدلنے کوکسی قیمت پرتیار نہیں اورآدھا ملک چھن جانے کے باوجود ابھی تک امریکاکے دم چھلے بنے ہوئے ہیں۔
میرکیا سادہ ہیں بیمارہوئے جس کے سبب
اسی عطارکے لونڈے سے دوا لیتے ہیں