ایکو ممالک کو درپیش ماحولیاتی چیلنج

بائیس سال بعد اقتصادی تعاون کی تنظیم کا 13 واں سربراہی اجلاس پاکستان میں منعقد ہوا



22 سال بعد اقتصادی تعاون کی تنظیم کا 13 واں سربراہی اجلاس پاکستان میں منعقد ہوا جس میں ترکی، ترکمانستان، تاجکستان، آذر بائجان،ایران کے صدور پاکستان اور قازقستان کے وزیراعظم، ازبکستان کے نائب وزیر اعظم اورافغانستان کے صدرکی نمایندگی پاکستان میں موجود سفیرنے کی، چین نے مبصرکے طورپر شرکت کی۔ اقتصادی تعاون تنظیم کی داغ بیل 1985ء میں پاکستان اورترکی نے ڈالی۔ 1992ء میں اس فورم کو وسعت دیتے ہوئے دیگر ملکوں کو اس میں شامل کیا گیا۔اجلاس کا موضوع ''علاقائی ترقی کا حصول رابطے کے ذریعے'' تھا۔

ترکی کے صدر طیب اردوان نے خطاب میں زراعت، سیاحت اور ماحولیات کے شعبوں میں بہترتعاون کی ضرورت پر زور دیا، تاجک صدرامام علی رحمانوف کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تنظیم کے رکن ملکوں کو مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ انھوں نے مستقبل کی ضروریات کے لیے پانی کے وسائل کو محفوظ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ تنظیم کے چیئرمین پاکستان کے وزیراعظم محمد نواز شریف نے سیکریٹری جنرل ترکی حلیل ابراہیم کے ہمراہ کانفرنس کا اعلامیہ پڑھااور ویژن 2025ء کو بڑی کامیابی سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ قابل عمل اورواضح اہداف کا تعین کرلیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ رکن ممالک فوڈ سیکیورٹی اورموسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے تعاون کے لیے تیار ہیں واضح رہے کہ ایکو تنظیم کے تحت مختلف ادارے کام کررہے ہیں جن میں دیگرکے علاوہ انسٹیٹیوٹ آف انوائرمینٹل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ایران ریجنل کوآرڈینیشن سینٹرفارفوڈ سکیورٹی ترکی بھی شامل ہیں۔

وزارت خاجہ کی جانب سے جاری کیے جانے والے مشترکہ اعلامیے میں ایکو ویژن 2025ء کے تین بنیادی اصولوں پر زوردیا گیا ہے جن میں پائیداری، استحکام اورسازگارماحول شامل ہیں جب کہ تجارت، ٹرانسپورٹ، رابطوں، توانائی، سیاحت، اقتصادی ترقی، سماجی بہبود اورماحول کے شعبوں میں تعاون بڑھانے کی ضرورت پر زوردیا گیا ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظورکی جانیوالی قرار داد ''پائیدار ترقی کے لیے پانی'' کی دہائی 2018-2028ء کا خیر مقدم کیا گیا قرارداد کے نفاذکے لیے 21 دسمبر 2016ء کو متعلقہ حکام کے ساتھ تنظیم کے سیکریٹریٹ کو ہدایت کی گئی کہ سرگرمیوں اورمنصوبوں میں غورکریں۔ پائیدارترقی کے ساتھ ماحول دوست، قابل تجدید توانائی، صاف توانائی، پانی اورتوانائی کے تحفظ اوروسائل کے موثر استعمال کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کی حمایت کریں۔

اقوام متحدہ سمیت عالمی حکومتیں اب اس بات کو تسلیم کرنے لگی ہیں کہ پائیدارترقی کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ ماحولیاتی وموسمیاتی مسائل ہیں یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر پائیدارترقی کے حوالے سے ہونے والی کانفرنسیں ہوں یا علاقائی سطح کی کانفرنسیں، ماحولیاتی و موسمیاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے مشترکہ کوششوں اورکاوشوں کی ضرورت پر بھی زوردیا جاتا ہے۔ ایکو تنظیم میں شامل تمام ملکوں بشمول پاکستان ماحولیاتی وموسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہیں جس کا تجزیہ ضروری ہے۔ ترکی میں درجہ حرارت میں اضافے کی ابتدا 1990ء سے ہوئی جس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ 2007-8ء میں ترکی کا دارالحکومت استنبول بھی خشک سالی کے سنگین نتائج دیکھ چکا ہے ترکی کے پہاڑی گلیشیر 10 میٹرسالانہ کی رفتار سے پگھل رہے ہیں۔ ترکی بحیرہ روم کے مقام پرساحلی کٹاؤ، سیلاب اورخشک سالی کا شکار ہو رہا ہے۔

ترکی میں ماحولیاتی وموسمیاتی تبدیلی کا خطرہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ تاجکستان وسطیٰ ایشیا کا اہم برفانی مرکزسمجھا جاتا ہے ۔ یہ ملک وسطیٰ ایشیا میں موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک سمجھا جاتا ہے۔ عالمی بینک کی 2011ء میں جاری کی جانیوالی رپورٹ میں بتایا گیاکہ ملک کی دیہی آبادی جنگلات کی لکڑی گھروں کوگرم رکھنے اورکھانا پکانے کے لیے استعمال کررہی ہے جس کے نتیجے میں بائیوڈائیورسٹی پر شدید منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جب کہ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ترکمانستان کا 80 فیصد علاقہ صحرا پر مشتمل ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ ترکمانستان آنے والے عشروں میں زیادہ گرم اورخشک علاقہ تصورکیا جائے گا۔

مغربی ترکمانستان میں بنجر پن کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے۔ متواترآنیوالی خشک سالی کاٹن، خوردنی اناج کوشدید متاثر کررہی ہے جب کہ کم آبی وسائل کی وجہ سے پانی کی عدم دستیابی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ آذربائجان میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، امریکی میٹرولوجیکل سوسائٹی کے بلیٹن میں شایع ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ موسم گرما اورسرما کے مہینوں میں جو غیر معمولی درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا ہے وہ 2025ء تک ایک عام بات ہوگی۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں جنگلات میں لگنے والی آگ، خشک سالی، سنگین بیماریوں کی شدت میں اضافہ ہوگا۔آذربائجان کی 825 کلومیٹر ساحلی پٹی جہاں ملک کی 40 فیصد آبادی رہائش پذیر ہے اور ملک کا سب سے بڑا صنعتی علاقہ رکھتی ہے تیزی سے آلودگی کا شکار ہوتی جارہی ہے۔

قازقستان کا شمارگندم پیدا کرنیوالے دنیا کے بڑے ملکوں میں کیا جاتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں خشک سالی اورجنگلات میں لگنے والی آگ فصلوں کی پیداوار پر شدید اثرات مرتب کررہی ہے اور زرعی پیداوار میں کمی ہوتی جا رہی ہے جب کہ درجہ حرارت میں اضافہ اورخشک سالی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے زراعت اور پانی کے انتظام کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں جب کہ صحرا زدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ملک کا 2 تہائی حصہ صحرا زدگی کی لپیٹ میں آچکا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ (2013-17) کے مطابق کرغزستان میں درجہ حرارت میں اضافہ اور برفباری میں کمی واقع ہورہی ہے اورخشک سالی اور سیلاب کے خطرات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کرغزستان میں پچھلے چند برسوں سے فضائی آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، پانی کی آلودگی ایک بڑا مسئلہ ہے جب کہ کان کنی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کی وجہ سے پہاڑوں کے ماحولیاتی نظام کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ ازبکستان جو آمو دریا اورسر دریا کے درمیان واقع ہے۔

یہاں آب و ہوا میں بتدریج تبدیلیاں آرہی ہیں جو آنیوالے برسوں میں انتہائی منفی اثرات پیدا کریں گی جس کے نتیجے میں گلیشیرز میں کمی، پانی کی قلت، مڈسلائیڈنگ،گرد آلود ہواؤں کے جھکڑ اور آلودہ پانی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی شدت میں اضافہ ہو گا۔ انسانی سرگرمیوں کے نتیجے میں 40 فیصد زیر زمین پانی کے ذخائر ناقابل استعمال ہوچکے ہیں۔ ایران کی اعلیٰ حکومتی عہدیدار اسی کلا نتاری کے مطابق ہم کو اسرائیل،امریکا اور سیاسی لڑائی سے زیادہ خطرناک مسئلہ یہ درپیش ہے کہ ایرانی سطح مرتفع رہائش کے لیے ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے۔ ایران کے شہری علاقوں سے نکلنے والے صنعتی فضلے کی وجہ سے جھیلیں اورپا نی کے دیگرذرایع تیزی سے آلودہ ہوتے جا رہے ہیں۔

فضائی آلودگی سے ایرانی معیشت کو 640 ملین ڈالرکا انقصان ہوا ہے جب کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے اثرات سے ہونیوالے نقصانات 260 ملین ڈالر سالانہ ہیں۔ افغانستان کی ماحولیاتی ایجنسی کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل غلام محمد ملک یارکے مطابق صحرا زدگی اورڈی فورسٹیشن ملک کے دو بڑے ماحولیاتی مسائل ہیں جب کہ بے موسم کی شدید بارشوں کے نتیجے میں آنیوالے سیلاب، بڑھتا ہوا درجہ حرارت، خشک سالی، کے سبب صحرا زدگی، زراعت کا متاثر ہونا افغانستان کے مسائل ہیں۔ پاکستان کا شماردنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں ۔ امیدکی جانی چاہیے کہ اقتصادی تعاون کی تنظیم کے رکن ممالک جہاں دیگر شعبوں میں ترقی کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرینگے وہی وہ موسمیاتی تبدیلی کے بھیانک خطرے جس سے تنظیم کے رکن ممالک مشترکہ طور پر دو چارہیں نپٹنے کے لیے بھی مشترکہ اور مربوط حکمت عملی اپنائینگے کیونکہ پائیدار ترقی کی راہ میں خطرہ موسمیاتی تبدیلی سے ہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں